فرانس کے ساحلی شہر کین میں 75 ویں فلمی میلے کی چکاچوند 12 دن سے دنیا بھر کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے اور یہ آب و تاب 28 مئی تک پوری آب و تاب سے جاری رہے گی۔
آسکرز کے بعد دنیا کے دوسرے بڑے فلمی میلے کے متوازی اسی شہر میں ’کین مارکیٹ‘ کے نام سے ایک اور فلمی تقریب ہو رہی ہے جس میں اس بار بھارت کو ’کنٹری آف آنر‘ یا ملکِ اعزاز سے نوازا گیا ہے جو ایک نئی روایت ہے۔ اس کے تحت میلے کے دوران بھارت میں بننے والی چھ فلموں کی خصوصی نمائش کی گئی، حالانکہ یہ فلمیں کین فلمی میلے کا باقاعدہ حصہ نہیں ہیں۔
یہ چھ فلمیں تھیں: Rocketry: The Nambi Effect، Godavari، Dhuin، Tree Full of Parrots، Boomba Ride، Alpha Beta Gamma۔
جہاں تک کین فلمی میلے کا سوال ہے تو اس میں سرکاری طور پر کوئی بھارتی فیچر فلم شامل نہیں، البتہ ایک دستاویزی فلم کو ضرور حصہ بنایا گیا تھا، جو سونک سین کی ’آل دیٹ بریدز‘ (All That Breathes) ہے۔
اس کے علاوہ کلاسیکی شعبے میں اروندن کی ’تھمپ‘ بھی دکھائی جائے گی، جب کہ نامور فلم ساز ستیہ جیت رائے کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ان کی فلم ’پرتیوندی‘ نہ صرف دکھائی گئی بلکہ اسے بطور اثاثہ آرکائیوز میں محفوظ بھی کر دیا گیا، جو بڑے اعزاز کی بات ہے۔
اگر آسکر ایوارڈ کی فہرستوں پر نگاہ دوڑائی جائے تو بالی وڈ کی کارکردگی بالکل حوصلہ افزا نہیں۔ البتہ اس کی وجوہات کا باریک بینی سے جائزہ لیا جا سکتا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے ستیہ جیت رائے جیسے بڑے فنکار کی فلم آسکر کے لیے نامزدگی تک نہ حاصل نہ کر سکی۔
اس کے برعکس کین فلمی میلے میں ریڈ کارپٹس اور سٹیج پر جلوے بکھیرنے سے لے کر فیصلہ ساز کمیٹی میں شمولیت تک بھارت کی موجودگی محسوس کی جا سکتی ہے۔
کین میں وقتاً فوقتاً انڈین فنکار ایوارڈز کی مختلف درجہ بندیوں میں بھی اپنی موجودگی کا احساس دلاتے رہے۔ آئیے ایسے لمحات کا ذکر کرتے ہیں جب کوئی بھارتی فلم کین فلمی میلے میں کوئی اعزاز جیتنے میں کامیاب رہی۔
نیچا نگر (1946)
یہ اب تک کی واحد بھارتی فلم ہے جو کین فلم فیسٹیول میں بہترین فلم کا ’پالم ڈی اور‘ ایوارڈ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی جسے ہدایت کار چیتن آنند نے کین کے اولین فیسٹیول میں دیگر دس ڈائریکٹرز کے ساتھ مشترکہ طور پر وصول کیا تھا۔ ممکن ہے ناموں کی طویل فہرست غلط فہمی کا باعث بنے اس لیے یاد رہے کہ اس میں ڈیوڈ لین، بِلی وائڈر اور رابرٹو روزیلینی جیسے نامور ہدایت کار شامل تھے۔ مجموعی طور پر 44 فلمیں مقابلے کے لیے پیش کی گئی تھیں۔
’نیچا نگر‘ یوں بھی رجحان ساز فلم تھی کہ اس سے انڈیا میں سماجی حقیقت نگاری کی بنا پڑی جسے بعد میں ستیہ جیت رے اور بمل رائے نے عروج تک پہنچایا۔
پام ڈی اور، جسے فرانس والے ’پالم دوغ‘ کہتے ہیں، کین فلمی میلے میں دیا جانے والا سب سے بڑا اعزاز ہے اور اسے آپ بہترین فلم کے آسکر ایوارڈ کے ہم پلہ سمجھ سکتے ہیں۔’
اس کے بعد کین میلے میں کئی دوسرے اعزاز بھی دیے جاتے ہیں جن میں گراں پری، جیوری ایوارڈ، کریٹکس ایوارڈ، آڈیئنس ایوارڈ، گولڈن کیمرا ایوارڈ وغیرہ شامل ہیں۔
دو بیگھہ زمین (1953)
بمل رائے نے کلکتہ سے آ کر دو بیگھہ زمین کے ذریعے محض بمبئی کی فلم انڈسٹری میں ہلچل نہیں مچائی بلکہ کین فلم فیسٹیول میں انٹرنیشنل ایوارڈ بھی لے اڑے۔
بمل رائے کی ہدایت کاری، سلل چودھری کی موسیقی اور بلراج ساہنی کی اداکاری کی بدولت اس عہد ساز فلم کا ذکر آج بھی بالی وڈ کی عمدہ ترین فلموں میں ہوتا ہے۔
یہ فلم بھی ’نیو ریئلزم‘ کہلانے والی فلمی روایت کے تحت بنی تھی۔ یہ روایت اٹلی سے شروع ہوئی اور 1948 میں آنے والی ڈی سیکا کی ’سائیکل چور‘ نے اسے انتہا تک پہنچا دیا اور یہ روایت جاپان سے لے کر بھارت تک کی مختلف فلمی صنعتوں میں تہلکہ مچانے لگی۔
اس روایت کے تحت جو فلمیں بنتی تھیں ان میں مشہور اداکاروں کی بجائے اصل کردار استعمال کیے جاتے تھے اور مہنگے سٹوڈیوز میں لگائے جانے والے عالیشان اور مصنوعی سیٹوں کی بجائے اصل زندگی کے مناظر دکھائے جاتے تھے، جب کہ موضوعات بھی بالکل سادہ اور حقیقی ہوتے تھے، جن کی بنا پر یہ فلمیں دل کو چھو جاتی تھیں۔
پاتھیر پانچالی (1955)
بمل رائے کا شاہکار ’پاتھیر پانچالی‘ (راستے کا گیت) ’پالم ڈی اور‘ تو نہ جیت سکی لیکن بنگال کے دیہی علاقوں میں غربت کی حقیقی صورت حال عکس بند کرنے پر ’بیسٹ ہیومن ڈاکومنٹ‘ کا اعزاز جیت لے گئی۔
آج بھی دنیا کی بہترین فلموں کی فہرست میں اور کوئی بھارتی فلم ہو نہ ہو، ستیہ جیت رائے کی ’پاتھیر پانچالی‘ ضرور شامل ہوتی ہے۔
خارج (1982)
بنگال کے مشہور ہدایت کار مرینال سین کی فلم ’خارج‘ (بعض اوقات یہ ’دا کیس از کلوزڈ‘ نام سے بھی جانی جاتی ہے) ایک مصیبت کے مارے مڈل کلاس گھرانے کی کہانی ہے۔ کین فلم فیسٹیول 1983 میں نامزد ہونے والی یہ فلم جیوری پرائز جیتنے میں کامیاب رہی۔
یاد رہے ایک برس پہلے مرنال سین کین فلم فیسٹیول میں خود جیوری کے رکن تھے۔
سلام بامبے (1988)
مدر انڈیا (1958) کے بعد آسکر نامزدگی حاصل کرنے والی پہلی انڈین فلم ’سلام بامبے‘ مِیرا نائر کا شاہکار ہے جسے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر خوب سراہا گیا تھا۔
کین فلم فیسٹیول میں سلام بمبئے نے دو ایوارڈز جیتے۔ گولڈن کیمرا ایوارڈ جس کا اجرا 1978 میں کیا گیا تھا اور اس کا مقصد نئے فلم ڈائریکٹروں کی حوصلہ افزائی ہے۔ دوسرا آڈینس ایوارڈ تھا جو میلے میں شریک افراد کی پسندیدگی کی بنا پر دیا جاتا ہے۔
ماریانا سمہاسانم (1999)
ملیالم زبان کی اس فلم کا مرکزی موضوع بجلی کے کرسی پر بٹھا کر کرنٹ کے ذریعے دی جانے والی سزائے موت ہے۔ ہدایت کار مرلی نائر نے اس وقت یہ فلم بنائی جب انڈیا میں پہلی مرتبہ الیکٹرک چیئر کے ذریعے سزا موت دی گئی۔
اس فلم کے لیے مرلی نائر کو گولڈن کیمرا ایوارڈ سے نوازا گیا۔
مسان (2015)
انڈیا میں ذات پات کے مسئلے پر بننے والی فلموں کی تعداد سینکڑوں میں ہے لیکن نیرج گھیوان کی ’مسان‘ دکھ بھری پریم کہانی کے ذریعے اسے اچھوتے اور دلکش انداز میں پیش کرتی ہے۔ یہ ان کی پہلی فیچر فلم تھی جسے مقامی اور بین الاقوامی ناقدین نے خوب سراہا۔
کین فلم فیسٹیول میں نیرج کے شاندار آغاز اور ممکنہ روشن مستقبل کے پیش نظر انہیں پرامسنگ فیچر کا خصوصی انعام دیا گیا بلکہ انٹرنیشنل فیڈریشن آف فلم کریٹیکس نے بھی انہیں اپنے تین انعام یافتگان کی فہرست میں شامل کیا۔