ڈراما ’تنکے کا سہارا‘: کیا شادی ایک جوا ہے؟

ڈرامے کی مصنفہ زنجیل کہتی ہیں کہ ’یہ کہانی آگے چل کر بہت خطرناک موڑ اختیار کرے گی۔‘

ڈراما چونکا دینے والی کیفیت رکھتا ہے (ہم ٹی وی)

شادی ایک جوا ہے لیکن یہ تو کسی حد تک ہمارے اختیار میں ہے کہ ہم نے اس کے لیے کس جوا خانے کا انتخاب کرنا ہے، کس کس علاقے کے جوا خانے میں کیا کچھ کھیلا جاتا ہے اور کیسے کیسے کھیلا جاتا ہے، کتنے لٹانے کی ہماری جیب اجازت دیتی ہے اور باقی کیا بچتا ہے؟

’شادی ایک جوا ہے‘ کے موضوع پر بننے والا ڈراما ’تنکے کا سہارا‘ اس کو چیلنج کر رہا ہے۔ شاید اسی بنیاد پہ ڈراما لکھا اور پیش کیا جا رہا ہے کہ یہ کتنا جوا ہے اور کتنا اختیار، جیب میں ہے کیا اور لگا کیا رہے ہیں، دولت اور محبت میں سہارا کون بنتا ہے؟

جوئے کی دولت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ جیسے آتی ہے ویسے ہی چلی بھی جاتی ہے۔

ڈراما حسین ترین سین سے شروع ہوا کہ لگتا تھا کوئی رومانوی سی کہانی خزاں کے خشک اور سرخ پتوں کے ساتھ ہم پہ چھا جائے گی، لیکن مجال ہے جو ایسا کچھ ہوا ہو۔

 دو اقساط میں کہانی اتنی تیز چلی ہے کہ جیسے اچانک برف پڑ جائے اور رستے رک سے جائیں۔

قدر اور دریا ڈرامے کا مرکزی کردار ہیں۔ یہ کردار ہیرو نہیں بلکہ معاشرے کا وہ عکس ہیں، جو دکھایا گیا ہے۔

کردار کی تربیت ہوتی ہے، اسے برتا جاتا ہے۔ اس لیے کردار کہلاتا ہے۔ یہ دونوں لڑکے اس سماج کا عکس ہیں جہاں بیٹے صرف مردانگی کی علامت اور معاش کا سہارا ہوتے ہیں یا وارث ہوتے ہیں، اس لیے ان کی تربیت کی ہی نہیں جاتی لہٰذا واسع اور حماد سماجیات ہیں جبکہ دریا اور قدر کردار ہیں۔

لہٰذا ہمیں پہلی ہی دو تین اقساط میں معلوم ہو رہا ہے کہ ہمیں اب بیٹوں کی تعلیم کے ساتھ ساتھ ان کی تربیت کی اشد ضرورت ہے۔

تربیت والا عنصر مردانگی کے نکتے نے دیمک کی طرح کھا لیا ہے، جیسے وہ خود بھی اور دوسرے بھی تکلیف میں ہیں۔

اجی بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔ قدر کی ماں کے اچانک انتقال کے بعد اس کی بڑی بہن اسے اپنے گھر لے آتی ہے لہٰذا وہ اس کی ساس کا درد سر بن گئی ہے اور مادام اس کی شادی کروا کے اپنا اور اپنے بیٹے کا علاج کرنا چاہتی ہیں۔ ادھر بیٹا اپنے سسرال کا گھر بیچ کر اس رقم سے کاروبار کرنا چاہ رہا ہے گویا مکمل قبضہ کرنا چاہتا ہے۔

قدر اس گھر سے اپنا حصہ بھی طلب نہیں کرتی، بس بہن سے کہتی ہے کہ وہ شادی نہیں کرنا چاہتی، جاب کر لے گی لیکن اس کی بہن سمجھاتی ہے کہ عورت کا اصل گھر ہر صورت شوہر کا گھر ہے،  خاص طور پہ یتیم و بے سہارا عورت کے پاس شادی کے سوا کوئی رستہ نہیں رہتا۔

وہ سمجھ جاتی ہے، وہ بوجھ ہے اور اس کا اترنا ضروری ہے جیسے وہ پہلے شاکر تھی ویسے ہی اب شاکر رہ کر اس شخص سے شادی کر لیتی ہے جو اس کی بہن کی ساس نے بس منتخب کر لیا ہے اور بہن نے اپنی ساس کی بات آنکھیں بند کر کے مان لی ہے۔

’کتنا فرق ہے اس صبح میں، میرے گھر بھی آج یونہی پرندے آئے ہوں گے اوربھوکے لوٹ گئے ہوں گے۔‘

’امی کے چھوٹے سے گھر میں کیا سکون تھا۔ اللہ تعالی میں نے تو آپ سے کبھی گلہ نہیں کیا۔ کبھی شکوہ نہیں کیا پھر میرے ساتھ کیوں ایسا ہوا؟‘

’کیوں اٹھا کے میرے گھر سے آپی کے گھر پہ پٹخ دیا ہے۔ میں جواب چاہتی ہوں۔‘

یہ ڈرامے کا پہلا اور اتنا حسین سین ہے اور طویل نثری نظم جیسے مکالمے کی اتنی خوبصورت ادائیگی سے ایک لمحہ جیسے کہیں رک سا جاتا ہے۔

ساتھ ہی ڈرامے کا دوسرا کردار دریا من چاہا سا خواب دیکھتے دیکھتے خوف ناک خواب میں بدلنے سے ڈر کے اٹھ جاتا ہے۔

یہ دو سین تو بڑی سکرین کے سین لگتے ہیں۔ یہی تفہیم بنیں گے۔

دریا کا کسی بہت ہی امیر گھرسے رشتہ آ جاتا ہے اور اس کے تو جیسے سپنے پورے ہو جاتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

لڑکے کی بہن نے اسے پسند کر لیا ہے۔ دریا یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ کیوں کر لیا ہے، اتنا بے جوڑ رشتہ اپنے اندر کیا راز رکھتا ہے؟

اسے تو اپنے حسن قاتل پہ مان ہونے لگتا ہے۔ لیکن وہ جو کہا جاتا ہے غریب کی بیٹی لاؤ نیچے لگ کے رہے گی تو اسے بس واثے کی بہن اسی لیے لا رہی ہے کہ واثے کی اتنی بڑی جائیداد اور کاروبار کو تقسیم نہیں ہونے دینا چاہتی۔

خود بھی واسع کی بہن نے ایک ایسے مرد سے شادی کی ہے جو گھر داماد بن کر رہ رہا ہے لیکن تاحال دکھائی دیتا ہے کہ اسے دولت کا لالچ ہے بھی نہیں۔ وہ تو واسع کی شادی کے بعد بھی اپنی بیوی کوکہتا ہے کہ ہم دوسرے گھر میں شفٹ ہو جاتے ہیں

لیکن اتنا ہوشیار وہ ضرور ہے کہ اپنی بیوی کے رنگ میں رنگا ہوا ہے۔ دریا کے والدین اسے بہت سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ غصے کا کنٹرول نہ کر پانا کتنا بڑاعذاب ہوتا ہے، لہٰذا ابھی بھی وقت ہے سوچ لے۔ منگنی پہ بھی واسع کا نامناسب رویہ دیکھ کر دریا کے والدین سمجھاتے ہیں کہ ابھی منگنی ہے ٹوٹ سکتی ہے سوچ لے، مگر اسے دولت کی چکا چوند کے سوا کچھ دکھائی نہیں دے رہا۔

زندگی ہم سے شاید ہماری خواہشوں والی آزمائش لیتی ہے۔

قدر سادہ سی زندگی میں بھی پر سکون تھی۔ وہ یہاں بھی پہلی رات سے پہلی صبح کا سادہ سی زندگی والا سفر کر لیتی ہے۔

سونیا حسین اپنے اس سادہ سے مشرقی گیٹ اپ میں بہت حسین لگ رہی ہیں۔ کردار میں اتری ہوئی محسوس ہو رہی ہیں۔

دریا صرف دولت دیکھ رہی تھی، پہلی ہی رات دولت کی بجلی اس پہ گر کر اسے خاک کر دیتی ہے۔

دوسری قسط شادی کے حسین بے تکے سے خواب دیکھنے والوں کو ضرور دیکھنی چاہیے۔ شادی اگر جوا ہے تو سہاگ رات بھی ایسا ہی جوا ہے۔

دریا کو اس کا شوہر اپنی سہلیوں کا ساتھ دینے کی وجہ تھپڑ مار دیتا ہے اور قدر کے گھر بارش کی وجہ سے برساتی میں پانی بھر جاتا ہے۔

حماد پہلی ہی رات بیوی سے پکوڑے بنانے کی فرمائش کر رہا ہے کہ اب تو اس کی بیوی آ گئی ہے ایسے موسم میں اسے پکوڑے بنا کر دے گی۔

ابھی وہ پوچھ ہی رہا ہوتا ہے کہ اسے پکوڑے بنانے آتے ہیں کہ قدر کی ساس آ کر زور زور سے دروازہ کھٹکھٹا کر نہ صرف برساتی نالہ کھولنے کے احکام جاری کرتی ہیں۔

بلکہ شوہر نامدار کے بھی سب راز کھول دیتی ہیں کہ بے روز گار بیٹا بڑا بھی ہو تو اس کی کتنی عزت ہوتی ہے گویا عزت مرد کی نہیں کمانے والے کی ہوتی ہے۔ مرد اضافی صفت ہے۔

 دونوں لڑکیوں پہ پہلی ہی رات وہ راز فاش ہو جاتے ہیں جو عام زندگی میں ہوتے ہوتے وقت لیتے ہیں۔

اب دریا والدین کے پاس واپس آنا چاہتی ہےمگر نہ تو وہ رکھنے کو تیار ہیں، نہ جال میں آئی مچھلی کوئی چھوڑتا ہے۔

قدر گھر میں شوہر کی عزت چاہتی ہے۔ جیسی عزت اس کے بھائی کی اس کی ساس کی نظر میں ہے۔

قدر کی عزت کا رستہ اس کے سگھڑ پن سے کھل ہی گیا ہے لیکن ابھی ساس اس رستے پہ چل نہیں سکتی کیونکہ اس کا بیٹا بےروزگار ہے۔

ڈراما اتنا چونکا دینے والی کیفیت رکھتا تھا کہ ہم نے سوچا مصنفہ سے ان کا نقطۂ نظر لینا بہت اہم ہے۔

زنجیل عاصم شاہ نے بتایا ہے کہ ’تنکے کا سہارا سے یہاں مراد محبت ہے۔‘ انہوں نے مزید وضاحت کچھ یوں کی کہ ’دو لڑکیوں کی کہانی ہے۔ دونوں کی زندگیوں کا آغاز ساتھ ساتھ ہوتا ہے۔ ایک لڑکی قدر ہے جس کے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ نہ میکہ ہے، نہ دولت ہے، نہ کوئی بڑی خواہش ہے، اس کی زندگی میں بالکل زیرو لیول کا مرد آیا ہے،جس کے پاس اسے دینے کے لیے تھوڑا سا پیار اور کیئر ہے جو تنکے کا سہارا ہے۔

’دوسری طرف دریا ہے جس کے پاس میکہ بھی ہے، دولت مند شوہر بھی ہے، مادیت بھی ہے لیکن محبت نہیں ہے عزت نہیں ہےاور اس کے پاس اگر محبت ہے بھی تو اتنی بوسیدہ اتنی بیمار محبت ہے جس میں وہ جی نہیں پا رہی سانس نہیں لے پا رہی۔ بیویاں تو دونوں لڑکیاں ہی اچھی ہیں لیکن زندگی گزارنا دونوں کے لیے مختلف ہے۔‘

زنجیل نے مزید بتایا کہ ’میں یہ مانتی ہوں کہ پیسہ بہت کچھ ہے لیکن سب کچھ بہر حال نہیں ہے، دل کا قرار، سکون اورخوشی پیار میں ہوتا ہے جسے انسان بقا کی جنگ لڑ سکتا ہے۔ ان لڑکیوں کے لیے یہاں ایک پیغام بھی ہے جو مال دار شوہر کی تمنا کر تی ہیں کہ سب سے درد ناک چیز بے عزتی ہے لہذا کوشش کیجیئے کہ کوئی کتنا بھی مال دار کیوں نہ ہو، لذت آمیز رویوں کی طر ف آپ کا جھکاؤ نہیں ہونا چاہیے۔‘

بات تو زنجیل کی سچ ہے، بےعزتی اور ذلت انسان کی شخصیت مسخ کر دیتے ہیں جو دریا کی منگنی کے وقت ہی ہو گئی تھی، باقی کا بھرم سہاگ رات میں ٹوٹ گیا۔

زنجیل کہتی ہیں کہ ’یہ کہانی آگے چل کر بہت خطرناک موڑ اختیار کرے گی۔‘

اب کیا موڑ ہو گا۔ اس کے لیے ہمیں ڈرامے کے ساتھ جڑے رہنا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ٹی وی