پاکستان انڈیا جنگ خطرناک حد تک بڑھنے کی صلاحیت رکھتی تھی: اسحٰق ڈار

پاکستان کے نائب وزیر اعظم اور وفاقی وزیر خارجہ اسحٰق ڈار نے بدھ کو حالیہ انڈیا پاکستان سرحدی جھڑپوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’92 گھنٹوں میں انڈیا پاکستان جنگ بہت زیادہ خطرناک سطح تک بڑھنے کی صلاحیت رکھتی تھی۔‘

اسحاق ڈار آٹھ جون، 2023 کو اسلام آباد میں پریس کانفرنس کر رہے ہیں (اے ایف پی)

پاکستان کے نائب وزیر اعظم اور وفاقی وزیر خارجہ اسحٰق ڈار نے بدھ کو حالیہ انڈیا پاکستان سرحدی جھڑپوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’92 گھنٹوں میں انڈیا پاکستان جنگ بہت زیادہ خطرناک سطح تک بڑھنے کی صلاحیت رکھتی تھی۔‘

2025 کا انڈیا پاکستان تنازعہ ایک مختصر مسلح تنازعہ تھا جو سات مئی کو شروع ہوا، جب دہلی نے پڑوسی پر میزائل حملے شروع کیے، جس کو آپریشن سندور کا نام دیا گیا۔

انڈیا نے پاکستان پر سرحد پار دہشت گردی کی حمایت کا الزام لگایا، جس کی اسلام آباد نے تردید کی۔

انڈین حملوں کے بعد پاکستان نے اس کا مؤثر جواب دیا اور خیال کیا جاتا ہے کہ ان سرحدی جھڑپوں میں انڈیا کو زیادہ جانی اور مالی نقصان ہوا۔

اسلام آباد میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ یہ سب ایک بڑی بدنیتی ہے جس میں ریاستوں نے بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے مقاصد اور اصولوں کو نظر انداز کرتے ہوئے تنازعات کے حل کے لیے طاقت کے استعمال کا سہارا لیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ جنوبی ایشیا میں استحکام کو مختلف قسم کے خطرات کا سامنا ہے اور اسی لیے اس خطے میں کثیرالجہتی اس وقت ’حملے کی زد میں‘ ہے۔

کثیرالجہتی سے مراد تین یا دو سے زیادہ ممالک کے درمیان مشترکہ چیلنجوں کو تعاون، مشاورت اور مشترکہ اصولوں کے ذریعے حل کرنے کے لیے اجتماعی کارروائی کا اصول ہے۔

اسحٰق ڈار نے کہا کہ ’کثیرالجہتی پر حملہ ہو رہا ہے اور عالمی حکمرانی کے اداروں کو اکثر یک طرفہ تحریکوں سے چلنے والی چند ریاستوں کی کوتاہی اور کمیشن کے لیے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔‘

انہوں نے خطے میں تعاون کی ضرورت پر زور دیا۔ 

نائب وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ’ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز، بین الاقوامی دہشت گردی اور ہائبرڈ جنگ، بشمول غلط معلومات کی مہمات، استحکام کو چیلنج کرتی رہیں۔‘

اسحٰق ڈار نے نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ ’بڑی طاقت کا مقابلہ ہمارے دور کی ایک واضح خصوصیت ہے‘، جس میں فوج، ٹیکنالوجی، تجارت، ٹیرف اور وسائل کی مسابقت شدت اختیار کر رہی ہے۔

تاہم نائب وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان نے ’بلاک سیاست اور صفر کے حساب سے نقطہ نظر کی مخالفت کی اور مسلسل تصادم کی بجائے تعاون کی ضرورت پر زور دیا۔

’ہم نے ہمیشہ بات چیت اور سفارت کاری، تنازعات کے پرامن حل اور بین الاقوامی تعاون اور یکجہتی کی ناگزیریت پر زور دیا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ 2025۔26 کے دوران اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے منتخب رکن کے طور پر پاکستان ’بین الاقوامی امن اور سلامتی کو فروغ دینے کے لیے ہراول دستے کی کوششوں میں مصروف تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جنوبی ایشیا کے بارے میں بات کرتے ہوئےانہوں نے کہا کہ خطہ ایک پیچیدہ سکیورٹی ماحول کا حامل ہے کیونکہ اس میں ’پیچیدہ تعلقات کے ساتھ تین جغرافیائی طور پر متصل جوہری طاقتیں‘ شامل ہیں۔ یہ پاکستان، انڈیا اور چین کا واضح حوالہ ہے۔

’بڑی علاقائی ریاستیں دنیا کی سب سے بڑی مسلح افواج پر فخر کرتی ہیں۔ وہاں روایتی اور جوہری ہتھیاروں کی مسلسل تعمیر اور غیر مستحکم ہتھیاروں کے نظام کو باقاعدہ شامل کیا جا رہا ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’جوہری ماحول میں جنگ لڑنے کے کچھ خطرناک تصورات کی وجہ سے دیگر چیزوں کے علاوہ سٹریٹجک استحکام نازک ہے۔‘

ان کا افسوس کا اظہار کیا کہ پائیدار امن گذشتہ 78 سالوں سے جنوبی ایشیا سے دور رہا ہے۔

’وسائل کی تقسیم پر تنازعات بڑھ رہے ہیں، خاص طور پر دریائی پانیوں پر۔‘

اس کی مثال اس سال اپریل میں سندھ آبی معاہدے پر انڈیا کے غیر قانونی اور یکطرفہ اعلان سے ملتی ہے۔

اسحٰق ڈار نے کہا ’بڑے پیمانے پر بین الریاستی اختلافات ہیں اور جموں اور کشمیر جیسے کچھ دیرینہ حل نہ ہونے والے سیاسی تنازعات خطے میں امن اور استحکام کو خطرہ بنا رہے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ انتہا پسند نظریات، سیاسی پاپولزم، جمہوری پسپائی اور اسلام فوبیا کا عروج ’دنیا پر منفی اثر ڈال رہا ہے اور بے مثال طریقوں سے ہلچل کا باعث بن رہا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ عالمی معاشی منظر نامہ تبدیل ہو رہا ہے، جنوبی ایشیا میں موسمیاتی تبدیلی اور غذائی قلت کے چیلنجز سنگین ہوتے جا رہے ہیں، درجہ حرارت میں اضافے اور سیلابوں کے معیشت پر تباہ کن اثرت مرتب ہو رہے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا