بیگم رعنا، جن کی ٹکٹ فروخت کرنے کی ادا لیاقت علی خاں کو بھا گئی

حکومت پاکستان نے لیاقت علی خان کے قتل پر حکومتی رپورٹس مسترد کرنے پر انہیں بیرون ملک سفیر مقرر کر دیا تھا۔

بیگم رعنا لیاقت کا تعلق مسیحی مذہب سے تھا، انہوں نے لیاقت علی خان سے شادی کے لیےاسلام قبول کیا تھا (پبلک ڈومین)

14 ستمبر 1954 کوپاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کی اہلیہ بیگم رعنا لیاقت علی خان نے ہالینڈ میں پاکستان کی سفیر کا عہدہ سنبھالا۔ ان کی اس تقرری کا اعلان 10 جون 1954 کو کیا گیا تھا۔ بیگم رعنا لیاقت علی خان پاکستان کی پہلی خاتون تھیں جنہیں سفیر کے عہدے پر فائز کیا گیا تھا۔

یہاں اس بات کا ذکر بے محل نہ ہو گا کہ چونکہ اس وقت تک پاکستان کو جمہوری حیثیت حاصل نہیں ہوئی تھی اس لیے ہالینڈ میں بیگم رعنا لیاقت علی کی تقرری ملکہ الزبتھ دوم کے دستخطوں سے عمل میں آئی تھی۔ یوں ایک خاتون (ملکہ الزبتھ دوم) نے دوسری خاتون (بیگم رعنا لیاقت علی خان) کو تیسری خاتون (ملکہ جولیانہ آف ہالینڈ) کے ملک میں سفیر مقرر کیا تھا۔

بیگم رعنا لیا قت علی خان ایک طویل عرصے تک ہالینڈ میں پاکستان کی سفیر رہیں۔ اپنی اس سفارت کے دوران انہیں ڈین آف ڈپلومیٹک کور کا اعزاز بھی عطا ہوا۔

بیگم رعنا لیاقت علی خان 13 فروری 1905 کو الموڑہ میں پیدا ہوئی تھیں۔ ان کا اصل نام آئرین روتھ مارگریٹ پنت تھا۔ انہوں نے لکھنؤ یونیورسٹی سے معاشیات اور عمرانیات میں ایم اے کے امتحانات پاس کیے اور 1933 میں نوابزادہ لیاقت علی خان سے شادی کے لیے اسلام قبول کیا۔ ان کا اسلامی نام گل رعنا رکھا گیا۔ گل رعنا نے عیسائیت ترک کر کے اسلام قبول کیا جبکہ ان کے برہمن دادا تارا دت پنت نے ہندومت ترک کرکے عیسائی مذہب قبول کیا تھا۔

تارا دت پنت کے اس فیصلے پربہت سے لوگ حیران ہوئے تھے کیوں کہ نچلی ذات کے ہندوؤں کا ترک مذہب تو ایک عام سی روش تھی مگر ایک اعلیٰ ذات برہمن شخص کا ہندو مت ترک کرنا ایک انہونی بات تھی۔

رعنا لیاقت علی پر لکھی گئی کتاب ’دی بیگم‘ کی شریک مصنفہ دیپا اگروال نے لکھا ہے کہ ’آئرین سے لیاقت علی خان کی پہلی ملاقات اس وقت ہوئی تھی جب وہ اور ان کے احباب بہار میں آنے والے ایک سیلاب کے لیے ایک پروگرام منعقد کر رہے تھے، وہ اس پروگرام کے ایک شو کا ٹکٹ فروخت کرنے کے لیے اسمبلی پہنچیں جہاں ان کی پہلی ملاقات لیاقت علی خان سے ہوئی۔ آئرین نے ان سے شو کے دو ٹکٹ خریدنے کے لیے درخواست کی۔‘

’لیاقت علی خان نے کہا کہ ایک ٹکٹ تو سمجھ میں آتا ہے دوسرا ٹکٹ میں کس کے لیے خریدوں، میں تو یہاں کسی کو نہیں جانتا جسے اپنے ساتھ لا سکوں؟

’آئرین نے کہا کہ میں آپ کے لیے ساتھی کا انتظام کرتی ہوں اور اگر کوئی نہیں ملا تو میں خود آپ کے ساتھ بیٹھ کر شو دیکھ لوں گی۔‘

لیاقت علی خان کو یہ بے تکلفانہ تجویز اچھی لگی تاہم وہ اپنے ساتھ اپنے دوست مصطفیٰ رضا کو لے کر آئے اور انہوں نے وہ شو دیکھا۔ ان ہی دنوں جب لیاقت علی خان قانون ساز اسمبلی کے سربراہ منتخب ہوئے تو آئرین نے انہیں مبارک باد کا خط تحریر کیا۔ لیاقت علی خان نے جواب میں انہیں اپنے ساتھ چائے پینے کی دعوت دی۔ آئرین نے یہ دعوت قبول کی اور یوں ان کی ملاقاتوں کو سلسلہ شروع ہو گیا۔ لیاقت علی خان نے آئرین کو شادی کی پیشکش کی۔ یوں 16 اپریل 1933 کو جامع مسجد دہلی کے امام کے ہاتھ پر اسلام قبول کرکے آئرین گل رعنا بن گئیں اور اسی دن دونوں رشتہ ازدواج میں منسلک ہو گئے۔

لیاقت علی خان پہلے سے شادی شدہ تھے اور ان کا ایک بیٹا ولایت علی خان بھی پیدا ہو چکا تھا۔ لیاقت علی خان کی شادی میں ان کے بڑے بھائی نواب سجاد علی خان نے خاندان کی نمائندگی کی اور انہوں نے اس موقعے پر ایک مختصر سے استقبالیے کا اہتمام بھی کیا جس میں شہر کے عمائدین نے شرکت کی۔

ہیکٹر بولیتھو نے اپنی کتاب ’جناح، دی کری ایٹر آف پاکستان‘ میں لکھا ہے کہ ’جولائی 1933 میں لیاقت علی خان اور گل رعنا ہنی مون منانے لندن پہنچے جہاں ان کی ملاقات محمد علی جناح سے ہوئی۔ محمد علی جناح ان دنوں لندن میں وکالت کر رہے تھے اور ایک بہت اچھی زندگی گزار رہے تھے۔ لیاقت علی خان اور گل رعنا نے ان سے اصرار کیا کہ وہ وطن واپس آئیں اور مسلمانوں کی رہنمائی کریں، لوگوں کو آپ کی ضرورت ہے، آپ ہی مسلم لیگ کو نئی زندگی عطا کر سکتے ہیں اور اس مرنے سے بچا سکتے ہیں۔

ایک دن برج کی ایک بازی کے بعد لیاقت علی خان نے ہمت کر کے جناح سے ان کی تنہائی کا ذکر چھیڑ دیا، جناح نے رعنا کی طرف دیکھا اور مسکرا کر بولے: ’اگر مجھے کوئی اور رعنا مل گئی ہوتی تو شاید میں بھی شادی کر لیتا۔‘

’جناح نے اس وقت تو کوئی جواب نہیں دیا، مگر چند دن بعد انہیں کھانے پر مدعو کیا۔ اس ملاقات میں بھی لیاقت علی خان اور گل رعنا کا اصرار جاری رہا۔ جناح تھوڑے سے پسیجے اور انہوں نے کہاکہ اچھا، تم واپس جاکر سیاسی صورت حال کا جائزہ لو۔ مجھے تمہاری سوجھ بوجھ پر بھروسہ ہے، اگر تم پھر بھی اسی نتیجے پر پہنچے کہ مجھے واپس جانا چاہیے تو مجھے لکھ بھیجیں، میں یہاں کی سکونت ترک کرکے وطن لوٹ آؤں گا۔‘

قصہ مختصر جناح ہندوستان واپس لوٹ آئے، جہاں انہوں نے ایک مرتبہ پھر مسلم لیگ کی قیادت سنبھال لی۔ ہیکٹر بولیتھو لکھتے ہیں، ’وطن واپسی کے بعد جناح کی دوستی لیاقت علی خان اور گل رعنا سے بہت بڑھ گئی تھی اور جناح ان مراسم سے بہت خوش معلوم ہوتے تھے۔ کبھی کبھی وہ اور ان کی ہمشیرہ فاطمہ جناح، لیاقت اور رعنا کے ساتھ سینما دیکھتے یا گھر بیٹھ کر تاش کھیلتے، ایک دن برج کی ایک بازی کے بعد لیاقت علی خان نے ہمت کر کے جناح سے ان کی تنہائی کا ذکر چھیڑ دیا، جناح نے رعنا کی طرف دیکھا اور مسکرا کر بولے: ’اگر مجھے کوئی اور رعنا مل گئی ہوتی تو شاید میں بھی شادی کر لیتا۔‘

جناح جب لیاقت یا ان کی بیگم کو خط لکھتے تو عموماً یوں ختم کرتے: ’میرا دل تم دونوں کے ساتھ ہے۔‘

1947 میں پاکستان کا قیام عمل میں آ گیا۔ محمد علی جناح پاکستان کے پہلے گورنر جنرل اورنوابزادہ لیاقت علی خان پاکستان کے پہلے وزیراعظم کے منصب پر فائز ہوئے۔ زاہد چوہدری نے اپنی کتاب ’جناح، لیاقت تضاد اور پنجابی مہاجر تضاد‘ میں شریف الدین پیرزادہ اور فاطمہ جناح کے حوالے سے لکھا ہے کہ ’دسمبر 1947 میں ایک عشائیے میں رعنا لیاقت علی خان، قائداعظم کے ساتھ والی نشست پر بیٹھی تھیں۔ قائداعظم نے صاف گوئی سے کام لیتے ہوئے ان سے کچھ کھری کھری باتیں کہہ ڈالیں۔

اس واقعے کے بعد لیاقت علی خان نے قائداعظم کو ایک خط لکھا جس میں انہوں نے اس گفتگو کا حوالہ دیتے ہوئے احتجاج کیا اور وزارت عظمیٰ کے عہدے سے استعفیٰ دینے کی پیش کش کی۔ لیاقت علی خان کا یہ استعفیٰ دیپا اگروال اور تہمینہ عزیز ایوب کی کتاب ’دی بیگم‘ میں شامل ہے۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ قائداعظم نے لیاقت علی خان کا یہ استعفیٰ منظور نہیں کیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

11 ستمبر 1947 کو قائداعظم دنیا سے رخصت ہو گئے۔ اب محترمہ رعنا لیاقت علی خان نے جو ملک کی خاتون اول تھیں، پاکستانی خواتین کی خدمت کا بیڑا اٹھایا۔ پاکستان ویمن والنٹیر سروس کا سلسلہ تو وہ پہلے ہی شروع کرچکی تھیں، 22 فروری 1949 کو انہوں نے آل پاکستان ویمن ایسوسی ایشن (اپوا) کی بنیاد رکھی جس نے ہر شعبہ زندگی کی خواتین کو ایک پلیٹ فارم پر یکجا کیا۔ اس تنظیم کی سرپرست اعلیٰ بیگم خواجہ ناظم الدین اور محترمہ فاطمہ جناح قرار پائیں جبکہ بیگم رعنا لیاقت علی کو اس تنظیم کا پہلا صدر منتخب کیا گیا۔ بیگم صاحبہ اس انجمن کی تاحیات صدر رہیں۔

16 اکتوبر 1951 کو نوابزادہ لیاقت علی خان کے قتل کے بعد رعنا لیاقت علی خان نے ان کے قتل کی مرتب کردہ رپورٹوں پر کبھی اطمینان کا اظہار نہیں کیا۔ قتل کی تفتیش پر مامور انسپکٹر جنرل پولیس صاحبزادہ اعتزاز الدین کی پراسرار ہلاکت نے بھی ان کے شک و شبہات میں اضافہ کیا۔ محترمہ رعنا لیاقت علی خان اخباری بیانات میں حکومت پر تنقید کرتی رہیں۔ حکومت نے انہیں خاموش رکھنے کے لیے پہلے انہیں اقوام متحدہ میں پاکستان کی نمائندگی کے لیے نامزد کیا، پھر 1953 میں ملکہ الزبتھ کے جشن تاج پوشی میں شاہی مہمان کی حیثیت سے روانہ کیا۔

پھر فیصلہ کیا گیا کہ انہیں کسی یورپی ملک میں پاکستان کا سفیر مقرر کر دیا جائے، یوں 14 ستمبر 1954 کو انہیں نیدرلینڈز میں پاکستان کا سفیر مقرر کیا گیا بعد ازاں 1960 کی دہائی میں وہ اٹلی اور تیونس میں بھی پاکستان کی سفیر رہیں، وہ کسی بھی ملک میں مقرر ہونے والی پاکستان کی پہلی خاتون سفیر تھیں۔

تہمینہ عزیز ایوب ’دی بیگم‘ میں لکھتی ہیں کہ ’ایوب خان کے دور میں کوشش کی گئی کہ رعنا لیاقت علی، محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف انتخابی مہم میں حصہ لیں لیکن انہوں نے صاف انکار کر دیا۔‘

تہمینہ عزیز ایوب نے مزید لکھا ہے کہ ’جنرل ضیا الحق نے جب بھٹو کو پھانسی دی تو رعنا لیاقت علی خان نے حکومت کے خلاف احتجاجی مظاہرے کی قیادت کی۔‘

بیگم رعنا لیاقت کو پاکستان کی پہلی خاتونِ اول، پہلی خاتون سفیر اور پہلی خاتون وائس چانسلر ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔

13 فروری 1973 کو بیگم رعنا لیاقت علی خان کی 68 ویں سالگرہ کا دن تھا جب انہیں یہ اطلاع ملی کہ حکومت پاکستان نے انہیں صوبہ سندھ کا گورنر مقرر کیا ہے۔ پاکستان کے کسی بھی صوبے کی گورنری پر فائز ہونے والی وہ پاکستان کی پہلی خاتون تھیں۔ اس عہدے پر فائز ہونے کے ساتھ ہی، وہ جامعہ کراچی اور جامعہ سندھ کی چانسلر بھی بن گئیں اور یوں انہیں پاکستان کی کسی بھی جامعہ کی خاتون چانسلر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہو گیا۔ بیگم رعنا لیاقت علی خان اس منصب پر 29 فروری 1976 تک فائز رہیں۔

بیگم رعنا لیاقت علی خان نے پاکستان اور بیرون پاکستان متعدد اعزازات بھی حاصل کیے جن میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی جانب سے دیا گیا انسانی حقوق کا ایوارڈ سرفہرست ہے۔ یہ ایوارڈ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کرٹ والڈ ہائم نے انہیں 10 دسمبر 1978 کو پیش کیا۔

اس موقعے پر بیگم رعنا لیاقت علی خان نے کہاکہ میں اس انعام کو انسانی حقوق کے فروغ میں صرف اپنی ذاتی کوششوں کا اعتراف ہی نہیں بلکہ اس سے زیادہ اس مقصد کے لیے پاکستان کے عوام کی کوششوں اور مقاصد کی قدر دانی سمجھتی ہوں۔ حکومت پاکستان نے ان کی خدمات کے اعتراف کے طور پر انہیں نشان امتیاز کے اعزاز سے سرفراز کیا تھا۔

لیاقت علی خان اور بیگم رعنا لیاقت علی خان کے دو بیٹے تھے۔ بڑے بیٹے اشرف لیاقت تین اکتوبر 1936 کو اور چھوٹے بیٹے اکبر لیاقت 10 اپریل 1941 کو پیدا ہوئے۔ رعنا لیاقت علی خان نے دونوں بیٹوں کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دی مگر انہیں پاکستانی سیاست سے دور رکھا۔

اس کے باوجود اکبر لیاقت علی نے 1977 میں پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر لیاقت آباد، کراچی سے قومی اسمبلی کا انتخاب لڑا مگر پروفیسر غفور احمد کے ہاتھوں شکست کھا گئے۔ رعنا لیاقت علی خان نے دہلی کے سفارتی علاقے میں اپنا وسیع و عریض بنگلہ گل رعنا حکومت پاکستان کو تحفے میں عطا کر دیا تھا۔ اس بنگلے میں اب تک پاکستان کا سفارت خانہ قائم ہے۔

بیگم رعنا لیاقت علی خان ایک بے حد فعال زندگی گزارنے کے بعد 13 جون 1990 کو اس دنیا سے رخصت ہوئیں۔ وہ قائد اعظم کے مزار کے احاطے میں اپنے شوہر کے پہلو میں آسودۂ خاک ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ