’چھوٹی سوچ اور موٹی بیوی کے ساتھ تم ہی گزارو اپنی زندگی۔‘
موٹاپا یا باڈی شیمنگ ایک ایسا موضوع ہے جس پہ اب مختلف فارم سے مختلف انداز سے بات ہو رہی ہے، سمجھائی جا رہی ہے کہ ایک عورت کا موٹا ہونا اس کی تمام اچھائیوں کو ختم نہیں کر دیتا اور اس کی عزت نفس کس طرح موٹا کہنے سے مجروح ہوتی ہے۔
یہ ڈراما سیریز’اوئے موٹی‘ کا دوسرا سیزن ہے، جو ایکسپریس ٹی وی سے نشر ہو رہا ہے۔
ہر کہانی ایک ایسی ہی لڑکی کی ہے جس کو اپنے زیادہ صحت مند ہونے کی وجہ سے گھر والوں، آس پاس والوں کے نرم گرم لہجوں میں مذاق سننا پڑتے ہیں۔
جسے کبھی تو وہ دل برداشتہ ہو جاتی ہیں کبھی با حوصلہ ہو جاتی ہیں۔
پہلے سیزن کی طرح اس سیزن میں بھی ڈراموں کا اختتام مثبت انداز سے ایک پیغام چھوڑتے ہوئے کیا جا رہا ہے کہ جو جیسا ہے، اس کو ویسا ہی قبول کرنا اصل تعلق اور ظرف ہے۔ اس کو بدل کر دوسروں جیسا بنا کر قبول کرنا تو اس کی ذات کو مسخ کر دینے والی بات ہے۔
ممکن ہے کسی عورت کا جسم ہی ویسا ہو، ممکن ہے شادی کے بعد کسی بیماری سے ہو گیا ہو، ممکن ہے لاعلاج مرض ہو، لہٰذا باڈی شیمنگ سے صاف ایک لب و لہجہ اور معاشرہ تشکیل دینے کی ایک ننھی سی سعی ہے۔
پہلی قسط شادی سے پہلے سے موٹاپے کے مسائل پہ مبنی ہے۔ اس میں ظفر کو اپنی کزن صائمہ اس لیے پسند نہیں کہ وہ ذرا پھیلے ہوئے جسم کی ہے۔ اس کو اپنی دفتر کی باس پسند ہے جو بہت دبلی پتلی ہے۔
اس کا دوست سمجھانے کی کوشش کرتا ہے کہ وہ غلط سوچ رہا ہے لیکن اس کو سمجھ نہیں آتی۔ آخر اس کی اماں اس کی شادی اپنی بہن کی بیٹی کے ساتھ کروانے میں کامیاب ہو جاتی ہیں اور وہ سہاگ رات کو ہی خواب میں دیکھتا ہے کہ اس کی شادی اس کی باس کے ساتھ ہو گئی ہے جو اسے شادی کے بعد سارے گھر کا کام کروانے کے بعد دفتر کا کام کرنے پہ بھی مجبور کرتی ہے۔
بس ایک خواب اس کی زندگی بدل دیتا ہےاور اسے اپنی کزن کی قدر ہو جاتی ہے۔
ڈراما ہلکے پھلکے مذاحیہ انداز میں لکھا گیا ہے لیکن اچھا لگ رہا ہے۔ ہر کہانی کا مصنف الگ ہے اس لیے ہر ڈرامے کا نکتہ نظرالگ دکھائی دے رہا ہے ۔
سیریز میں اگر ایک ہی موضوع ہو توایک ہی مصنف کبھی بہتر نہیں رہتا۔ مختلف مصنف قوس قزح لاتے ہیں۔
دوسری قسط میں بھی ایک خاندان کی کہانی ہے میاں بیوی دو بچے۔ جس میں شادی کے بعد لڑکی موٹی ہو جاتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بات بات پہ اس کا شوہر طنز کرتا ہے لیکن اس کا بیٹا جو ٹین ایج میں ہے، بھانپ جاتا ہے کہ اس کی ماں کی دل آزاری ہو رہی ہے۔
وہ اپنے باپ اور بہن کو سمجھانے کی کوشش کرتا ہے کہ ان کی باتوں کی وجہ سے ماں کا دل دکھتا ہے لیکن انہیں سمجھ نہیں آتی۔ وہ دونوں باپ بیٹی اس کو سماج میں بطور رشتہ متعارف کرواتے ہوئے اس لیے شرماتے ہیں کہ وہ زیادہ صحت مند ہے۔
بیٹی تو ایک بار اس لیے ماں سے الجھ پڑتی ہے کہ اس نے اپنے اور بیٹی کے ایک جیسے کپڑے خرید لیے اور وہی پہن کر اس کی سہیلیوں کے سامنے آ گئی۔ شوہر نے بھی تائید کی کہ اسے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔
شوہر اس کو کسی محفل میں ساتھ لے جانے کو تیار نہیں ہوتا۔ اس کا بیٹا اپنی ماں کے ٹیلنٹ کو تلاش کر لیتا ہے کہ وہ بہت اچھا کھانا بناتی ہے۔ وہ ماں کا یوٹیوب چینل بناتا ہے جو بہت ہٹ ہو جاتا ہے۔ ٹی وی شوز پہ اسے بلایا جانے لگتا ہے۔
یوں اب وہ بطور کوکنگ ایکسپرٹ کے اپنی الگ شناخت بنانے میں کامیاب ہو جاتی ہے جسے اس کا اپنی ذات پہ اعتماد بھی بحال ہوتا ہے اور اس کے وہی رشتے جو اس کو شرمندگی کا باعث سمجھتے تھے انہی کے لیے وہ باعث فخر ہو گئی ہے۔
پہلا سیزن تو بہت مقبول رہا۔ اب دیکھتے ہیں دوسرا سیزن کیسا رہے گا۔
امید ہے پہلے سیزن کی طرح چھا جائے گا کیونکہ یہ اچھا خاصا سماجی مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ اس کی وجہ زیرو سائز ماڈلز کا ان ہو نا بھی ہے۔ پہلے زیرو سائز خواتین کو غیر صحت مند سمجھا جاتا تھا۔ جب غذائی قلت فیشن بنی ہے، سوچنے کا رنگ زیادہ ہی بدل گیا ہے۔
مرد ہو یا عورت ان پہ ایک وقت آتا ہے جب ظاہری پن ساتھ چھوڑنے لگتا ہے۔ شادی کے بعد اور خصوصی بچے ہونے کے بعد عورت اور مرد دونوں میں جسمانی تبدیلیاں آتی ہیں۔ اس تبدیلی کو قبول کرنا حقیقت پسندی ہے جو ہمیں کسی نفسیاتی عارضہ سے بچا کر ،دوسرے کو بھی نفسیاتی مریض بننے سے بجا لیتی ہے۔
لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ پیغام بھی دینا چاہیے کہ کچھ وجوہات خود ساختہ بھی ہیں جن سے ہم کو خود لڑنا ہے ورنہ بنیادی طور پر یہ ایک غیر صحت مند علامت ہے۔
اوئے موٹی، اوئے موٹی/ تیری جیسی نہیں کوئی
بس یہ تھیم سانگ ڈراموں کا ون لائنر ہے اور اپنا پیغام پہنچانے میں کامیاب ہے۔
صحت مند رہیے۔ جان ہے تو جہاں ہے۔