بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی ( آئی اے ای اے) کی ایک خفیہ رپورٹ کے مطابق، ایران نے حالیہ مہینوں میں انتہائی افزودہ یورینیم کی پیداوار میں اضافہ کیا ہے۔
یہ رپورٹ ہفتے کو اے ایف پی نے دیکھی۔ ایران اور اقوام متحدہ کے جوہری نگران ادارے کے درمیان کشیدگی اس وقت سے بڑھ رہی ہے جب 2015 کا وہ معاہدہ ناکام ہوا جس کے تحت تہران کے جوہری پروگرام پر پابندیاں عائد کرنے کے بدلے اقتصادی پابندیاں ہٹائی گئی تھیں۔
آئی اے ای اے کی تازہ ترین رپورٹ ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب تہران امریکہ کے ساتھ اپنے جوہری پروگرام پر نازک نوعیت کے مذاکرات میں مصروف ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ 17 مئی تک ایران کے پاس اندازاً 408.6 کلوگرام یورینیم موجود ہے جو 60 فیصد تک افزودہ ہے، جو کہ فروری کی پچھلی رپورٹ کے مقابلے میں 133.8 کلوگرام زیادہ ہے۔
60 فیصد فِشائل پیوریٹی (فصیح خالص پن) پر افزودہ یورینیم جوہری ہتھیاروں کے لیے درکار تقریباً 90 فیصد سطح کے قریب ہے۔
آئی اے ای اے کے مطابق، ایران وہ واحد غیر جوہری ہتھیار رکھنے والا ملک ہے جو 60 فیصد تک یورینیم افزودہ کر رہا ہے۔
ایران نے ہمیشہ اس بات کی تردید کی ہے کہ وہ جوہری ہتھیار حاصل کرنے کا خواہاں ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایک علیحدہ تفصیلی رپورٹ میں، آئی اے ای اے نے ایران کی جانب سے جوہری پروگرام کی نگرانی میں ’کم تسلی بخش‘ تعاون پر تنقید کی۔
رپورٹ میں کہا گیا: ’اگرچہ ایران روایتی حفاظتی اقدامات کے نفاذ کے سلسلے میں ادارے کے ساتھ تعاون جاری رکھے ہوئے ہے، لیکن کئی پہلوؤں میں اس کا تعاون کم تسلی بخش رہا ہے۔‘
رپورٹ میں خاص طور پر اُن غیر اعلانیہ مقامات پر پائے گئے جوہری مواد کی وضاحت کے حوالے سے ایران کی پیش رفت کی کمی کی نشاندہی کی گئی۔
’خصوصاً، ایران نے بارہا یا تو جوابات نہیں دیے، یا ایسے تکنیکی طور پر قابلِ اعتبار جوابات فراہم نہیں کیے جو ادارے کے سوالات کا مؤثر جواب ہوتے، اور ان مقامات کو صاف کیا ہے جیسا کہ اس رپورٹ میں درج ہے، جس سے ادارے کی تصدیقی سرگرمیوں میں رکاوٹ پیدا ہوئی ہے۔‘
یاد رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے پہلے دورِ صدارت میں یکطرفہ طور پر امریکہ کو ایران کے ساتھ 2015 کے تاریخی معاہدے سے نکال لیا تھا۔ اس معاہدے میں ایران کے جوہری پروگرام پر حدود کے بدلے پابندیاں ہٹائی گئی تھیں۔