ستمبر فلسطینیوں کے لیے بار بار ستمگر ثابت ہوا

فلسطینی اسی ستمگری کے باوجود پھر سے عزم کا اعادہ کرتے نظر آرہے ہیں کہ ان کے عزم اور حوصلے کو ستمبر کی ستمگری کمزور نہیں کر پائی ہے۔

غزہ شہر میں یونائیٹڈ نیشنز ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی کے ہیڈکوارٹرز کے باہر 19 ستمبر کو احتجاج کرنے والا ایک فلسطینی نعرے بازی کر رہا ہے جبکہ پس منظر میں بھڑکتی آگ دکھائی دے رہی ہے (اے ایف پی)

ستمبر کے مہینے کے ساتھ وطن عزیز میں ایسی گرمی کی شدت منسوب ہے، جس میں حبس کا عالم یہ ہوتا ہے کہ حبس بے جا کہنے کو دل چاہتا ہے۔ اسی ستمبر میں سیلاب اور اس کے اثرات و مصائب عروج پر ہونے کی وجہ سے اذیت، تباہی و بربادی کی شکل میں ایک اور عذاب اہل وطن پر مسلط ہو جاتا ہے۔

سیاسی اعتبار سے دیکھا جائے تو معاشی بدحالی کی ماری ہوئی قوم ہونے کی وجہ سے بجٹ کی منظوری کے بعد ستمبر ہی نئے سرے سے سیاسی افراتفری کے نئے طوفانوں کا نکتہ آغاز بنتا ہے۔ اس لیے سیاسی پنڈت ستمبر کو ستمگر کا نام دے کر اس کی خطرناکی کا احاطہ کرتے ہیں۔

مگر فلسطین اور فلسطینی عوام کے لیے ستمبر کی ستمگری کی تاریخ زیادہ المناک، گھناؤنی اور خوفناک ہے۔

فلسطینی عوام اور سرزمین فلسطین کے خلاف ستمبر میں ستمگری کسی ایک کی طرف سے نہیں ہوتی رہی۔ اس ستمگری کے کردار مختلف رہے ہیں۔ ان میں اپنے بھی اور بیگانے بھی اپنے اپنے انداز سے حصہ ڈالتے رہے ہیں۔

یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے، اس لیے ستمبر کی ستمگری کے زخم بار بار تازہ ہو کر فلسطینیوں کے لیے رنج کا باعث بنتے ہیں۔

فلسطینی عوام کے لیے ستمبر کی ستمگری کی تاریخ میں سازش بھی ہے، غداری بھی، سنگدلی بھی، مکاری و عیاری سب شامل ہیں۔ فلسطینیوں کے لیے ستمبر انسان کشی اور برادر کشی کا بھی حوالہ بن چکا ہے۔

خود غرضی کے خمیر سے اٹھائے گئے عالمی نظام کا تعفن بھی جگہ جگہ فلسطین اور فلسطینی عوام کے خلاف اسرائیل کی صورت دھماکہ خیزی کے ساتھ جبر آزما نظر آتا ہے۔

اس میں کیمپ ڈیوڈ معاہدہ بھی شامل ہے جو ماہ ستمبر میں ہی کیا گیا تاکہ مصر سے اسرائیل کے لیے رعایتیں ممکن بنائی جائیں اور فلسطینی عوام کو اسرائیل کے مقابل یکتہ و تنہا کرنے کا ہدف بتدریج حاصل کیا جا سکے۔

کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے بعد اسرائیلی قابض فوج کے لیے فلسطینیوں اور ان کے پناہ گزین کیمپوں پر قیامت ڈھانا اور آسان ہو گیا۔

اوسلو معاہدہ بھی ہے اور 1993، 1994 کے دوران ہونے والے معاہدے بھی بعد ازاں اسی سلسلے کی کڑیاں ثابت ہوئے۔

یہ سب معاہدات بظاہر امن کے قیام کے لیے کیے جاتے اور بتائے جاتے رہے کہ ان کے بعد سب اچھا ہو جائے گا اور ہر طرف نارملائزیشن کا دور دورہ ہو جائے گا۔ خطے کے لیے استحکام و ترقی کی راہیں کھلیں گی اور راوی چین ہی چین لکھے گا۔

مگر ان معاہدات کی اساس بدنیتی ثابت ہوتی رہی کیوں کہ حقیقی ہدف فلسطین دشمنی اور اسرائیل نوازی کے سوا کچھ نہ تھا، لیکن یہ سب معاہدے حکمرانی کی ہوس کے مارے عرب حکمرانوں اور قائدین کے بغیر مکمل نہ ہو سکتے تھے۔

معاہدہ کیمپ ڈیوڈ سمیت ان سب معاہدوں کی کوکھ سے فلسطینی عوام اور مقبوضہ فلسطین کے لیے نئی آتش و آہن کی قیامتیں جنم لیتی رہیں اور ستمبر کا مہینہ اہل فلسطین کے لیے عالمی امن کے ٹھیکیداروں کے سفلی منصوبوں کو آگے بڑھانے کا موقع بنتا رہا۔

گویا امریکی کوششوں اور اسرائیلی ضرورتوں کی بنیاد پر یہ معاملہ معاہدہ ابراہم تک اچانک نہیں پہنچا۔ اس کے لیے پچھلی کئی دہائیوں سے کوششیں جاری تھیں۔ مصری صدر انوار السادات نے اس کے لیے امریکی کوششوں کو کامیاب کروانے میں مدد دینے کا فیصلہ کیا اور امریکی صدر جمی کارٹر کے دور میں کیمپ ڈیوڈ کے نام سے یہ معاہدہ عمل میں آیا۔

اس معاہدے کو مشرق وسطیٰ میں امن کے فریم ورک (لائحہ عمل) کا نام دیا گیا۔ یہ اس دور کی ’نارملائزیشن‘ کی ایک کوشش ہی نہیں تھی بلکہ حقیقت ہے کہ یہ خطے میں اسرائیل کی قبولیت کی پہلی سند تھی، جس کا اہتمام امریکہ نے عرب قوم پرستی کے سب سے بڑے ستون سمجھے جانے والے مصر کے توسط سے کیا۔

چونکہ امن کے لائحہ عمل کے نام پر کی جانے والی ان کوششوں کو معاہدے کی شکل کیمپ ڈیوڈ میں ملی، اس لیے اسے کیمپ ڈیوڈ معاہدے کا نام دیا گیا۔

اسرائیل کے حق میں ایک بڑی پیش رفت اسی معاہدے کی صورت میں ہوئی کہ اس کے پڑوس میں موجود کسی بڑے ملک کے ساتھ اس کا پہلا باضابطہ معاہدہ تھا، جس نے اسرائیل کو ایک مستند ریاست کے طور پر آگے بڑھانے میں کردار ادا کیا۔

اس معاہدے کے بعد فلسطینی عوام کے خلاف اسرائیلی و صیہونی عزائم شدید تر ہوتے گئے، کیونکہ اسرائیل کو برادران یوسف کی سرزمین سے تعاون مل چکا تھا۔ فلسطینی عوام کے لیے یہ ایسا دھچکہ تھا کہ جس کی مثال اس سے پہلے موجود نہ تھی۔

ایک طرف اسرائیل کو تعاون، سہارا اور ساتھ فراہم کرنے کی یہ کامیاب کوشش تھی تو دوسری جانب فلسطینی عوام کو بے یار و مددگار، بے سہارا اور تنہا کر دینے کی بھی یہ ایک مکمل اور بھرپور سازش تھی۔ یہ سازش کافی حد تک کامیاب رہی۔

اسی سبب صبرا اور شتیلہ کے فلسطینی پناہ گزین کیمپ پر قیامت صغریٰ بپا ہوئی کہ اب اسرائیل کی راہ میں مصر جیسا بڑا ملک بھی رکاوٹ نہ رہا تھا۔ صبرا اور شتیلہ کا سانحہ بھی اسی ماہ ستمبر میں پیش آیا۔

اسرائیل کے سابق آرمی چیف اور وزیر دفاع ارئیل شیرون کو خود اسرائیل کے قائم کردہ تحقیقاتی کمیشن نے قصور وار قرار دیا اور اسرائیل بالواسطہ طور پر صبرا اور شتیلہ کے کیمپوں میں ظالمانہ قتل و غارت گری کا ذمہ دار قرار دیا گیا۔

تاریخ کے پاس جہاں برصغیر کے جلیانوالہ باغ کے سانحے کو بھلانے کا حوصلہ نہیں ہے، وہیں عرب دنیا میں صبرا اور شتیلہ کے کیمپوں پر بیتنے والی قیامت کو تاریخ کے سیاہ ترین ابواب سے کوئی نکال نہیں سکے گا۔

یہ اسرائیل کے لیے رعایتیں دلوانے کے لیے ممکن بنائے گئے پہلے اہم معاہدے کیمپ ڈیوڈ کا فطری حاصل تھا۔ بے یار ومددگار، بے سہارا اور تنہا کر دیے جانے کے راستے پر جن فلسطینی عوام کو کیمپ ڈیوڈ کا معاہدہ ڈال چکا تھا، اس راستے میں صبرا و شتیلہ کا سانحہ محض ایک سنگ میل تھا۔ اس کے بعد بھی کئی خونی موڑ آگے موجود تھے۔ یہ سانحہ فلسطینی عوام کے حوصلے تو کمزور نہ کر سکا مگر بوڑھی قیادت کو مزید ضعیف کر گیا جسے بالآخر اوسلو معاہدے کے لیے بہت نیچے تک جھک جانا پڑا۔

اسی ستمبر ستمگر کے دوران ہی اگلے برسوں (1993) میں اوسلو معاہدے کا جنم ہو گیا۔ اوسلو معاہدہ اسرائیل کے حق میں اور فلسطینیوں کے خلاف ایک اور خوفناک چال ثابت ہوا۔

اس معاہدے کے بعد گذشتہ 30 برسوں میں فلسطینی عوام مسلسل قتل و غارت گری، زمینوں پر اسرائیلی قبضوں، مقدس مقامات کی بے حرمتی، فلسطینیوں کے گھروں کی مسماری اور ناجائز یہودی بستیوں کی تعمیر و توسیع کے نہ ختم ہوتے سلسلے کی زد میں آ چکے ہیں۔

اوسلو کے ذریعے ایک کمزور و نحیف سی بلدیہ نما فلسطینی اتھارٹی تو قائم کر دی گئی، مگر عملاً سرزمین فلسطین، مقدس مقامات اور فلسطینیوں کے حقوق اور تحفظ کے لیے کردار ادا کرنا اس کے لیے ممکن نہ رہنے دیا گیا۔  یہ محض اسرائیلی سہولت کاری کا نمائشی فلسطینی ادارہ بن کر رہ گئی۔

اوسلو معاہدے کے ذریعے ہی فلسطینی معیشت پر اسرائیل کا کنٹرول ممکن بنایا گیا۔ فلسطینی سمندر، زمین کے ایک انچ پر بھی اوسلو معاہدے میں فلسطینیوں کا کامل حق تسلیم نہیں کیا گیا۔

روزمرہ کے امور میں زمینوں کی رجسٹری سے لے کر پیدا ہونے والے بچوں کے ناموں کے اندراج اور شادی و مرگ کی رجسٹریشن کے سب حقوق و اختیارات اسرائیل کو دے دیے گئے ہیں۔

اس کے برعکس اسرائیل کو فلسطینیوں کے حق میں جو اقدامات کرنے تھے، ان کے حوالے سے اوسلو معاہدہ حقیقتاً ’گو سلو معاہدہ‘ بن چکا ہے۔

اسرائیل نے ان اقدامات کے لیے ایسی سست روی اختیار کی ہے جس کے نتیجے میں حرکت ممکن ہے، نہ منزل کا حصول۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس صورت حال میں خود فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس نے فلسطینی عوام سے بارہا وعدہ کیا ہے کہ وہ اس معاہدے سے نکل جائیں گے مگر ایسا آج تک نہیں ہو سکا بلکہ فلسطینی اتھارٹی اسرائیل کے لیے سکیورٹی کے معاملات سمیت ہر معاملے میں ایک رابطہ کاری، سہولت کاری اور تابعداری کا ذریعہ بن کر رہ گئی ہے۔

ستمبر میں ہونے والے اس اوسلو معاہدے کے بعد گزرنے والے 30 برس فلسطینیوں کے لیے تباہی کے 30 سال بن کر رہ گئے ہیں۔

اسی کا اظہار جرمنی میں فلسطینی اتھارٹی کے محمود عباس کی زبان سے اس طرح ہوا کہ اسرائیل خود فلسطینیوں کے خلاف بے شمار ’ہولو کاسٹ‘ کا مرتکب ہو چکا ہے۔

اس سلسلے میں تازہ ترین اعداد و شمار بھی گواہ ہیں۔ صرف 2009 سے 2022 کے درمیان کم از کم آٹھ ہزار سے زائد فلسطینیوں کے گھر مسمار کیے جا چکے ہیں۔

اگرچہ بین الاقوامی قانون کے تحت کسی کو زبردستی بےگھر نہیں کیا جا سکتا، مگر یہ اسرائیل کا روز کا معمول ہے۔ غزہ پر جنگی بمباری کی صورت میں مسلط کی جانے والی تباہی اس کے علاوہ ہے۔

فلسطینی شہریوں، ان کے بچوں اور عورتوں کے لیے موت اس مہنگی دنیا میں سستی ترین چیز کے طور پر موجود ہے۔ مساجد، تعلیمی ادارے، ہسپتال کچھ بھی تو اسرائیلی بمباری سے محفوظ نہیں رہا ہے، لیکن اس کے خلاف کسی بین الاقوامی ادارے یا فورم کی سطح پر کوئی اقدام ہوا، نہ کسی نے اسرائیل کی باز پرس کا اہتمام کیا۔ سب اسرائیل کے دوست، معاون، خیرہ خواہ بن بن کر سامنے آ رہے ہیں۔

مصر نے جس کیمپ ڈیوڈ معاہدے پر دستخط کر کے اسرائیل کے وجود، سلامتی اور تحفظ کے حق کو تسلیم کر لیا تھا، وہ حق فلسطینیوں سے مسلسل چھینا جا رہا ہے۔ حتیٰ کہ ان کی شناخت بدلی جانے کا اسرائیلی ہدف آگے بڑھ رہا ہے۔ اس سفر میں اب سوائے فلسطینی عوام کے کوئی رکاوٹ نہیں۔

کیمپ ڈیوڈ سے شروع ہونے والی معاہدوں کی کہانی معاہدہ ابراہم تک پہنچ چکی ہے۔ ستمگر ستمبر مزید ستمگری کا باعث بن رہا ہے، لیکن واقعہ یہ ہے کہ ستمبر کے علاوہ بھی کیلنڈر کا کوئی مہینہ کم از کم فلسطینیوں کے لیے اچھا  ثابت نہیں ہو رہا ہے کہ امریکی مدد سے ہونے والے اب تک کے سب معاہدے اسرائیل کی مضبوطی اور فلسطینیوں کی تنہائی کا ذریعہ ہی بنے ہیں۔

فلسطین کے اپنے اب فلسطینیوں کے بھائی بند کہلانے سے زیادہ اسرائیل کے دوست اور کزنز کہلانے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔

ایسے میں ستمبر اور بھی ستمگر لگنے لگا ہے، مگر فلسطینی اسی ستمگری کے باوجود پھر سے عزم کا اعادہ کرتے نظر آرہے ہیں کہ ان کے عزم اور حوصلے کو ستمبر کی ستمگری کمزور نہیں کر پائی ہے۔

نوٹ: یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے پر مبنی ہے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر