تہران کی جانب سے یورینیم افزودگی پر اعلانیہ اختلاف کے بعد ایران اور امریکہ کے نمائندے جمعے کو روم میں جوہری مذاکرات کے پانچویں دور کے لیے ملاقات کر رہے ہیں۔
یہ مذاکرات، جو اپریل میں شروع ہوئے، امریکہ اور ایران کے درمیان سب سے اعلیٰ سطح کا رابطہ ہیں جب سے امریکہ نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پہلی مدت صدارت کے دوران 2015 کے جوہری معاہدے سے علیحدگی اختیار کی تھی۔
دوبارہ صدر بننے کے بعد ٹرمپ نے ایران پر ’زیادہ سے زیادہ دباؤ‘ کی اپنی مہم کو دوبارہ شروع کیا۔ وہ مذاکرات کی حمایت کر رہے ہیں لیکن خبردار بھی کیا کہ اگر سفارت کاری ناکام ہوئی تو فوجی کارروائی کی جا سکتی ہے۔
ایران ایک نیا معاہدہ چاہتا ہے جو ان پابندیوں میں نرمی لائے جنہوں نے اس کی معیشت کو شدید نقصان پہنچایا۔
مذاکرات کا گذشتہ دور عمان کے دارالحکومت مسقط میں ہوا جو یورینیم افزودگی کے معاملے پر کھلے تنازعے کے ساتھ ختم ہوا۔
امریکی نمائندے سٹیو وٹکوف نے کہا کہ واشنگٹن ’ایک فیصد افزودگی کی بھی اجازت نہیں دے سکتا‘ جب کہ تہران نے اس مؤقف کو سرخ لکیر قرار دیا، اور جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے کے تحت اپنے حقوق کا حوالہ دیا۔
جمعے کے مذاکرات سے قبل، ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی نے کہا کہ امریکہ کے ساتھ ’بنیادی اختلافات‘ بدستور موجود ہیں، تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ تہران اپنے جوہری مقامات کے مزید معائنوں کے لیے تیار ہے۔
عراقچی نے مزید کہا: ’اگر امریکہ ایران کو یورینیم افزودہ کرنے سے روکنا چاہتا ہے، تو پھر کسی قسم کا معاہدہ بالکل نہیں ہوگا۔‘
اطالوی دارالحکومت میں جمعے کے مذاکرات اقوام متحدہ کے جوہری نگران ادارے، ویانا میں قائم انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی ، کے جون میں ہونے والے اجلاس اور 2015 کے معاہدے کی اکتوبر میں مدت ختم ہونے سے قبل ہو رہے ہیں۔
یہ معاہدہ، جسے جوائنٹ کمپری ہینسو پلان آف ایکشن کے نام سے جانا جاتا ہے، ایران کو جوہری بم بنانے سے روکنے کے لیے کیا گیا۔ یہ وہ مقصد ہے جس کا مغربی ممالک نے ایران پر الزام لگایا تاہم تہران اس کی تردید کرتا ہے۔
اپنے جوہری پروگرام پر پابندیوں کے بدلے میں، ایران کو بین الاقوامی پابندیوں سے ریلیف ملا تھا۔ لیکن یہ معاہدہ 2018 میں اس وقت ناکام ہو گیا جب ٹرمپ نے یکطرفہ طور پر امریکہ کو اس سے الگ کر لیا۔
ایران نے اس کے ردعمل میں اپنے جوہری سرگرمیوں میں اضافہ کر دیا۔
اب وہ یورینیم کو 60 فیصد تک افزودہ کر رہا ہے جو معاہدے میں مقرر 3.67 فیصد کی حد سے کہیں زیادہ ہے، مگر ہتھیاروں کے درجے کے مواد کے لیے درکار 90 فیصد سے کم ہے۔
تہران میں ماہرین کا کہنا ہے کہ ایران کے پیچھے ہٹنے کا امکان کم ہے۔
سیاسی تجزیہ کار محمد مرندی، جو ایک وقت میں جوہری معاملے پر مشیر بھی رہ چکے ہیں، نے کہا: ’بات بالکل سادہ ہے۔ اگر امریکہ یہ چاہتا ہے کہ ایران یورینیم افزودہ کرنا بند کر دے، تو پھر کسی معاہدے کا امکان نہیں۔‘
ایٹمی توانائی کے ایرانی ادارے کا کہنا ہے کہ ملک کی جوہری صنعت میں 17000 افراد کام کر رہے ہیں، جو ان ممالک کی طرح ہے جہاں یورینیم کو شہری مقاصد کے لیے افزودہ کیا جاتا ہے۔
ادارے ترجمان بہروز کمال وندی نے کہا کہ ’نیدرلینڈز، بیلجیم، جنوبی کوریا، برازیل اور جاپان یورینیم افزودہ کرتے ہیں بغیر اس کے کہ ان کے پاس جوہری ہتھیار ہوں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اقوام متحدہ کو لکھے گئے ایک خط میں عراقچی نے لکھا: ’ہم سمجھتے ہیں کہ ایران کی جوہری تنصیبات پر صہیونی حکومت کی جانب سے کسی بھی حملے کی صورت میں امریکی حکومت بھی اس میں ملوث تصور کی جائے گی اور قانونی طور پر ذمہ دار ٹھہرائی جائے گی۔‘
یہ وارننگ اس کے بعد دی گئی جب سی این این نے نام ظاہر نہ کرنے والے امریکی حکام کے حوالے سے خبر دی کہ اسرائیل اس طرح کے حملے کی تیاری کر رہا ہے۔
جمعے کے مذاکرات جون میں ویانا میں ہونے والے آئی اے ای اے کے بورڈ آف گورنرز کے اجلاس سے قبل ہوں گے، جس میں ایران کی جوہری سرگرمیوں کا جائزہ لیا جائے گا۔
2015 کا معاہدہ اس بات کی گنجائش فراہم کرتا ہے کہ اگر ایران اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام رہے تو اقوام متحدہ کی پابندیاں ایک طریقہ کار کے تحت دوبارہ نافذ کی جا سکتی ہیں، جسے ’سنیپ بیک‘ کہا جاتا ہے۔
معاہدے پر دستخط کرنے والے تین یورپی ممالک برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے خبردار کیا ہے کہ اگر براعظم کی سلامتی کو خطرہ ہوا تو وہ اس طریقہ کار کو فعال کر دیں گے۔
ایران کے اعلیٰ سفارت کار عراقچی نے کہا کہ ایسا کوئی اقدام 'نتائج کا باعث بنے گا۔ نہ صرف معاہدے میں یورپ کے کردار کا خاتمہ ہو جائے گا بلکہ کشیدگی میں ایسا اضافہ ہو سکتا ہے جو ناقابل واپسی ہو گا۔‘