ایک دن پرسکون ڈبے کے نام

اس زمانے کے ڈراموں کا معیار ہی تھا کہ یہ ڈرامے اور پروگرام نہ صرف آج بھی دیکھنے والوں کے دلوں پر نقش ہیں بلکہ بالی وڈ کے اداکار بھی ان ڈراموں کے مداح نظر آتے ہیں۔

پاکستان ٹیلی ویژن جب اطمینان اور سکون کا نام تھا (پاکستان ٹیلی ویژن)

گٸے وقتوں کی بات ہے ایک ایسا ڈبا ایجاد ہوا جسے دیکھ کر آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گٸیں۔ جس طرح نٸی نویلی دلہن پیا دیس سدھارتی ہے اور خاندان و پڑوس بھر سے لوگ دلہن کی ایک جھلک دیکھنے کو بے تاب ہوجاتے ہیں بالکل ویسے ہی اس ڈبے میں ایسا جادو ہوتا تھا کہ پورا کمرہ بھر جاتا اور سب چھوٹے بڑے اسے ہی تکتے رہتے۔

جان لوگی بیئرڈ کی یہ ایجاد پوری دنیا کے لیے حیران کن تھی، جس نے گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں ارتقاٸی مراحل طے کیے۔ یوں یہ حیران کن ایجاد ملکی وبین الاقوامی خبریں حاصل کرنے اور تفریح مہیا کرنے کا اہم ذریعہ بن گئی۔

1964 میں اس ڈبے یعنی ٹیلی ویژن پر پاکستان ٹیلی ویژن کا درخشاں ستارہ جگمگایا۔ تب بلیک اینڈ واٸٹ ٹی وی کا دور تھا۔ اس کے باوجود بھی سحر ایسا تھا کہ کمرے میں تلِ دھرنے کی جگہ نہ رہتی۔ پورے محلے کے بچے بڑے ڈرامے کے وقت آ موجود ہوتے اور سب مل کر یوں پروگرام دیکھتے کہ سینیما ہال کا سا منظر بن جاتا۔

1976 میں پاکستان ٹیلی ویژن نے بے رنگ دنیا سے نکل کر رنگین دنیا میں قدم رکھا مگر معیاری ڈراموں اور پروگراموں کی وجہ سے پی ٹی وی تو بہت پہلے ہی اپنے ناظرین کی زندگی میں رنگ بھر چکا تھا۔

پاکستانی فلمیں تو کبھی ملکی یا غیر ملکی سطح پر پہچان بنانے میں ناکام رہیں مگر پاکستان ٹیلی ویژن نے جلد ہی قدم جما لیے اور اس کے معیاری ڈراموں اور دوسرے پروگراموں کی گونج سرحد کے پار بھی سنائی دینے لگی۔

’خدا کی بستی،‘ ’ایک حقیت ایک افسانہ،‘ ’وارث،‘ ’تنہائیاں،‘ ’تیسرا کنارہ،‘ ’دھوپ کنارے،‘ جیسے متعدد ڈرامے سامنے آئے جن میں معیاری کہانیاں، جاندار کردار، دلکش زبان پیش کی جاتی تھی۔ ان ڈراموں کے ذریعے عظمیٰ گیلانی، عابد علی، معین اختر، طلعت حسین، روحی بانو، قاضی واجد، فردوس جمال، وسیم عباس، جاوید شیخ، شکیل، شہناز شیخ، مرینہ خان اور دوسرے کئی اداکاروں نے ناظرین کے دلوں میں گھر کر لیا۔

ان ڈراموں کا معیار ہی تھا کہ یہ ڈرامے اور پروگرام نہ صرف آج بھی دیکھنے والوں کے دلوں پر نقش ہیں بلکہ بالی وڈ کے اداکار بھی ان ڈراموں کے مداح نظر آتے ہیں۔

لیکن صاحب، کہتے ہیں کہ ہر کمال کو زوال ہے۔ یہ سنہرا دور بھی 90 کی دہائی کے آخر میں دھندلا پڑنے لگا۔ پرویز مشرف کے دور میں نجی چینلوں کی بھرمار ہونے لگی۔ مقابلے کی دوڑ ایسی چلی کہ مقدار نے معیار کو ہڑپ کر لیا۔

رہی سہی کسر 2010 کے بعد عام ہونے والے سمارٹ فون نے پوری کر دی۔ اب تو یہ عالم ہے کہ سمارٹ ہو کر ٹی وی نے خود کو دیوار سے ہی لگا لیا اور سمارٹ ٹی وی کہلایا جانے لگا۔ ویسے انٹرنیٹ اور سمارٹ فونز کی ایجاد ٹیلی ویژن کے لیے کسی سوکن سے کم نہیں۔

سمارٹ فونز کی بھرمار نے ٹی وی دیکھنے کے رجحان کو کافی کم کر دیا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ ٹی وی پر بریکنگ نیوز آنے اور اس خبر کی تصدیق ہونے میں کچھ وقت درکار ہوتا ہے اس کے برعکس سمارٹ فونز پر مختلف ویب ساٸٹ اور سوشل میڈیا پلیٹ فارم سے وہ خبر پہلے ہی منظرعام پر آ جاتی ہے۔ یہ ایک الگ بحث ہے کہ سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلنے والی خبروں میں کتنی صداقت ہوتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ٹی وی پر وہ خبرنامے یا پروگرام جو ناظرین یا تو بجلی کی ستم ظریفی یا کسی بھی وجہ سے نہیں دیکھ سکے تو وہ سمارٹ فون میں موجود یوٹیوب سے فوری دیکھا جا سکتا ہے اس لیے اب نشرِمکرر پروگرام بھی اپنی اہمیت کھو چکے ہیں۔ اب منٹوں اور سیکنڈوں میں سمارٹ فونز دنیا بھر کی خبریں لیے گھومتا ہے۔ ایسے میں اب کون پلگ کو سوٸچ بورڈ پر لگائے اور ٹی وی کھلنے کا انتظار کرے۔

مگر ٹی وی کے عالمی دن پر اس پرانے والے ڈبے کو ہی یاد کرنے کا دل چاہتا ہے۔ جب نہ کوٸی ڈش کلچر تھا اور نہ ہی کیبل بس تھا تو پیارا سا اور سمارٹ سا اینٹینا جسے ہلاتے وقت ہم پوچھتے تھے کہ ’کیا ہوا، چینل صاف ہوا؟‘

گھر والے آواز لگاتے تھے، ’آٸی تھی پھر چلی گٸی، اسی طرف اینٹینا گھماؤ جہاں ابھی موڑا تھا،‘ اور اسی اثنا میں ہمارا پسندیدہ پروگرام یا ڈراما نکل جاتا تھا۔ یہ وہ حسین دور تھا جب چینل تو ایک تھا لیکن گھر کے فرد کی طرح ہر کسی کی پسند کا خیال رکھا جاتا تھا۔ جہاں بچوں کے لیے کارٹون اور ’عینک والا جن‘ بھی تھا اس کے ساتھ ساتھ بچوں کی بہتر تربیت کے لیے پروگرام بھی نشر کیے جاتے تھے، خاتون خانہ کے لیے پکوان کا پروگرام تھا جبکہ دیکھتی آنکھوں اور سنتے کانوں کے لیے نیلام گھر بھی تھا اور کسوٹی جیسا شاندار پروگرام بھی۔

یہ وہ وقت تھا جب معاشرے کی عکاسی کرتے سبق آموز اور جاندار کہانی رکھنے والے ڈراموں کا سب بے صبری سے انتظار کرتے تھے۔ تب ہر ڈرامے میں عورت کو ہی عورت کا گھر خراب کرتے ہوٸے نہیں دکھایا جاتا تھا بلکہ اسے سلیقہ شعار اور مشکل حالات سے نبردآزما ہوتے ہوٸے دکھایا جاتا تھا۔ تب اگر کسی ڈرامے میں کسی کو غریب دکھایا جاتا تھا تو گھر کی حالت اور میک اپ سے پاک چہروں اور عام سے کپڑوں کو دیکھ کر واقعی لگتا تھا کہ اداکار غریب ہی ہے۔ یہ وہ دور تھا جب کوئی نہیں جانتا تھا کہ ریٹنگ کیا شے ہے اور بریکنگ کس چڑیا کا نام ہے۔

اس وقت نہایت اہم خبروں کو بھی بریکنگ کے نام پر گلا پھاڑ پھاڑ کر نہیں پڑھا جاتا تھا۔ ٹاک شوز کے نام پر دنگل نہیں ہوتا تھا، اختلاف بھی تہذیب کے داٸرے میں ہوتا تھا۔ پی ٹی وی کے پروگرام ’ففٹی ففٹی،‘ ’الف نون‘ اور ’اندھیرا اجالا‘ اس کی چند سامنے کی مثالیں ہیں۔

اب چینلوں کی بھرمار تو ہے مگر معیاری پروگراموں کا فقدان نظر آتا ہے۔ بچوں کی تعلیم و تربیت اور ساٸنسی معلومات سے متعلق پروگرام نشر کرنے کا کسی چینل کے پاس نہ ہی کوٸی بجٹ ہے نہ ہی وقت۔ یہ عذر تو ہر وقت تیار رہتا ہے کہ بچوں کے پروگرام میں اچھی ریٹنگ ہی نہیں آتی اور جب اچھی ریٹنگ نہیں آتی تو اشتہار بھی نہیں ملتے۔ اچھی ریٹنگ تو پراٸم ٹاٸم میں ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے میں آتی ہے، اس لیے نٸی نسل کی کردار سازی اور تربیت کا کسی چینل کے پاس کوٸی وقت نہیں۔

اس لیے آج کا دن اس پرسکون ڈبے کے نام جسے دیکھ کر طبیعت ہشاش بشاش ہو جاتی تھی۔ ایک بار پھر ماضی کے جھروکوں سے ان یادوں کو جدید تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت ہے کیونکہ تازہ ہوا جھونکا اگر نہ آٸے تو معاشرہ مردہ ہو جاتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ٹی وی