مغربی ذرائع ابلاغ، ان کے شاگرد اور فلسطین

یہ ذرائع ابلاغ جارحیت کا ارتکاب کرنے والے اسرائیل کے طرف دار رہے۔ فلسطینی، بچوں، عورتوں اور بے گناہ لوگوں پر بمباری انہیں جھنجھوڑ پائی، نہ ان کے ضمیر کو جگا سکی۔

17 اگست 2022 کو غزہ شہر میں ان فلسطینی بچوں کے نام ریت پر لکھے گئے ہیں جو حالیہ جھڑپوں کے دوران چل بسے تھے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

یہ تحریر آپ کالم نگار کی آواز میں یہاں سن بھی سکتے ہیں:


ذرائع ابلاغ اس دور کی دور تک مار کرنے والی ایجاد ہیں، مگر جس طرح ذرائع ابلاغ کی رسائی اور دسترس دور دور تک ہے، اسی طرح یہ خود بھی اب کسی فرد کی دسترس سے باہر نہیں رہے۔ فرد اور معاشرہ اس وقت ذرائع ابلاغ کے ساتھ گہرے دو طرفہ تعامل کے تعلق میں منسلک ہے، اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ مثبت اور منفی ہر دو معنوں میں فرد اور معاشرہ متاثر ہو رہا ہے۔

بعض پہلوؤں سے فرد اور معاشرے پر مثبت اثرات ہیں تو کئی پہلوؤں سے منفی اثرات بھی چھپے ہوئے نہیں ہیں۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ خود ذرائع ابلاغ اچھے یا برے ’فیڈ بیک‘ کے ساتھ ساتھ اب فرد یا معاشرے کے ’ریسپانس‘ یا رد عمل سے بچ کر نہیں رہ سکتے، یہی بات درحقیقت تشویشناک ہے کہ دنیا کے بیشتر حصوں میں بالعموم اور تیسری دنیا میں بالخصوص ذرائع ابلاغ اپنے یک رخے پن اور ’ایجنڈا سیٹنگ‘ کی بڑھی ہوئی عادت کے باعث معنویت اور اہمیت کھو رہے ہیں۔

خصوصاً امریکی و مغربی ذرائع ابلاغ اور ان کے شاگرد تیسری دنیا کے ذرائع ابلاغ بھی عوام کی زد میں آنے والے ہیں۔ سبب واضح ہیں۔ ایک طرف ’ایجنڈا سیٹنگ،‘ ’نیوز ٹوئسٹنگ‘ کو ہضم کرنے کی انسانی صلاحیت ایک حد تک ہی ہو سکتی ہے اور دوسری جانب سوشل میڈیا نے ایک ایسا ’ایکسپوژر‘ دیا ہے کہ برسہا برس تک خود کو ’مین سٹریم‘ میڈیا کا ٹائٹل دیے رکھنے والے ذرائع ابلاغ ’مین سٹریم پبلک‘ سے اب دور نظر آ رہے ہیں کہ ان کی اپروچ سامنے کے حقائق کو مد نظر رکھنے کے بجائے اپنے تخلیق کاروں کے مفادات کے تابع ہوتی ہے۔

سالہا سال کے بعد سامنے آنے والا رد عمل وقتی طور پر اچھا ہے یا مستقبل کے حوالے سے بہت برا، اس کی ابتدا بہر حال ہو چکی ہے۔

وہ لوگ جو ان ذرائع ابلاغ کو دنیا کی ’آنکھیں اور کان‘ سمجھتے تھے، کبھی اسے دور جدید کا ’جام جم‘ قرار دینے کو تیار رہتے تھے، اب وہ اس کو دیکھ دیکھ کر اور اس کے یک رخے پن کو بار بار دیکھنے کے بعد ’ایک آنکھ والے دجالی ذرائع ابلاغ‘ قرار دینے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ ایک آنکھ والے ان ذرائع ابلاغ کا تصور اس وقت اور بھی گہرا ہو جاتا ہے جب کسی فرد یا معاشرے کا واسطہ امریکی و مغربی ذرائع ابلاغ سے پڑتا ہے۔

واقعہ یہ ہے کہ اس صورت میں یہ ذرائع ابلاغ کبھی زہرناکی اور کبھی خوفناکی کا روپ اختیار کر لیتے ہیں۔ اس کا احساس اسرائیل کی جانب سے غزہ پر تین دنوں کے لیے مسلط کردہ حالیہ جنگی جارحیت کے دوران ایک بار پھر ہوا۔ یہ ذرائع ابلاغ جارحیت کا ارتکاب کرنے والے اسرائیل کے طرف دار رہے۔ فلسطینی، بچوں، عورتوں اور بے گناہ لوگوں پر بمباری انہیں جھنجھوڑ پائی، نہ ان کے ضمیر کو جگا سکی۔

فلسطینیوں کے گھروں، مسجدوں، سکولوں اور حتیٰ کہ ہسپتالوں کی مسماری بھی انہیں فلسطینیوں کے لیے انسانی بنیادوں پر متحرک نہ کر سکی۔ گویا ان ذرائع ابلاغ کو انسان نہیں روبوٹ کنٹرول کرتے ہوں۔ آئے روز فلسطینی عوام کے گھروں پر بلڈوزروں کی مسماری مہم کے لیے یلغار بھی ان کے کانوں پر جوں تک کے رینگنے کا ذریعہ نہیں بنتی۔

بارہا یہ چیز مشاہدے اور تجربے میں آ چکی ہے کہ امریکی و مغربی ذرائع ابلاغ چیزوں کو شعوری طور پر ’ایک آنکھ‘ سے دیکھنے کا اہتمام کرتے ہیں۔ اس کے لیے دیدہ دلیری اور ڈھٹائی بعض اوقات اس درجے کو چھو جاتی ہے کہ یہ ذرائع ابلاغ بد لحاظ سے زیادہ بدنہاد محسوس ہونے لگتے ہیں۔ کمزور، مجبور اور مقہور اقوام، ان کے موضوعات، معاملات، تنازعات اور مطالبات کو ڈیل کرتے وقت ان ذرائع ابلاغ کے باٹ اور ہوتے ہیں۔ الفاظ کا انتخاب الگ اور اصطلاحات کا استعمال الگ ہوتا ہے۔

حتیٰ کہ آزادی و غیر جانبداری کی ساری دعویداری کے باوجود یہ ایک خاص ایجنڈے کے غلام اور اسی ایجنڈے کی طرف جھکے ہوئے ہوتے ہیں۔ پورے دھڑلے اور جانتے بوجھتے ہوئے خود کو ایک جانب کھڑا کر دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج تیسری دنیا بالعموم اور مسلم دنیا میں بالخصوص اس بارے میں لوگ بات کرنے لگے ہیں۔ ماضی میں جس طرح امریکہ اور یورپی دنیا کے عالمی ایشوز پر دہرے معیار پر بات ہوتی رہتی تھی اب ان سے متعلق ذرائع ابلاغ کا ذکر بھی کہیں گلے شکوے کے انداز میں اور کہیں عدم اعتمادی کے اظہار کے ساتھ ہونے لگا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ سلسلہ وقت کے ساتھ ساتھ شدید تر ہوئے جانے کا امکان موجود ہے۔ ابھی یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ مغربی دنیا کے بارے میں عوامی سطح پر عدم اعتماد کی فضا میں شدت آ رہی ہے، البتہ یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ امریکی و مغربی ذرائع ابلاغ زیادہ دیدہ دلیری کے ساتھ اپنا متعصبانہ کردار ادا کرنے لگے ہیں۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ان کے متعصبانہ انداز کے مظاہر اب جا بجا نظر آنے لگے ہیں اور اسے اب ہر جگہ محسوس کیا جانے لگا ہے۔

اس تبدیلی کی دو وجوہات بڑی نمایاں ہیں۔ اول یہ کہ مغربی و امریکی ذرائع ابلاغ نے جس کوکھ سے جنم لیا، اس کا فطری تقاضا ہے کہ یہ ذرائع ابلاغ یہی کریں گے۔ یہ اول و آخر اسی کوکھ کے نمائندے ہیں، جو اس بات کا اظہار کرنے میں ذرا بھی شرمندگی یا پشیمانی محسوس نہیں کرتے کہ دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ اس کے تعلقات اور سفارتی مراسم خالصتاً اپنے مفادات، ضروریات اور اہداف کے تابع ہوتے ہیں۔ ان میں کسی اصول، اخلاقی قاعدے یا انسانی جذبات کا دخل ہر گز نہیں ہوتا بلکہ سچ یہ ہے کہ پوری دنیا میں اس خود غرضانہ سفارتی عمل کے فروغ میں بڑا حصہ امریکہ اور یورپ ہی کا ہے۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں زیر بحث آنے والے معاملات، ان معاملات پر اختیار کیے جانے والے موقف، اس پر ہونے والی بحثوں اور بحثوں کے نتیجے میں منظور کی جانے والی قرار دادوں یا سامنے لائے جانے والے فیصلوں سے یہ سب ظاہر ہو رہا ہوتا ہے کہ یہ ملک کسی کے ساتھ بالعموم کیوں کھڑے ہوتے ہیں۔

اقوام متحدہ کے علاوہ دیگر بین الاقوامی ادارے جن میں اقوام متحدہ کے ماتحت اور ذیلی ادارے بھی شامل ہیں اور وہ بھی جو طاقتور ممالک نے اپنی سیاسی، معاشی اور سماجی ترجیحات کی ضروریات کے پیش نظر بنائے ہیں، سب اسی انداز میں کام کرتے ہیں۔ اور تو اور غیر حکومتی ادارے جنہیں آج کی دنیا میں ’این جی اوز‘ کا نام دیا جاتا ہے، تھوڑے بہت فرق اور استثنیٰ کے ساتھ یہی کرتی نظر آتی ہیں۔

ذرائع ابلاغ کے اس سلسلے میں شدید تر ہوتے چلے جانے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ مغربی و امریکی ذرائع ابلاغ کو اب پوری دنیا میں اپنے شاگردانہ کردار کے حامل ذرائع ابلاغ کی ایک لمبی چوڑی کھیپ میسر آ چکی ہے۔ ان کے ایجنڈے سے اصطلاحات اور اسالیب تک سب کچھ امریکی و مغربی ذرائع ابلاغ کی اترن ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا بھر بشمول تیسری دنیا کے ذرائع ابلاغ کی امامت و سیادت انہی امریکی و مغربی ذرائع ابلاغ کے ہاتھ میں ہے۔

وطن عزیز پاکستان میں بروئے کار ذرائع ابلاغ کا انداز و اسلوب بھی تقریباً اسی قالب میں ڈھلا ہوا ہے، جو مغربی و امریکی دنیا کی میراث اور ایجاد ہے۔ گویا آج سے تین چار دہائیاں قبل جو کام مغربی ذرائع ابلاغ کو اکیلے کرنا پڑتا تھا اب اسے اس کام کے لیے معاونین کی ایک پوری فوج دستیاب ہو چکی ہے۔

موضوعات کے انتخاب سے لے کر خبروں اور تبصروں، جائزوں اور کاموں کی مندرجات تک۔ حتیٰ کہ محاوروں اور اصطلاحات تک ہر جگہ یکسانیت ہے۔ ایجنڈا ایک ہے۔ معاشی سہولتوں اور آسانیوں کی فراہمی کے منابع ایک جیسے ہیں، اس لیے ایسا صاف طور پر محسوس ہوتا ہے کہ یہ سلسلہ وقت کے ساتھ ساتھ شدید تر ہوتا جا رہا ہے اور اس پر عدم اعتمادی کے مظاہر میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔

ان ذرائع ابلاغ کے بارے میں یہ رائے ان خطوں، علاقوں اور طبقوں میں اور زیادہ پائی جاتی ہے جو امریکہ و یورپ کے دہرے سفارتی معیار کے زیادہ شاکی ہیں۔ ایسے علاقوں کے لوگوں میں تو یہ خیال بھی پختہ تر ہوتا جا رہا ہے کہ مذکورہ بالا ذرائع ابلاغ اصلاً وہی کرتے ہیں جو دنیا کی ان اہم طاقتوں کی معاشی، سیاسی، سماجی ایجنڈے کی ضرورتوں کے تابع ہوتا ہے۔ جو پالیسی ان طاقتوں کی ہوتی ہے، جس طرح کی اصطلاحات وہ گھڑتی اور چلاتی ہیں، دونوں کا بنیادی طور پر ایک ہی ایجنڈا، ایک ہی مقصد اور ایک ہی ہدف ہے۔ اس لیے دونوں ساتھ ساتھ رہتے ہیں، ساتھ ساتھ جیتے ہیں۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ان کی حیات و موت کے معاملات بھی ایک دوسرے سے جدا ہیں اور نہ ہوں گے۔

ان کے ہاں پائی جانے والی مماثلت اس قدر غیر معمولی اور پختہ تر ہے کہ ماورائے سرحد، ایک ہی انداز میں کام کرتے نظر آتے ہیں۔ فلسطین، کشمیر اور اس طرح کے اہم عالمی تنازعات جنہوں نے دنیا کو ایک طویل عرصے سے احساس دلانے کی مختلف کوششیں کی ہیں۔ اگر صرف ان دو کو ہی اس بڑی دیگ کے چاولوں کے طور پر چکھ لیا جائے تو ساری کہانی واضح طور پر سنی، سمجھی اور لکھی یا پڑھی جا سکتی ہے۔

ان دونوں خطوں میں جہاں وسیع و عریض انسانی آبادیاں کھلی جیلوں کے طور پر موجود ہیں، جہاں دونوں کے فرزندان وطن اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ان دونوں خطوں کے بارے میں اقوام متحدہ کا چارٹر، قوانین اور قراردادیں تقریباً ایک جیسی ہیں۔ ان دونوں کھلی جیلوں پر قابض قوتیں اپنے مقاصد، اسلوب اور حکمت عملی کے ایجنڈے سے یک جان و دو قالب کا درجہ رکھتی ہیں۔

صرف یہ نہیں کہ ان کے ہاں اس میں فکری و نظری جتھہ بندی ہے بلکہ حربے، ہتھیار اور طریقہ ہائے واردات بھی تھوڑے بہت فرق کے ساتھ ایک جیسے ہیں۔ دونوں کے لیے امریکہ و یورپ کی سوچ کا دھارا تقریباً ایک ہی ہے اور سب سے اہم بات یہ کہ دونوں کے حوالے سے امریکہ و یورپ کے ذرائع ابلاغ کا طریقہ واردات بھی ایک ہی جیسا ہے۔

فلسطینی اور کشمیری اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق آزادی کا حق رکھنے اور اس آزادی کے لیے جدوجہد کا حق رکھنے کے باوجود مذکورہ بالا ذرائع ابلاغ کے ہاں دہشت گرد ہیں، عسکریت پسند ہیں، انتہا پسند ہیں۔ دونوں کے ہاں آئے روز ہونے والی ہلاکتوں کے بارے میں امریکہ اور یورپ کے ذرائع ابلاغ ہی نہیں ان کے ساتھ شاگردی کے سلسلے میں منسلک آس پاس کے خطوں کے ذرائع ابلاغ بھی وہی اسلوب رکھتے ہیں۔

یہ چیزیں ماہ اگست کے دوران تین دن تک جاری رہنے والی غزہ کے خلاف اسرائیلی جنگی جارحیت میں ابھی تازہ مثال ہے۔ ایک طرف اسرائیلی بمباری اور ڈرون حملے جارحیت کی صورت میں جاری رہے تو دوسری جانب اسرائیل کے عالمی سرپرست ممالک اور ان عالمی سرپرستوں کے زیرنگیں اسرائیل کے مستقبل کے اتحادیوں کا ردعمل تھوڑے بہت فرق کے ساتھ ایک جیسا رہا۔ اس پر مستزاد عالمی ذرائع ابلاغ بالعموم اور مغربی و امریکی ذرائع ابلاغ بالخصوص اپنے طے شدہ ایجنڈے اور ترجیحات سے ہرگز باہر نہیں نکلے۔

خوش آئند بات یہ رہی کہ سب بےنقاب ہو رہا ہے، مگر افسوسناک امر یہ ہے کہ اگر ذرائع ابلاغ نے یہی اسلوب جاری رکھا تو یہ خود بھی اب زیادہ دیر اپنی ساکھ برقرار نہیں رکھ سکیں گے اور اپنے پالنہار امریکہ و یورپ کے لیے عالمی سطح پر نفرت بڑھانے کا ذریعہ بھی بنیں گے، کیونکہ انسانی ضمیر ایک حد سے زیادہ سویا نہیں رہ سکتا۔ یہ بار بار جاگنے کی روایت رکھتا ہے۔

 

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ