امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بدھ کو کہا ہے کہ ایران کے ساتھ جوہری مذاکرات کی ناکامی اور خطے میں ممکنہ تنازعے کے خدشے کے باعث مشرق وسطیٰ جیسے ’ممکنہ طور پر خطرناک‘ علاقے سے امریکی عہدیداروں کو منتقل کیا جا رہا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق ایسے وقت میں جب اسرائیل کے تہران کی جوہری تنصیبات پر حملے کی قیاس آرائیاں زور پکڑ رہی ہیں، ٹرمپ نے ایک بار پھر اعادہ کیا کہ وہ ایران کو جوہری ہتھیار حاصل نہیں کرنے دیں گے۔
ایران نے بدھ کو خبردار کیا تھا کہ اگر جنگ چھڑتی ہے تو وہ خطے میں موجود امریکی فوجی اڈوں کو نشانہ بنائے گا۔
ایک امریکی عہدیدار کے مطابق عراق میں امریکی سفارت خانے کے عملے کو سکیورٹی خدشات کے پیش نظر کم کیا جا رہا ہے، جبکہ کویت اور بحرین سے بھی امریکی سفارتی اہلکاروں کی منتقلی کی اطلاعات ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جب واشنگٹن میں صحافیوں نے سفارتی اہلکاروں کی منتقلی سے متعلق خبروں پر سوال کیا تو ٹرمپ نے کہا: ’ہاں، انہیں وہاں سے نکالا جا رہا ہے کیونکہ وہ جگہ خطرناک ہو سکتی ہے۔ ہم نے ان سے نکلنے کو کہا ہے اور دیکھتے ہیں کہ آگے کیا ہوتا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’وہ (ایران) جوہری ہتھیار نہیں رکھ سکتے، بہت آسان ہے۔ ہم اس کی ہرگز اجازت نہیں دیں گے۔‘
تہران اور واشنگٹن کے درمیان اپریل سے اب تک مذاکرات کے پانچ دور ہو چکے ہیں تاکہ 2015 کے سابقہ معاہدے کی جگہ نیا جوہری معاہدہ طے پاسکے۔ اس معاہدے کو ٹرمپ نے 2018 میں منسوخ کر دیا تھا۔ اگلے چند روز میں دونوں دوبارہ ملاقات کرنے والے تھے۔
ٹرمپ نے حالیہ دنوں تک ان مذاکرات کے بارے میں امید ظاہر کی تھی، لیکن بدھ کو ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ وہ جوہری معاہدے تک پہنچنے کے حوالے سے ’کم پرامید‘ ہیں۔
جنوری میں دوبارہ صدارت سنبھالنے کے بعد ٹرمپ نے ایران کے خلاف اپنی ’زیادہ سے زیادہ دباؤ‘ کی مہم دوبارہ شروع کی ہے، جس میں وہ جوہری سفارت کاری کی حمایت کرتے ہیں، لیکن خبردار بھی کرتے ہیں کہ اگر یہ ناکام ہوئی تو فوجی کارروائی کی جا سکتی ہے۔
امریکی صدر کا کہنا ہے کہ انہوں نے اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نتن یاہو پر زور دیا ہے کہ وہ ایران کی جوہری تنصیبات پر حملہ نہ کریں تاکہ مذاکرات ہو سکیں، لیکن وہ بار بار اشارہ دے رہے ہیں کہ ان کا صبر ختم ہوتا جا رہا ہے۔
دوسری جانب ایران نے خبردار کیا ہے کہ اگر اس پر حملہ کیا گیا تو وہ بھرپور جواب دے گا۔
ایران کے وزیر دفاع عزیز ناصرزادے نے امریکی فوجی کارروائی کی دھمکیوں کے جواب میں کہا: ’خطے میں موجود امریکہ کے تمام فوجی اڈے ہماری پہنچ میں ہیں، ہمیں ان کا مکمل علم ہے اور اگر کوئی جھڑپ ہوئی تو ہم میزبان ممالک میں موجود ان تمام اڈوں کو بلا جھجک نشانہ بنائیں گے۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’خدا کرے کہ بات اس حد تک نہ پہنچے اور مذاکرات کامیاب ہو جائیں۔‘ ساتھ ہی انہوں نے خبردار کیا کہ اگر تصادم ہوا تو’امریکہ کو زیادہ نقصان اٹھانا پڑے گا۔‘
امریکہ کے مشرق وسطیٰ میں کئی فوجی اڈے ہیں، جن میں سب سے بڑا قطر میں واقع ہے۔
جنوری 2020 میں ایران نے عراق میں موجود امریکی فوجی اڈوں پر میزائل حملے کیے تھے، جو بغداد ایئرپورٹ پر امریکی حملے میں ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کی موت کا ردعمل تھا۔
ان حملوں میں درجنوں امریکی فوجیوں کو شدید دماغی چوٹیں آئیں۔
کشیدگی کے اس ماحول میں برطانوی بحریہ کے زیرانتظام برطانیہ کے میرین ٹریڈ آپریشنز نے خلیج میں جہازوں کو احتیاط سے گزرنے کا مشورہ دیا ہے۔
ایران اور امریکہ حال ہی میں یورینیم کی افزودگی کے معاملے پر ایک سفارتی تعطل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ تہران اسے اپنا ’ناقابل گفت و شنید‘ حق قرار دیتا ہے جبکہ واشنگٹن نے اسے ایک ’سرخ لکیر‘کہا ہے۔
فی الحال ایران یورینیم کو 60 فیصد تک افزودہ کر رہا ہے، جو 2015 کے معاہدے میں مقرر کردہ 3.67 فیصد کی حد سے کہیں زیادہ ہے اور اگرچہ یہ جوہری ہتھیار بنانے کے لیے درکار 90 فیصد کی سطح تک نہیں پہنچا، لیکن اس کے قریب ضرور ہے۔
مغربی ممالک طویل عرصے سے ایران پر جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی کوشش کا الزام لگاتے رہے ہیں، جبکہ تہران اصرار کرتا ہے کہ اس کا نیوکلیئر پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے۔
گذشتہ ہفتے ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے کہا کہ یورینیم کی افزودگی ایران کے جوہری پروگرام کی ’کنجی‘ ہے اور واشنگٹن کو اس معاملے پر ’بولنے کا کوئی حق نہیں۔‘
پیر کو ریکارڈ کیے گئے نیو یارک پوسٹ کے پوڈکاسٹ ’پوڈ فورس ون‘ کے ایک انٹرویو میں صدر ٹرمپ نے کہا کہ وہ اب کسی معاہدے تک پہنچنے کی امید کھو رہے ہیں۔
انہوں نے کہا: ’مجھے نہیں معلوم۔ پہلے میں ایسا سوچتا تھا، لیکن اب میں اس بارے میں زیادہ سے زیادہ نا امید ہوتا جا رہا ہوں۔ لگتا ہے وہ (ایرانی فریق) دانستہ تاخیر کر رہے ہیں، جو افسوسناک بات ہے۔ اب میں اتنا پُرامید نہیں جتنا چند مہینے پہلے تھا۔‘
ایران کا کہنا ہے کہ وہ واشنگٹن کی جانب سے پیش کردہ تازہ ترین مسودے کے جواب میں ایک جوابی تجویز پیش کرے گا۔ تہران نے اس مسودے کو اس لیے تنقید کا نشانہ بنایا ہے کہ اس میں پابندیوں سے نجات کی کوئی یقین دہانی شامل نہیں جو کہ تہران کا ایک اہم مطالبہ ہے، کیونکہ ایران طویل عرصے سے انہی پابندیوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔