ایک واقعہ، پوری ریاست ناکام: کیا ہم ’منفی نفسیات‘ کے قیدی ہیں؟

جب کوئی سیاسی یا ریاستی بحران سامنے آتا ہے، تو عوام اس کی گہرائی میں نہیں جاتے، بلکہ چند واقعات یا چند علامات کو جوڑ کر پورے نظام کے بارے میں فیصلہ صادر کر دیتے ہیں۔

عوام عام طور پر صرف جزو دیکھ کر کل کے بارے میں فیصلہ صادر کر دیتے ہیں (اے ایف پی)

 گیسٹالٹ نفسیات بیسویں صدی کی وہ فکری تحریک ہے جس نے انسانی ذہن، ادراک اور اجتماعی رویوں کو سمجھنے کا ایک نیا زاویہ دیا۔ اس نظریے کا بنیادی مقدمہ یہ ہے کہ انسان کسی شے کو اس کے انفرادی اجزا میں نہیں بلکہ ایک مکمل، یکجا اور کلّی تصویر کی صورت میں دیکھتا ہے اور اس کا ذہن ٹکڑوں میں بٹی ہوئی حقیقت کو جوڑ کر ایک ایسا مفہوم تشکیل دیتا ہے جو ان ٹکڑوں کے مجموعے سے کہیں زیادہ وسیع ہوتا ہے۔

گیسٹالٹ  کا بنیادی اصول یہ ہے کہ کل جزو کے مجموعے سے بڑا ہوتا ہے۔ سیاست، ریاستی نظم، معاشرتی شعور، میڈیا بیانیوں اور عوامی ذہنیت کو گہرائی سے متاثر کرتا ہے۔

پاکستان جیسے ملک میں، جہاں تاریخ، سیاست اور معاشرتی تصادم کی طویل اور پیچیدہ تاریخ موجود ہے، گیسٹالٹ نفسیات کا اصول ایک منفرد زاویے سے اجتماعی سوچ کی وضاحت کرتا ہے۔

پاکستان میں عام شہری حالات کو معروضی انداز میں نہیں دیکھتا۔ وہ ہمیشہ ایک بڑی، کلی، وسیع اور اکثر سطحی تصویر دیکھتا ہے، جس میں جزئیات کا تنقیدی مطالعہ موجود نہیں ہوتا۔ جب کوئی سیاسی یا ریاستی بحران سامنے آتا ہے، تو عوام اس کی گہرائی میں نہیں جاتے، بلکہ چند واقعات یا چند علامات کو جوڑ کر پورے نظام کے بارے میں فیصلہ صادر کر دیتے ہیں۔ جیسا کہ یہ عمومی تاثر کہ تمام سیاست دان کرپٹ ہیں۔

اسی طرح عدالت کا ایک متنازع فیصلہ پوری عدلیہ کی ساکھ کو ناکام بنا دیتا ہے۔ کسی پولیس اہلکار کی زیادتی پورے ادارے کو ظالم ثابت کرنے کے لیے کافی سمجھی جاتی ہے۔ کسی سیاست دان کا سکینڈل پوری سیاست کو کرپٹ قرار دینے کا باعث بن جاتا ہے۔ اور کسی حکومتی اقدام کی ناکامی پوری ریاست کی ناکامی کی علامت کے طور پر پیش کی  جاتی ہے۔

یہی وہ طرزِ فکر ہے جو ادھوری معلومات سے ایک مکمل، مگر اکثر غلط، بڑی، اور دیرپا تصویر تخلیق کر دیتی ہے۔

میڈیا اس تصویر کو اور بھی مستحکم اور ڈرامائی شکل دیتا ہے۔ پاکستان کا میڈیا بحرانوں کی تلاش میں رہتا ہے۔ ہر مسئلے کو قومی سطح کے خطرے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ ڈالر چند روپے بڑھ جائے تو ملک دیوالیہ ہونے کے قریب دکھایا جاتا ہے۔ بجلی کے نرخوں میں اضافہ ہو تو حکومتی ناکامی کو حتمی سچ قرار دے دیا جاتا ہے۔ سیاسی اختلاف سامنے آئے تو جمہوریت کے خاتمے کی پیش گوئی شروع ہو جاتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جب میڈیا مسلسل منفی گیسٹالٹ تصویر بناتا ہے تو عوام کے ذہن میں ایک مستقل احساسِ خطرہ جنم لیتا ہے، جسے مشترکہ اضطراب کہا جاتا ہے۔ لوگوں کو یہ محسوس ہونے لگتا ہے کہ پوری ریاست ایک غیر یقینی مستقبل کی طرف بڑھ رہی ہے۔

گیسٹالٹ نفسیات کے مطابق ذہن ابہام اور تضاد کو برداشت نہیں کر پاتا۔ وہ ان کو خود ہی معنی دیتا ہے، چاہے وہ معنی حقیقت پر مبنی ہی کیوں نہ ہوں۔ پاکستان میں ریاستی پالیسیوں کا غیر مستقل ہونا اس بات کو مزید گمبھیر کردیتا ہے۔ ایک دن مذاکرات پر زور دیا جاتا ہے، اگلے دن قوت کے استعمال کی بات کی جاتی ہے۔ ایک دن الیکشن ناگزیر قرار دیے جاتے ہیں، اگلے دن حالات کے خلاف ہونے کا تاثر دیا جاتا ہے۔ ایک دن معاشی بہتری کے دعوے کیے جاتے ہیں، اگلے دن نئے ٹیکسوں کا بوجھ ڈال دیا جاتا ہے۔

عوام ان تضادات سے ایک پیٹرن تشکیل دیتے ہیں۔ یہ کہ ریاست غیر منظم ہے، پالیسی بے سمت ہے، اور نظام بنیادی طور پر کمزور ہے۔ یہی ادھورا مگر طاقتور گیسٹالٹ عوام کے دلوں میں عدم اعتماد پیدا کرتا ہے۔

اداروں کے درمیان کشمکش بھی اسی بڑی تصویر کا حصہ بن جاتی ہے۔ جب عدالت، پارلیمان، حکومت، مقتدرہ قوتیں، سیاست دان اور میڈیا ایک دوسرے کے خلاف دکھائی دیتے ہیں، تو عوام چند جھلکیوں کو ملا کر نتیجہ نکال لیتے ہیں کہ ملک پولارائزیشن کا شکار ہے۔ اکثر یہ تصویر حقیقت سے کہیں زیادہ مبالغہ آمیز ہوتی ہے، لیکن ذہن چونکہ ہمیشہ بڑے پیٹرن کی تلاش میں رہتا ہے، اس لیے وہ چند علامات کو جوڑ کر پوری ریاست کے بارے میں ایک مجموعی رائے بنا لیتا ہے۔ یہی وہ منفی گیسٹالٹ ہے جو پاکستان کو ایک خوف زدہ، بے یقینی اور بے اعتمادی کی فضا میں دھکیل دیتی ہے۔

اس منفی تصویر کا ایک بڑا اثر اجتماعی مایوسی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ جب ہر طرف سے بدحالی دکھائی جائے تو عوام کے ذہن میں امید مرنے لگتی ہے۔ مثبت پیش رفت کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے، کیونکہ کلّی تصویر پہلے ہی منفی بنا دی گئی ہے۔ تعلیمی اصلاحات، صحت کے نظام میں بہتری، پولیس میں اصلاحاتی اقدامات، عدالتی فیصلوں میں شفافیت، یہ سب چیزیں عوامی شعور پر اثر انداز نہیں ہو پاتیں، کیونکہ ان کا ارتباط اس بڑی تصویر سے نہیں ہوتا جو عوام کے ذہن میں پہلے سے موجود ہے۔ یوں معاشرہ ایک مستقل شکست خوردگی کے إحساس میں مبتلا ہو جاتا ہے۔

گیسٹالٹ کی اسی طاقت کو مثبت سمت میں بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اگر ریاست، سیاست، میڈیا اور سماجی قوتیں مجموعی تصویر کو درست سمت میں تشکیل دیں تو قومی نفسیات میں حیرت انگیز تبدیلی آ سکتی ہے۔ سب سے پہلے ریاستی بیانیے میں تسلسل اور شفافیت ضروری ہے۔ عوام کو ایسے اعلانات، پالیسیاں اور اقدامات چاہیے جن میں تضاد نہ ہو، اور جن سے یہ احساس پیدا ہو کہ ریاست کی سمت واضح ہے۔ جب ریاست ایک منظم، مرحلہ وار اور حقیقت پر مبنی تصویر دیتی ہے تو عوام بھی اطلاعات کو توازن کے ساتھ جوڑتے ہیں، اور مثبت گیسٹالٹ ابھرتا ہے۔

میڈیا کو اپنی ذمہ داری نبھانا ہو گی۔ مسائل دکھانا ضروری ہے، لیکن ہر مسئلے کو تباہی کے زاویے سے پیش کرنا اجتماعی ذہنیت کو نقصان پہنچاتا ہے۔ میڈیا کا کردار صرف ہیجان برپا کرنا یا بحران دکھانا نہیں بلکہ اصلاحات، امید اور حقیقت پر مبنی معروضات پیش کرنا بھی ہے۔

گیسٹالٹ نفسیات ہمیں یہ بتاتی ہے کہ انسان حقیقت کو نہیں دیکھتا، وہ اس کے بارے میں اپنا ادراک دیکھتا ہے اور یہی ادراک ایک بڑی تصویر بناتا ہے اور قوموں کی سمت متعین کرتا ہے۔

تعلیمی نظام میں تنقیدی سوچ کا فروغ شاید وقت کی سب سے بنیادی ضرورت ہے۔ یہ عوام کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ ادھوری معلومات سے بڑی تصویر نہ بنائیں، بلکہ حقائق اور جزئیات کا جائزہ لے کر خود نتیجہ اخذ کریں۔ جب عوام خود تجزیہ سازی کرتے ہیں تو بیانیہ سازی کی منفی طاقت کمزور ہو جاتی ہے۔

پاکستان جیسے ملک میں، جہاں ریاستی ڈھانچے، سیاسی عمل اور سماجی حرکیات میں پیچیدگیاں موجود ہیں، ضروری ہے کہ ایک ایسا ہم آہنگ مکالمہ قائم کیا جائے جو تمام سٹیک ہولڈرز، ریاستی اداروں، سیاست دانوں، سول سوسائٹی، ماہرینِ قانون و معیشت، اور نوجوان نسل کو ایک مشترکہ بیانیے میں جوڑ سکے۔ یہی قومی بیانیہ مثبت گیسٹالٹ تشکیل دے سکتا ہے۔

گیسٹالٹ نفسیات ہمیں یہ بتاتی ہے کہ انسان حقیقت کو نہیں دیکھتا، وہ اس کے بارے میں اپنا ادراک دیکھتا ہے اور یہی ادراک ایک بڑی تصویر بناتا ہے اور قوموں کی سمت متعین کرتا ہے۔ پاکستان کو ضرورت ہے کہ وہ یہ کلی تصویر کو درست، روشن اور حقیقت پسندانہ بنائے۔ اگر ہم ایسا کر لیں تو نہ صرف سیاسی استحکام ممکن ہے بلکہ قومی نفسیات بھی اعتماد، امید اور توازن کی طرف لوٹ سکتی ہے۔ یہی وہ راستہ ہے جو پاکستان کو بحرانوں کے چکر سے نکال کر مستقبل کے ایک نئے افق کی طرف لے جا سکتا ہے۔ ایک ایک ایسا مستقبل جو مثبت سوچ کی ترویج سے تشکیل پائے گا، نہ کہ خوف اور ہیجان کی ہماہمی سے۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

(ڈاکٹر راجہ قیصر احمد قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے سکول آف پالیٹیکس اینڈ انٹرنیشنل ریلیشنز میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں) 

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر