پاکستان کی وفاقی آئینی عدالت نے بدھ کو صحافی ارشد شریف قتل کیس میں ہونے والی تحقیقات پر کی گئی پیش رفت پر حکومت سے 17 دسمبر تک رپورٹ طلب کرتے ہوئے از خود نوٹس کی کارروائی کے دائرہ اختیار پر معاونت بھی طلب کی ہے۔
عدالت نے قانونی طور پر کیے گئے اقدامات اور آئندہ کی تجاویز بھی اس رپورٹ میں شامل کرنے کی ہدایت کی ہے۔
ارشد شریف پاکستان کے نامور صحافی اور اینکر تھے۔ وہ تین سال قبل اگست 2022 میں کئی مقدمات درج ہونے کے بعد پاکستان چھوڑ گئے تھے۔ ابتدائی طور پر وہ کچھ عرصہ متحدہ عرب امارات میں رہے اور بعد ازاں کینیا چلے گئے، جہاں اکتوبر 2022 میں انہیں کینیا میں قتل کر دیا گیا تھا۔
ارشد شریف کے قتل کا مقدمہ پاکستان میں بھی چلتا رہا جبکہ ان کی اہلیہ نے کینیا کی عدالت سے بھی رجوع کیا، جہاں سماعت کے بعد آٹھ جولائی 2024 کو عدالت نے ارشد شریف کے قتل کو ٹارگٹ کلنگ قرار دیتے ہوئے پولیس کی اس کاروائی کو غیر قانونی قرار دیا اور ان پولیس اہلکاروں کے خلاف کارروائی کا بھی حکم دیا جنہوں نے ارشد شریف پر گولیاں برسائیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وفاقی آئینی عدالت کے قیام کے بعد ارشد شریف کے قتل کیس کی اس عدالت میں ہونے والی پہلی سماعت تھی، جسے جسٹس عامر فاروق اور جسٹس روزی خان بڑیچ پر مشتمل دو رکنی بینچ نے سنا۔ اس سے قبل رواں برس مارچ میں اس کیس کی سماعت سپریم کورٹ کے اس قت کے جج اور وفاقی آئینی عدالت کے موجودہ چیف جسٹس امین الدین خان نے کی تھی۔
سماعت کے دوران ارشد شریف کے اہل خانہ نے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی تحقیقاتی رپورٹ تک رسائی کی استدعا کی، جس پر جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ’اگر قانون اجازت دیتا ہے تو عدالت ان کے ساتھ ہے۔‘
وفاقی آئینی عدالت میں سماعت کے دوران جسٹس عامر فاروق نے کہا: ’بتایا جائے اب تک تحقیقات میں کیا سامنے آیا ہے اور قتل کے ذمہ داران کو کٹہرے میں لانے کے لیے قانونی طور پر کیا ہو سکتا ہے۔‘
ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمٰن نے مؤقف اختیار کیا کہ ’حتمی چالان جمع ہوگا تو اس کے ساتھ منسلک دستاویزات کو دیکھا جا سکتا ہے۔ کچھ باتیں کہنا نہیں چاہتا جبکہ فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ بھی دی گئی تھی جو پبلک ہو گئی۔‘
ارشد شریف کی اہلیہ جویریہ ارشد کے وکیل سعد بٹر نے عدالت کو بتایا کہ ان کی جانب سے کچھ افراد کے نام دیے گئے، جن پر تحقیقات بھی نہیں ہوئیں۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمٰن نے بتایا کہ کینیا کی حکومت کے ساتھ قانونی معاونت کا معاہدہ ہو گیا ہے اور کینین حکومت کو کرائم سین کا وزٹ کرنے کی درخواست بھی بھجوا دی گئی ہے۔ ’کینیا پاکستان کا دوست ملک ہے، انہیں ناراض نہیں کر سکتے۔ اقوام متحدہ میں بھی کینیا پاکستان کو سپورٹ کرتا ہے۔‘
جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ کینین حکومت کی اب تک کی تحقیقات میں کیا ہوا ہے؟ جس پر ارشد شریف کی اہلیہ کے وکیل نے بتایا کہ ’کینین ہائی کورٹ نے اپنے پولیس اہلکاروں کو مجرم قرار دیا ہے، لیکن ہائی کورٹ کے آرڈر کے باوجود کینیا میں قتل کے ملزمان کی پراسیکیوشن شروع نہیں ہوئی۔‘
وکیل نے مزید بتایا کہ کینین حکومت نے ذمہ دار پولیس افسران کو ترقی دے دی ہے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ خصوصی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے اب تک 47 اجلاس ہو چکے ہیں اور 74 افراد کے بیانات قلمبند کیے گئے ہیں۔
جسٹس عامر فاروق نے کہا : ’کرائم سین پاکستان سے باہر ہے اور حکومت پاکستان عالمی قوانین کی پابند ہے۔ ارشد شریف کے قتل کو تین سال ہو گئے ہیں اور اگر ویسے کارروائی چلتی تو شاید ازخود نوٹس نہ لینا پڑتا۔‘
جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ اس کیس میں ملزمان کون کون ہیں اور کیا پاکستان میں ایف آئی آر درج ہوئی ہے؟
ارشد شریف کی اہلیہ کے وکیل نے کہا کہ تین سال گزرنے کے باوجود تحقیقات میں کچھ نہیں ہوا۔ ’ارشد شریف کی اہلیہ نے ذاتی حیثیت میں کینین ہائی کورٹ سے رجوع کیا اور وہ صرف یہ چاہتی ہیں کہ ریاست پاکستان کینین عدالت میں ان کے ساتھ کھڑی ہو۔ اس ضمن حکومت نے اقوام متحدہ سے قانونی معاونت نہیں لی۔‘
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے موقف اختیار کیا کہ اس لیول پر دوست ملک کے خلاف نہیں جا سکتے۔ انہوں نے بتایا کہ ’پاکستان میں ایف آئی آر درج ہوئی ہے جس میں تین افراد کو نامزد کیا گیا ہے۔ ان میں خرم، وقار اور صالح نامی افراد کے نام شامل ہیں، لیکن یہ افراد مفرور ہیں۔ انٹرپول سے مفرور ملزمان کے ریڈ وارنٹ کے لیے رابطہ کیا گیا ہے۔‘
وکیل اہلیہ ارشد شریف نے کہا کہ حکومت تحقیقات اور ملزمان کو کٹہرے میں لانے میں ناکام ہو چکی ہے۔
سماعت کے دوران جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ ’ڈپلومیٹک چینل میں کسی سے لڑ نہیں سکتے۔‘
جبکہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ وزیر اعظم نے ارشد شریف قتل کے معاملے پر کینین صدر کے ساتھ ٹیلی فونک رابطہ بھی کیا تھا۔
ازخود نوٹس کیس کا دائرہ اختیار
سماعت کے دوران جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ ایک بنیادی سوال دائرہ اختیار کا بھی ہے اور یہ کہ ازخود نوٹس کیس میں عدالت اب کیا کر سکتی ہے۔ ’سپریم کورٹ نے سوموٹو کا اختیار کئی بار استعمال کیا ہے۔ ارشد شریف کی فیملی کا دکھ الفاظ میں بیان نہیں ہو سکتا اور سب چاہتے ہیں کہ قتل کے ذمہ داران کو کٹہرے میں لایا جائے۔ اگر قتل کا کرائم سین پاکستان ہوتا تو معاملہ اب تک حل ہو چکا ہوتا۔‘
عدالت نے استفسار کیا کہ ’27 ویں ترمیم کے بعد آئینی عدالت سوموٹو کارروائی چلا سکتی ہے یا نہیں۔ عدالتی کارروائی کو ریگولیٹ کرنے کے ساتھ دائرہ اختیار کو بھی دیکھنا ہے۔‘ ساتھ ہی عدالت نے دونوں جانب کے وکلا کو ہدایت کی کہ وہ اس قانونی نکتے پر آئندہ سماعت میں معاونت کریں۔
ارشد شریف کی اہلیہ کے وکیل سعد بٹر نے کہا کہ ’عدالتی فیصلہ موجود ہے اور آئینی عدالت سوموٹو کارروائی کو آگے بڑھا سکتی ہے۔‘
یاد رہے کہ 27 ویں آئینی ترمیم کی قانون سازی اور اطلاق کے بعد سپریم کورٹ یا وفاقی آئینی عدالت ازخود نوٹس کے کیس کی سماعت نہیں کر سکے گی۔
بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دی۔