اسرائیل نے جمعے کے روز ایران کے متعدد جوہری اور فوجی مراکز پر حملے کیے، جن میں ایران کے اعلیٰ عسکری حکام کی اموات ہوئی ہیں۔
ایران حالیہ برسوں میں اپنے جوہری پروگرام میں نمایاں تیزی لایا ہے، خاص طور پر اس تاریخی معاہدے کے بعد جس کے تحت عالمی طاقتوں کے ساتھ طے پایا تھا کہ ایران اپنی جوہری سرگرمیوں کو محدود کرے گا اور بدلے میں اس پر عائد اقتصادی پابندیاں نرم کی جائیں گی۔ 2018 میں ٹرمپ کی سابق حکومت نے اس سے یکطرفہ طور پر اس سے دستبردار ہو گیا تھا۔
مئی کے وسط تک ویانا میں قائم بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق ایران کے افزودہ یورینیم کا مجموعی ذخیرہ 9,247.6 کلوگرام تھا، جو 2015 کے معاہدے میں مقرر کردہ حد سے 45 گنا زیادہ ہے۔
ان ذخائر میں سے تقریباً 408.6 کلوگرام یورینیم 60 فیصد تک افزودہ کیا جا چکا ہے، جو 90 فیصد کی اس سطح کے بالکل قریب ہے، جو جوہری ہتھیار بنانے کے لیے درکار ہوتی ہے۔
بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کی تعریف کے مطابق، ایران کے پاس اب تقریباً اتنا افزودہ مواد موجود ہے کہ اگر اسے مزید خالص کیا جائے تو تقریباً 10 جوہری بم تیار کیے جا سکتے ہیں۔
تاہم ایران ہمیشہ یہ دعویٰ کرتا آیا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے اور وہ جوہری ہتھیار بنانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔
ذیل میں ایران کی چند اہم جوہری تنصیبات کی فہرست دی جا رہی ہے، جن کا اقوامِ متحدہ کے جوہری معائنہ کار باقاعدگی سے معائنہ کرتے ہیں:
یورینیم افزودگی کے پلانٹس
نطنز
تہران سے تقریباً 250 کلومیٹر جنوب میں واقع نطنز ایران کا سب سے بڑا اور انتہائی محفوظ یورینیم افزودگی کا مرکز ہے، جس کا وجود پہلی بار 2002 میں منظرِ عام پر آیا۔
نطنز میں تقریباً 70 سینٹری فیوج کے جھرمٹ (cascade) کام کر رہے ہیں، جن میں سے ایک تنصیب زیرِ زمین واقع ہے۔ جھرمٹ دراصل سینٹری فیوج مشینوں کی قطار ہوتی ہے، جو یورینیم کو افزودہ کرنے کے عمل میں یکے بعد دیگرے استعمال ہوتی ہیں۔
اپریل 2021 میں اس مرکز پر ایک حملے میں نقصان پہنچا، جسے ایران نے اسرائیل کی تخریب کاری قرار دیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جمعے کے روز اسرائیلی وزیرِ اعظم بن یامین نتن یاہو نے کہا کہ اسرائیل کی کارروائی نے ’ایران کے جوہری افزودگی پروگرام کے مرکز‘ کو نشانہ بنایا، جس میں نطنز کی جوہری تنصیب اور ایٹمی سائنس دانوں کو ہدف بنایا گیا۔
بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے سربراہ رافیل گروسی نے تصدیق کی کہ نطنز کا مرکز بھی حملے کا نشانہ بنا۔
فردو
اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کی خلاف قائم کردہ شہر قم کے قریب ایک پہاڑ کے نیچے خفیہ طور پر تعمیر کی گئی فردو کی تنصیب 2009 میں پہلی بار عوامی طور پر منظرِ عام پر آئی۔
ابتدائی طور پر اسے ’ہنگامی مرکز‘ قرار دیا گیا، جسے ممکنہ فضائی حملوں سے محفوظ رکھنے کے لیے زیرِ زمین تعمیر کیا گیا تھا۔ بعد ازاں ایران نے بتایا کہ یہ ایک افزودگی کا مرکز ہے، جس میں تقریباً تین ہزار سینٹری فیوجز کی گنجائش ہے۔
2023 میں فردو پلانٹ میں 83.7 فیصد تک افزودہ یورینیم کے ذرات دریافت ہوئے، جنہیں ایران نے افزودگی کے عمل کے دوران ’غیر ارادی اتار چڑھاؤ‘ کا نتیجہ قرار دیا۔
یورینیم کی تبدیلی اور تحقیقی ری ایکٹر
اصفہان
مرکزی ایران کے شہر اصفہان میں یورینیم کنورژن تنصیب میں کانوں سے نکلنے والے خام یورینیم کو کیمیائی طور پر تبدیل کیا جاتا ہے، تاکہ اسے سینٹری فیوجز میں استعمال کیا جا سکے۔
یہ پلانٹ 2004 میں مکمل ہونے کے بعد صنعتی طور پر آزمائش کے مرحلے میں آیا۔
اصفہان مرکز میں ایک ایندھن بنانے کی فیکٹری بھی ہے، جس کا افتتاح 2009 میں ہوا، اور یہ بجلی گھروں کے لیے کم افزودہ ایندھن تیار کرتی ہے۔
جولائی 2022 میں ایران نے یہاں ایک نیا تحقیقی ری ایکٹر بنانے کے منصوبے کا اعلان کیا۔
اراک
2000 کی دہائی میں گاؤں خونداب کے نواح میں اراک کے ہیوی واٹر تحقیقی ری ایکٹر پر کام شروع ہوا، لیکن 2015 کے معاہدے کے تحت اسے روک دیا گیا۔
دریں اثنا ایران نے ایٹمی توانائی کے ادارے کو آگاہ کیا ہے کہ وہ 2026 تک اس ری ایکٹر کو فعال کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
یہ تحقیقی ری ایکٹر بظاہر طبی تحقیق کے لیے پلوٹونیم تیار کرنے کے لیے بنایا گیا تھا، اور اس تنصیب میں ہیوی واٹر پیدا کرنے کا پلانٹ بھی شامل ہے۔
تہران
تہران کے جوہری تحقیقی مرکز میں ایک ری ایکٹر موجود ہے، جو 1967 میں امریکہ نے سرد جنگ کے دوران اپنے ’ایٹمز فار پیس‘ پروگرام کے تحت طبی ریڈیوآئسوٹوپس بنانے کے لیے فراہم کیا تھا۔
ایٹمی بجلی گھر
بوشہر
جنوبی بندرگاہی شہر بوشہر میں واقع ایران کا واحد ایٹمی بجلی گھر روس نے تعمیر کیا، جو 2011 میں کم استعداد پر چلایا گیا اور 2012 میں قومی بجلی کے نظام سے منسلک کر دیا گیا۔
روس بدستور اس پلانٹ کے لیے ایندھن فراہم کرتا ہے، جو عالمی جوہری ادارے کی نگرانی میں ہے۔
1979 کے اسلامی انقلاب سے قبل ایک جرمن کمپنی نے اس ایک ہزار میگاواٹ صلاحیت والے منصوبے کی تعمیر شروع کی تھی، جو انقلاب کے بعد رک گئی۔ بعد میں ماسکو نے اسے مکمل کیا۔
دَرخواہین اور سیریک
ایران نے 2022 کے اواخر میں ملک کے جنوب مغرب میں دَرخواہین میں 300 میگاواٹ کے بجلی گھر کی تعمیر شروع کی۔ 2024 کے اوائل میں، آبنائے ہرمز میں واقع سیریک کے مقام پر چار بجلی گھروں پر مشتمل 5,000 میگاواٹ صلاحیت کے ایک نئے کمپلیکس پر بھی کام شروع کیا گیا۔