ایران کے برطانیہ، فرانس، جرمنی کے ساتھ جوہری مذاکرات آج

ایران، برطانیہ، فرانس اور جرمنی کے نمائندوں کے درمیان جوہری مذاکرات کے لیے ملاقات آج استنبول میں ہو رہی ہے۔

ایران جوہری معاملے پر جمعے کو ترکی میں برطانیہ، فرانس اور جرمنی کے ساتھ جوہری معاملے پر مذاکرات کر رہا ہے۔

قبل ازیں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہہ چکے ہیں کہ تہران کے ساتھ  ایٹمی معاہدہ ’قریب آ رہا ہے۔‘

استنبول میں ہونے والی یہ ملاقات اس وقت ہو رہی ہے جب ایرانی نائب وزیر خارجہ عباس عراقچی نے خبردار کیا کہ اگر یورپی طاقتوں نے اقوام متحدہ کی وہ پابندیاں دوبارہ عائد کرنے کی کوشش کیں جو 2015 کے معاہدے کے تحت ہٹا دی گئی تھیں، تو اس کے ’ناقابل تلافی‘ نتائج ہوں گے۔

نام نہاد ای تھری، یعنی برطانیہ، فرانس اور جرمنی، اس معاہدے میں فریق تھے، جس میں چین، روس اور امریکہ بھی شامل تھے۔

تاہم، صدر ٹرمپ نے اپنے پہلے دور اقتدار میں 2018 میں اس معاہدے کو مؤثر طور پر سبوتاژ کر دیا جب انہوں نے یکطرفہ طور پر اس سے علیحدگی اختیار کر لی اور ایران کے بینکاری شعبے اور تیل کی برآمدات پر دوبارہ پابندیاں عائد کر دیں۔

ایک سال بعد، ایران نے اس معاہدے کے تحت اپنی ذمہ داریوں کو مرحلہ وار ختم کرنا شروع کر دیا۔ یہ معاہدہ پابندیوں میں نرمی کے بدلے اقوام متحدہ کی نگرانی میں ایران کی جوہری سرگرمیوں پر پابندیوں پر مبنی تھا۔

تینوں یورپی طاقتیں اس بات پر غور کر رہی ہیں کہ آیا 2015 کے معاہدے کے ’اسنیپ بیک‘ میکانزم کو فعال کیا جائے، جس کے تحت ایران کی عدم تعمیل کے جواب میں اقوام متحدہ کی پابندیاں دوبارہ عائد کی جا سکتی ہیں۔ یہ آپشن اکتوبر میں ختم ہو جائے گا۔

ایران کے اعلیٰ سفارت کار نے خبردار کیا کہ اس قسم کا مؤقف ’دنیا بھر میں ایٹمی پھیلاؤ کے بحران کو جنم دے سکتا ہے، جس کا سب سے زیادہ نقصان خود یورپیوں کو ہو گا۔‘

تاہم، فرانسیسی ہفت روزہ ’لا پوائنٹ‘ میں لکھتے ہوئے انہوں نے یہ بھی کہا کہ تہران یورپ کے ساتھ اپنے تعلقات میں ’نیا باب شروع کرنے کے لیے تیار‘ ہے۔

یورپی طاقتوں کے ساتھ جمعے کا اجلاس اس وقت ہو رہا ہے جب ایران اور امریکہ کے درمیان چوتھے دور کے ایٹمی مذاکرات کو ابھی ایک ہفتہ بھی نہیں ہوا، جنہیں تہران نے ’مشکل لیکن مفید‘ قرار دیا۔ مذاکرات کے بعد ایک امریکی عہدےدار نے کہا کہ واشنگٹن ’حوصلہ افزائی محسوس کر رہا ہے۔‘

عراقچی نے بتایا کہ جمعے کے مذاکرات نائب وزرائے خارجہ کی سطح پر ہوں گے۔

جمعرات کو قطر کے دورے کے دوران بات کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے کہا کہ امریکہ ایران کے ساتھ ایک ایسے معاہدے کے ’قریب‘ ہے جو کسی بھی فوجی کارروائی کو روک دے گا۔

انہوں نے کہا: ’ہم ایران میں کوئی ایٹمی گرد نہیں اڑانے جا رہے۔‘

عمان کی ثالثی میں ہونے والے ایران اور امریکہ کے مذاکرات 2018 میں واشنگٹن کی جانب سے ایٹمی معاہدہ چھوڑنے کے بعد دونوں دشمن ممالک کے درمیان اعلیٰ ترین سطح کا رابطہ ہیں۔

دوبارہ صدر بننے کے بعد، ٹرمپ نے تہران کے خلاف اپنی ’زیادہ سے زیادہ دباؤ‘ کی پالیسی دوبارہ شروع کر دی ہے۔ وہ ایٹمی سفارت کاری کی حمایت تو کر رہا ہے لیکن خبردار بھی کیا ہے کہ اگر یہ ناکام ہوئی تو فوجی کارروائی کی جائے گی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جمعرات کو امریکی نیوز ویب سائٹ ’ایکسیوس‘ نے رپورٹ کیا کہ چوتھے دور کے مذاکرات کے دوران اتوار کو ٹرمپ انتظامیہ نے ایران کو ایک ’تحریری تجویز‘ دی۔

عراقچی نے اس رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمیں کوئی چیز نہیں دی گئی۔‘

یوکرین روس مذاکرات

ماسکو اور کیئف کے وفود جمعے کو استنبول میں یوکرین کے تنازعے پر ممکنہ طور پر 2022 کے بعد پہلی براہ راست ملاقات کرنے جا رہے ہیں تاہم روسی صدر ولادی میر پوتن کی غیر موجودگی کے باعث جنگ کے خاتمے میں پیش رفت کی امید کم ہے۔

امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے امن مذاکرات سے متعلق توقعات کو کم کرتے ہوئے کہا کہ ماسکو نے ایک غیر نمایاں وفد بھیجا اور دونوں جانب سے مذاکرات سے قبل الزامات کا تبادلہ ہوا۔ یہ بات چیت ابتدائی طور پر جمعرات کو ہونا تھی۔

روبیو نے کہا کہ ’میں صاف بات کرنا چاہتا ہوں۔ ہمیں کل (جمعے) کے حوالے سے زیادہ توقعات نہیں۔‘

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس سے پہلے بھی عندیہ دیا کہ ترکی میں کسی پیش رفت کا امکان کم ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جب تک ان کی پوتن سے ملاقات نہیں ہوتی، جنگ کے خاتمے کی جانب کوئی پیش رفت نہیں ہو گی۔

جمعے کے مذاکرات میں یوکرین کے وفد کی قیادت وزیر دفاع رستم عمروف کریں گے، جن کے ہمراہ تقریباً درجن بھر نائب سطح کے حکام ہوں گے۔

زیلنسکی نے جمعرات کو انقرہ میں ترک صدر رجب طیب اردوغان سے ملاقات کی اور امید ظاہر کی تھی کہ روس کے ساتھ مذاکرات جمعرات کی شام شروع ہو جائیں گے۔

ملاقات کے بعد زیلنسکی نے کہا کہ روس ’حقیقی مذاکرات کو سنجیدگی سے نہیں لے رہا۔‘ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے ایک اعلیٰ سطح کا وفد ’اردوان اور ٹرمپ کے احترام میں‘ بھیجا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا