جب میانوالی جیل میں شیخ مجیب الرحمٰن کی قبر کھودی گئی

بنگلہ دیش کے پہلے حکمران شیخ مجیب نے آج ہی کے دن وزیرِاعظم کے عہدے کا حلف اٹھایا تھا، اس موقعے پر خصوصی تحریر۔

سات مارچ 1971 کو شیخ مجیب کی تقریر (پبلک ڈومین)

یہ 12 جنوری 1972 کی بات ہے جب سقوط ڈھاکہ کے بعد شیخ مجیب الرحمٰن نے بنگلہ دیش کے وزیراعظم کے عہدے کا حلف اٹھایا۔

1970 کے عام انتخابات میں مشرقی پاکستان میں ان کی سیاسی جماعت عوامی لیگ کو واضح اکثریت حاصل ہوئی تھی۔ ان انتخابات میں اس جماعت میں قومی اسمبلی کی 162 میں سے 160 نشستوں پر اور صوبائی اسمبلی کی 300 میں سے 288 نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ صدر یحییٰ خان انتخابات کے فوراً بعد قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کر کے اقتدار عوامی لیگ کے سپرد کر دیتے، مگر عوامی لیگ ملک کا آئین چھ نکات کی بنیاد پر تیار کرنا چاہتی تھی جو صریحاً ملک کے ٹوٹنے کی دستاویز تھے۔

صدر یحییٰ خان نے ملک کے دونوں بازؤں کے سیاست دانوں کو مذاکرات کے ذریعے کسی متفقہ حل پر پہنچنے کے لیے آمادہ کرنا چاہا مگر حالات دن بدن بد سے بدتر ہوتے چلے گئے۔ صدر یحییٰ خان نے تین مارچ 1971 کو قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کیا مگر اس سے پہلے کہ یہ اجلاس منعقد ہوتا، یکم مارچ 1971 کو صدر یحییٰ خان نے اس اجلاس کو ملتوی کرنے کا اعلان کر دیا۔

صدر یحییٰ خان کے اس اعلان کا مشرقی پاکستان میں شدید ردعمل ہوا اور وہاں کے عوام یہ نعرے لگاتے ہوئے گلیوں میں نکل آئے کہ ہم آزاد بنگال چاہتے ہیں۔ شیخ مجیب الرحمٰن اب بھی مفاہمت کے حق میں تھے۔ انہوں نے مشرقی پاکستان میں متعین اعلیٰ فوجی حکام سے نہایت عاجزانہ انداز میں اپیل کی کہ حضور اب بھی وقت ہے مجھے اجلاس کی نئی تاریخ لے دیجیے، میں بھی صورت حال پر قابو پالوں گا،  اگر غیر معینہ عرصے کے لیے تاخیر ہوگئی تو وقت ہاتھ سے نکل جائے گا۔‘

حکام بالا سرجوڑ کر بیٹھ گئے، انہوں نے نئی تاریخ کے لیے جنرل یحییٰ خان سے رابطہ کرنے کی کوشش کی مگر یہ رابطہ ممکن نہیں ہو سکا۔ مشرقی پاکستان میں لاقانونیت زور پکڑنے لگی، مجیب الرحمٰن نے عدم تشدد اور عدم تعاون کی تحریک پر عملدرآمد کے لیے ہدایاتیں جاری کرنی شروع کردیں۔ یہ گویا سول نافرمانی کا اعلان تھا جسے بھارت کی آشیرواد بھی حاصل تھی۔

ادھر مغربی پاکستان میں 14مارچ 1971 کو پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو نے کراچی میں ایک جلسہ عام سے خطاب کیا جس میں انہوں نے مطالبہ کیا کہ ملک کے دونوں بازوؤں میں اقتدار اکثریتی پارٹیوں کو منتقل کر دیا جائے اور چھ نکات کے پس منظر میں ملک کے دونوں حصوں کی اکثریتی پارٹیوں کو سمجھوتہ کر لینا چاہیے۔

یہی وہ تقریر تھی جس پر روزنامہ آزاد کے مدیر عباس اطہر نے ’اُدھر تم، اِدھر ہم‘ کی سنسنی خیز سرخی لگائی تھی۔

بھٹو کے اس بیان کو عوامی لیگ نے ملک کو تقسیم کرنے کی سازش قرار دیا۔ اگلے روز صدر یحییٰ خان اور ذوالفقار علی بھٹو، عوامی لیگ کے سربراہ شیخ مجیب الرحمٰن سے مذاکرات کے لیے ڈھاکہ پہنچے، یہ مذاکرات 24 مارچ تک جاری رہے، 25 مارچ کی شام کو یحییٰ خان خفیہ طور پر ڈھاکہ سے اسلام آباد واپس لوٹ آئے۔ انہی مذاکرات کے دوران 23 مارچ 1971 کو عوامی لیگ نے یوم پاکستان کی بجائے یوم مزاحمت منایا۔ اس دن عمارتوں پر بنگلہ دیش کا پرچم لہرایا گیا اور شیخ مجیب الرحمٰن نے ہتھیار بند دستوں کی سلامی لی۔

اس صریحاً بغاوت سے نمٹنے کے لیے جنرل یحییٰ خان نے فوجی ایکشن کا منصوبہ تیار کیا۔ اس منصوبے کو ’آپریشن سرچ لائٹ‘ کا نام دیا گیا۔ اس کے نگراں میجر جنرل راؤ فرمان علی اور میجر جنرل خادم حسین راجہ تھے۔ اس آپریشن کا آغاز 26 مارچ 1971 کو رات ایک بجے ہوا۔ شیخ مجیب الرحمٰن گرفتار کرلیے گئے لیکن ان کے تمام ساتھی بھارت فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔

مجیب الرحمٰن کی گرفتاری کے بعد ان کا ایک پہلے سے ریکارڈ شدہ بیان وائرلیس کے ذریعے ملک بھر میں نشر ہوا جس میں انہوں نے کہا کہ ’ہو سکتا ہے کہ یہ میرا آخری پیغام ہو۔ آج سے بنگلہ دیش ایک آزاد ملک ہے، میں بنگلہ دیش کے لوگوں سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ جہاں کہیں بھی ہوں اور جس کسی کے بھی ساتھ ہوں قابض فوج کے خلاف آخری سانس تک مزاحمت کریں، آپ کی جدوجہد اس وقت تک جاری رہنی چاہیے، جب تک قابض پاکستانی فوج کا آخری سپاہی بنگلہ دیش سے بھگا نہیں دیا جاتا، آخری فتح ہماری ہو گی۔‘

عوامی لیگ کی عسکری تنظیم مکتی باہنی نے، جس کے سربراہ کرنل عثمانی تھے، بھارتی اسلحہ کی طاقت اور تربیت کے زور پر پاکستانی فوج سے بھرپور مقابلہ کیا۔ ڈھاکہ تو ایک رات میں پرسکون ہو گیا لیکن مشرقی پاکستان کے دوسرے شہروں چٹاگانگ، راجشاہی اور پبنہ میں سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔

فوج کو ان تمام علاقوں میں امن قائم کرنے کے لیے سخت جدوجہد کرنی پڑی۔ اسی شام پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو، ڈھاکہ سے کراچی پہنچے، کراچی پہنچ کر انہوں نے اپنے استقبال کے لیے آنے والوں سے مختصر خطاب کرتے ہوئے کہا، ’خدا کا شکر ہے‘ پاکستان بچ گیا۔‘

پاکستانی فوج نے مجیب الرحمٰن کو ڈھاکہ چھاؤنی منتقل کر دیا۔ یہاں سے تین دن کے بعد انہیں طیارے کے ذریعے قیدی کی حیثیت سے پاکستان بھیج دیا گیا۔ ادھر 10 اپریل کو ڈھاکہ میں قائم انقلابی حکومت تشکیل دیئے جانے کا اعلان ہوا اور17 اپریل کو اس انقلابی حکومت میں شامل افراد نے اپنے اپنے عہدے کا حلف اٹھالیا۔ مجیب الرحمٰن کو صدر، نذر الاسلام کا قائم مقام صدرا ور تاج الدین احمد کو وزیراعظم منتخب کیا گیا۔

مارچ اور دسمبر کے اس دورانیے میں مجیب الرحمٰن مغربی پاکستان میں فیصل آباد (لائل پور) اور میاں والی کی جیلوں میں قید رہے، جہاں ان پر خفیہ طور پر مقدمہ چلایا گیا۔ اس مقدمے میں مجیب الرحمٰن کو سزائے موت سنائی گئی۔ انتھونی میس کیرن ہاس نے اپنی کتاب ’بنگلہ دیش اے لیگیسی آف بلڈ‘ میں لکھا ہے کہ ’سقوط ڈھاکہ سے ایک دن قبل 15 دسمبر 1971 کو جنرل یحییٰ خان نے مجیب الرحمٰن کو پھانسی دینے کا فیصلہ کیا۔ اس فیصلے پر عمل درآمد کے لیے راولپنڈی سے ایک فوجی ٹیم میانوالی روانہ ہوئی، جہاں شیخ مجیب الرحمٰن دنیا کے حالات سے بے خبر قید کے دن کاٹ رہے تھے۔ ان کے کمرے کے سامنے ایک قبر بھی کھودی جا چکی تھی، مگر میاں والی جیل کے جیلر کی مزاحمت کی وجہ سے جنرل یحییٰ خان کے اس فیصلے پر عمل درآمد نہ ہو سکا۔

شیخ مجیب الرحمٰن جیلر کی اس مہربانی کو کبھی نہ بھول سکے۔ بنگلہ دیش واپسی کے بعد 1974 میں انہوں نے اس جیلر کو ڈھاکہ مدعو کیا اور اس کا استقبال ذاتی مہمان کے طور پر کیا۔

16  دسمبر 1971 کو مشرقی پاکستان میں متعین پاکستانی فوج نے تاریخی ریس کورس گراؤنڈ میں بھارت اور بنگلہ دیش کی مشترکہ فوجی کمان کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔ بنگلہ دیش اب آزاد ملک بن چکا تھا۔ دنیا بھر کے آزادی پسند لوگوں نے پاکستانی حکمرانوں سے مجیب الرحمٰن کی حفاظت کا مطالبہ کیا۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد 27  دسمبر کو جب باقی ماندہ پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹوکی حکومت قائم ہوچکی تھی، بنگلہ دیشی حکومت نے مطالبہ کیا کہ مجیب الرحمٰن کو فوری اور غیر مشروط طور پر رہا کر دیا جائے۔ روس اور بھارت سمیت متعدد ممالک اور مختلف عالمی تنظیموں نے بھی مجیب الرحمٰن کی رہائی کا مطالبہ کیا۔ ان کا موقف تھا کہ پاکستان کو آزاد بنگلہ دیش کے صدر کو قید میں رکھنے کا کوئی حق نہیں ہے۔

ایسے میں ذوالفقار علی بھٹو اور مجیب الرحمٰن کے درمیان ملاقاتیں شروع ہوئیں۔ تین جنوری 1972 کو صدر بھٹو نے کراچی میں ایک جلسہ عام سے خطاب کیا۔ اس خطاب کے آخر میں انہوں نے عوام سے رائے مانگی کہ کیا شیخ مجیب الرحمٰن کو غیر مشروط طور پر معاف کر دیا جائے؟ عوام نے بڑے پرجوش طریقے سے شیخ مجیب کی رہائی کے حق میں ہاتھ اٹھا کر رائے دے دی۔

چند دن بعد آٹھ جنوری 1972 کو پی آئی اے کے ایک خصوصی طیارے کے ذریعہ شیخ مجیب الرحمٰن کو لندن پہنچا دیا گیا۔ ان کے ساتھ عوامی لیگ کے رکن اسمبلی ڈاکٹر کمال حسین اور ان کے اہل خانہ بھی تھے۔ روانگی سے قبل شیخ مجیب الرحمٰن نے چار گھنٹے تک صدر بھٹو سے بات چیت کی۔ اس ملاقات میں ڈاکٹر کمال حسین اور غلام مصطفی کھر بھی موجود تھے۔

لندن پہنچ کر شیخ مجیب الرحمٰن نے ایک پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ بنگلہ دیش ایک آزاد اور دنیا کی دوسری بڑی مسلم مملکت ہے، ہم پاکستان کے ساتھ نہیں رہ سکتے۔ انہوں نے کہا کہ ’پاکستان کے صدر بھٹو بنگلہ دیش اور پاکستان کے درمیان رابطہ رکھنا چاہتے ہیں، لیکن میں نے انہیں بتا دیا ہے کہ جب تک میں بنگلہ دیش پہنچ کر اپنے عوام سے نہیں مل لیتا تب تک اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔‘

انہوں نے لندن میں برطانوی وزیراعظم ایڈورڈ ہیتھ سے بھی ملاقات کی۔ ڈھاکہ واپس آتے ہوئے وہ دہلی میں رکے، ایئر پورٹ پر ان کا استقبال بھارتی صدر وی وی گری اور وزیراعظم اندرا گاندھی نے کیا۔ 10 جنوری 1972 کو وہ ڈھاکہ پہنچے جہاں ان کا ناقابل فراموش استقبال کیا گیا۔ ایئرپورٹ سے انہیں سیدھا ریس کورس گراؤنڈ لے جایا گیا جہاں انہوں نے عوام کے ایک عظیم الشان اجتماع سے خطاب کیا، اس خطاب میں انہوں نے پاکستان سے تمام تعلقات ختم کرنے کا اعلان کر دیا اور 12 جنوری 1972 کو بنگلہ دیش کے وزیراعظم کے عہدے کا حلف اٹھا لیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)



 بنگلہ دیش کی آزادی کے بعد شیخ مجیب الرحمٰن کی درخواست پر 12 مارچ 1972 کو ہندوستانی فوج نے ڈھاکہ چھوڑ دیا۔ آزادی کی پہلی سالگرہ پر انہوں نے آئین کے مسودے پر دستخط کیے اور 16 دسمبر 1973 کو بنگلہ دیش کا نیا آئین نافذ کردیا گیا۔

سات مارچ 1974 کوانہوں نے ملک میں ازسرنو عام انتخابات منعقد کروائے جن میں ان کی جماعت عوامی لیگ نے 300 نشستوں میں سے 293 پر کامیابی حاصل کی۔ 1974 میں پاکستان نے بنگلہ دیش کو تسلیم کرلیا اور اسی برس بنگلہ دیش اقوام متحدہ کا رکن بھی بن گیا۔ 1975 میں بنگلہ دیش میں صدارتی نظام نافذ کردیا گیا اور مجیب الرحمٰن ملک کے صدر بن گئے۔

رفتہ رفتہ شیخ مجیب الرحمٰن کے قریبی اعزا حکومت میں طاقت پکڑنے لگے۔ یہ اعزا کچھ مرکزی وزارتوں پر بھی فائز کیے گئے۔ عوام کے لیے یہ صورت حال ناقابل برداشت تھی، انہوں نے آزادی اس لیے حاصل نہیں کی تھی کہ اس کے ثمرات ان تک نہ پہنچ سکیں۔ ایسے میں 15 اگست 1975 کی صبح بنگلہ دیش کی مسلح افواج کے کچھ افسران نے جن کی قیادت میجر فاروق رحمٰن کررہے تھے علیٰ الصباح سوا پانچ بجے بنگلہ دیش کے صدر شیخ مجیب الرحمٰن کی قیام گاہ پر دھاوا بول دیا۔

وہ شیخ مجیب کو گرفتار کرنا چاہتے تھے تاکہ بنگلہ دیش میں حکومت اور طرز حکومت کی تبدیلی کے حوالے سے کچھ اہم اعلانات کرسکیں مگر شیخ مجیب الرحمٰن کی مزاحمت کی وجہ سے انہیں گولی چلانی پڑی اور نتیجے میں شیخ مجیب الرحمٰن قتل ہوگئے۔ بعدازاں ان افسران نے شیخ مجیب الرحمٰن کے اہل خانہ کو بھی ایک کمرے میں جمع کیا اور انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا۔ شیخ مجیب کی صرف ایک بیٹی حسینہ واجد زندہ بچیں جو اس خونیں انقلاب کے وقت بنگلہ دیش میں موجود نہیں تھیں۔

اس قتل و غارت گری کے بعد انقلابیوں نے ملک میں مارشل لا نافذ کرنے کا اعلان کردیا اور خوندکر مشتاق احمد کو ملک کا نیا صدر مقرر کر دیا۔ انقلابیوں نے ملک میں اسلامی نظام نافذ کرنے کا اعلان بھی کیا اور کہاکہ ملک کا سرکاری نام ’اسلامی جمہوریہ بنگلہ دیش‘ ہو گا۔

21 برس بعد 1996 میں شیخ مجیب الرحمٰن کی صاحبزادی شیخ حسینہ واجد بنگلہ دیش کی وزیراعظم بن گئیں، جنہوں نے شیخ مجیب الرحمٰن اور ان کے اہل خانہ کے قتل میں ملوث لوگوں کے خلاف مقدمہ درج کروایا۔ طویل عدالتی کارروائی کے بعد کئی ملزمان کو سزائے موت دے دی گئی جبکہ کچھ ملزمان آج بھی دوسرے ملکوں میں چھپتے پھر رہے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ