فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی ہولوکاسٹ کب ختم ہو گا؟

مظالم اور انسانی حقوق کی پامالی کا ایک ایسا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے جو سنہ 1948 سے فلسطینی عوام کے خلاف جاری ہے۔ ایک ایسی خونی فلم ہے جس میں مسلسل کردار بدل بدل کر مظلوموں پر ستم کے پہاڑ توڑ رہے ہیں۔

ایک فلسطینی 27 جولائی 2022 کو مظاہرے کے دوران قومی پرچم لیے بیریئر پھلانگنے کی کوشش کر رہا ہے جبکہ دوسری جانب اسرائیلی سکیورٹی فورسز کے اہلکار بھی کھڑے دکھائی دے رہے ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)

مشرق وسطیٰ میں باالعموم اور فلسطین میں باالخصوص مظلوم فلسطینی عوام پچھلی سات دہائیوں سے زائد عرصے سے غاصب صہیونیت کے جن مظالم کا شکار ہیں انہیں الفاظ میں بیان کرنا انتہائی مشکل ہے۔

مظالم اور انسانی حقوق کی پامالی کا ایک ایسا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے جو سنہ 1948 سے فلسطینی عوام کے خلاف جاری ہے۔ ایک ایسی خونی فلم ہے جس میں مسلسل کردار بدل بدل کر مظلوموں پر ستم کے پہاڑ توڑ رہے ہیں۔

قیام اسرائیل کے 75 برسوں کے بعد سے تادم تحریر کوئی دن ایسا نہیں گزرا جس میں فلسطینیوں کو اسرائیلی دہشت گردی کا سامنا نہ کرنا پڑا ہو، خاندانوں کے خاندان اور بستیوں کی بستیاں ویران کر دی گئیں۔ والدین کو اولادوں سے اور اولاد کو والدین کی نعمت سے محروم کر دیا گیا اور مسلسل کیا جا رہا ہے۔

ان دلخراش زمینی حقائق کو دنیا کے سامنے پیش کرتے وقت فلسطینی صدر محمود عباس اپنے حالیہ دورہ جرمنی میں اس وقت قابل گردن زدنی قرار پائے، جب وہ جرمن چانسلر اولاف شولس کے ہمراہ مشترکہ نیوز کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔

کانفرنس کے دوران انہوں نے فلسطینیوں کے خلاف انسانی حقوق کی اسرائیلی چیرہ دستوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’اسرائیل 1947 سے اب تک ہمارے (فلسطینیوں) خلاف 50 ہولوکاسٹ کا ارتکاب کر چکا ہے۔‘

اس متنازع تشبیہ پر جرمن رہنما اولاف شولس نے تو کوئی فوری ردعمل دکھانے سے گریز کی پالیسی اپنائے رکھی، نہ ہی کوئی تبصرہ کیا، تاہم بعد ازاں مختلف جرمن طبقات کی طرف سے سامنے آنے والی تنقید نے جرمن چانسلر کو ایک ٹویٹ پر مجبور کر دیا کہ ’میں ان غصیلے تبصروں سے بیزار ہوں۔‘

بعض عوامی نوعیت کی شکایات پر جرمن پولیس نے محمود عباس کے خلاف انکوائری شروع کرنے کا اعلان کیا۔ شکایات میں محمود عباس پر فلسطینیوں کی حالت زار کو ’ہولوکاسٹ سے تشبیہ دینے کا الزام لگایا گیا ہے۔‘

جرمن پولیس کے ترجمان نے بتایا کہ ’اس انکوائری نتائج کو جرمن پراسیکیوٹر کو پیش کیا جائے گا، جس کے بعد استغاثہ ہی اس امر کا تعین کرے گا کہ محمود عباس کی طرف سے جرم کا ارتکاب کیا گیا ہے، یا نہیں!؟‘

اگرچہ فلسطیی اتھارٹی کے ترجمان ابو ردینہ نے ایک بیان کے ذریعے محمود عباس کی پوزیشن واضح کرنے کی کوشش کی تاکہ بات مزید بگڑنے سے روکی جا سکے لیکن ابو ردینہ کا یہ بیان صدا بصحرا ثابت ہوا۔

جس میں انہوں نے کہا کہ ’فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ نے ہولوکاسٹ کو جدید انسانی تاریخ کا ایک انتہائی سنگین جرم قرار دیا۔‘ بیان میں انہوں نے ’یہودی مرگ انبوہ کے واقعات کی نفی نہیں کی۔‘

ادھر تل ابیب میں بھی محمود عباس کی طرف سے اسرائیل کو فلسطینیوں کے خلاف ’ہولوکاسٹ‘ کا مرتکب قرار دینے پر کافی غم وغصہ دیکھنے میں آیا۔ اسرائیلی وزیراعظم یائر لاپید سمیت دوسری قیادت نے اس بارے میں کافی سخت ردعمل ظاہر کیا۔

یہاں یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ کیا محمود عباس نے فلسطین اور ہولوکاسٹ سے متعلق پہلی مرتبہ اپنی رائے کا اظہار کیا؟

تاریخی تناظر میں اس کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ایسا ہرگز نہیں، وہ ماضی میں بھی اس موضوع پر رائے کا اظہار کر چکے ہیں۔

سنہ 1980 میں ڈاکٹریٹ کے ایک مقالے میں انہوں نے مرگ انبوہ میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھنے والوں کی تعداد سے متعلق شک و شبہے کا اظہار کیا تھا۔

دوسری عالمی جنگ کے موقع پر یہودیوں کے بڑے پیمانے پر قتل عام کو ’انسانیت کے خلاف سب سے زیادہ قابل نفرت جرم‘ قرار دیتے ہوئے محمود عباس کا نازیوں کے ہاتھوں تہہ تیغ ہونے والے معصوم افراد کے لواحقین کے ساتھ اظہار یکجہتی بھی ریکارڈ پر موجود ہے۔‘

لیکن جرمنی کے اندر ہولوکاسٹ میں یہودیوں کے ساتھ روا رکھے گئے مظالم کو کسی دوسری قوم کی مظلومیت ثابت کرنے کے لیے بطور حوالہ پیش کرنا، محمود عباس کا ناقابل معافی جرم ٹھہرا، اسی لیے جرمنی سے تل ابیب تک ان کے مواخذے کا شور برپا ہے۔

فلسطینیوں کی اجتماعی خون ریزی ہو، یا انفرادی قتل عام اور ان کی ٹارگٹ کلنگ ہو، ان کی بستیوں کو اجاڑنے کا معاملہ ہو یا صدیوں سے آباد خاندانوں کو ان کے آبائی وطن سے محروم کرنے کی بات ہو، دنیا کی زبان گنگ چلی آ رہی ہے۔

اسرائیلی مظالم کے ناقابل فراموش واقعات کی فہرست اتنی طویل ہے کہ انہیں ایک کالم میں نہیں سمیٹا جا سکتا، تاہم دیر یاسین، الرملہ، طنطورہ، کفر قاسم، خان یونس، صبرا اور شاتیلا، برج شمالی، مسجد اقصیٰ، مسجد ابراھیمی، قانا، جنین کا نام سنتے ہی صہیونی دہشت گردی کی یاد تازہ ہو جاتی ہے، جسے کسی صورت بھی ذہنوں سے مٹایا نہیں جا سکتا۔

جرمن نازیوں کے مظالم تو یہودیوں کے خلاف ایک انتہا کو پہنچ کر ختم ہو گئے اور جس کے بعد سماوی ذلت اور مسکنت کے حق دار ٹھہرنے والے یہودیوں کو مظلوم وپویتر ثابت کرنے کے لیے دنیا بھر سے ان کے لیے ہمدردیاں سمیٹی جا رہی ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ انہیں مشرق وسطیٰ کے قلب میں ایک ایسی سرزمین کا مالک بنانے کے لیے عالمی طاقتوں نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ یہودیوں کی فلسطینی سرزمین پر آبادکاری کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔

لیکن کچھ واقعات ایسے ہیں جنہیں تاریخ میں ہمیشہ اسرائیل کے سیاہ کرتوتوں کے طور پر یاد کیا جاتا رہے گا، جن کے لیے ہولوکاسٹ سے بہتر کوئی اور تعبیر نہیں ہو سکتی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہی ناقابل فراموش واقعات میں ایک اہم واقعہ آج سے 40 سال قبل لبنان میں صہیونیوں کے ہاتھوں رونما ہوا۔ بیروت کے نواح میں صبرا اور شاتیلا نامی فلسطینی مہاجر کیمپوں میں اسرائیلی دہشت گردی کی 40 ویں برسی اگلے برس منائی جائے گی۔

خود صہیونی اور یہودی محققین کا اس امر پر اتفاق ہے کہ لبنان کے فلسطینی مہاجر کیمپوں صبرا اور شاتیلا میں 15-18 ستمبر 1982 کے دوران ڈھائی جانے والی قیامت میں کم سے کم 3500 بے گناہ بچے، بوڑھے، خواتین اور نوجوان خون میں نہلا دیے گئے۔

امریکی صحافی ٹومس فریڈمین اخبار نیویارک ٹائمز میں اس واقعے کی ہولناکی کو ان الفاظ میں ضبط تحریر میں لائے کہ ’صبرا شاتیلا کارروائی کے دوران اسرائیلی فوج نے نہتے شہریوں کے خلاف جو سلوک کیا، ایسا سلوک کسی سنگین ترین جنگی جرم کے مرتکب گروہ کے ساتھ بھی نہیں کیا جاتا۔‘

’اسرائیلی فوجی 20 اور 30 سال کے نوجوانوں کو ایک جگہ جمع کرتے، ان کے ہاتھ اور پاؤں رسیوں اور زنجیروں سے باندھتے اور ان پر توپ کے دھانے کھول دیے جاتے، حتیٰ کہ ان کے جسم کے اعضا، زمین کی گَرد اور کنکر پتھر سب فضا میں بلند ہوتے اور کسی کی لاش تک سلامت نہ رہتی تھی۔‘

فلسطینیوں کے خلاف روا رکھی جانے والی یہودی ہولوکاسٹ اپنے اثرات اور تنوع کے اعتبار سے بھی ہمہ جہت ہے۔ 

آج سے 51 برس قبل (21 اگست 1969) کو اسرائیلی حکومت نے ایک منظم سازش کر کے آسٹریلیا کے صہیونی ڈینس مائیکل روہن کے ذریعے بیت المقدس میں مسجد اقصیٰ کو نذر آتش کروایا۔

اسرائیلی حکومت کا فائر بریگیڈ کا عملہ آگ بجھانے کے لیے آیا تو اس نے پانی کے بجائے گیسولین کا چھڑکاؤ کیا جس سے مزید آگ بھڑکی اور سب کچھ تباہ ہو گیا۔

بیت المقدس پر صہیونی حملوں کی ایک طویل تاریخ ہے، کالم کی تنگ دامنی اس دلخراش تفصیل کے ذکر کی اجازت نہیں دیتی۔

مقبوضہ مغربی کنارے کے تاریخی شہر الخلیل کی مسجد ابراہیمی میں فروری 1994 کو نماز باجماعت ادا کرتے 29 مسلمان گولیوں سے بھون دیے گئے۔ باروخ گولڈ سٹائن نامی شخص نے نماز فجر کے وقت مسجد میں گھس کر اندھا دھند فائرنگ کر کے ان سب کو موت کی نیند سلا دیا جبکہ ڈیڑھ سو اس واقعے میں زخمی ہوئے۔

مسجد اقصیٰ میں آتشزدگی کے بعد ستمبر 1969 میں مؤتمر عالم اسلامی کا قیام عمل میں آیا۔ عرب لیگ کی طرح او آئی سی بھی آزاد فلسطینی ریاست کے قیام اور القدس کو اس کا دارالحکومت قرار دیتی ہے، لیکن اس عظیم ہدف کے حصول کے لیے کوئی مثبت کام اس کے دفتر عمل میں دکھانے کو موجود نہیں۔

ادھر مغربی اور یورپی اقوام کے ہاں دہشت گردی کے استعارے کے طور پر معروف ہولوکاسٹ جیسی اصطلاح کو فلسطینیوں کی حالت زار بیان کرنے کے لیے مستعار لینا بھی قابل قبول نہیں۔

انسانی حقوق، مساوات اور روشن خیالی کی پرچارک دنیا اس علامتی بیانیے کو بھی فلسطینیوں کے حق میں برداشت کرنے کو تیار نہیں ۔۔۔ ایسے میں ان سے ظلم اور ناانصافی کے خاتمے کی عملی کوشش کی امید رکھنا عبث ہے۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ