فلسطینی بچے: یورپی یونین کی فکر مندی اور سادگی ساتھ ساتھ!

یورپ اور امریکہ نے اسرائیل کو ایک 'ابنارمل' ریاست ہونے کے باوجود اپنا چہیتا بنا کر ’لائسنس ٹو کل‘ دے رکھا ہے۔

مغربی کنارہ، فلسطین (22 جنوری، 2022): اسرائیلی فوجی فلسطینیوں کے خلاف کریک ڈاؤن کے دوران اپنی پوزیشن لیے ہوئے جب کہ ایک بچہ بند دکان کی سیڑھیوں پر موجود ہے۔ (اے ایف پی)

یہ تحریر آپ یہاں سن بھی سکتے ہیں

 آج ان فلسطینی بچوں کا ذکر مقصود ہے، جنہیں اقوام عالم، اقوام متحدہ اور مہذب دنیا ہی نہیں عرب دنیا نے بھی اسرائیلی فوج کی گولیوں کی باڑ کے آگے پھینک رکھا ہے۔

یہ ذکر ان بچوں کے مرنے اور مرنے سے پہلے تڑپنے یا بلکنے کی کہانی کی صورت میں نہیں ہے۔ کہ فلسطینی عربوں کے بچوں کے تڑپ تڑپ کر جان دینے میں یورپ کے ابلاغی دانشوروں کے مطابق خبریت کا وہ پہلو موجود نہیں ہے جو صحافت کے مغربی استادوں نے دنیا بھر کو سکھایا ہے۔

’اگر انسان کو کتا کاٹ لے تو خبر یہ نہیں ہے۔ کتے کو انسان کاٹے تو یہ خبر ہے۔‘ اس لیے اسرائیلی فوج فلسطینی عربوں کے بچوں کو پوری بے دردی سے آئے روز قتل کرے یا ان عربوں کی خواتین، ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کو، جو فلسطین میں رہتے ہیں۔ یورپ اور اس کے ذرائع ابلاغ  کے لیے یہ واقعات توجہ کا موضوع ہو سکتے ہیں، نہ خبر کا عنوان۔

 لگتا ہے مغربی دنیا کے دور اندیش ابلاغی ’سیانوں‘ نے خبر کی تعریف بیان کرتے ہوئے یہ سوچ رکھا تھا کہ اگر اسرائیل اور اس کے فوجی کسی کی جان لیں گے تو یہ خبر نہیں ہو گی۔ ہاں کسی اسرائیلی، صیہونی یا یہودی کی جان لی جائے گی تو یہ خبر ہو گی۔

یوں مروجہ صحافت کی ابتدا سے ہی خبر اسی طرح بن رہی ہے جس طرح مغربی خبر ساز چاہتے ہیں۔ اسرائیل بھی خبر کی اس مغربی تعریف کا بھر پور فائدہ اٹھاتے ہوئے عربوں کے ان فلسطینی بچوں کو اسی طرح قتل کر رہا ہے اور کاٹ رہا ہے مگر خبر نہیں بن رہی۔

اسی مغربی چلن نے آج ستمبر کی ستم گری کے علاوہ اسرائیل کی ستم گریوں اور اسرائیل کے ہوشیار سرپرستوں کی ستم گریوں کے ساتھ ساتھ ستم پوشیوں کے بارے میں قلم اٹھانے پر مجبور کیا ہے۔

اسرائیل کے ان ہوشیار سرپرستوں میں سے ایک اہم سرپرست یورپی یونین ہے۔ یورپی یونین نے 29 ستمبر کو مارے جانے والے سات سالہ فلسطینی بچے ریان سلیمان کی مظلومانہ ہلاکت کا فوری نوٹس لیا ہے۔

جمعرات کو سات سالہ ریان سلیمان کو ’دہشت گرد‘ سمجھتے ہوئے اسرائیلی فوجی اس کے پیچھے دوڑ رہے تھے۔ اسی دوران دنیا بھر میں امن، مساوات اور انسانی حقوق کی پرچارک طاقتوں کے چہیتے اسرائیل کے فوجیوں کے آگے آگے بھاگنے والے سات سالہ بچے ریان سلیمان کو مبینہ طور پر ’ہارٹ اٹیک‘ ہوا اور اس نے فوجیوں کے سامنے تڑپ تڑپ کر جان دے دی۔

ریان سلیمان کی اس موت کا یورپی یونین نے فوری نوٹس لیا ہے۔ غالب گمان ہے کہ اسرائیل کی مدد میں اور اسرائیل کے حق میں نوٹس لیا ہے۔ تاکہ اس سے پہلے کوئی ایسا فرد، گروہ، ادارہ یا ملک نوٹس نہ لے لے جو واقعی اس معاملے میں حقیقی انسانی بنیادوں پر دلچسپی کا رجحان رکھتا ہو۔

اس لیے یورپی یونین نے جنیوا میں ہونے والے اپنے حالیہ اجلاس کے دوران فٹا فٹ اس معاملے کا نوٹس لیا اور مطالبہ کر دیا کہ اسرائیل اس کی تحقیقات کرے۔ گویا 'وہی ذبح کرے، وہی لے ثواب الٹا‘ والی بات ہو گئی۔ یورپی یونین کی یہ کوشش قاتل کو ہی منصف بنانے کی ہے۔

یورپی یونین کی اسی ہوشیاری نے اس جانب متوجہ کیا کہ یورپی یونین کیا اس قدر سادہ ہے کہ اسی ’عطار کے لونڈے‘ سے دوا لیتی اور مطالبات داغتی ہے۔

اس یورپی یونین کی ’سادگی‘ کو سمجھنے کے لیے پہلے فلسطین میں وقوع پذیر ہونے والے چند واقعات کا تذکرہ کہ ان واقعات کی اسرائیل نے تحقیقات کس طرح کیں اور حاصل وصول کیا ہوا۔

اسرائیلی تحقیقات کا ایک تازہ نمونہ شیریں ابو عاقلہ الجزیرہ سے وابستہ ایک صحافی کے حوالے سے سامنے آیا۔ اسرائیل کی تحقیقات اور ان تحقیقات پر بھروسہ کرنے والے سرپرستوں کی وجہ سے مئی 2022 میں اسرائیلی فوجیوں کے ہاتھوں قتل ہونے والی ابو عاقلہ کا خون بھی خون خاک نشیناں کی طرح رزق خاک ہو چکا ہے۔

اقوام متحدہ کے ایک ذیلی ادارے نے اسرائیلی فوجی کے ہاتھوں دن دیہاڑے ماری جانے والی ابو عاقلہ کے قتل کی تحقیقات کر کے واقعے کا ذمہ دار اسرائیلی فوج کو ہی قرار دیا تھا۔ مگر اسرائیل نے خود تحقیقات کر کے اس معاملے سے صاف طریقے سے بچ نکلنے کی سبیل نکال لی۔

اسرائیل کی اپنی تحقیقات میں یہ کہہ دیا گیا کہ اسرائیلی فوجی کی نیت نہیں ہو گی کہ وہ شیریں ابو عاقلہ کی جان لے۔ ایک ہی جنبش قلم سے ابو عاقلہ کے بہیمانہ قتل کی تحقیقات کا قصہ تمام ہو گیا۔

ان تازہ اسرائیلی تحقیقات کے محض چند ماہ بعد یورپی یونین کا مطالبہ پھر اسی اسرائیل سے ہے۔ کہا جا سکتا ہے جمہوریت کی تعریف کی طرح ’اسرائیل سے تحقیقات، اسرائیل کے لیے تحقیقات اور اسرائیلی تحقیقات‘ ۔۔ یورپی یونین کا فرمانا ہے کہ سات سالہ ریان سلیمان کی موت کی تحقیقات بھی اسرائیل ہی کرے۔

اس سے پہلے کہ اسرائیلی تحقیقات مکمل ہو کر سامنے آ جائیں۔ بائیس سال پہلے ایک بارہ سالہ فلسطینی بچے محمد الدرا کے قتل کی تحقیقات بذریعہ اسرائیل کا احوال سن لیں۔

بائیس سال پہلے کی بات ہے غزہ کا رہائشی بارہ سالہ محمد الدرا اپنے والد کے ساتھ گھر سے باہر گیا تھا۔ والد پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر تھا۔

ایک کار خریدنے کے لیے پونجی جمع کرنے کے بعد اپنے بارہ سالہ بیٹے محمد الدرا کو 30 ستمبر کی صبح لے کر مقامی کار مارکیٹ تک گیا تھا۔ لیکن گاڑی تو قسمت میں نہ لکھی تھی گولی مل گئی۔

الدرا اپنے والد کے ساتھ پسند کی گاڑی نہ ملنے کے بعد ٹیکسی پر واپس گھر آ رہا تھا۔ راستے میں اسرائیلی فوج کی فائرنگ دیکھ کر ٹیکسی ڈرائیور نے وہیں سے لوٹ جانے کا کہہ ک باپ بیٹے کو اتار دیا۔ دونوں باپ بیٹا بچتے بچاتے اور اس فائرنگ کی زد میں آ چکے چوراہے سے نکلنے کی کوشش کرتے رہے، لیکن خود فائرنگ کی زد میں آ گئے اور الدرا کو گولی لگ گئی۔

باپ نے تسلی دی ’کہ فکر نہ کرو ابھی ایمبولنس آجائے گی تو تم ٹھیک ہو جاؤ گے۔‘ الدرا نے اپنے باپ کو تسلی دی ’میں فکرمند نہیں آپ پریشان نہ ہوں، میں ٹھیک ہو جاؤں گا۔‘ مگر ایمبولنس پر ہسپتال پہنچنے سے پہلے ہی الدرا نے اپنے ڈاکٹر باپ کی گود میں جان دے دی۔

بعد ازاں اسرائیلی تحقیقات میں انوکھی فائنڈنگ سامنے لائی گئی کہ ’الدرا کے گولی لگنے اور ہلاک ہونے والی بات ہو سکتا ہے سب کہانی ہو اور اسرائیل کو بدنام کرنے کے لیے گھڑی گئی ہو۔‘

یہ اسرائیلی تحقیقات اس کے باوجود پوری ڈھٹائی کے ساتھ سامنے لائی گئیں کہ فرانس کے ایک ٹی وی چینل کے کیمرہ مین نے محمد الدرا کے آخری وقت اور سانسوں کی فلم بندی کی تھی۔

یورپی یونین نے ریان سلیمان کے حوالے سے بھی اسرائیل کو تحقیقات کی چابی دی ہے۔ جس طرح ایک 13 سالہ فلسطینی بچی ایمان حمص کی اسرائیلی فوجیوں کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد تحقیقات ہوئیں تھیں۔ یہ 2004 کا واقعہ ہے ایمان حمص کو اسرائیلی فوجیوں نے 20 گولیاں ماری تھیں۔

متعلقہ فوجی افسروں نے عدالت کے سامنے بھی یہ تسلیم کیا تھا کہ 13 سالہ فلسطینی بچی ایمان پہلی دو گولیاں لگنے سے ہی مر گئی تھی اور باقی ساری گولیاں اس کی لاش پر چلائی گئی تھیں۔

اسرائیلی افسروں اور فوجیوں کی ڈھٹائی میں درندگی کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے اسرائیلی جج کے سامنے بڑے دھڑلے سے یہ بھی کہہ دیا ’اس فلسطینی بچی کی عمر 13 سال تھی تو کیا ہوا، اگر وہ بچی 3 سال کی بھی ہوتی تو اسی طرح گولی کا نشانہ بناتے۔‘

صہیونی عدالت نے اس جارحانہ اعتراف پر متعلقہ ذمہ دار فوجی افسر کو صرف دو ماہ کی معطلی کی سزا سنائی۔ عدالت سے اتنی معمولی سزا بڑا ستم نہ تھا، ستم یہ کیا گیا کہ اس فیصلے پر نظر ثانی کرنے والی فوجی عدالت نے اس فوجی افسر کی دو ماہ کے لیے معطلی کی سزا بھی ختم کر دی۔

نہ صرف یہ کہ معطلی ختم کی بلکہ 80 ہزار شیکل اس افسر کو ہرجانے کے طور پر ادا کیے گئے۔ فوجی عدالت کے مطابق پہلے والی عدالت نے اس فوجی افسر کو ایک عرب فلسطینی بچی کے قتل کی پاداش میں دو ماہ کے لیے ملازمت سے معطلی کی سزا سنا کر اس کی توہین کی تھی۔ اسے پریشانی سے دوچار کیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یورپی یونین نے اب اسی اسرائیل سے کہا ہے کہ وہ ریان سلیمان کی موت کی تحقیقات کرے۔ بائیس سال پہلے جیسے محمد الدرا کے واقعے اور اب ریان سلیمان کے علاوہ ایک اور واقعہ بھی سامنے کا ہے۔

یہ معاملہ 22 سالہ مہیسا امینی کا ہے۔ وہ ایک کرد ایرانی لڑکی تھی۔ بظاہر پڑھی لکھی تھی اور مغربی ماحول سے متاثر تھی۔ اسی لیے جانتے بوجھتے ننگے سر بازار میں نکلی تھی کہ ملکی قانون کیا کہتا ہے؟

مہیسا امینی کو ایرانی پولیس نے گرفتار کر لیا اور بعد ازاں محض دو سے تین گھنٹوں کے دوران پولیس نے قرار دے دیا کہ اس کی موت دل کا دورہ پڑنے سے ہو گئی ہے۔ بلاشبہ یہ ایک تکلیف دہ واقعہ تھا۔

ایک جوان لڑکی کی اس طرح موت کسی کے لیے بھی قابل قبول نہیں ہو سکتی۔ الا یہ کہ کوئی اسرائیلی فوجی افسر ہوتا اور یہ کہہ دیتا کہ بائیس سال کی لڑکی تھی تو کیا ہوا دو سال کی بھی ہوتی تو اسی طرح مار دیتے۔

لیکن سوال یہ ہے کہ پورے یورپ اور یورپی ذرائع ابلاغ سے لے کر مغربی سرمایہ سے چلنے والی این جی اوز تک ہر کسی نے کسی قسم کی تحقیقات کی ضرورت سمجھی نہ ایران سے کہا کہ وہ تحقیقات کرائے بلکہ ایران پر اور اس کی حکومت پر سولہ ستمبر سے ہر طرف سے ایک یلغار کا ماحول ہے۔

مغربی دنیا اور اس کے ’آف شوٹس‘ کی طرف سے غم وغصہ بھی ہے، انتقام بھی ہے اور سیاسی ایجنڈا بھی۔ اس کے برعکس اسرائیل کے بدترین ماضی، بدترین طرز حکومت اور بدترین جارحانہ انداز کے باوجود یورپی یونین نے سادگی کے ساتھ اسرائیل سے ہی تحقیقات کرنے کا مطالبہ کر دیا ہے۔

یہ دوہرا معیار، یہ دوغلی پالیسی اور دوہرا انصاف بلاشبہ ردعمل کو جنم دیتا ہے۔ یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ یورپ اور امریکہ نے اسرائیل کو ایک ’ابنارمل‘ ریاست ہونے کے باوجود اپنا چہیتا بنا کر ’لائسنس ٹو کل‘ دے رکھا ہے۔

حد یہ ہے کہ اسرائیل کے علاوہ پوری دنیا کے ملکوں کی حکومتوں، جمہوریتوں کے کیڑے نکالے جاتے ہیں۔ ریاستی جبر کا مسئلہ عالمی سطح پر اٹھایا جاتا ہے۔ مگر گلی محلے اور چوک چوراہے تک اسرائیلی فوج کی موجودگی پر کبھی کسی نے آواز نہیں اٹھائی۔ کوئی نہیں پوچھتا اسرائیل میں یہ فوجی ریاستی نظام مارشل لا ہے، آمریت ہے، فسطائیت ہے یا لاٹھی گولی کی نسل پرستانہ سرکار؟

البتہ یوکرین کے بعض علاقوں پر روس کے حالیہ قبضے اور روسی جارحیت کے حوالے سے یہ سمجھ ضرور آئی ہے کہ امریکہ اور یورپی ممالک ناجائز قبضوں اور انسانی حقوق کے ایشوز کو محسوس کرتے اور اچھی طرح سمجھتے ہیں۔

 نہیں سمجھتے تو صرف اسرائیل کے حوالے سے نہیں سمجھتے۔ اسی لیے یوکرین کی زمین، یوکرین کے لوگوں، یوکرین کے بچوں، یوکرینی عورتوں کے حوالے سے یورپ اور امریکہ بشمول نیٹو ارکان کی اپروچ  قطعی مختلف ہے۔

یوکرینیوں کے خلاف روسی جارحیت اور قبضے پر سب ایک کورس کی صورت ایک دوسرے کے ساتھ اپنی آواز ملا رہے ہیں۔ جب یہی توقع  اسرائیل کے فلسطینی سرزمین پر قبضے، فلسطینیوں کی آئے روز زمین چھیننے کی حکمت عملی، ہر روز صبح شام اسرائیلی فوج کی فلسطینیوں پر جارحیت کے خلاف کی جاتی ہے تو یورپی دنیا امریکی قیادت میں ضمیر سمیت خواب خرگوش کے مزے لیتی نظر آتی ہے۔

 اسرائیل کے خلاف کوئی خفگی ظاہر کرتا ہے نہ غصے میں آتا ہے۔ صرف اس لیے کہ  اسرائیل یورپ اور امریکہ کا لاڈلا بچہ ہے۔ ’ابنارمل بےبی‘ ہونے کے باوجود اور اس کی ’ابنارمل‘ حرکتوں کے باوجود، اصرار کیا جاتا ہے کہ اس کے ساتھ ہر طرف سے نارمل تعلقات اور سلوک کا اہتمام کیا جائے۔

یہ مطالبہ اور دباؤ ان عربوں کے لیے ہے جن کے بچے اسرائیل کے ہاتھوں آئے روز قتل ہو رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ برطانوی وزیر اعظم ونسٹن چرچل کا ملک صرف انصاف کے ساتھ ہی باقی رہ سکتا تھا تو موجودہ عالمی نظام انصاف کے بغیر کیسے اور کب تک چلتا رہے گا؟

نوٹ: یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے پر مبنی ہے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ