اسرائیلی حملوں میں ایران کو کتنا نقصان ہوا؟

ایران میں جوہری اور فوجی مقامات سمیت 100 اہداف پر کیے گئے اسرائیلی حملوں میں تہران کو اہم عسکری اور جوہری شخصیات کی موت کی صورت میں بھاری نقصان اٹھانا پڑا ہے۔

13 جون 2025 کی صبح اسرائیل نے ایران میں جوہری اور فوجی مقامات سمیت 100 اہداف پر حملے کیے، جنہیں ان حملوں کا ’پہلا مرحلہ‘ قرار دیا گیا۔ ان حملوں میں تہران کو اہم شخصیات کی موت کی صورت میں بھاری نقصان اٹھانا پڑا، تاہم ایران کا کہنا ہے کہ اس کی جوہری سائٹس محفوظ ہیں اور وہاں سے تابکاری کی سطح میں اضافہ نہیں ہوا۔

اسرائیلی فوج کے ترجمان بریگیڈیئر جنرل ایفی ڈیفرین کے مطابق ’ایران پر اسرائیل کے حملوں میں 200 لڑاکا طیاروں نے ایران بھر میں تقریباً 100 اہداف کو نشانہ بنایا۔‘

ان حملوں کے نتیجے میں ایران کی مسلح افواج کے چیف آف سٹاف محمد باقری، پاسداران انقلاب کے سربراہ میجر جنرل حسین سلامی اور پاسداران انقلاب کے سینیئر کمانڈر غلام علی راشد کے علاوہ کم از کم چھ جوہری سائنس دان مارے گئے۔

ایرانی نیوز ایجنسی ’تسنیم‘ کے مطابق اسرائیلی حملوں میں جان سے جانے والے جوہری سائنس دانوں میں عبدالحمید منوچہر، احمد رضا ذوالفقری، امیر حسین فقہی، مطلب زادہ، محمد مہدی تہرانچی اور فریدون عباسی شامل ہیں۔

دوسری جانب بچوں اور خواتین سمیت کم از کم 50 افراد زخمی بھی ہوئے۔

ایران کے مقامی ٹی وی کے مطابق: ’اسرائیلی حملے کے بعد تقریباً 50 زخمیوں کو چمران ہسپتال (تہران میں) منتقل کیا گیا، جن میں سے کم از کم 35 خواتین اور بچے ہیں۔‘

اگرچہ ان حملوں کے نتیجے میں ہونے والے مالی نقصان کی تفصیلات سامنے نہیں آئیں، تاہم جنوری 2020 میں القدس فورس کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی کی بغداد کے ہوائی اڈے کے قریب امریکی فضائی حملے میں موت کے بعد جمعے کو اسرائیلی حملوں میں اہم عسکری شخصیات اور جوہری سائنس دانوں کی اموات ایران کے لیے ایک بڑا دھچکا ہیں، جو اپنے ایٹمی پروگرام کی وجہ سے تنقید کی زد میں ہے۔

ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ اور ایرانی فوج نے ان حملوں کا ’سخت جواب دینے کا عزم ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کو ان کی ’بھاری قیمت‘ چکانی پڑے گی۔

اسرائیلی فوج کے مطابق حملوں کے بعد ایران نے تقریباً 100 ڈرونز اسرائیل کی سرزمین کی طرف روانہ کیے، جنہیں ’روکنے کی کوشش‘ کی گئی۔

جوہری تنصیبات پر حملے

اسرائیل نے نطنز سمیت ایران کی اہم جوہری تنصیبات کا نشانہ بنایا ہے، تاہم ایران کا کہنا ہے کہ حملوں کے نتیجے میں تابکاری کی سطح میں اضافہ نہیں ہوا۔

اقوام متحدہ کے جوہری نگران ادارے ’بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی‘ (آئی اے ای اے) کے مطابق ایرانی حکام نے بتایا کہ اسرائیلی حملوں کے بعد نطنز یورینیم کی افزودگی کے مقام پر تابکاری کی سطح میں کوئی اضافہ نہیں دیکھا گیا۔

مزید کہا گیا کہ جنوبی بندرگاہی شہر بوشہر میں ایران کے واحد جوہری پاور پلانٹ کو نشانہ نہیں بنایا گیا۔

فضائی ٹریفک کی معطلی

اسرائیلی حملوں کے بعد تہران کے مرکزی بین الاقوامی ہوائی اڈے امام خمینی پر فضائی ٹریفک کو روک دیا گیا، جب کہ ہمسایہ ملک عراق نے بھی اپنی فضائی حدود بند کر دی اور تمام ہوائی اڈوں پر تمام پروازیں معطل کر دی ہیں۔

اسی طرح ایران پر حملوں کے بعد اسرائیل نے بھی اپنی فضائی حدود بند کر دی۔ ملک کی وزارت ٹرانسپورٹ نے ایک بیان میں کہا: ’ایئر سپیس اگلے نوٹس تک ٹیک آف اور لینڈنگ کے لیے بند ہے۔‘

فلائٹ ریڈار ایپ کے مطابق دنیا کی تمام ایئر لائنز نے ایرانی فضائی حدود سے پروازیں بند کر دیں۔

اسی طرح قطر ایئر لائنز نے حالیہ کشیدگی کے باعث ایران اور عراق کی فلائٹس منسوخ کرنے کا اعلان کیا ہے۔

تیل کی قیمتوں میں اضافہ

ایران پر اسرائیلی حملوں کے بعد بین الاقوامی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں 12 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا اور خطے میں ایک مکمل جنگ کا خدشہ پیدا کر دیا۔

اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نتن یاہو نے اس جنگ کے کئی روز تک جاری رہنے کا عندیہ دیا ہے جبکہ ایران نے بھی سخت ردعمل دینے کا عزم ظاہر کیا ہے۔

دوسری جانب ایران کی تیل کی وزارت نے کہا کہ اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں کلیدی ریفائنریز اور ایندھن کے ڈپو متاثر نہیں ہوئے اور ملک بھر میں کارروائیاں بغیر کسی رکاوٹ کے جاری ہیں۔

وزارت نے ایک بیان میں کہا کہ ’ملک کی ریفائننگ سہولیات اور تیل کے ڈپو کو کوئی نقصان نہیں پہنچا، اور فی الحال ان تنصیبات کی سرگرمیاں اور ایندھن کی فراہمی ملک کے تمام حصوں میں بغیر کسی رکاوٹ کے جاری ہے۔‘

جوہری مذاکرات خطرے میں

اسرائیلی حملوں نے عمان میں اتوار کو ہونے والے امریکہ ایران جوہری مذاکرات کو خطرے میں ڈال دیا ہے، جن کے انعقاد کے حوالے سے واشنگٹن اب بھی امید رکھتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اگرچہ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے کہا ہے کہ امریکہ اس حملے میں ملوث نہیں تھا، تاہم ایران کی وزارت خارجہ نے جمعے کو کہا ہے کہ امریکہ اس حملے کے ’نتائج کا ذمہ دار‘ ہے۔

ایران نے اس سے قبل دھمکی دی تھی کہ اگر تنازع ہوا تو وہ امریکی اڈوں پر حملہ کر دے گا۔

ایران جوہری پروگرام کو اپنا ’ناقابل گفت و شنید‘ حق قرار دیتا ہے جبکہ واشنگٹن نے اسے ایک ’سرخ لکیر‘ کہا ہے۔

گذشتہ ہفتے ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے کہا تھا کہ یورینیم کی افزودگی ایران کے جوہری پروگرام کی ’کنجی‘ ہے اور واشنگٹن کو اس معاملے پر ’بولنے کا کوئی حق نہیں۔‘

فی الحال ایران یورینیم کو 60 فیصد تک افزودہ کر رہا ہے، جو 2015 کے معاہدے میں مقرر کردہ 3.67 فیصد کی حد سے کہیں زیادہ ہے اور اگرچہ یہ جوہری ہتھیار بنانے کے لیے درکار 90 فیصد کی سطح تک نہیں پہنچا، لیکن اس کے قریب ضرور ہے۔

مغربی ممالک طویل عرصے سے ایران پر جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی کوشش کا الزام لگاتے رہے ہیں، جبکہ تہران اصرار کرتا ہے کہ اس کا نیوکلیئر پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا