پاکستان اس وقت ایسے دوراہے پر کھڑا ہے جہاں ریاستی، سیاسی، آئینی، معاشی بحران، عدم استحکام اور بے یقینی کے ساتھ مل کر ایسے گڈمڈ ہو چکے ہیں کہ ریاستی ڈھانچہ اپنی افادیت کھو بیٹھا ہے۔
ملک میں طاقت کے مختلف مراکز، سیاسی قیادت، مقتدرہ، عدلیہ، بیوروکریسی، کاروباری طاقتیں اور مفاداتی گروہ ایک ایسی رسہ کشی میں الجھے ہوئے ہیں جو محض سیاسی، حکومتی، آئینی یا پالیسی کا اختلاف نہیں بلکہ ایک گہرا نظامی تعطل ہے اور جسے ’اشرافیائی جنگ‘ کہا جا سکتا ہے۔ اس ساری کشمکش کا سب سے بڑا فریق عوام ہیں جو اس کھیل کا حصہ نہیں لیکن اس کا بوجھ انہیں کے کندھوں پر آتا ہے۔
یہی وہ لمحہ ہے جہاں تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ اصل مسئلہ طاقت کی جنگ سے نہیں بلکہ اس خلا سے ہوتا ہے جو اس جنگ کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے، اور اس خلا کو پُر کرنے کے لیے ایک نئے سماجی معاہدے کی ضرورت پڑتی ہے۔ پاکستان آج اسی دہانے پر کھڑا ہے۔
دنیا کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جب ریاستی طاقت کا پرانا توازن بگڑ جائے اور اشرافیہ کی اندرونی کشمکش شدت اختیار کر لے تو نیا سماجی معاہدہ ناگزیر ہو جاتا ہے۔ 1215 کا میگنا کارٹا اسی کی ایک مثال ہے۔ یہ کوئی عوامی تحریک نہ تھی بلکہ طاقتور بادشاہ اور بااثر جاگیردار اشرافیہ کے درمیان کشمکش تھی۔ مگر اس کے نتیجے میں طاقت کی مرکزیت کم ہوئی، رعایا کے حقوق کا تصور مضبوط ہوا اور ایک نئی آئینی روایت کی بنیاد پڑی۔ عوام براہِ راست اس تصادم میں شریک نہیں تھے لیکن ایک نئے نظم نے ان کے مستقبل کے خدوخال طے کر دیے۔
1688 کا برطانوی ’Glorious Revolution‘ بھی اشرافیہ کے اندرونی تضادات کا نتیجہ تھا مگر اس نے پارلیمانی بالادستی، محدود بادشاہت اور شہری حقوق کو ایک نئے سیاسی میزانیے میں ڈھال دیا۔ یہ تبدیلی بھی عام لوگوں کی جانب سے نہیں آئی بلکہ طاقتور گروہوں کے درمیان ایک نئے سمجھوتے سے پیدا ہوئی، لیکن اس نے آنے والی نسلوں کی سیاست اور معاشرت بدل دی۔ یہی وہ نقطہ ہے جو پاکستان کے حالیہ بحران کو سمجھنے میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے کہ جب طاقت کے مراکز مروجہ نظام کو قابلِ عمل نہیں پاتے تو اصلاحات کی سمت خود بخود نئے معاہدے کی طرف بڑھتی ہے۔
فرانسیسی انقلاب میں صورت حال اس حد تک بگڑی کہ اشرافیہ کی لڑائی، بے حسی اور معاشی ناانصافی نے عوامی لاوے کو جنم دیا۔ یہ مثال ہمیں خبردار کرتی ہے کہ اگر طاقت کے مراکز بحران کو سمجھنے میں تاخیر کریں یا اپنے مفادات کے خول میں قید رہیں تو تبدیلی کا دباؤ عوامی سطح پر پھوٹ سکتا ہے۔ اور ایسی تبدیلی اکثر غیر متوقع اور کبھی کبھی تباہ کن ہوتی ہے۔
جاپان کی میجی دور کی تبدیلی بھی طاقت کی کشمکش کا نتیجہ تھی۔ سیمورائی اشرافیہ، جاگیردارانہ مفادات اور شاہی روایت کی کشمکش نے ریاست کو ایسے مقام پر لا کھڑا کیا جہاں پرانے نظام کا بوجھ اٹھانا ممکن نہ رہا۔ جاپانی اشرافیہ نے وقت پر اس حقیقت کو تسلیم کیا اور ایک نئے سماجی و سیاسی نظم کی بنیاد رکھی جس نے جاپان کو جدید صنعتی ریاست میں تبدیل کر دیا۔ اس مثال کا بڑا سبق یہی ہے کہ نئے سماجی معاہدے کی تشکیل جنگ یا ٹوٹ پھوٹ کے بغیر بھی ممکن ہوتی ہے اگر بصیرت اور سیاسی بلوغت کا مظاہرہ کیا جائے۔
جنوبی افریقہ کی سیاسی تشکیلِ نو بھی ایسے ہی بحران کا نتیجہ تھی۔ نسلی بنیادوں پر تقسیم شدہ ملک میں اشرافیہ کے مختلف گروہوں کے درمیان طاقت کی کشمکش اس حد تک بڑھی کہ ریاست خانہ جنگی کے دہانے تک پہنچ گئی۔ مگر بالآخر ایک نیا آئینی اور سماجی معاہدہ وجود میں آیا جس نے ملک کے مستقبل کی سمت متعین کی۔
پاکستان کے موجودہ حالات اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ پرانا طاقت کا ڈھانچہ متروک ہو چکا ہے۔ اشرافیائی تسلط ریاست کو مفلوج کر چکا ہے۔ سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہیں، عدلیہ اور انتظامیہ ایک دوسرے سے بدگمان دکھائی دیتے ہیں، غیر منتخب ادارے سیاسی بحث کا مستقل حصہ بن چکے ہیں، بیوروکریسی کے فیصلے غیر یقینی کا شکار ہیں، میڈیا مسلسل دباؤ میں ہے اور معاشی اشرافیہ کا اثر ریاستی پالیسیوں پر نمایاں ہوتا جا رہا ہے۔ ایسے میں معاشی بحران، مہنگائی، گرتی ہوئی آمدن، سرمایہ کاری کا بحران، صنعتی سست روی اور قرضوں کے بوجھ میں اضافہ اس کشمکش کو مزید سنگین بنا رہا ہے۔
یہ تمام حقائق اس بات پر منتج ہیں کہ پاکستان کو اب محض نئی آئینی ترمیم، سیاسی پیش بندی، نئے انتخابات، نئی حکومت یا نئی قیادت کی نہیں بلکہ ایک نئے سماجی اور عمرانی معاہدے کی ضرورت ہے۔ ایسا معاہدہ جو شفافیت پر مبنی ہو اور طاقت کے مراکز کے درمیان توازن کی نئی لکیر کھینچے، سیاسی استحکام لائے، ذمہ داری اور اختیار کی نئی ترتیب واضح کرے، معاشی انصاف کو اہمیت دے اور شہری حقوق اور آزادیوں کو آئینی ضمانت فراہم کرے۔
نئے سماجی معاہدے کی اولین شرط یہ ہے کہ ریاست کے تمام ستون اس حقیقت کو تسلیم کریں کہ ان کے درمیان طاقت کی موجودہ تقسیم نہ پائیدار ہے نہ قابلِ عمل۔ ادارہ جاتی توازن ناگزیر ہو چکا ہے۔ پارلیمان کو قانون سازی میں حقیقی خودمختاری ملے، عدلیہ آئینی تشریح تک محدود رہے، انتظامیہ کو پالیسی عمل درآمد کے لیے بااختیار بنایا جائے۔ یہ صرف طاقت کی تقسیم کا معاملہ نہیں بلکہ ریاست کی بقا کا مسئلہ بن چکا ہے۔
معاشی پہلو اس نئے معاہدے کا سب سے اہم جزو ہونا چاہیے۔ پاکستان کی معیشت اس وقت جس جمود کا شکار ہے وہ کسی اکیلے ادارے، پارٹی یا شخصیت کے اقدامات سے حل نہیں ہو سکتی۔ ٹیکس اصلاحات، وسائل کی منصفانہ تقسیم، کرپشن سے پاک معاشی انتظام اور پائیدار پالیسیوں پر اجتماعی اتفاق نئے معاہدے کو دیرپا اور قابلِ عمل بنائے گا۔ اس کے ساتھ میرٹ، مہارت اور ٹیکنوکریسی کا فروغ، میڈیا کی آزادی، اظہارِ رائے کا حق، صوبائی خودمختاری اور شہری حقوق کو مضبوط بنانا بھی اسی معاہدے کی روح میں شامل ہو۔ ریاست اگر اصلاح چاہتی ہے تو اسے عوام کو محض ووٹر نہیں بلکہ فیصلہ سازی کے مستقل فریق کے طور پر تسلیم کرنا ہو گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تاریخ گواہ ہے کہ جب طاقت کے پرانے ستون لڑکھڑا جائیں اور عوامی توقعات نظام سے ٹکرانے لگیں تو نیا سماجی معاہدہ ناگزیر ہو جاتا ہے۔ پاکستان اسی مقام پر کھڑا ہے جہاں بحران بڑھ رہا ہے اور اعتماد کم ہو رہا ہے۔ اگر اشرافیہ نے اس حقیقت کا ادراک نہ کیا اور اپنے اپنے قلعوں میں محصور رہی تو بحران حل نہیں ہو گا بلکہ کسی بڑی، غیر متوقع اور غیر منضبط تبدیلی میں ڈھل سکتا ہے۔
کوئی بھی پالیسی، قانون یا اصلاح اس وقت تک کارگر نہیں ہوتی جب تک اسے عوامی حمایت اور وسیع سیاسی اتفاق حاصل نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ آج کا بحران محض سیاسی نہیں بلکہ وجودی ہو چکا ہے؛ یہ سوال اب صرف اس بات کا نہیں کہ اقتدار کس کے پاس ہے بلکہ اس بات کا ہے کہ ریاست اور عوام کے درمیان تعلق کن اصولوں پر ازسرِ نو استوار ہو گا۔
پاکستان کے پاس یہ تاریخی موقع ہے کہ دانش، سیاسی بلوغت اور شراکت داری کے ساتھ اس بحران کو موقع میں بدل دے۔ اگر طاقت کے مراکز اس سمت میں قدم بڑھائیں تو نیا سماجی معاہدہ نہ صرف ممکن بلکہ قومی بقا کی ضمانت بھی بن سکتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو تاریخ فیصلہ خود کرے گی اور تاریخ کا فیصلہ اکثر سخت اور ناقابلِ واپسی ہوتا ہے۔
(ڈاکٹر راجہ قیصر احمد قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے سکول آف پالیٹیکس اینڈ انٹرنیشنل ریلیشنز میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں۔)
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔