سپریم کورٹ کی ہدایت کے باوجود اردو سرکاری زبان کیوں نہ بن سکی؟

اردو پاکستان کی قومی زبان ہے لیکن حکومت پاکستان کی تمام وزارتوں کے اعلامیے اردو کی بجائے انگریزی میں جاری کیے جاتے ہیں۔

آئین پاکستان اور عدالتی حکم ناموں کے باوجود اردو تا حال سرکاری زبان کا درجہ حاصل نہ کر سکی، جبکہ تعلیمی اداروں میں بھی اردو کی بجائے انگریزی بولنے  کو ترجیح دی جاتی ہے (انڈپینڈنٹ اردو)

اردو پاکستان کی قومی زبان ہے لیکن حکومت پاکستان کی تمام وزارتوں کے اعلامیے اردو کی بجائے انگریزی میں جاری کیے جاتے ہیں۔ آئین پاکستان اور عدالتی حکم ناموں کے باوجود اردو تا حال سرکاری زبان کا درجہ حاصل نہ کر سکی، جبکہ تعلیمی اداروں میں بھی اردو کی بجائے انگریزی بولنے  کو ترجیح دی جاتی ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو نے اردو کو سرکاری زبان نافذ العمل نہ ہونے کی وجوہات جاننے کی کوشش کی ہے۔

قومی اسمبلی کے ایڈیشنل سیکریٹری شمعون ہاشمی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’زبان اور مذہب ہماری آئین سازی کی تاریخ میں دو بنیادی مسئلے ہیں۔ یہ معاملہ سیاسی بن چکا ہے۔ 1973 کے آئین میں لکھا گیا کہ قومی زبان اردو ہو گی اور 15 سال کے اندر یہ سرکاری زبان بھی ہو گی لیکن 1973 سے اب 2023 تک اس معاملے کو 50 سال ہو جائیں گے لیکن اس پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی کیونکہ یہ ہماری کبھی ترجیح ہی نہیں رہی اور نہ کبھی یہ مقصد تھا۔‘

ادارہ فروغ قومی زبان کے سابق ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر روف پاریکھ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ ’1979 میں مقتدرہ قومی زبان کا ادارہ بنایا گیا جس کا بنیادی مقصد اردو زبان کو سرکاری زبان بنانا تھا۔ 1973 کے آئین کے بعد بھی چھ سال لگ گئے یہ ادارہ بنانے میں۔‘

انہوں نے کہا: ’اس ادارے کو اختیارات دیے گئے تھے کہ اردو کا سرکاری زبان کے طور پر نفاذ کرے لیکن 2012 میں اختیارات ختم کر کے اسے صرف ادارہ فروغ قومی زبان کر دیا گیا۔ اس لیے بھی ابھی تک نفاذ نہیں ہو سکا کیونکہ ہمارے پاس اب اختیار نہیں رہا۔‘

پیپلز پارٹی کے رہنما فیصل کریم کنڈی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اردو ہماری قومی زبان ہے اور اس میں کوئی دو آرا نہیں ہے کہ ہمیں اس کی ترویج کے لیے کام کرنا چاہیے اور گفتگو و شنید میں ترجیح دینی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ ’انگریزی بھی ہمارے نظام کا حصہ ہے جس کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا لیکن میں اردو کی حمایت کرتا ہوں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’سرکاری زبان کے طور پہ اس کا نفاذ ہونے میں بظاہر تو کوئی دقت نہیں لیکن اس کی حتمی وجہ وزیراعظم ہی بتا سکتے ہیں۔‘

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری اس معاملے میں کہتے ہیں کہ ’اردو سرکاری زبان ہونا ممکن نہیں ہے، اس لیے ب تک وہ سرکاری زبان کا درجہ نہیں پا سکی۔‘

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ ’یہ عملی طور پر ممکن ہی نہیں ہے، قیام پاکستان کے بعد ہمارا بنیادی نظام برطانوی راج سے متاثر رہا ہے۔ ادارے بنے ہی سب برطانوی دور میں ہیں اب وہ پوری تاریخ اور فیصلوں کا ترجمہ کرنا بہت مشکل کام ہے۔ یہ کوشش ضیا دور میں ہوئی تھی لیکن اس نے دستاویزی نظام کو تباہ و برباد کر دیا تھا۔‘

انہوں نے کہا کہ ’اس کو بنیادی زبان کے طور تو رکھا جا سکتا ہے لیکن سرکاری زبان کے طور پر اپنانا بہت مشکل کام ہے۔‘

فواد چوہدری نے مزید کہا کہ ’ہمیں اردو بولنے کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے تاکہ زبان کے طور پہ وہ زندہ رہے۔‘

پاکستان مسلم لیگ ن کے سینیٹر مشاہد حسین سید نے موقف دیتے ہوئے کہا کہ ’اردو ہماری قومی زبان ہے وفاق کو متحد کرنے کی زبان ہے، چاہے سرکاری سکول ہو پرائیویٹ سکول ہو یا مدرسہ ہو اردو سب کی متفقہ اکائی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ انگریزی زبان کو بھی نہیں چھوڑا جا سکتا کیوں کہ وہ ہماری سرکاری زبان ہے جو بین الاقوامی برادری میں بات چیت کا ذریعہ ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’انگریزی ہماری روایت ہے ہمیں ورثے میں ملی ہے اس کا فائدہ ہی ہوا ہے نقصان نہیں ہے۔ سرکاری زبان انگریزی ہی ہونی چاہیے۔‘

آئین پاکستان زبان کے بارے میں کیا کہتا ہے؟

آئین کا آرٹیکل 251 اس معاملے پر واضح ہے، جس کی شق نمبر ایک کے مطابق پاکستان کی قومی زبان اردو ہے اور سرکاری سطح پر اس کے فروغ کے انتظامات ہونے چاہییں۔ شق نمبر دو کے مطابق دفتری زبان انگریزی رہے گی، جب تک اردو کو اس کا مکمل متبادل نہیں بنا دیا جاتا۔

اسی طرح شق نمبر تین کے مطابق صوبائی اسمبلی قومی زبان کے ساتھ ساتھ صوبائی زبانوں کی ترویج کے لیے بھی اقدامات کرے۔

عدالت میں بھی معاملہ زیر التوا

اعلیٰ عدالتوں میں سائلین بھی متعدد بار یہ شکایت کرچکے ہیں کہ کیس کی کارروائی انگریزی میں ہونے کی وجہ سے انہیں سمجھ ہی نہیں آتی، جو بعد میں انہیں وکیل سے پوچھنی پڑتی ہے۔

رواں برس جنوری میں اردو سرکاری زبان بنانے کے حوالے سے فیصلے پر عمل درآمد نہ ہونے پر سپریم کورٹ میں توہین عدالت کی درخواست دائر ہوئی کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے: ’اردو کو سرکاری زبان کے طور پر رائج کرنے کے سپریم کورٹ کے حکم پر عمل ہونا چاہیے۔ تعلیمی اداروں میں اردو زبان کو کوئی فروغ نہیں مل رہا۔ اس معاملے کو اب سنجیدگی سے دیکھیں گے۔‘

اردو زبان سرکاری سطح پر رائج نہ کرنے پر وکیل کوکب اقبال نے سابق وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اور سابق وزیراعظم کے پرنسپل سیکریٹری اعظم خان کے خلاف سال 2021 میں توہین عدالت کی درخواست دائر کی تھی۔

ستمبر 2021 میں بھی اس کیس کی ایک سماعت ہوئی تھی جس میں حکومت سے جواب طلب کیا گیا تھا، لیکن برس گزرنے کے باوجود تاحال اس معاملے پر کوئی اہم پیش رفت نہ ہو سکی۔

اس کیس کی آخری سماعت ستمبر 2022 میں ہوئی ہے جس میں ادارہ فروغ قومی زبان نے عدالت کو بتایا کہ اردو کے نفاذ کے لیے ان کا کام مکمل ہے اب حکومت چاہے تو نفاذ کر لے۔ اس کے بعد کیس کی سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی ہو گئی۔

قومی اسمبلی کی کمیٹیوں میں بھی اردو زبان کے لیے آواز بلند

رواں ماہ دسمبر میں عباد اللہ خان کی زیر صدارت قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے ہاؤسنگ و تعمیرات کا اجلاس ہوا جس میں رکن اسمبلی چوہدری عابد رضا نے اعتراض اٹھایا کہ ’میٹنگ کا ایجنڈا اردو میں کیوں نہیں چھاپتے، باقی ممالک میں اجلاس ان کی اپنی زبانوں میں ہوتے ہیں۔‘

اس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ’ہم نے پہلے بھی ہدایت کر رکھی ہے کہ بریف اردو میں بھیجا کریں۔‘

ایڈیشنل سیکرٹری وزارت ہاؤسنگ نے کمیٹی میں بتایا کہ ’ہماری وزارت میں اردو ٹائپ رائٹر نہیں ہے۔ جو چیزیں ہم اردو میں بھیج سکتے ہیں وہ اردو میں کر دیا کریں گے۔‘

اس جواب پر چیئرمین کمیٹی نے انہیں ہدایت دی: ’اردو اور انگلش دونوں میں بریف بنا دیا کریں۔‘

اس کے علاوہ سینیٹ کمیٹی برائے قومی ورثہ میں بھی اردو زبان کے سرکاری نفاذ پر بحث کی گئی۔

خیال رہے کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ کی کمیٹیوں کے جو ایجنڈے ویب سائٹ پر جاری کیے جاتے ہیں وہ سب انگریزی میں ہوتے ہیں۔

البتہ میڈیا کی سہولت کے لیے ایوان صدر اور وزیراعظم کے دفتر سے جاری ہونے والے انگریزی اعلامیے کے ساتھ اب اردو اعلامیے بھی جاری کیے جا رہے ہیں۔

اردو اعلامیے وٹس ایپ میں میڈیا کے ساتھ شئیر کیے جاتے ہیں جبکہ سرکاری ویب سائٹ پر انگریزی اعلامیے ہی شائع کیے جاتے ہیں۔

عدالت عظمیٰ کا اردو سرکاری زبان بنانے کا فیصلہ

سپریم کورٹ نے آٹھ ستمبر 2015 میں قومی زبان اردو کو سرکاری زبان کے طور پہ رائج کرنے کا تاریخی حکم دیا تھا جس پر تاحال عمل درآمد نہیں ہو سکا۔

اس وقت کے چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے اردو زبان کے حوالے سے فیصلہ دیا تھا۔

جسٹس جواد ایس خواجہ نے اپنے تفصیلی فیصلے میں لکھا تھا کہ ’آرٹیکل 251 کے احکامات کو بلا تاخیر فوراَ نافذ کیا جائے۔‘

12 صفحات پر مشتمل اس فیصلے میں مزید لکھا گیا تھا:

۔ قومی زبان کے رسم الخط میں یکسانیت پیدا کرنے کے لیے وفاقی اورصوبائی حکومتیں باہمی ہم آہنگی پیدا کریں۔

۔ تین ماہ کے اندر اندر وفاقی اور صوبائی قوانین کا ترجمہ کر لیا جائے۔

۔ بغیر کسی غیر ضروری تاخیر کے نگرانی کرنے والے اور باہمی ربط قائم رکھنے والے ادارے آرٹیکل 251 کو نافذ کریں اور تمام متعلقہ اداروں میں اس دفعہ کا نفاذ یقینی بنائیں۔

۔ وفاقی سطح پر مقابلے کے امتحانات میں قومی زبان کے استعمال کے بارے میں حکومتی ادارے مندرجہ بالا سفارشات پر عمل کریں۔

عدالتی فیصلے میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ ’ان عدالتی فیصلوں کا، جو عوامی مفاد سے تعلق رکھتے ہوں، جو آرٹیکل189 کے تحت اصولِ قانون کی وضاحت کرتے ہوں، لازماَ اردو میں ترجمہ کروایا جائے اور عدالتی مقدمات میں سرکاری محکمے اپنے جوابات حتیٰ الامکان اردو میں پیش کریں تاکہ شہری اس قابل ہو سکیں کہ اپنے قانونی حقوق نافذ کروا سکیں۔‘

مزید کہا گیا تھا: ’اس فیصلے کے اجرا کے بعد اگر کوئی سرکاری ادارہ یا اہلکار آرٹیکل 251 کے احکامات کی خلاف ورزی جاری رکھے گا تو جس شہری کو بھی اس کی خلاف ورزی کے نتیجے میں نقصان یا ضرر پہنچے گا، اسے قانونی چارہ جوئی کا حق حاصل ہوگا۔‘

جسٹس جواد ایس خواجہ منصف ہونے کے ساتھ ساتھ ادبی سے لگاؤ رکھنے والی شخصیت بھی رکھتے ہیں۔ ان کے دور میں کمرہ عدالت میں عدالتی ریمارکس اور فیصلے اردو میں ہی ادا کیے جاتے تھے۔ بلکہ ان کے عدالتی معاون کے فرائض میں شامل تھا کہ بینچ کا ہر فیصلہ اردو میں جاری کیا جائے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ صرف 24 دن چیف جسٹس رہے اور ریٹائر ہوگئے۔ ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد عدالت عظمی میں اردو فیصلے جاری ہونے کا سلسلہ چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کے دور میں کچھ عرصہ رہا پھر معدوم ہو گیا۔

اردو زبان کی ترویج کے لیے کتنا کام ہوا ہے؟

ڈاکٹر عقیل جعفری جو پاکستان ڈکشنری بورڈ کے سابق ڈائریکٹر ہیں انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انہوں نے اردو لغت کی 22 جلدیں مرتب کی ہیں۔ دو جلدوں میں اس کا خلاصہ شائع کیا ہے۔ اس کے علاوہ ان کے ادارے نے اس پوری لغت کو آن لائن کر دیا ہے۔

اس کی ایپلیکشن بھی بنا دی ہے جہاں ہر لفظ کا الگ صفحہ کُھل جاتا ہے۔ یہ ایپ اردو ڈکشنری کی ویب سائٹ پر موجود ہے وہاں سے ڈاؤن لوڈ کی جا سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’اس کو ریکارڈ بھی کر دیا گیا ہے تاکہ لفظوں کی ادائیگی کی درستگی ہو سکے۔ میڈیا کے لیے صحیح تلفظ درست املا کے نام سے کتابچہ بھی شائع کیا ہے تاکہ زبان کی درستگی کی جا سکے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا کہ ’2019 میں پاکستان ڈکشنری بورڈ کو ادارہ فروغ قومی زبان میں ضم کر دیا ہے جس کے بعد سے اب یہ ادارہ غیر فعال ہو چکا ہے۔‘

ادارہ فروغ قومی زبان کے حال ہی میں ریٹائر ہونے والے سربراہ ڈاکٹر رؤف نے بتایا کہ ’نہ صرف کتابوں اور مراسلوں میں بلکہ جدید دور کے مطابق اردو کے آن لائن ترجمے کا بھی کام شروع ہے جو ڈیڑھ برس میں مکمل ہو جائے گا۔ قومی زبان ڈیجیٹل لیبارٹری کے نام سے بنائی ہے جہاں مصنوعی ذہانت کی مدد سے خود کار ترجمے کیے جائیں گے۔ اگر کوئی تصویر ہے جس پر کسی اور زبان میں کچھ لکھ ہے تو اس کو سکین کرنے سے اس کا اردو ترجمہ ہو جائے گا۔

ڈاکٹر رؤف نے نے بتایا کہ 'سرکاری ویب سائٹس کے بھی اردو نمونے تیار کیے جا رہے ہیں۔ وزارت اطلاعات کی ویب سائٹ اردو میں میسر ہے۔زبان کے تخفظ کے لیے اس پر مزید پر کام جاری ہے۔'

اردو زبان کا تخفظ کیسے ہو سکتا ہے؟

قومی زبان ہونے کی وجہ سے اردو ملک میں باہمی رابطے کا زریعہ ہے۔ لیکن ترقی یافتہ دنیا سے رابطے بڑھنے کے باعث بین الاقوامی زبان انگریزی کا رجحان بڑھ رہا ہے جبکہ نئی نسل میں اردو تسلسل سے بولنے والے ناپید ہوتے جا رہے ہیں۔

سکولوں میں بھی انگریزی بولنے پر زیادہ زور دیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سکول کے بچے اردو کم اور انگریزی میں زیادہ مہارت رکھتے ہیں۔

اس معاملے پر قومی اسمبلی کے ایڈیشنل سیکرٹری شمعون ہاشمی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات چیت میں کہا کہ زبان تب عام ہوتی جب وہ سہل ہوتی ہے اور جب عام ہو گی اتنی آسان ہو گی۔ زبان نئے جوتے کی طرح ہوتی ہے جتنی بار پہنیں گے آسان ہو جائے گی۔‘

اسی طرح زبان کا تخفظ ایسے ہی ہو سکتا ہے اسے آسان رکھا جائے مشکل الفاظ کو حصہ نہ بنایا جائے اور روانی رکھی جائے تاکہ اب کی زندگی کا حصہ بن جائے۔

ادارہ فروغ قومی زبان کے سابق ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر رؤف نے بتایا: ’ادارے نے بہت تیزی سے کام شروع کیا اور آج کی تاریخ تک تمام وزارتوں کی تکنیکی زبان، الفاظ اور سرکاری خطوط جو انگریزی میں تھے سب کا اردو میں ترجمہ کر دیا گیا ہے۔ سب اردو نمونے تیار ہیں۔

’قوانین و ضوابط کے لاکھوں صفحات کے اردو ترجمے ہم کر چکے ہیں۔ اب بس حکومت کی طرف سے حکم کی دیر ہے۔‘

ڈاکٹر رؤف نے مزید بتایا کہ رواں برس نومبر میں سینیٹ کمیٹی برائے قومی ورثہ میں بلا کر استفسار کیا گیا کہ اردو کا بطور سرکاری زبان اطلاق ہونے میں کیا دیر ہے ’تو ہم نے انہیں بتایا دیر ہماری طرف سے نہیں ہے ہمارے حصے کا کام مکمل ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ اردو کے نفاذ سے متعلق سپریم کورٹ ہائی کورٹ سمیت پانچ کیسز بھی جاری ہیں۔

پاکستان ڈکشنری بورڈ کے سابق ڈائریکٹر ڈاکٹر عقیل جعفری نے کہا کہ ’اگر زبان کا تخفظ چاہتے ہیں تو رومن اردو سے جان چُھڑائیں۔ زبان کو بچانا ہے تو اردو رسم الاخط کو اختیار کرنا پڑے گا۔ رومن کے بجائے جتنا اردو میں لکھیں گے اردو پڑھیں گے زبان زندہ رہے گی۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ادب