جب ایران نے امریکی مدد سے اپنا جوہری پروگرام شروع کیا

50 کی دہائی میں رضا شاہ کے دور میں امریکہ نے توانائی اور دیگر مقاصد کے لیے ایران میں ایٹمی پروگرام شروع کرنے میں مدد فراہم کی۔

دسمبر، 1996 کو بشہر جوہری پلانٹ کی لی گئی ایک تصویر (اے ایف پی)

یہ کہانی 1951 سے شروع ہوتی ہے جب ایران کے اس وقت کے مغرب سے اعلیٰ تعلیم یافتہ صدر محمد مصدق نے ملک کے آئل پروگرام کو قومیانے کا فیصلہ کیا۔

امریکہ کو یہ فیصلہ قبول نہیں تھا۔ یوں امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے اور برطانوی خفیہ ایجنسی کی مدد سے مصدق کو اقتدار سے بے دخل کرنے کا منصوبہ بنایا گیا۔

کولمبیا یونیورسٹی کے ایک تحقیقی مقالے کے مطابق اس منصوبے کا مقصد یہ تھا کہ امریکہ ایران میں مغربی حمایت یافتہ صدر کو لانا چاہتے تھے اور ایسا ہی کیا گیا۔ 

اقتدار سے بے دخلی کے بعد 1953 میں ایران کے شاہی خاندان سے تعلق رکھنے والے محمد رضا شاہ پہلوی کو صدر بنایا گیا جو سیکولر، مغربی حمایت یافتہ اور کمیونزم کے خلاف تھے۔ 

مقالے کے مطابق رضا شاہ نے امریکہ سے اربوں ڈالر امداد کی خاطر ایران کے 80 فیصد تیل کے ذخائر امریکہ اور برطانیہ کے حوالے کر دیے۔ 

تاہم ایرانیوں کو ملکی معاملات میں دخل اندازی قبول نہیں تھی اور اسی وجہ سے رضا شاہ نے ایک خفیہ فورس قائم کرنے کے بعد اپنے مخالفین کو قتل کرنا شروع کر دیا۔

50 کی دہائی میں رضا شاہ کے دور میں امریکہ نے توانائی اور بہتر مقاصد کے لیے ایران میں ایٹمی پروگرام شروع کرنے میں مدد فراہم کی اور یوں ایران میں ایٹمی پروگرام کا آغاز ہوا۔

امریکہ کے ایٹمز فار پیس پروگرام (Atoms for Peace Program) کے تحت ایران کو اس وقت ایٹمی ٹیکنالوجی، نیوکلیئر فیول، ٹریننگ، لیبارٹریز اور پاور پلانٹس بنانے میں مدد فراہم کی گئی جس کا مقصد جوہری توانائی سے بجلی پیدا کرنا تھا۔ 

ایران کو 1967 میں امریکہ کی جانب سے پہلا پانچ میگا واٹ کا نیوکلیئر ریسرچ ری ایکٹر فراہم کیا گیا، جس کا نام تہران ریسرچ ری ایکٹر رکھا گیا۔

اس کے بعد ایران نے فرانس، جرمنی، نمیبیا اور جنوبی افریقہ کے ساتھ مختلف جوہری توانائی کے اربوں ڈالر کے معاہدے کیے۔ 

جرمنی کی کرافٹ ورک نامی کمپنی نے ایران کے نیوکلیئر پروگرام میں سب سے اہم بوشہر نیوکلیئر پاور پلانٹ بنانے میں مدد کی اور ایرانی انقلاب سے پہلے پلانٹ کے ایک حصے نے کام شروع کر دیا۔

رضا شاہ کے دور میں 1974 میں اٹامک انرجی آرگنائزیشن آف ایران کی بنیاد رکھی گئی۔ رضا شاہ ملک میں 20 نیو کلیئر پاور پلانٹس بنانے کا ارادہ رکھتے تھے تاکہ تیل سے بننے والی بجلی کو نیوکلیئر پر منتقل کر سکیں اور تیل کو بیچا جا سکے۔ 

70 کی دہائی میں رضا شاہ کے خلاف بغاوت شروع ہوئی اور 1979 میں ایرانی انقلاب کے دوران رضا شاہ پہلوی علاج کی غرض سے امریکہ چلے گئے۔ 

رضا شاہ کے امریکہ جانے پر ایران میں طلبہ نے امریکی سفارت خانے پر دھاوا بول دیا اور 60 امریکی سفارت کاروں کو یرغمال بنا لیا۔ یہ سفارت کار 15 مہینے تک یرغمال رہے۔ 

ایٹمی پروگرام مغرب مخالف انقلاب کے بعد 

ایران میں 1979 انقلاب کے بعد مغرب مخالف آیت اللہ خامنائی ایران کے صدر منتخب ہو گئے اور امریکہ کی جانب سے ایٹمی پروگرام میں مدد روک دی گئی۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کولمبیا یونیورسٹی کے تحقیقی مقالے کے مطابق تاہم دلچسپ بات یہ تھی کہ خامنہ ای ایٹمی بم کو غیر اسلامی اور غیر شرعی سمجھتے تھے۔ 

خامنہ ای نے اس وقت سے اب تک مختلف بیانات میں کہا کہ اسلام میں ایٹم بم بنایا اور استعمال کرنا ناجائز ہے۔

انہوں نے 2022 میں ماہرین کے ایک اجلاس سے خطاب میں کہا ’مغرب ہمیں ایٹمی بم بنانے سے روک رہا ہے لیکن اگر ہم یہ بنانا چاہیں تو کوئی ہمیں نہیں روک سکتا، لیکن یہ اسلامی اقدار ہے جس کی وجہ سے ہم ایٹم بم نہیں بنا رہے۔‘

ان کے سپریم لیڈر بننے کے بعد مختلف ایٹمی سیاست دان ایران چھوڑ کر چلے گئے۔ امریکہ نے ان ممالک پر بھی دباؤ ڈالا جو ایران کے نیوکلیئر پروگرام میں اس کی مدد کرتے تھے۔ 

تاہم اس دوران کئی ممالک کی ایٹم بم بنانے کی باتیں شروع ہوئیں، ایران نے ان ممالک سے مدد حاصل کرنے کی کوشش شروع کی جو امریکہ کے دباؤ میں نہیں آتے تھے۔ 

1987 کے اوائل میں ایران نے نامعلوم غیر ملکی اداروں سے نیوکلیئر منصوبے اور سینٹری فیوجز حاصل کیے اور کولمبیا یونیورسٹی کے تحقیقی مقالے کے مطابق یہ الزام پاکستانی ایٹمی سیاست دان عبدالقدیر خان پر لگایا جا رہا تھا۔ 

شمالی کوریا سے میزائل معاہدے 

1992 میں ایران نے شمالی کوریا سے میزائل لینے شروع کیے اور اس کے بدلے شمالی کوریا کے میزائل پروگرام کے لیے رقم فراہم کی۔ تاہم کولمبیا یونیورسٹی کے مطابق دونوں ممالک کے مابین معاہدے کی مکمل تفصیل سامنے نہیں آئی۔

پروجیکٹ عماد 

خیال کیا جاتا ہے کہ ایران نے ’پروجیکٹ عماد‘ کے نام سے 90 کی دہائی کے اواخر میں جوہری ہتھیاروں کے گریڈ کے ایٹمی مواد تیار کیے اور انہیں ٹیسٹ بھی کیا۔ 

انسٹی ٹیوٹ فار سائنس اینڈ انٹرنیشنل سکیورٹی نامی ادارے کے مطابق پروجیکٹ عماد کے بارے میں تفصیلات اس وقت سامنے آئیں جب اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد نے ایران کے ایک نیوکلیئر پلانٹ سے مختلف دستاویزار حاصل کیں۔

تاہم اس وقت ایران نے ان تمام دعوؤں کی تردید کی اور اس کو اسرائیل کا پروپیگنڈا قرار دیا۔ 

خیال رہے ایران نے 2015 میں امریکہ سمیت پانچ بڑی طاقتوں کے ساتھ ایک معاہدہ کیا تھا جس کے تحت ایران کو یورینیم کی 3.5 فیصد سے زائد افزودگی پر 2031 تک پابندی عائد کی گئی، لیکن 2018 میں اس معاہدے سے اس وقت کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکہ کو نکال دیا تھا۔

یورینیئم، جو ایٹمی ہتھاریوں یا بجلی گھروں میں بطور ایندھن استعمال کیا جاتا ہے، کی تین فیصد تک افزودگی بہتر مفاد جیسے کہ بجلی بنانے یا طبی فوائد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جبکہ اس سے زائد افزودگی کو جوہری ہھتیاروں کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

تاہم آرمز کنٹرول آرگنازیشن کے مطابق ایران نے اس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے زیادہ یورینیم کو افزود کرنا شروع کیا۔ 

اس ادارے کی 2025 کی رپورٹ کے مطابق ایران کے پاس 182 کلوگرام، 60 فیصد تک افزودہ یورینیم، 840 کلو گرام 20 فیصد تک افزودہ اور دو ہزار 595 کلو گرام ایسا یورینیم موجود ہے جو پانچ فیصد تک افزود ہے۔ 

اس ادارے کے مطابق 60 فیصد سے اوپر افزودہ یورینیم کو جوہری بم بنانے کے مقصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جبکہ عام فائدے کے لیے یورینیم کو تین فیصد سے زائد افزود کی ضرورت نہیں ہوتی۔ 

آرمز کنٹرول نامی ادارے کے مطابق ایران کے پاس موجود یورینیم سے دو ہفتوں میں پانچ سے چھ ایٹم بم بنائے جا سکتے ہیں۔

یاد رہے کہ ابھی تک ایران نے جوہری بم بنانے کا باقاعدہ کوئی اعلان نہیں کیا۔

تاہم 2024 میں ایران کا جوہری پروگرام ایک مرتبہ پھر خبروں کی زینت بنا جب ایران کے بعض عہدے داروں کی جانب سے یورینیم کو مزید افزودہ کرنے کے پروگرام کا اعلان کیا گیا۔

آرمز کنٹرول ادارے کے مطابق 2024 میں سینیئر ایرانی عہدے داروں نے بتایا تھا کہ خطے میں سکیورٹی حالات کی وجہ سے سپریم لیڈر ایت اللہ خامنہ ای شاید ایٹم بم بنانے کے خلاف فتوے پر نظر ثانی کریں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ