اقوام متحدہ کے جوہری توانائی کے نگران ادارے انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (آئی اے ای اے) نے جمعرات کو باضابطہ طور پر اعلان کیا کہ ایران اپنی جوہری ذمہ داریوں پر عمل نہیں کر رہا۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق یہ قرارداد آئی اے ای اے کے 35 رکنی بورڈ آف گورنرز نے منظور کی، جس میں 19 ارکان نے حمایت میں، تین نے مخالفت میں (روس، چین، اور برکینا فاسو)، 11 نے غیر جانب داری اختیار کی، اور دو نے ووٹ نہیں دیا۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی (اے ایف پی) نے تین سفارتی ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے اس قرارداد کی منظوری کی تصدیق کی۔
ان ذرائع نے اے ایف پی کو بتایا کہ اقوام متحدہ کے جوہری نگران ادارے (آئی اے ای اے) کے بورڈ آف گورنرز نے جمعرات کو ایک قرارداد منظور کی، جس میں ایران کی اپنی ذمہ داریوں پر ’عدم تعمیل‘ کی مذمت کی گئی ہے۔
یہ قرارداد، امریکہ، برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے مشترکہ طور پر تیار کی تھی۔
اس میں ایران سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ یورینیم کے ان نشانات کی تحقیقات میں فوری طور پر تعاون کرے جو ایسے مقامات پر پائے گئے ہیں جنہیں تہران نے جوہری تنصیبات کے طور پر ظاہر نہیں کیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اے پی کے مطابق مغربی ممالک کا ماننا ہے کہ یہ شواہد ایران کے ایک خفیہ جوہری ہتھیاروں کے پروگرام کی طرف اشارہ کرتے ہیں، جو مبینہ طور پر 2003 تک فعال تھا۔
قرارداد کے مسودے میں کہا گیا ہے کہ ایران کی ’ادارے کے ساتھ مکمل اور بروقت تعاون فراہم کرنے میں ناکامی‘ اس کے ’سیف گارڈز معاہدے‘ کی خلاف ورزی ہے، جو ’نیوکلیئر نان پرولیفریشن ٹریٹی (این پی ٹی)‘ کا حصہ ہے۔
اس معاہدے کے تحت ایران قانونی طور پر پابند ہے کہ وہ تمام جوہری مواد اور سرگرمیوں کی اطلاع دے اور آئی اے ای اے کے معائنہ کاروں کو اس بات کی تصدیق کی اجازت دے کہ ان کا استعمال صرف پرامن مقاصد کے لیے ہو رہا ہے۔
روئٹرز کے مطابق، ایک سینیئر ایرانی اہلکار نے بتایا کہ ایک ’دوست‘ علاقائی ملک نے حال ہی میں تہران کو ممکنہ اسرائیلی فوجی حملے سے خبردار کیا ہے۔
اس اہلکار کا کہنا تھا کہ موجودہ دباؤ کا مقصد ایران کو امریکہ کے ساتھ جاری جوہری مذاکرات میں اپنی پوزیشن تبدیل کرنے پر مجبور کرنا ہے، لیکن ایران یورینیم افزودگی کے اپنے حق سے دستبردار نہیں ہو گا۔
اس اہلکار نے روئٹرز کو بتایا: ’ہم کشیدگی نہیں چاہتے اور اس (جوہری) مسئلے کے حل کے لیے سفارت کاری کو ترجیح دیتے ہیں، لیکن ہماری مسلح افواج کسی بھی فوجی حملے کا جواب دینے کے لیے مکمل طور پر تیار ہیں۔‘
تاہم انہوں نے اس علاقائی ملک کا نام ظاہر نہیں کیا جس نے ایران کو خبردار کیا۔
یہ پیش رفت ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب اتوار کو عمان کے دارالحکومت مسقط میں ایران اور امریکہ کے درمیان بالواسطہ مذاکرات کے چھٹے دور کی تیاری ہو رہی ہے، جس کی میزبانی عمانی حکام کر رہے ہیں۔
عمان کے وزیر خارجہ بدر البوسید نے جمعرات کو اپنے سوشل میڈیا ہینڈل ایکس پر لکھا کہ ’مجھے اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ ایران - امریکہ مذاکرات کا چھٹا دور اگلے اتوار (15 جون) کو مسقط میں منعقد ہو گا۔‘
ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ خطے میں ممکنہ تنازعے کے خدشے کے باعث مشرق وسطیٰ جیسے ’ممکنہ طور پر خطرناک‘ علاقے سے امریکی عہدیداروں کو منتقل کیا جا رہا ہے۔
— Independent Urdu (@indyurdu) June 12, 2025
مزید تفصیلات: https://t.co/tU7q3i4QqH pic.twitter.com/8eQIMWPWJ6
وزارت خارجہ کے ترجمان اسماعیل بقائی نے کہا کہ مسقط میں ایران-امریکہ مذاکرات کے چھٹے دور کا بندوبست کیا جا رہا ہے۔
ان مذاکرات کا مقصد ایران کے جوہری عزائم، پابندیوں، اور یورینیم افزودگی پر جاری تعطل کو ختم کرنا ہے۔ ایران سے توقع کی جا رہی ہے کہ وہ امریکہ کی حالیہ پیشکش کے جواب میں اپنا متبادل منصوبہ پیش کرے گا، حالانکہ ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای اس پیشکش کو ایران کے مفادات کے خلاف قرار دے چکے ہیں اور ملک کے اندر افزودگی جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کر چکے ہیں۔
دوسری جانب اے پی کے مطابق امریکی محکمہ خارجہ نے بدھ کو اعلان کیا کہ وہ مشرق وسطیٰ میں اپنی موجودگی کم کر رہا ہے اور غیر ضروری اہلکاروں کو واپس بلا رہا ہے، کیونکہ بڑھتی ہوئی کشیدگی کے باعث سلامتی کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔
ادھر ایٹمی توانائی کی عالمی ایجنسی کے بورڈ آف گورنرز کے اجلاس کے آغاز پر ویانا میں عالمی اداروں میں روس کے مستقل مندوب میخائیل اولیانوف نے ارنا کے مطابق یورپ کو ایران مخالف قرارداد پیش کرنے کی جانب سے خبردار کیا تھا۔
میخائیل اولیانوف نے اپنے سوشل میڈیا پیغام میں لکھا ہے کہ گذشتہ تین سال کے دوران اس موضوع میں کوئی بڑی تبدیلی واقع نہیں ہوئی ہے پھر بھی امریکہ اور یورپی ٹرائیکا نے تہران پر دباؤ ڈالنے کی غرض سے ایک قرارداد کا مسودہ پیش کرنے کا فیصلہ کیا۔
میخائیل اولیانوف نے کہا کہ ابھی سے واضح ہے کہ اس اقدام کا نہ صرف کوئی فائدہ نہیں ہوگا بلکہ اس کے نقصان کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہو جائے گا۔