کیوں نہ انگریزی کو قومی زبان قرار دیا جائے؟

اگر پاکستان میں اردو کو رائج نہیں کرنا تو پھر انگریزی ہی کو قومی زبان قرار دے دیجیے۔

(پیکسلز)

 

یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کریں


اردو کی عظمت کے بیان اور اس کی ناقدری کے نوحے بہت ہو گئے۔ عقل سلیم اب تقاضا کرتی ہے کہ انگریزی کو اپنی قومی زبان بنایا جائے۔ اردو سے ہماری محبت اپنی جگہ، سچ مگر یہ ہے کہ اردو اب قومی وحدت سے زیادہ طبقاتی تقسیم کا حوالہ بن چکی ہے۔

یہ محض کتابی بات ہے کہ اردو ہماری قومی زبان ہے۔ سامنے کی حقیقت یہ ہے کہ یہ صرف رعایا کی زبان ہے۔ اشرافیہ اور امورِ ریاست اس تکلف سے بے نیاز ہیں۔ رعایا اور اشرافیہ میں حائل یہ خلیج پاٹنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ ہر سطح پر انگریزی کو رائج کر دیا جائے۔

یہ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کے پہلے اجلاس کا دوسرا روز تھا۔ ایک رکن نے اردو میں بات کرنا چاہی تودستور ساز اسمبلی کے صدر نے رولنگ دے دی کہ ایوان کی زبان انگریزی ہو گی اور اردو بولنے سے پہلے اجازت لینا ہو گی اور اردو میں بات کرنے کی اجازت صرف اس شخص کو دی جائے گی جسے انگریزی زبان نہ آتی ہو۔ (یاد رہے کہ دستور ساز اسمبلی کے صدر کوئی اور نہیں بلکہ قائد اعظم خود تھے اور یہ ساری تفصیل قومی اسمبلی آرکائیوز میں موجود ہے)۔

وزیر اعظم پاکستان جناب لیاقت علی خان نے اس اسمبلی میں پاکستان کے مجوزہ پرچم کا تعارف بھی انگریزی زبان میں کرایا۔

 لیاقت علی خان صاحب ہی نے 12 اگست 1947 کو ایوان میں ایک قرارداد پیش کی کہ بانی پاکستان کو آج سے قائد اعظم محمد علی جناح لکھا اور پکارا جائے۔ یہ قرارداد بھی انہوں نے انگریزی زبان میں پیش کی۔ اس قرارداد کے حق اور مخالفت کے سارے دلائل انگریزی ہی میں بیان کیے گئے۔

اس سے قبل قرارداد پاکستان کا مسودہ بھی انگریزی میں ہی تیار کیا گیا تھا۔ ہمارے ہاں قائد اعظم کی گیارہ اگست کی تقریر اس عنوان سے اکثر زیر بحث آتی ہے کہ وہ کیساپاکستان چاہتے تھے۔ دستور ساز اسمبلی میں کی جانے والی یہ تقریر بھی انگریزی زبان میں تھی۔

قرارداد مقاصد کو لیاقت علی خان نے جب دستور ساز اسمبلی میں پیش کیا تو اسے قیام پاکستان کے بعد سب سے بڑا اور اہم واقعہ قرار دیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ قرارداد بھی اردو میں نہیں بلکہ انگریزی زبان میں پیش کی گئی تھی۔ مطالعہ پاکستان میں قائد اعظم کے 14 نکات کا سوال اکثر امتحان میں آتا ہے۔ یہ نکات بھی قائد اعظم نے انگریزی زبان میں پیش کیے تھے۔

سب کچھ انگریزی زبان میں ہوتا رہا لیکن بنگالی ہم نے اس لیے ناراض کر دیے کہ ہم نے اردو کو قومی زبان قرار دے دیا۔ بنگالیوں کو اردو آتی نہیں تھی۔ بنگالیوں کا کہنا تھا کہ اردو کے ساتھ ساتھ بنگالی کو بھی سرکاری زبان قرار دیا جائے لیکن یہ تجویز قبول نہ کی گئی، چنانچہ مشرقی پاکستان میں زبان کے مسئلے پر احتجاج شروع ہو گیا۔ بعد میں بنگالیوں کا یہ مطالبہ مان لیا گیا لیکن بہت دیر ہو چکی تھی۔ پولیس کے ہاتھوں لاشیں گر چکی تھیں اور زبان اور قومیت کی بنیاد پرناراضی جنم لے چکی تھی۔ باقی تاریخ ہے۔

پاکستان کا پہلا آئین 23 مارچ 1956 کو نافذ ہوا۔ اس آئین میں اردو اور بنگلہ دونوں زبانوں کو قومی زبان قرار دیا گیا لیکن آئین سازوں کو گوارا نہ تھا کہ آئین اردو یا بنگلہ میں لکھا جائے۔ یہ انگریزی زبان میں تھا۔ قوم کو یہ بات انگریزی میں لکھ کر بتائی گئی کہ تمہاری قومی زبان اردو اور بنگلہ ہو گی۔ بعد کے دونوں آئین بھی قومی زبان کی بجائے انگریزی میں لکھے گئے۔ حتی کہ آئین پامال کرنے کے حکم نامے بھی انگریزی میں ہی جاری کیے جاتے رہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تین جولائی 1962 کو اسمبلی میں ایک دلچسپ واقعہ ہوا۔ ایک رکن انگریزی میں خطاب کر رہے تھے اور بیچ میں کہیں اردو بول بیٹھے۔ ڈپٹی سپیکرافضل چیمہ صاحب تھے، وہ خفا ہو گئے کہ انگریزی میں بات کرتے ہوئے بیچ میں اردو بول کر انگریزی کی توہین کیوں کی گئی۔ انہوں نے رکن کو بات کرنے سے روک دیا اور کہا کہ انگریزی میں بات شروع کی ہے تو انگریزی ہی میں بولو۔ بظاہر ایک اصولی موقف اختیار کر نے کی کوشش کرتے ہوئے انہوں نے رکن اسمبلی سے کہا کہ ایک وقت میں ایک زبان میں بات کی جائے۔

رکن اسمبلی نے کہا ٹھیک ہے اگر ایک وقت میں ایک زبان میں بات کرنے کی شرط ہے تو میں اردو میں بات کر لیتا ہوں۔ ڈپٹی سپیکر نے کہا ’میں اس کی اجازت نہیں دوں گا‘۔ رکن نے کہا چلیں پھر میں بنگلہ زبان میں بات کر لیتا ہوں۔ ڈپٹی سپیکر نے کہا ’میں اس کی اجازت بھی نہیں دے سکتا۔‘

اس پر محمد علی صاحب نے کہا، ’جناب سپیکر نرم دلی اور فیاضی کا مظاہرہ فرمائیے اور انہیں اردو یا بنگلہ میں بات کرنے کی اجازت دیجیے۔‘ اس پر ڈپٹی سپیکر صاحب نے لکھا کہ میں معاملے کا Charitable view  لیتے ہوئے اردو اور بنگلہ میں بات کرنے کی اجازت دیتا ہوں۔ یعنی پاکستان کی اسمبلی کا ڈپٹی سپیکر اردو بولنے کی اجازت ’خیرات‘ میں دے رہا تھا۔

12 جون 1989 کو مولانا محمد خان شیرانی نے سپیکر سے مطالبہ کیا کہ ایوان میں اردو میں بات کی جائے تا کہ سب سمجھ سکیں اور انگریزی بولنے کی اجازت صرف اس کو دی جائے جو اردو میں بات نہ کر سکتا ہو۔ اس پر فیصل صالح حیات بد مزہ ہو گئے اور کہنے لگے جسے انگریزی نہیں آتی وہ اس کا ترجمہ پڑھ لیا کرے۔ گویا صاحب لوگوں نے خطاب انگریزی میں ہی فرمانا ہے بھلے ترجمے کر کے سمجھا جائے۔

سپیکر نے اس پر رولنگ دی کہ تقریر تو دونوں زبانوں میں ہو سکتی ہے لیکن ترجیح اردو کو دینی چاہیے۔ چنانچہ ہم سب نے دیکھا کہ اردو کو اتنی ترجیح دی جاتی ہے کہ وزیر اعظم عمران خان صاحب اعتماد کا ووٹ لینا چاہیں تو ایوان میں شاہ محمودقریشی صاحب انگریزی میں بروئے کار آتے ہیں۔

سب کچھ انگریزی میں ہے۔ آئین انگریزی میں ہے۔ دفتروں میں انگریزی لکھی جاتی ہے۔ قانون انگریزی میں ہے۔ عدالتوں کے فیصلے انگریزی میں ہیں۔ مقابلے کے امتحان انگریزی میں لیے جاتے ہیں۔ ریٹائرڈ اعلیٰ فوجی اور سول افسران فخر سے بتاتے ہیں کہ اردو میں ان کا ہاتھ تنگ ہے۔ غلہ منڈی کے تاجروں کے لیے ڈپٹی کمشنر کے دفتر سے نوٹس انگریزی میں جاری ہوتا ہے۔ مہینے انگریزی کے ہیں۔ ہندسے انگریزی کے ہیں۔ بچے انگریزی سکولوں میں پڑھائے جاتے ہیں۔ انگریزی بولنا ہی باعث فضیلت ہے۔ سوال یہ ہے کہ اردو کے یہ اقوال زریں پھر کس لیے؟

 انگریزی زبان کی بنیاد پر ہی اگر عزت و مرتبے کا تعین ہونا ہے تو ’اردو میڈیم رعایا‘ کی پشت پر اردو کے فضائل کا یہ کوڑا کیوں برسایا جاتا ہے؟ اردو کو رائج نہیں کرنا تو پھر انگریزی ہی کو قومی زبان قرار دے دیجیے۔ زبان کی بنیاد پر یہ طبقاتی تقسیم تو ختم ہو۔

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر