معاہدۂ تاشقند، کیا کوئی خفیہ شقیں بھی تھیں؟

ذوالفقار علی بھٹو نے معاہدۂ تاشقند کے بعد دعویٰ کیا کہ اس میں ایوب خان نے کوئی خفیہ معاہدہ بھی کیا جس کا وقت آنے پر انکشاف کیا جائے گا۔

معاہدۂ تاشقند ذوالفقار علی بھٹو کی سیاست کا اہم موڑ ہے جہاں سے انہوں نے الگ اڑان بھرنے کی سوچ لی (پبلک ڈومین)

11 جنوری 1966 کو جب پاکستانی وفد کے ارکان سات دن کے طویل مذاکرات کے نتیجے میں معاہدۂ تاشقند پردستخط ہونے کے بعد اپنے اپنے کمروں میں سو رہے تھے تو اچانک انہیں نیند سے بیدار کر کے اطلاع دی گئی کہ بھارت کے وزیراعظم لال بہادر شاستری دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے ہیں۔

1965 کی پاک بھارت جنگ کے بعد تین جنوری 1966 کو صدر پاکستان فیلڈر مارشل ایوب خان اپنے 16 رکنی وفد کے ہمراہ روس کی جمہوریہ ازبکستان کے دارالحکومت تاشقند پہنچے تھے ۔ان کے وفد میں وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو، وزیر اطلاعات و نشریات خواجہ شہاب الدین اور وزیر تجارت غلام فاروق کے علاوہ اعلیٰ سول اور فوجی حکام شامل تھے۔

اسی روز بھارت کے وزیراعظم لال بہادر شاستری بھی اپنے وفد کے ساتھ تاشقند پہنچ گئے۔ ان دونوں سربراہان مملکت کی تاشقند آمد کا مقصد یہ تھا کہ ستمبر 1965 کی جنگ کے بعددونوں ممالک میں جو خلیج حائل ہوگئی ہے اسے ختم کیا جائے۔ سوویت یونین اس مذاکرات میں ثالث کا فریضہ انجام دے رہا تھا۔

پاکستان اور بھارت کے یہ تاریخی مذاکرات سات دن تک جاری رہے۔ اس دوران کئی مرتبہ مذاکرات تعطل کا شکار ہوئے کیونکہ بھارت کے وزیر اعظم شاستری نے ان مذاکرات میں کشمیر کا ذکر شامل کرنے سے صاف انکار کر دیا تھا۔ ان کے نزدیک یہ مسئلہ طے شدہ تھا اور یہ مذاکرات صرف ان مسائل کو حل کرنے کے لیے ہو رہے تھے جو حالیہ جنگ سے پیدا ہوئے تھے۔

دوسری طرف پاکستانی وفد کا خیال تھا کہ ایسے حالات میں یہ مذاکرات بے مقصد ہوں گے اور پاکستانی وفد کو کوئی معاہدہ کیے بغیر واپس لوٹ جانا چاہیے۔

قدرت اللہ شہاب نے اپنی کتاب ’شہاب نامہ‘ میں لکھا ہے کہ ’غالباً روسیوں کی مداخلت سے شاستری جی کسی قدر پسیجے اور پاکستانی وفد کو ان مذاکرات کے دوران کشمیر کا نام لینے کی اجازت مل گئی، البتہ بھارتی وزیراعظم کا رویہ بدستور سخت اور بے لوچ رہا۔ ان کے نزدیک یہ مسئلہ طے ہو چکا تھا اور اب اسے ازسرنو چھیڑنے کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ پاکستان کے وزیر خارجہ مسٹر بھٹو کا خیال تھا کہ ایسے حالات میں یہ مذاکرات بے مقصد ہوں گے اور پاکستانی وفد کو بغیر کوئی معاہدہ کیے واپس لوٹ جانا چاہئے۔ شروع میں صدر ایوب بھی غالباً اس خیال سے متفق تھے لیکن روسی وزیراعظم مسٹرکوسیگن نے صدر ایوب خان سے پے درپے چند ملاقاتیں کرکے ان پر کچھ ایسا جادو کیا کہ ان کا رویہ ڈرامائی طور پر بدل گیا اور وہ دفتاً اس بات کے حامی ہو گئے کہ کسی معاہدے پر دستخط کیے بغیر ہمیں تاشقند سے واپس جانا زیب نہیں دیتا۔‘

’روسی وفد میں کوئی اردو جاننے والا بھی ہو گا‘

قدرت اللہ شہاب مزید لکھتے ہیں کہ ’مذاکرات کے دوران کسی نکتے پر مسٹر بھٹو نے صدر ایوب کو کچھ مشورہ دینے کی کوشش کی تو صدر کا ناریل اچانک چٹخ گیا۔ انہوں نے غصے میں مسٹر بھٹو کو اردو میں ڈانٹ کر کہا ’’الو کے پٹھے بکواس بند کرو۔‘ مسٹر بھٹو نے دبے لفظوں میں احتجاج کیا، ’سر آپ یہ ہرگز فراموش نہ کریں کہ روسی وفد میں کوئی نہ کوئی اردو زبان جاننے والا بھی ضرور موجود ہو گا۔‘

شہاب صاحب لکھتے ہیں کہ ’غالباً یہی وہی نکتہ آغاز ہے جہاں سے صدر ایوب اور ذوالفقار علی بھٹو کے راستے عملی طور پر الگ الگ ہو گئے۔‘

شہاب صاحب کے بقول ’وزیراعظم کوسیگن نے صدر ایوب پر کیا جادوچلایا یا کیا دباؤ ڈالا، اس کا اب تک سراغ نہیں ملا۔ غالباً اس کی وجہ یہ تھی کہ ان دونوں رہنماؤں کی ایک یا دو ملاقاتیں ایسی تھیں جن میں پاکستانی وفد کا کوئی اور رکن موجود نہ تھا۔ اسی بات کی آڑ لے کر مسٹر بھٹو نے صدر ایوب کے خلاف یہ شوشہ چھوڑا کہ معاہدۂ تاشقند میں کچھ ایسے امور بھی پوشیدہ ہیں جو ابھی تک صیغہ راز میں ہیں اور وہ بہت جلد ان کا بھانڈا پھوڑنے والے ہیں۔‘ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

قدرت اللہ شہاب مزید لکھتے ہیں کہ ’میرے خیال میں یہ محض ایک سیاسی شعبدہ بازی تھی جس کا مقصد صدر ایوب پر ایک عامیانہ الزام تراشی کے سوا اور کچھ نہ تھا۔ یوں بھی صدر ایوب کی معزولی کے بعد مسٹر بھٹو نے اس تہمت کی طرف اشارہ کرنا چھوڑ دیا تھا کیوں کہ انہیں بخوبی علم تھا کہ یہ الزام شروع ہی سے بے بنیاد تھا۔‘

دس جنوری 1966 کو صدر ایوب خان اور وزیر اعظم شاستری نے معاہدہ تاشقند پر دستخط کر دیے اور مسٹر کوسیگن نے اس پر اپنی گواہی ثبت کر دی۔ اس معاہدے کے تحت طے پایا کہ دونوں ممالک کی مسلح افواج اگلے ڈیڑھ ماہ میں پانچ اگست 1965 سے پہلے والی پوزیشن پر واپس چلی جائیں گی اور دونوں ممالک مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کے منشور پر پابند رہتے ہوئے باہمی مذاکرات کی بنیاد پر حل کریں گے۔

شادیِ مرگ

اس کے بعد خوشی منانے کی غرض سے دو تقریبات منعقد ہوئیں ایک توبین الاقوامی صحافیوں کی پریس کانفرنس کا استقبالیہ دوسرا مسٹر کوسیگن کا دونوں وفود کے لیے ایک شاندار ڈنر۔ ان دونوں تقریبات میں پاکستانی وفد کے ارکان کسی قدر بجھے بجھے اور افسردہ دل تھے لیکن بھارتی ارکان خوشی سے پھولے نہ سماتے تھے اور چہک چہک کر اپنی شادمانی اور مسرت کا برملا اظہار کرتے تھے۔

لال بہادر شاستری بھی خوشی سے سرشار تھے۔ کہا جاتا ہے کہ ڈنر کے بعد جب وہ اپنے ولا میں واپس گئے تو کچھ دیر ٹیلی فون پر دہلی سے باتیں کرتے رہے۔ غالباً اپنی کامیابی اور فتح یابی کی خبر دے رہے ہوں گے۔ اس کے بعد شادی مرگ نے انہیں آدبوچا اور دو تین گھنٹوں کے اندر دل کی حرکت بند ہوجانے سے ان کا انتقال ہو گیا۔

غریب گھرانے کا بچہ

لال بہادر شاستری دو اکتوبر 1904 کو اترپردیش کے شہر مغل سرائے کے ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آزادی کے بعد انہیں اترپردیش کا پارلیمانی سیکریٹری منتخب کیا گیا۔ بعدازاں وہ اترپردیش کے وزیراعلیٰ گووند بلبھ پت کے دور میں ان کے مشیر اور صوبائی وزیرمقرر ہوئے۔انہوں نے 1952، 1957 اور 1962 کے عام انتخابات میں کانگریس کی کامیابی کے لیے بہت محنت کی جس کے اعتراف میں جواہر لال نہرو نے انھیں اپنی کابینہ میں پہلے وزیرداخلہ اور پھر وزیر خارجہ کے منصب پر فائز کیا۔

جواہر لال نہرو کی وفات کے بعد نو نومبر 1964 کو انھوں نے بھارت کے وزیراعظم کے عہدے کا منصب سنبھالا۔ ان کے دور حکومت کا سب سے اہم واقعہ پاک بھارت جنگ تھا۔ اس جنگ کے بعد عالمی طاقتوں کے دباؤ پر 10 جنوری 1966 کو تاشقند کے مقام پر ایک معاہدے پر دستخط ہوئے اور اسی رات 11 جنوری 1966 کو دل کا دورہ پڑنے کے باعث لال بہادر شاستری وفات پا گئے۔

معاہدہ تاشقند کے بعد بھٹو اور ایوب خان کے اختلافات کھل کر سامنے آ گئے۔ بھٹو کا خیال تھا کہ مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل کے بغیر پاکستان نے معاہدہ تاشقند پر دستخط کر کے کشمیر کو ہمیشہ کے لیے بھارت کی جھولی میں ڈال دیا ہے۔ ادھر پاکستانی عوام اور حزب مخالف کے سیاست دانوں کا بھی یہی خیال تھا اور معاہدہ تاشقند کے فقط تین دن بعد 13 جنوری 1966 سے مغربی پاکستان میں معاہدہ تاشقند کے خلاف احتجاجی مظاہروں کا آغاز ہو گیا۔

یہ تحریک جلد ہی مختلف کالجوں اور یونیورسٹیوں تک پہنچ گئی۔ لاہور میں پولیس نے مظاہرین کے ایک بڑے ہجوم پر گولی چلا دی جس کے نتیجے میں دو طالب علم ہلاک ہو گئے۔ 14 جنوری کو تمام تعلیمی ادارے بند کر دیے گئے۔

بھٹو اس مرحلے پر ایوب خان سے بگاڑے بغیر اعلان تاشقند کے خلاف تحریک کی محتاط طریقے پر حمایت کرنا چاہتے تھے، ان کا کھیل واضح تھا، اگر انتظامیہ تحریک پر قابو پانے میں ناکام ہو گئی تو وہ حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے مظاہرین کے ساتھ مل جائیں گے اور اگر تحریک کو دبا دیا گیا تو جب تک ممکن ہوا وہ وزارت کی کرسی سے چمٹے رہیں گے۔

فضول باتوں سے باز رہیں

معاہدہ تاشقند پر بھٹو اور ایوب خان کے اختلافات جلد ہی منظر عام پر آنے لگے۔ الطاف گوہرنے اپنی کتاب ’ایوب خان فوجی راج کے پہلے دس سال‘ میں لکھا ہے کہ ’بھٹو نے ایوب خان کو یہ تعجب انگیز مشورہ دیا کہ وہ معاہدۂ تاشقند سے لاتعلقی کا اعلان کر دیں۔ ایوب خان نے اس تجویز پر بھٹو کو سخت الفاظ میں ڈانٹ پلائی اور کہا کہ وہ اس طرح کی فضول باتوں سے باز رہیں۔‘ 

لطاف گوہر لکھتے ہیں کہ ’بھٹو کچھ دنوں کے لیے لاڑکانہ چلے گئے جہاں وہ معاہدۂ تاشقند کے بارے میں طرح طرح کی داستان طرازیاں کرنے لگے۔ انہوں نے بعض غیر ملکی صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ ایوب خان نے تاشقند میں صرف ایک ہی معاہدے پر دستخط نہیں کیے بلکہ وہاں اعلان تاشقند کے علاوہ ایک اور معاہدہ بھی ہوا تھا جسے خفیہ رکھا گیا تھا۔‘

الطاف گوہر کے بقول ’کیوں کہ یہ انکشاف خود وزیر خارجہ کررہے تھے لہٰذا صحافیوں کی اکثریت نے اسے درست تسلیم کر لیا۔ بھٹو جانتے تھے کہ ایوب حکومت میں ان کے دن گنے جا چکے ہیں، چنانچہ وہ اپنے آپ کو اعلان تاشقند سے بری الذمہ ثابت کرنے کی کوششوں میں مصروف تھے۔ حقیقت یہ تھی کہ بھٹو تاشقند میں ہونے والے مذاکرات میں پوری طرح شریک رہے تھے، ان کا یہ کہنا کہ ایوب خان نے اعلان تاشقند کے علاوہ کسی خفیہ معاہدے پر بھی دستخط کیے تھے، قطعی طور پر جھوٹ تھا مگر بھٹو نے اس جھوٹ سے خوب فائدہ اٹھایا۔‘

سچی افواہیں

ملک بھر میں افواہوں کا بازار گرم ہو گیا کہ بھٹو کو ایوب خان کی کابینہ سے نکالا جارہا ہے۔ یہ افواہیں اتنی جڑ پکڑ گئیں کہ 29 جنوری 1966 کو ایوب خان نے ان کی تردید کرتے ہوئے ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا تھا کہ ان کے اور بھٹو کے مابین کوئی اختلاف نہیں ہے اور کابینہ میں ردو بدل کی افواہ غلط ہے۔

مگر یہ افواہیں غلط نہیں تھیں۔ ایک جانب بھٹو خود کو ایوب خان کی کابینہ سے علیحدہ کرنے کا فیصلہ کر چکے تھے اور دوسری جانب ایوب خان بھی انہیں فارغ کرنے پر آمادہ ہو گئے تھے۔ معاہدہ تاشقند کے بعد بھٹو چند ماہ کابینہ میں شامل رہے لیکن 17 جون 1966 کو حکومت نے یہ اعلان کر ہی دیا کہ صدر پاکستان نے ذوالفقار علی بھٹو کو خرابی صحت کی بنا پر لمبی رخصت پر جانے کی اجازت دے دی ہے۔

اس خبر سے پاکستان کی سیاسی فضا میں ہلچل مچ گئی۔ بھٹو نے بھی اس موقعے سے بھرپور فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا اور راولپنڈی سے بذریعہ ریل گاڑی کراچی کے لیے روانہ ہوئے۔ 22 جون 1966 کو وہ پہلے مرحلے میں لاہور پہنچے جہاں عوام نے ان کا پرجوش استقبال کیا۔ 23 جون کو وہ لاڑکانہ اور 24 جون کو کراچی پہنچے۔

ہر جگہ اور ہر مقام پر بھٹو کا والہانہ استقبال ہوا۔ اس پرجوش استقبال سے متاثر ہوکر ہی بھٹو نے سیاست کے میدان میں قدم رکھنے کا فیصلہ کیا اور پھر پاکستان کی سیاست اور بھٹو، لازم و ملزوم بن گئے۔ آج تک پاکستان کی سیاست بھٹو ہی کے گرد گھوم رہی ہے۔

معاہدہ تاشقند پر دستخط صدر ایوب خان کی سیاسی زندگی کا سب سے غلط فیصلہ ثابت ہوئے۔ یہی وہ معاہدہ تھا جس کی بنا پر پاکستانی عوام میں ان کے خلاف غم و غصہ کی لہر پیدا ہوئی اور بالآخر ایوب خان کو اپنا عہدہ چھوڑنا پڑا۔

پاکستانی عوام کا آج تک یہی خیال ہے کہ پاکستان نے مسئلہ کشمیر کو تاشقند کی سرزمین پر ہمیشہ کے لیے دفن کر دیا اور وہ جنگ، جو خود حکومتی دعووں کے مطابق میدان میں جیتی جا چکی تھی، معاہدے کی میز پر ہار دی گئی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ