اب جب ارشد شریف کے سفاکانہ قتل کو تین سال گزر گئے ہیں اور میں ان بیتے سالوں پر نظر ڈالتی ہو تو بہت سے سوال اب بھی جواب طلب ہیں۔
انصاف شاید بہت جلدی نہ ملے کیونکہ ہمارا نظام ہی ایسا ہے لیکن حقائق سب عیاں ہیں۔
ارشد شریف ملک کے مایہ ناز صحافی تھے۔ ان کی خبر حکومتوں کو ہلا کر رکھ دیتی تھی۔ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور کتاب دوست انسان تھے، جو طاقتور ترین اشرافیہ کی کرپشن دستاویزات کے ساتھ منظر عام پر لے آتے تھے۔ اس کے لیے وہ دستاویزات حاصل کرکے ایسے یاد کرلیتے تھے جیسے کوئی سکین کر دے۔
ان کا حافظہ اور انگریزی غضب کی تھی۔ نہت ایماندار تھے، پاکستان کے زیادہ ٹیکس دینے والے افراد میں شامل تھے۔ کسی سے ڈرتے نہیں تھے اور بہت محنت کرتے تھے۔ مجھے نہیں پتہ تھا کہ وہ اچانک دنیا سے چلے جائیں گے اور سب ذمہ داریاں مجھ پر آجائیں گی۔
میں اس جنگ اور جہدوجہد کے لیے کبھی بھی تیار نہیں تھی لیکن اگر میں سامنے نہ آتی تو کوئی بھی ان کے انصاف کے لیے جہدوجہد نہ کرتا۔ حالات کچھ اس طرح کے پیدا کر دیے گئے تھے کہ ڈر اور خوف کا ماحول تھا۔ زیادہ تر لوگ ہمارا ساتھ چھوڑ گئے، پر اللہ کی مدد اور عوام کی طرف سے ہمدردی ہم اہل خانہ کے ساتھ تھی۔
ارشد کے بھائی اور والد 2011 میں جہانِ فانی سے رخصت ہو گئے تھے۔ اللہ نے مجھے کوئی بھائی نہیں دیا اور والد ضعیف ہیں، تو میرے پاس کوئی آپشن نہیں تھا۔ خوف اور صدمے میں گھر سے ہی جہدوجہد کا آغاز کیا۔
میں سوشل نہیں تھی، زیادہ وکلا کو نہیں جانتی تھی تو جب تعزیت کے لیے ملیکہ بخاری آئیں تو ان سے درخواست کی میں صدر پاکستان اور چیف جسٹس کو خط لکھنا چاہتی ہوں، مجھے آپ کی قانونی مدد درکار ہے۔ ہم دونوں نے ڈرافٹ تیار کیا اور اس وقت کے صدرِ پاکستان عارف علوی اور چیف جسٹس عمر عطا بندیال کو خط ارسال کر دیے۔
صدرِ پاکستان کی طرف سے تو کوئی جواب نہیں آیا، لیکن ہزاروں لوگوں نے چیف جسٹس کو خط لکھنا شروع کر دیے۔ اس بعد جاکر ازخود نوٹس ہوا۔
میں عدت میں تھی اور گھر سے باہر نہیں جا رہی تھی، اس لیے قانونی جہدوجہد کا آغاز کرنا آسان نہیں تھا۔ میں اپنے اہل خانہ کو مزید مشکلات میں نہیں ڈالنا چاہتی تھی، تاہم اینکر عمران ریاض کے توسط سے پاکستان کے مایہ ناز وکیل میاں علی اشفاق، شاہ زیب مسعود، سعد بٹر، قدیر جنجوعہ اور احد کھوکھر میری طرف سے پیروی کے لیے حاضر ہوگئے۔
مجھے امید ہوئی کہ اب انصاف کی طرف ہمارے قدم بڑھ رہے ہیں۔ اس کیس کی بہت کم سماعت ہوئیں اور جسٹس عمر عطا بندیال کے جانے کے بعد یہ کیس سست روی کا شکار ہو گیا۔
حکومت کی عدم دلچسپی پہلے دن سے واضح تھی۔ پی ڈی ایم ون کے رجیم میں ارشد پر مقدمات درج ہوئے، ان کا شو بند ہوا، ان کو ملک چھوڑنا پڑا تو وہ کیوں ان کے لیے انصاف کی کوشش کرتے۔ جب میں نے پاکستانی حکومت کی عدم دلچسپی اور عدالتی نظام کی سست روی کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تو میں نے کینیا میں کیس دائر کرنے کا فیصلہ کیا۔
یہ ایک مشکل کھٹن سفر تھا اور دو ممالک کے درمیان کا معاملہ تھا۔ جغرافیائی حدود، اپیل دائر کرنا اور دوسرا وہاں ڈالروں میں فیس لینے والے وکیل، یہ تمام معاملات میرے سامنے درپیش تھے۔ گھر کو چلانے والا شوہر دنیا سے جاچکا تھا اور میں صدمے کی وجہ سے کام کرنے سے قاصر تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس موقعے پر کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹ اور میڈیا ڈیفنس نے میرا بھرپور ساتھ دیا اور میں وکیل اویچل ڈیوڈلی کے توسط سے کجیاڈو ہائی کورٹ کینیا میں درخواست دائر کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ وہاں ایک سال کیس چلتا رہا اور باقاعدگی سے سماعت ہوئی۔
جسٹس سٹیلا وہ واحد انسان تھیں، جنہوں نے مجھے سنا اور مجھے عدالتی کارروائی میں بولنے کا موقع دیا جبکہ پاکستان کی عدالتوں میں سائل کو بولنے کی اجازت نہیں۔ میں بہت روئی، وہ خاموشی سے مجھے سنتی رہیں۔
پاکستان میں جسٹس فائز عیسیٰ کا دور شروع ہوچکا تھا۔ اس دوران بمشکل ایک سماعت ہوئی جس میں تین ججز یہ کہہ کر اٹھ گئے کہ یہ لارجز بینچ کا کیس ہے، ہم نہیں سن سکتے۔ اس اثنا میں کینیا کی ہائی کورٹ میں سماعت مکمل بھی ہوگئی۔
آٹھ جولائی 2024 کو جج سٹیلاموٹوکو نے تاریخ ساز فیصلے میں ارشد شریف کے قتل کو ٹارگٹ کلنگ قرار دیتے ہوئے پولیس کی اس کاروائی کو غیر قانونی قرار دیا۔ اس کے ساتھ اُن پولیس اہلکاروں کے خلاف کارروائی کا بھی حکم دیا جنہوں نے ارشد شریف پر گولیاں برسائیں۔
ان پر تشدد ثابت ہوا اور ان کے حقوق کی خلاف ورزی کو بھی عدالت نے تسلیم کیا۔ عدالت نے اس دعوے کو مسترد کر دیا کہ یہ ایک شناخت میں غلطی کا معاملہ تھا۔ یہ ایک ٹارگٹ کلنگ تھی۔ اس کے ساتھ مجھے زرتلافی کا حکم دیا گیا، جو میرا مطالبہ نہیں تھا۔
مجھے وکیل نے بار بار کہا کہ آپ کینیا کے قانون کے تحت ایک بڑی رقم کا مطالبہ کرسکتی ہیں لیکن میں نے انہیں انکار کر دیا۔ میرے نزدیک میری جہدوجہد گولی چلانے والوں کے خلاف کارروائی اور سزا ہے، تاہم ان کی حکومت نے اس فیصلے کے خلاف اپیل کورٹ میں اپیل کر دی اور فیصلہ معطل ہوگیا۔ اس پر بھی کارروائی ایک سال چلی اور اس کا فیصلہ 31 جولائی 2025 کو آیا، جس میں کینیا ہائی کورٹ کے فیصلے کو جزوی طور پر بحال کیا گیا۔
تاہم مجھے اس فیصلے سے تسلی نہیں ہوئی اور میں نے اپنے وکیل کے ذریعے ان کی سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر دی۔ اس دوران پاکستان میں مقدمہ آئینی بینچ کے سامنے چلا گیا۔ دو ممالک کے درمیان تین سال ہوگئے ایک ایم ایل اے سائن نہیں ہوسکا اور میں تنہا جہدوجہد کرتے ہوئے کینیا کے سپریم کورٹ تک پہنچ گئی۔
پاکستان میں تین چیف جسٹس تبدیل ہو گئے لیکن مجھے ارشد شریف کے لیے انصاف نہیں ملا۔ مجھے بدترین ہراسانی اور کردار کشی کا سامنا کرنا پڑا، لیکن پتہ نہیں کہاں سے مجھ میں ہمت آئی اور میں بھی ڈٹ گئی۔
قرآن اور نماز نے مجھے صبر اور توکل میں مدد دی ۔میرے ساتھ اس سفر میں پاکستان کے عوام کی دعائیں اور سوشل میڈیا صارفین کی مثبت پوسٹس کا ساتھ حاصل رہا، جس پر میں ان کی شکر گزار ہوں۔ مجھے امید ہے ایک دن مجھے کینیا میں انصاف مل جائے گا، لیکن پاکستان کی عدالتوں سے میری امید ختم ہوتی جا رہی ہے۔
میں نے اسلام آباد ہائی کو بھی درخواست کی کہ 2022 کے بعد قتل ہونے والے صحافیوں اور میرے مرحوم شوہر ارشد شریف کے انصاف کے لیے جوڈیشل کمیشن بنا دیا جائے لیکن وہ درخواست خارج کر دی گئی۔ آئینی کورٹ میں آخری سماعت سات مارچ 2025 کو ہوئی تھی، اس کے بعد کیس ہی نہیں لگا۔
امید پر دنیا قائم ہے، شاید مجھے بھی مرحوم وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی طرح 30 سال بعد انصاف ملے گا۔