غاروں میں بسنے والے فلسطینی جو گولہ بارود کے باوجود ڈٹے ہوئے ہیں 

مسافر یطا وہ فلسطینی علاقہ ہے جہاں لوگ غاروں میں رہتے ہیں مگر اب اسرائیل نے اسے فائرنگ زون میں تبدیل کر کے لوگوں کو مجبور کر رہا ہے کہ وہ یہاں سے نکل جائیں۔

فلسطینی خاتون حجہ النجار مسافر یطا میں اپنے غار گھر میں بیٹھی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ 2005 میں اسرائیلی فوجیوں نے ان کی ٹانگ میں گولی مار دی تھی (محمود مخامرہ)

فلسطین میں مسافر یطا کے لوگ غار میں رہنے والے اپنے طرز زندگی کو برقرار رکھنے کے لیے پرعزم ہیں۔

مقبوضہ مغربی کنارے پر واقع نیم صحرائی علاقے کے 33 دیہات میں سے ایک جنبہ سے تعلق رکھنے والی 82 سالہ خاتون حجہ حلیمہ ابو یونس کہتی ہیں ’میری پیدائش اسی غار میں ہوئی تھی اور میں نے اپنے تمام 12 بچوں کو اسی میں جنم دیا۔‘ 

مسافر یطا واحد فلسطینی علاقہ ہے جہاں بہت سے غار گھروں کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ اس علاقے کے 800 غاروں میں سے تقریباً 200 اب بھی آباد ہیں۔ حلیمہ ابویونس کا کہنا ہے کہ وہ کبھی بھی دوسرا گھر قبول نہیں کریں گی چاہے اسرائیلی حکومت انہیں دو منزلہ گھر کی پیشکش ہی کیوں نہ کر دے۔ وہ اس غار سے اپنے خاندان کی تقریباً دو صدیوں پر محیط تاریخ کا ذکر کچھ یوں کرتی ہیں۔

’میرے شوہر کے دادا محمود احمد 1840 میں یہاں پیدا ہوئے۔ میرے شوہر کے والد 1906 میں یہاں پیدا ہوئے، پھر میرے شوہر اور اب میرے بیٹے۔ ہم دو خاندان تھے جو ایک ساتھ سو جایا کرتے تھے، ایک طرف میرے خاوند اور میں جبکہ دوسری طرف میرے برادر نسبتی۔ درمیان میں ہم سب کے بچے سو جاتے تھے۔‘ 

1980 میں اسرائیل کی حکومت نے فیصلہ کیا کہ مسافر یطا کا ایک بڑا حصہ بشمول 12 دیہات اصل میں رہائشی علاقے نہیں ہیں۔ اس نے یہ حصہ فائرنگ زون 918 قرار دیتے ہوئے اپنی فوج کی گولہ بارود کی مشق کا علاقہ بنا دیا۔ ان دیہاتوں کے رہائشی 1999 تک یہاں رہے جس کے بعد فوج نے 700 سے زائد فلسطینیوں کو یہاں سے بے دخل کرنے کی کوشش کی کہ وہ ’فائرنگ زون میں غیر قانونی طور پر رہ رہے ہیں۔‘ یہ خاندان اس وقت سے اپنی برادریوں کے رہنے کے حق کے لیے قانونی جنگ لڑ رہے تھے جسے بالآخر مئی 2022 میں اسرائیل کی سپریم کورٹ نے مسترد کر دیا۔ 

اس فیصلے کے بعد سے اسرائیلی فوج نے زون کے اندر اور اس کے آس پاس کے آٹھ دیہاتوں میں گولہ بارود کی باقاعدہ مشقیں شروع کر دی ہیں۔ اس نے غاروں میں رہنے والے افراد سمیت مقامی باشندوں کی جبری بےدخلی کا سلسلہ بھی تیز کیا ہے۔ فائرنگ زون 918 کے اندر تقریباً تمام عمارتیں اب کسی ایسے قانونی تحفظ کے بغیر ہیں، جو ان کے انہدام کو روک سکے۔

 ابو یونس کا کہنا ہے کہ مقامی لوگوں کے لیے ہر ہفتے تین دن پر مشتمل ایک شدید خطرناک مرحلہ آتا ہے، جب پیر سے بدھ کے دوران فوجی مشقیں ہوتی ہیں:

’آج کل ہم اپنے غاروں میں قید ہیں، ہم باہر آ جا نہیں سکتے۔ ہمیں خدشہ رہتا ہے کہ اسرائیلی فوج اپنی مشقوں کے دوران کسی کو ہلاک نہ کر ڈالے۔ فوج ٹینکوں کے ذریعے ہمارے گاؤں کے آس پاس ٹریننگ کرتی ہے۔ گولہ بارود کی آواز سے بچے اور جانوروں کے ریوڑ سہم جاتے ہیں۔ میرا بیٹا عیسیٰ ان ایام کے دوران 150 کی تعداد پر مشتمل اپنا بھیڑوں کا ریوڑ نہیں چرا سکتا، جب فوجی مشقیں چل رہی ہوں۔ اگر ایک چرواہا اپنی بھیڑ بکریاں نہیں چرا سکتا تو وہ چرواہا کاہے کو ہوا؟‘ 

’ہمیں بھیڑیوں کے سوا کسی چیز کا خوف نہیں‘

مسافر یطا میں غار کے مختلف انداز ایک نسل سے دوسری نسل تک بدلتے ہوئے طرز زندگی کی عکاسی کرتے ہیں۔ کچھ میں پانی کے کنویں اور سرنگیں اندر ہیں تاکہ وہاں کے مکین اپنے پالتو جانوروں کو غاروں میں ہی رکھ کر کھلا پلا اور نہلا سکیں، جبکہ بعض ایسے ہیں جہاں کھلانے پلانے کا انتظام غار کے باہر آس پاس ہے۔ 

محمد ابو صباح ایک 84 سالہ بوڑھے کسان اور چرواہے ہیں، جن کا بنیادی تعلق القریتین نامی گاؤں سے ہے۔ وہ اپنے ساتھ 19 سے 29 سال کی عمر والے نوجوان نسل کے فلسطینوں کو اپنی جنم بھومی والا غار دکھانے کے لیے لے جا رہے ہیں۔ یہ ٹولی سخت پتھریلی تنگ سیڑھیاں اترتے ہوئے زیر زمین ایک وسیع جگہ پر قدم رکھتی ہے جس میں نچلی سی گنبد والی چھت ہے۔ ابو سبھا غار میں داخل ہوتے ہی اپنے بچپن کی یادوں میں کھو جاتے ہیں۔

انہوں نے کہا: ’اوہ میرے خدایا، اس کا تو حلیہ ہی بدل گیا ہے۔ اسے یوں کیوں تباہ کر ڈالا گیا؟ مجھے واپس آ کر اس کی تزئین و آرائش کرنی ہے۔ یہ غار میرے لیے سب کچھ ہے، میں اس میں پیدا ہوا اور اسی میں آخری سانس لینا چاہتا ہوں۔‘

ابوصباح کے خاندان کو 1951 میں غار سے نکالا گیا تھا، جب وہ 13 سال کے تھے۔ وہ کئی سال بعد دوبارہ یہاں آئے تھے (اب وہ مسافر یطا کے شمال میں واقع شہری علاقے یطا میں رہتے ہیں)۔ ان کے بچپن میں یہ چار خاندانوں کی پناہ گاہ تھی جو سب ایک ہی کمرے میں سو جاتے تھے۔ گائے اور اونٹ بھی غار کے اندر رہتے تھے تاکہ ان کی حفاظت یقینی رہے، گائے کو آس پاس کی زمین جوتنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا جو ان خاندانوں کی آمدنی کا بنیادی ذریعہ تھی۔ یہ ویسے ہی تھا جیسے ایک نوجوان تماشائی نے کہا کہ ’اس وقت اونٹ اور بھیڑیں آج کی مرسڈیز گاڑیوں کی طرح تھیں۔‘

2017 سے برطانیہ کی کوونٹری یونیورسٹی کے محققین مسافر یطا سے تعلق رکھنے والے فلسطینیوں کی نوجوان نسل کے ساتھ مل کر وہاں کے بزرگوں سے ان کی کہانیاں اکٹھی کر رہے ہیں۔  On Our Land نامی اس منصوبے کے تحت زبانی تاریخ کی مدد سے یہ جاننے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ مقبوضہ مغربی کنارے کے اس حصے کو اپنا اصل گھر قرار دینے والے نیم خانہ بدوشوں اور ایسے دیگر گروہوں کی روز مرہ زندگی ماضی میں کیسے ہوا کرتی تھی اور اب کیسی ہے۔ زبانی تاریخ کی تائید کے لیے ہمیں تاریخی دستاویزات اور شواہد اور تاریخی نقشوں اور تصاویر تک رسائی دی گئی ہے۔ 

ابواشرف حمامدہ 60 سالہ کسان ہیں جو اب بھی فائرنگ زون 918 کے اندر واقع ایک گاؤں المفقرہ کے ایک غار میں رہتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ کیسے لوگ ہر سال فصل کی کٹائی کے بعد مال مویشیوں کے لیے چارہ اور دیگر ضروریات جمع کرنے کے لیے ایک جگہ سے دوسری جگہ آتے جاتے تھے:

’ہم اکتوبر سے جولائی تک مسافر یطا کے زیریں علاقوں میں رہتے تھے۔ گرمیوں میں ہم بارش کی مدد سے پھلنے پھولنے والی انگوروں اور انجیروں کی فصل کاٹنے کے لیے پہاڑوں پر چلے جاتے تھے۔ ہر شخص، مرد عورت، چھوٹا بڑا جو درانتی اٹھا سکتا وہ فصل کی کٹائی میں حصہ لیتا۔ ہم اپنے ساتھ انگور اور بھیڑوں کا دودھ بطور خوراک لے جاتے۔ صبح سے شام تک کام کرتے، گاؤں واپس آئے بغیر دو ہفتے کھیتوں میں رہتے۔‘

اس موقعے پر وہ ایسا گیت گانے لگتے ہیں جو فصل کی کٹائی کے دوران وہ سب گایا کرتے تھے: ’او میری درانتی، تیز دانتوں والی۔ او میری درانتی جو غزہ میں بنی ہے۔‘ 

المجاز گاؤں کے ایک 73 سالہ چرواہے علی نعمین کے مطابق ان کی بھیڑوں کا دودھ علاقے کے مخصوص جغرافیے کی وجہ سے منفرد ہے:

’مسافر یطا میں ہمارے ہاں اتنی بارش نہیں ہوتی تھی جتنی (مغربی کنارے کے) شمال میں، لیکن یہاں کی گھاس بہترین ہے کیونکہ یہ نمکین ہے، یہ بھیڑوں کے مدافعتی نظام کو مضبوط کرتی ہے۔ اس سے ان کا دودھ ملائی نما ہو جاتا ہے اور اس میں زیادہ غذائیت ہوتی ہے۔‘

نعمین اپنے عمومی رویے میں ایک خوش مزاج شخص ہیں لیکن بے فکری کے ایام یاد کرتے ہوئے وہ ماضی کی پرانی یادوں میں کھو جاتے ہیں:

’گرمیوں میں میرے پسندیدہ لمحات وہ تھے جب چرواہے دن کے درمیانی اوقات میں پانی کے کنویں کے گرد جمع ہو جایا کرتے تھے۔ صبح کے اواخر سے دوپہر تک بھیڑیں گرم موسم کی وجہ سے سو رہی ہوتی تھیں۔ ہم ان لمحات کو گپ شپ کرنے کا موقع سمجھتے۔ کبھی کبھی ہم ’سات پتھر اور باڑ‘ جیسے کھیل کھیلتے، جو تھوڑا سا شطرنج کی طرح ہے۔ ہم خوش تھے، ایک ذہنی سکون تھا۔ ہمیں بھیڑوں کے شکار کے لیے آنے والے بھیڑیوں کے سوا کسی چیز کا خوف نہیں تھا۔‘

’جنت کا ٹکڑا‘

مسافر یطا مغربی کنارے کی جنوبی ہیبرون پہاڑیوں کے جنوبی سرے پر واقع ہے۔ اس کے خستہ حال پہاڑ اور پہاڑیاں گرمیوں میں اخروٹ کے چھلکوں سے مشابہت رکھتی ہیں، جو نیچے کی وادیوں میں زیادہ زرخیز چراگاہوں سے جڑی ہوئی ہیں۔ یہاں تقریباً تین ہزار لوگ رہتے ہیں جن میں زیادہ تر چرواہے اور کسانوں کے طور پر گندم، جو، پھلیاں اور زیتون اگانے کا کام کرتے ہیں۔

مقامی لوگ ہمیں اس علاقے کے نام کے بارے میں مختلف کہانیاں سناتے ہیں۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ مسافر عربی لفظ ’سفر‘ سے آیا ہے، جو اس مفروضے کی طرف اشارہ ہے کہ زندگی اس گرم اور سخت زمین میں پروان نہیں چڑھ سکتی۔ تاہم مسافر یطا کے موجودہ میئر ندال یونس ہمیں بتاتے ہیں کہ یہ سلطنت عثمانیہ کے آخری دور کی طرف اشارہ ہے جب کمزور عثمانی حکمرانوں نے اپنا وفادار رکھنے کے لیے مقامی لوگوں کو زرعی مصنوعات پر ٹیکس ادا کرنے سے چھوٹ دے دی تھی۔

تاہم ایک روایت کے مطابق مسافر کا مطلب ہے ’سفر کرنا،‘ جو دراصل ان تاجروں اور زائرین کی طرف اشارہ کرتا ہے جو افریقہ، ایشیا اور یورپ کے درمیان سفر کرتے ہوئے یہاں سے گزرتے تھے۔ ابو یونس بتاتے ہیں کہ کس طرح دیہاتی ان مسافروں کو کھانا اور ایک تالاب سے میٹھا پانی دیتے تھے، جو پہاڑیوں سے مٹی کے قدیمی راستے کے ذریعے چشمے کی صورت نیچے آتا تھا۔ 

’لوگ نسل در نسل اس سرزمین پر رہائش پذیر ہیں جو بھیڑ بکریاں چراتے اور دودھ اور مویشیوں کی مصنوعات فروخت کرتے ہیں۔ تاہم میئر کے مطابق بہت سے لوگوں کو لگتا ہے کہ وہ صرف اور صرف کھیتی باڑی اور بھیڑ بکریاں چرا کر اپنے آپ کو اور اپنے خاندانوں کو نہیں پال سکتے۔ یونس کہتے ہیں: ’ماضی میں ہم بہت بڑے رقبے پر کاشت کر رہے تھے، اس لیے زندگی کی درپیش سختیوں کے باوجود متبادل (آمدنی کے ذرائع) کے بارے میں فکرمندی کی ضرورت نہیں تھی۔‘

حالیہ عشروں میں بہت سے نوجوان فلسطینی دیہی طرز زندگی کو تج کر یطا شہر اور اس سے آگے کے جدید اسلوب میں ڈھل چکے ہیں۔ ابراہیم نوجہ، جو سوسیہ کے گاؤں سے ہیں اور اپنا وقت سوسیہ اور یطا شہر کے درمیان گزارتے ہیں، کہتے ہیں کہ دیہی مسافر یطا ’میرے لیے جنت کا ایک ٹکڑا ہے، اس کی تازہ ہوا، پرسکون ماحول اور بھرپور فطرت، بہار میں سبز، گرمیوں میں زرد۔ میں یہاں شہر کی ٹریفک اور شور سے بچنے کے لیے آیا ہوں۔‘

لیکن 1980 کے بعد سے جب اسرائیل نے اس علاقے کی حیثیت تبدیل کی تب سے اس فیصلے نے یہاں کے کسانوں اور چرواہوں کی روایتی زندگیوں کو درہم برہم کر دیا ہے۔ نوجہ بتاتے ہیں کہ اگرچہ یہ نیم خانہ بدوش طرز زندگی کبھی بھی آسان نہیں تھی لیکن بعد میں عائد کی گئی اضافی پابندیوں نے اسے مزید مشکل بنا دیا۔ یہاں کے رہائشیوں نے بارہا اس الزام کو دہرایا ہے کہ اسرائیلی آباد کار پانی کی فراہمی میں مداخلت کر کے اور دوسرے جارحانہ طریقوں سے کشیدگی کو ہوا دے رہے ہیں۔

قابض قوتوں کی عائد کردہ پابندیوں کی وجہ سے لوگوں کی زندگیاں مشکل اور پیچیدہ ہو گئی ہیں۔ ہمیں بہت سی ناانصافیوں کا سامنا ہے، ہمارے پانی کے کنویں اور چراگاہیں آلودہ ہو رہی ہیں۔

ایک ’غلط فہمی‘ جس نے سب کچھ بدل کر رکھ ڈالا

بہت سے مکین ہمیں بتاتے ہیں کہ فائرنگ زون 918 کا اعلان غلط فہمی پر مبنی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اسرائیلی حکومت نے پہلی بار 1980 میں جب اس علاقے کو غیر آباد تصور کیا تو اس وقت یہ حقیقت تسلیم نہیں کی کہ مسافر یطا کے لوگ نیم خانہ بدوش طرز زندگی گزارتے ہیں۔ چار دہائیوں سے زائد عرصے بعد اسرائیل کی سپریم کورٹ نے مئی 2022 میں اپنے حتمی فیصلے میں اس موقف کی توثیق کر دی۔ اس فیصلے کے مطابق مسافر یطا کے رہائشیوں کا زمین پر کوئی حق نہیں کیونکہ وہ تب اس سرزمین کے مستقل رہائشی نہ تھے جب اسے فائرنگ زون قرار دیا گیا تھا۔

اگست میں سپریم کورٹ نے فائرنگ زون کے اندر دو سکولوں اور دیگر فلسطینی عمارتوں کو مسمار کرنے کے خلاف رہائشیوں کی مزید درخواستوں کو مسترد کر دیا تھا۔ دو اکتوبر کو عدالت نے اپنے چار مئی کے فیصلے پر مزید کسی قسم کی سماعت کی درخواست مسترد کر دی اور اسرائیل کی حکومت نے تصدیق کی کہ عدالت عالیہ اب اس پر کوئی مزید سماعت نہیں کرے گی۔

فلسطینی عوام کے حق خودارادیت کی تکمیل کی جانب ایک پیش رفت کے طور پر 1990 کی دہائی کے اوائل میں جب اوسلو معاہدے پر دستخط کیے گئے تو مسافر یطا کی درجہ بندی بطور’ایریا سی‘ کی گئی تھی یعنی یہ اب بھی پوری طرح اسرائیل کے انتظامی اور عسکری کنٹرول میں رہے گا۔ 2022 سے پہلے مکینوں کی سب سے بڑی نقل مکانی 1999 میں ہوئی، جسے یاد کرتے ہوئے ابو اشرف حمامدہ بتاتے ہیں کہ انہوں نے اس بے دخلی پر کس ردعمل کا مظاہرہ کیا تھا: 

’جب انہوں نے ہمارا سامان اکٹھا کر کے سڑک کے دوسری طرف پھینک دیا تو میں پہاڑوں سے ہوتا ہوا اپنے گاؤں واپس جا پہنچا۔ میں نے اسرائیلی کارکنوں اور وکلا سے رابطہ کیا۔ میں اسرائیل کی پارلیمنٹ میں گیا اور اپنے لوگوں کے حق میں تقریر کی کہ ہم طویل مدت سے اس گاؤں میں رہائش اختیار کیے ہوئے ہیں اور اب یہاں رہنا ہمارا حق ہے۔ چار ماہ بعد ہمیں عدالتی فیصلہ ملا جس نے ہمیں واپس آنے اور عارضی طور پر رہنے کی اجازت دی۔ یوں ہم پھر سے برادریوں کی صورت میں یہاں رہنے لگے۔‘

وہاں سے نکالے جانے کے دو دہائیوں بعد بھی وہ ابھی تک وہیں رہ رہے ہیں اور ان کی اہلیہ ام اشرف حمامدہ کہتی ہیں کہ ان کے یہاں رہنے کا عزم ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ مضبوط ہے:

’اس گاؤں میں ہم آٹھ بڑے خاندان ہیں۔ ہمارے دادا دادی اور ہمارے والدین یہاں رہتے تھے۔ ان کے قبضے نے ہمیں الطوانی گاؤں میں چلے جانے پر مجبور کیا۔ انہوں نے ہمارا سامان پھینک دیا، ہمیں منتشر کر دیا (لیکن) ہم ثابت قدم رہے۔ ہم نے ان پر مقدمہ کیا اور سپریم کورٹ پہنچنے تک جد و جہد کرتے رہے۔ پھر جب ہم اپنے گاؤں واپس آئے تو قبضہ گیر ہم پر ظلم کرتے رہے کیونکہ پہلی بار ایسا ہوا کہ وہ ہمیں نکالنے میں ناکام رہے تھے۔ انہوں نے ہمارے مویشیوں کو زہر دیا تاکہ ہم امید کھو دیں اور گاؤں چھوڑ دیں، لیکن ہم ڈٹے رہے، ہم نہیں گئے! ہم یہیں پیدا ہوئے اور ہمیں یہیں رہنا ہے۔‘

مارچ 2000 میں عدالت کے فیصلے کے بعد 1999 میں بے دخل کیے گئے 700 سے زائد مکینوں میں سے زیادہ تر اپنے غاروں اور دیگر عمارتوں میں واپس آ گئے تھے۔ اس فیصلے نے مکینوں کو عارضی طور پر واپس جانے کی اجازت دی اور وہ تب سے اسرائیل کے ساتھ قانونی جنگ لڑ رہے ہیں۔

تاہم حالیہ مہینوں میں، اسرائیلی فوج نے فائرنگ زون کے اندر عمارتوں کی مسماری کا سلسلہ اس بنیاد پر تیز کر دیا کہ فلسطینیوں کے پاس ان کے لیے کوئی اجازت نامہ نہیں ہے۔ ایسے اجازت نامے اسرائیل کی حکومت سے حاصل کرنا انتہائی مشکل ہیں۔

مکینوں کا کہنا ہے کہ انہیں کسی بھی سولر پینل کے ذریعے بجلی حاصل کرنے سے روکا جاتا ہے، وہ جیسے ہی لگتے ہیں انہیں تباہ کر دیا جاتا ہے۔ انہوں نے حکام کی طرف سے پانی کے پائپ کاٹنے، کنویں گرانے اور پانی کے ٹینکوں کو ضبط کرنے کا بھی ذکر کیا ہے، اس سب کا مقصد انہیں اور ان کے جانوروں کو پانی سے محروم کرنا ہے۔

آبادکاروں کے حملوں کا خطرہ

مسافر یطا میں فلسطینیوں کی روزی روٹی اور وجود کو خطرات فائرنگ زون 918 کے کنارے پر آباد ہونے والی اسرائیلی بستیوں سے بھی لاحق ہیں۔ یہ زمین پہلے فلسطینی کسان اور چرواہے استعمال کرتے تھے جو اب خود کو فوجی مشقوں اور نئی بستیوں کے درمیان ’گِھرا ہوا‘ پاتے ہیں۔

تمام کے تمام آباد کار یہودی نسل سے تعلق رکھنے والے اسرائیلی شہری ہیں جو اس مقبوضہ فلسطینی سرزمین سے متصل اپنی برادریوں میں شامل ہو گئے ہیں۔ ایسی بستیوں میں رہائش کے لیے اکثر اسرائیل کی حکومت کی طرف سے سبسڈی دی جاتی ہے اور ان آباد کاروں پر ان کے فلسطینی پڑوسیوں کے مقابلے میں مختلف قوانین لاگو ہوتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اقوام متحدہ کے آفس فار کوآرڈینیشن آف ہیومینٹیرین افیئرز سمیت مختلف اداروں کی ایسی رپورٹس منظر عام پر آئی ہیں جن میں آباد کاروں کی طرف سے مسافر یطا کے فلسطینی باشندوں کو نقصان پہنچانے کی اطلاعات ہیں۔ بعض مکین ہمیں بتاتے ہیں کہ کیسے بعض اوقات انہوں نے اپنے پانی کی ترسیل کو آس پاس رہنے والے آباد کاروں کی طرف سے آلودہ ہوتے دیکھا۔ ابو اشرف حمامدہ کے مطابق:

’چونکہ اسرائیل نے بستیاں تعمیر کرنا شروع کر دی ہیں اب ہم ان سے ایک میل سے بھی کم فاصلے پر رہتے ہیں۔ آباد کار ہمارے درختوں کو کاٹتے ہیں، ہماری فصلوں کو جلا ڈالتے ہیں اور ہمارے پانی کے کنوؤں کو زہر آلود کر دیتے ہیں۔ ماضی میں ہم اپنی بھیڑیں چراتے ہوئے اپنی زمین میں آزادانہ نقل و حرکت کرتے تھے اور جہاں چاہتے سوتے جاتے تھے، لیکن آج ہم سب کچھ جلدی میں کرتے ہیں کیونکہ ہم آباد کاروں کے حملوں سے بچنا چاہتے ہیں۔‘

ہم نے جو زبانی تاریخ ریکارڈ کی اس میں آباد کاروں کی طرف سے کیے گئے تشدد کے تجربات کا ذکر باقاعدگی سے آتا ہے۔ حجہ نزہت النجار بتاتی ہیں کہ کیسے 2005 میں وہ اپنی بہوؤں کے ساتھ ایک کھیت میں تھیں، جب کچھ اسرائیلی آباد کاروں نے ان کی ٹانگ کے پچھلے حصے میں گولی مار دی۔ وہ اپنی ٹانگ کو سامنے کی طرف پھیلائے ہوئے بیٹھی ہیں اور یاد کرتی ہیں کہ ’میرا بیٹا وادی کے دوسری طرف تھا۔ جب اس نے ہماری طرف بڑھنے کی کوشش کی تو اسے بھی نشانہ بنایا گیا سو اسے نیچے جھکتے ہوئے چھپنا پڑا۔‘

النجار لنگڑا کر اپنے غار میں واپس آگئیں اور تب انہیں احساس ہوا کہ ان کی ٹانگ سے تو خون بہہ رہا ہے۔ وہ اس وقت کو یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ایک ایمبولینس کو بلایا گیا لیکن آباد کاروں نے اسے گزرنے نہیں دیا، اس لیے انہیں ایمبولینس میں منتقل کرنے سے پہلے ایک کار میں بٹھا کر آگے پہنچایا گیا۔

مسافر یطا میں مویشیوں کی تعداد اب اس سے محض ایک تہائی رہ گئی ہے جو 1980 میں تھی، جب پہلی بار اسے فائرنگ زون قرار دیا گیا تھا۔ ابو اشرف حمامدہ اس زوال کی وجوہات بیان کرتے ہیں:

’ایک طرف ہم ان جگہوں تک نہیں پہنچ سکتے جہاں ہم ریوڑ چرایا کرتے تھے۔ دوسری طرف اوسلو (اوسلو معاہدے پر دستخط) کے بعد سے جانوروں کی خوراک کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ چھ ماہ سے بھی کم عرصے میں جو اور گندم کی قیمتوں میں 80 فیصد اضافہ ہوا، میں اپنی بھیڑوں کے لیے اس کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا۔ ہم اپنے مویشیوں کا کچھ حصہ بیچنے پر مجبور ہوگئے کیونکہ ہم انہیں چارہ نہیں دے پا رہے تھے۔‘

ہم نے جن لوگوں کے انٹرویو کیے وہ اگرچہ مختلف بین الاقوامی اور ملکی انسانی امدادی تنظیموں سے ملنے والے تعاون، بشمول جانوروں کی خوراک کی فراہمی، کو تسلیم کرتے ہیں لیکن وہ کہتے ہیں کہ یہ کوئی مطلوبہ حل نہیں ہے۔ جیسا کہ علی نعمین وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں:

’آج ہم ماضی کی طرح اپنی فصلیں خود پیدا کرنے کے بجائے اقوام متحدہ کے ادارے فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن سے جو حاصل کر رہے ہیں وہ بہت ناکافی ہے۔ ہم اپنی بھیڑوں کو گروہوں میں چراتے ہیں اور اس دوران بین الاقوامی رضاکار ہماری حفاظت کے لیے ہمارے ساتھ ہوتے ہیں۔ یہ وہ زندگی نہیں جب ہم آزادانہ نقل و حرکت کرتے اور اپنی خوراک خود تیار کرتے تھے۔ اس مشکل زندگی کے باوجود ہم اب کے مقابلے میں کہیں زیادہ بہتر حالت میں تھے۔‘

 نوجوان نسل ماضی کے بجائے آسان مستقبل چاہتی ہے

اس علاقے کے روایتی نیم خانہ بدوش طرز زندگی کو بھی ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل ہوتے ہوئے سماجی اور ثقافتی سطح پر خطرات لاحق ہیں۔ یہاں کے بیشتر بزرگوں کا کہنا ہے کہ نوجوان فلسطینی کھیتی باڑی اور چرواہے کے کٹھن راستے پر چلنے کے بجائے گھروں میں رہنا، سمارٹ فونز استعمال کرنا اور محفوظ ملازمتیں کرنا چاہتے ہیں۔ نتیجتاً بہت سے لوگ مسافر یطا کے شمال مغرب میں واقع شہر یطہ میں منتقل ہو گئے ہیں۔ دوسرے لوگ تعلیم حاصل کرنے یا کام کرنے کے لیے ہیبرون، بیت لحم اور رام اللہ جیسے شہروں میں چلے گئے ہیں۔ مذکورہ بالا منصوبے میں شامل نوجوان محققین میں سے ایک صومیہ العمر بتاتی ہیں:

’مجھے اپنے مستقبل پر نظر رکھنی اور معمول کی زندگی گزارنی ہے۔ میں نے رام اللہ میں بطور نرس اپنی تعلیم جاری رکھنے اور وہاں کام کرنے کا فیصلہ کیا۔ اگر میں مسافر یطا میں رہتی تو مجھے ایسا موقع نہ ملتا۔‘

اس کے برعکس مسافر یطا کے بزرگ اپنے غاروں میں رہنے اور کسانوں اور چرواہوں کے طور پر اپنے طرز زندگی کو برقرار رکھنے کے لیے پہلے سے کہیں زیادہ پرعزم ہیں، لیکن ابو اشرف حمامدہ قبول کرتے ہیں کہ نوجوانوں کو اس طرز زندگی کو جاری رکھنے کے لیے قائل کرنا مشکل ہے:

’ان میں سے کچھ غاروں میں رہنے سے تنگ آ چکے ہیں۔ وہ بیڈ رومز میں سونا چاہتے ہیں جہاں جدید طرز کا شاور ہو۔ ان کا خواب ہے کہ ان کے کپڑوں کے لیے محض بیگ نہ ہو بلکہ الماری ہو۔‘

مسافر یطا کے غاروں میں زندگی سے جڑی منفرد روایات نوجوان نسل کے لیے اپنی اہمیت کھو چکی ہیں۔ پھر بھی اپنی سینہ بہ سینہ چلنے والی روایات جمع کرنے کے ذریعے ہم نے مختلف نسلوں کے درمیان رشتوں کو مضبوط ہوتے دیکھا ہے۔ جنبہ گاؤں سے تعلق رکھنے والے خلیل مخامرہ اپنی دادی کے انٹرویو کے گہرے اثرات کو بیان کرتے ہیں:

اس انٹرویو نے یہاں کے بزرگ لوگوں کے بارے میں، ان کی کہانیوں اور زندگیوں کی اہمیت کے بارے میں میرا نقطہ نظر بدل دیا ہے۔ زمین جوتنا ان کے لیے مشکل تھا لیکن (میں نے سیکھا) کہ وہ اس سے کتنا لطف اندوز ہوئے۔ یہ واقعی اہم ہے۔ جب ہم اپنے ماضی سے کوئی جیتی جاگتی چیز نکال کر لاتے ہیں تو یہ ثابت کرتا ہے کہ ہم اس زمین کے مالک ہیں اور ہمیں اس سے گہری وابستگی محسوس ہوتی ہے۔ ہمیں اس سرزمین کی حفاظت کرنی ہے جو ہمیں ورثے میں ملی ہے کیونکہ یہ ہمارے والدین اور دادا دادی کی زندگی ہے۔ 

اس طرح کے مباحثے فلسطینیوں کی اگلی نسل کو ’صمود‘ یعنی ثابت قدمی کی طرف مائل کر سکتے ہیں، ایک دور کو محفوظ کرنے کی طرف جس کے نقش و نگار تیزی سے مدھم ہو رہے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ فائرنگ زون 918 کے اندر عسکری مشقوں کا موجودہ خطرہ نوجوانوں کو اپنے والدین کے ساتھ بڑی تعداد میں غاروں کے اندر واپس آنے پر مجبور کر رہا ہے، جیسا کہ ہمارے ایک اور نوجوان محقق طحہ العمور بتاتے ہیں:

’میں یہاں المجاز گاؤں میں اپنے والد کے ساتھ رہنے کے لیے ہر روز آتا ہوں، خاص طور پر جب سے فوج نے یہاں عسکری مشقیں شروع کی ہیں۔ میں اپنے والدین کو ایسے حالات میں چھوڑ کر یطہ شہر میں اپنے گھر کے اندر نہیں رہ سکتا، حالانکہ میں ایک زیادہ آرام دہ زندگی کی تلاش میں ہوں جو میرے والدین کی سخت زندگی کے برعکس ہو۔‘

 فائرنگ زون 918 کے اندر موجود 12 مسافر یطا گاؤں میں اب 200 سے زیادہ نوجوان مستقل طور پر رہائش پذیر ہیں جو ماضی قریب کی نسبت ایک نمایاں اضافہ ہے۔ گاؤں کے لوگوں کو جبری بے دخلی اور ہراساں کیے جانے کے دیگر خطرات سے بچانے کے لیے ہر گاؤں میں ہر رات جمع ہونے اور سونے کے لیے خصوصی جگہیں بنائی گئی ہیں۔

کئی نسلوں تک مسافر یطا کے لوگوں کے لیے صرف غار ہی گھر تھے، یہی وجہ ہے کہ ان لوگوں کا غاروں سے اتنا مضبوط تعلق ہے، لیکن آج غار ’محفوظ مقامات‘ کے طور پر ایک نیا کردار ادا کر رہے ہیں اور وہ ہے ماضی کی روایات کو نئی نسل تک پہنچانا اور بے دخلی کی اسرائیلی پالیسی کو چیلنج کرنا۔ مسافر یطا میں 200 سے زائد غار آج بھی آباد ہیں، جہاں رہنے والوں میں ابو یونس اور ان کا خاندان بھی شامل ہے:

’سالہا سال تک غاروں نے ہمیں مسافر یطا کے دیہات میں زندگی کو برقرار رکھنے کے قابل بنایا اور قبضے سے ہماری حفاظت کی۔ ایک بار پھر اب جس طرح ہماری عمارتیں اور کمیونٹیز منہدم ہو رہی ہیں یہ ہمارے لیے آخری محفوظ جگہیں ہیں۔ یہ نہ صرف ہمیں گرم اور سرد موسم سے بلکہ ہراساں کیے جانے سے بھی بچاتی ہیں، اس لیے ہم ان کی حفاظت یقینی بنائیں گے۔‘


نوٹ: یہ تحریر پہلے ’دا کنورسیشن‘ میں شائع ہوئی تھی اور یہاں اس کا ترجمہ ان کی اجازت سے پیش کیا جا رہا ہے۔ اس کے مصنفین اوریلی بروکرہاف اور محمود سلیمان دونوں برطانیہ کی کوونٹری یونیورسٹی کے سینٹر فار ٹرسٹ، پیس اینڈ سوشل ریلیشنز میں فیلو ہیں۔   

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا