فلسطینی عشق ممنوع اور اسرائیلی قانون سازی

اسرائیلی پارلیمنٹ کی عدم موجودگی میں نئے امتیازی میکانزم کو قانون کا نام دینے پر انصاف پسند دنیا میں کوئی اسرائیل سے سوال کرنے والا باقی نہیں رہا۔

سات دسمبر 2017 کی اس تصویر میں اسرائیلی فوج کے اہلکار فلسطینی علاقوں کو اسرائیل کے زیرقبضہ علاقوں سے الگ کرنے والی دیوار کے قریب کھڑے دیکھے جا سکتے ہیں(اے ایف پی)

ایک طرف عالمی طاقتیں ہیں کہ اسرائیل کو اپنا ایک ’نارمل بے بی‘ منوا کر اس کے ساتھ دنیا کے سبھی ممالک کے بالعموم اور عرب ممالک کے بالخصوص ’نارمل تعلقات‘ قائم کرانے کے لیے کوشاں ہیں۔ جبکہ دوسری جانب اسرائیل ہے جو اپنے فیصلوں اور اقدامات سے اپنے آپ کو آج بھی ایک ’ابنارمل ریاست‘ ثابت کرنے پر مصر نظر آتا ہے۔

اس سلسلے میں اسرائیل کی تازہ واردات قانون کی آڑ میں ہے۔ یہ قانون فلسطینیوں کے علاوہ انہی ملکوں خصوصا عرب ملکوں کے شہریوں اور نوجوانوں کے خلاف بروئے کار لایا جانا ہے جن کے ساتھ ان دنوں معاہدہ ابراہم کے تحت ’نارملائزیشن‘ کا عمل امریکی ایڈمنسٹریشن نے تیز تر کر رکھا ہے۔

اسرائیل کا یہ نیا قانون درحقیقت ایک ایسی کوشش ہے کہ جس کا مقصد عرب اور مسلم دنیا سے نارملائزیشن کے مراحل طے ہونے کے بعد بھی ان ملکوں کے شہریوں کی اسرائیل آمد اور فلسطینیوں کے ساتھ میل ملاقات کو روکنا ہے۔

دنیا کی معروف انسانی حقوق کی تنظیموں اور بین الاقوامی قوانین کے ماہرین اسرائیل کے اس نئے قانون کو ’بین الاقوامی قوانین کے منافی، یک طرفہ، امتیازی اور غیر انسانی‘ قرار دے چکے ہیں۔

حتیٰ کہ یہودی حقوق کی تنظیم ’ہموکیڈ‘ نے بھی اس قانون کی مخالفت کی ہے اور اس قانون کے ان حصوں کو تبدیل کرانے میں کامیاب رہا ہے جن کی زد کسی بھی صورت میں یہودیوں کی اسرائیل میں آمد ورفت اور قیام پر پڑ سکتی تھی۔

 نیا اسرائیلی قانون اس لیے بھی ایک واردات سے کم نہیں کہ قابض اسرائیلی حکام اسے ایسے وقت میں نافذ کرنا چاہتی ہے جب اس کے عرب دنیا کے ساتھ تعلقات میں بہتری کی امید ہے۔

اسرائیل چاہتا ہے کہ عربوں کے ساتھ دو طرفہ تعلقات نارمل ہونے کے باوجود، آسان ہونے والی دو طرفہ آمد و رفت پر اسرائیل پہلے سے قدغن لگا سکے۔

فلسطینیوں کے حق وطن واپسی کو تسلیم نہ کرنے والا اسرائیل یقیناً کسی صورت یہ نہیں چاہے گا کہ اس کے زیر قبضہ علاقوں میں فلسطینیوں کے دوست اور برادر عرب شہری آزادانہ آ سکیں۔

 مزید یہ کہ وہ نارملائزیشن کے اس عمل کے کسی بھی گوشہ سے ’مستفید‘ بن سکیں اور اسرائیل کی ڈیموگرافی تبدیل کرنے کی حکمت عملی کسی بھی سبب متاثر ہو سکے۔

اسرائیل کو ایک خوف یہ بھی ہے کہ اس نے فلسطینی عوام کو جس طرح ہر بنیادی حقوق سے محروم کر کے عملاً ایک کھلی جیل میں ڈال رکھا ہے، اس کے براہ راست مناظر آگاہ ہو سکیں اور پھر سوشل میڈیا کے ذریعے یہ دنیا کے سامنے تواتر سے آنے لگیں۔

اس کے ساتھ ساتھ اسرائیل نے ایک طرف بیرون ملک سے لا کر آباد کیے جانے والے رنگ برنگے یہودیوں کی ان بستیوں میں توسیع کی مہم کو تیز کر رکھا ہے، جو بستیاں عالمی اداروں اور بین الاقوامی قوانین کی نظر میں ناجائز ہے۔

توسیعی مہم کے لیے فلسطینیوں کے گھروں کی مسماری اور ان کی زمینوں پر قبضے کے مظاہر صبح شام مقبوضہ فلسطینی اور عرب علاقوں میں دیکھنے کو ملتے رہتے ہیں۔ ان مناظر میں اسرائیلی فوج بین الاقوامی قوانین کی پرواہ کیے بغیر ہر روز جگہ جگہ فلسطینیوں کے گھروں میں زبردستی گھس کر توڑ پھوڑ کرتی ہے۔

نیز اسرائیلی قابض اتھارٹی کو ان مکانات کی مسماری کے لیے حفاظتی کور فراہم کرتی ہے۔ اسرائیلی فوج کی یہ کارروائیاں اجنبی اور حیران کن نہیں ہیں کہ یہ اس کی روز مرہ کی مصروفیات کا ایک اہم فیچر بن چکی ہیں۔

تاہم یہ کارروائیاں دیکھ اور سن کر تاریخ کے ان اوراق پر نظر ضرور چلی جاتی ہے کہ اسرائیلی فوج کی تشکیل یہودی دہشت گرد گروپوں کے ’وار لارڈز‘ اور ’گینگسٹرز‘ کے ذریعے ممکن ہوئی تھی ۔

اس ناطے کہا جاسکتا ہے کہ معصوم اور بے گناہ لوگوں پر ظلم ، جبر اور دہشت گردی کی حد تک پہنچا ہوا تشدد عالمی طاقتوں کے اس ’نارمل بےبی‘ کے جینز میں شامل ہے۔

صرف یہی نہیں بلکہ اسرائیل کے قانون سازی اور عدالتی فیصلوں میں بھی ان جینز کا اثر بار ہا محسوس ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیلی قابض اتھارٹی مذکورہ بالا قانون مسلط کرنے میں بہت عجلت میں دکھائی دیتی ہے۔ یہ بھی پروا نہیں کہ اسرائیل کی پارلیمنٹ ان دنوں موجود نہیں ہے۔

ایک عبوری نگران حکومتی سیٹ اپ بروئے کار ہے، جس کے پاس حکومت کرنے کا ’لولا لنگڑا‘ عوامی مینڈیٹ بھی موجود نہیں ہے۔

ایک طرف اسرائیل اس قانون کو مسلط کرنے میں بہت تیزی میں ہے کہ اس کے ہاں عرب دنیا یا مسلم ممالک سے لوگوں کی آمد و رفت کا رستہ آسان نہ رہے تو دوسری طرف وہ ’نارملائزیشن‘ کے رشتے میں منسلک ہو چکے یا ہونے والے، ممالک کے ساتھ سفارتی، مواصلاتی اور تجارتی روابط میں تیزی سے فروغ چاہ رہا ہے۔

ان ملکوں سے اسرائیل اپنی کمپنیوں کو ٹھیکے دلوانے اور روپیہ کمانے میں پوری طرح سہولت فراہم کر رہا ہے۔ لیکن یہ چیزیں ہماری ان معروضات کا فی الحال موضوع نہیں ہیں۔ صرف وہ قانون ہے جسے اسرائیل ماہ فروری سے ناٖفذ کرنے کے کی کوشش میں ہے۔

امریکی صدر جو بائیڈن کے رواں سال ہونے والے دورہ مشرق وسطیٰ سے بہت پہلے ماہ فروری میں ہی اسرائیل نے اس نئی قانونی واردات کو رو بہ عمل لانے کی کوشش کی تھی۔ یقیناً جو بائیڈن کے مشرق وسطی پہنچنے سے کئی ماہ پہلے بین الملکی سطح پر رابطوں میں معاملات آگے بڑھ رہے تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے زمانے میں ہونے والے معاہدہ ابراہم کے تحت اسرائیل کے لیے نئی خوشخبریوں کے دروازے کھل رہے تھے۔ یوں پیش بندی کے طور پر یہ قانون نافذ کرنے کی ایک کوشش ماہ فروری میں کی گئی مگر انسانی حقوق کی تنظیموں کے شور مچانے سے معاملہ التوا میں چلا گیا۔

بین الاقوامی سطح پر انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کے ساتھ ساتھ یہودی حقوق گروپس بھی اس قانون کے بارے میں تحفظات کے ساتھ سامنے آئے۔ البتہ یہودی حقوق گروپ کی سرگرمیاں اور کوششیں فلسطینیوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ہر گز نہیں تھیں بلکہ ان کا مقصد یہودیوں کے مفادات کا تحفظ تھا۔

’ہموکیڈ‘ نامی یہودی حقوق کی تنظیم نے اس معاملے میں نہ صرف آواز اٹھائی بلکہ اس قانون کے خلاف اسرائیلی سپریم کورٹ سے بھی رجوع کیا۔ بلاشبہ سپریم کورٹ سے رجوع کا مقصد صرف اور صرف یہودیوں کے حقوق کے تحفظ اور انہیں اس نئے قانون کے مضمرات سے بچانے کے لیے تھا۔

اسرائیلی سپریم کورٹ نے اس قانون کا تفصیلی جائزہ لیا۔ اسی جائزے کے بعد بعض ترامیم بھی سامنے آئی ہیں، جس کے نتیجے میں مقبوضہ مغربی کنارے میں یہودیوں کی آمد و رفت، رہائش و قیام میں قدغنوں کے نہ ہونے کو یقینی بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔

 دنیا بھر کے یہودیوں کے لیے اسرائیلی کی پالیسی ان معنوں میں پہلے ہی غیر معمولی طور پر فراخدلانہ ہے کہ ہر یہودی کے لیے اسرائیل کے دروازے کھلے ہوئے ہیں۔ امریکہ اور یورپی ممالک کے یہودیوں کی غالب اکثریت اسرائیلی شہریت کی بھی حامل ہے۔

علاوہ ازیں ان ممالک کے شہریوں کو بغیر ویزے کے اسرائیل میں داخلے کی سہولیات بھی موجود ہیں اور پہنچنے پر ویزے کی بھی۔ تاہم ’ہموکیڈ‘ اور اسرائیلی سپریم کورٹ نے یہ ضروری سمجھا کہ پھر بھی اطیمنان کریں کہ کسی یہودی کی اسرائیل آمد میں کوئی رخنہ آئے نہ بد مزگی کا امکان پیدا ہو۔

’ہموکیڈ‘ کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر جیسیکا مونٹیل کا یہ کہنا اہم رہا ’نئے قانون کا مقصد خاندانی اتحاد کو کمزور کر کے فلسطینی آبادی کی ترقی کو محدود کرنا ہے۔ مگر یہودیوں کے حق میں آبادیاتی توازن کو ہر قیمت پر برقرار رکھا جانا چاہیے، چاہے اس کا مطلب بین الاقوامی قوانین اور کنونشنوں کی خلاف ورزی ہو۔‘

نئے قانون میں ایک شق رکھنے کی وجہ تو فلسطینیوں اور ان کے رشتہ داروں کی مغربی کنارے آمد کو روکنے اور ناواجب طور پر ان کے نجی معاملات میں گھسنے کی تھی۔

مگر بعد ازاں اسرائیلی ماہرین اور ’ہموکیڈ‘ کی طرف سے نشاندہی پر یہ احساس ہوا کہ اس شق سے فلسطینیوں یا مسلمانوں پر نہ ہونے کے برابر اور یہودیوں پر سب سے زیادہ اثر ہو گا ۔

لہٰذا نئے مسودہ قانون سے یہ شق نکال دی گئی ہے۔ اس شق کے تحت لازم قرار دیا گیا گیا تھا کہ مغربی کنارے میں آ کر قیام کرنے والے کو یہاں اپنے ممکنہ رومانوی تعلقات اور شادی سے پہلے کی شناسائیوں کی تفصیلات اسرائیلی قابض حکومت کے ساتھ شئیر کرنا ہوں گی۔

لا محالہ اس کا اثر امریکہ اور یورپی ممالک سے اسرائیل میں کام کے لیے آنے والے یہودیوں پر ہی آنا تھا۔ ’ہموکیڈ‘ یہ شق ختم کروانے میں کامیاب رہی۔ اگر یہ شق برقرار رہتی تو یہودی آبادی کی نجی کہانیاں آئے روز مقامی میڈیا کی زینت بن سکتی تھیں اور یہودی آباد کاروں کے اخلاقی دیوالیہ پن کے اظہار کا ایک اور راستہ کھل جانا تھا۔

یہودیوں کے تحفظات دور کرنے کے باوجود فلسطینیوں اور عربوں یا مسلمانوں کی مقبوضہ مغربی کنارے آمد پر مختلف قسم کی امتیازی قدغنیں اب بھی باقی ہیں۔

اب یہ قانون 20 اکتوبر 2022 سے نافذ ہو جائے گا۔ اس کے قانون بننے کا طریقہ کیا رہا، اسمبلی کی عدم موجودگی میں نئے امتیازی میکانزم کو قانون کا نام اور درجہ کیسے دیا جا سکا، اس متبادل طریقے سے قانون سازی کی حیثیت کیا ہے۔

 ان سب سوالوں کے جواب کوئی اسرائیل سے مانگنے والا نہیں ہے۔

انسانی حقوق کے لیے غیر معمولی طور پر سرگرم نظر آنے والے بعض بڑے ملکوں کے دفاتر خارجہ بھی اس طرز کے قانون پر خاموش ہیں۔ انہیں اس انداز کی قانون سازی پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔

گویا عرب اور مسلم دنیا کے ساتھ تعلقات کی ’نارملائزیشن‘ کی ساری کوششوں کی کامیابی کے بعد اسرائیل کے ’نارمل بے بی‘ بننے میں سب سے بڑی رکاوٹ خود اسرائیل ہے۔

پس نوشت یہ خبر آئی ہے کہ اسرائیل نے فلسطینی نژاد امریکی خاتون صحافی شیریں ابو عاقلہ اسرائیلی فوج کے ہاتھوں قتل کی اسرائیلی فوج نے دوبارہ تحقیقات کی ہیں۔

 ان تحقیقات کے بعد رپورٹ میں بھی تقریبا وہی موقف سامنے آیا ہے جو اس سے پہلے اسرائیلی حکام یا امریکہ موقف اختیار کر چکا ہے کہ اسرائیلی فوجیوں نے جان بوجھ کر ابو عاقلہ کو ہرگز فائرنگ کا نشانہ نہیں بنایا ہو گا۔

11 مئی کو جس طرح اسرائیلی فوج نے ابو عاقلہ کو ایک پناہ گزین کیمپ پر اپنے چھاپے کے دوران سیدھی گولی کا نشانہ بنایا تھا اس کے بارے میں اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے کی رپورٹ پہلے ہی سامنے آ چکی ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ اور اسرائیل کی نئی تحقیقاتی رپورٹ میں بھی فرق ہے۔

کیا کسی بھی ذی ہوش اور باشعور انسان کے لیے ممکن ہے کہ وہ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مقابلے میں اسرائیل کی تحقیقاتی رپورٹ کو زیادہ قابل بھروسہ کہہ سکے۔

ملزم ہی کے منصف بن جانے کی روایت صرف جنگل میں ممکن ہے۔ اسرائیل نے اپنے ہاں اسی انداز انصاف کو رائج کر رکھا ہے۔ ابو عاقلہ کی دنیا سے رحلت سے لے کر اب سامنے آنے والی تازہ اسرائیلی رپورٹ بھی جنگل کے قانون کی ہی چغلی کھا رہی ہے۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ