صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعرات کو کہا کہ ایران کے جوہری پروگرام پر اسرائیل کا فوری حملہ متوقع نہیں، تاہم ’عین ممکن ہے‘ کہ مستقبل میں ایسا ہو۔
خبر رساں ایجنسی اے پی کے مطابق انہوں نے وائٹ ہاؤس میں میڈیا سے گفتگو میں کہا ’میں یہ نہیں کہوں گا کہ فوری ہے، لیکن بظاہر ایسا کچھ ہے جو بہت ممکن ہے۔‘
ٹرمپ نے مزید کہا کہ وہ فکر مند ہیں کہ اگر ایران کسی معاہدے پر آمادہ نہیں ہوتا تو مشرق وسطیٰ میں ’ایک وسیع تنازع‘ شروع ہو سکتا ہے، لیکن وہ تہران پر زور دیتے رہیں گے کہ وہ معاہدہ کریں۔
ٹرمپ نے اپنے اتحادی اسرائیل سے کہا کہ وہ ایران پر حملہ نہ کرے کیونکہ تہران کے جوہری پروگرام پر ایک معاہدہ قریب ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’ہم ایک خاصے اچھے معاہدے کے کافی قریب ہیں۔‘ انہوں نے اسرائیل کے حوالے سے کہا ’میں نہیں چاہتا کہ وہ کارروائی کرے کیونکہ میرا خیال ہے کہ اس سے سب کچھ برباد ہو جائے گا۔‘
خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق انہوں نے تسلیم کیا کہ اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو ایران پر حملے پر غور کر رہے ہیں اور اسی تناظر میں خطے میں امریکی سفارتی عملے کو کم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
ٹرمپ نے ایک بار پھر خود کو ’امن کا داعی‘ قرار دیا اور کہا کہ وہ ایران کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے کسی تصفیے کو ترجیح دیں گے۔
’میں اس تنازع سے بچنا پسند کروں گا۔ ایران کو تھوڑا سخت تر مذاکرات کرنا ہوں گے — یعنی ہمیں وہ چیزیں دینی ہوں گی جو وہ ابھی دینے کو تیار نہیں۔‘
ٹرمپ نے پہلے خبردار کیا تھا کہ اگر ایران کے ساتھ مذاکرات ناکام ہوئے تو اسرائیل یا امریکہ ایران کے جوہری تنصیبات پر فضائی کارروائی کر سکتے ہیں۔
ایران نے واضح کیا ہے کہ وہ یورینیم کی افزودگی کی سطح میں اضافہ کرے گا، جو مذاکرات میں سب سے بڑا تنازع ہے۔
مریکہ اور ایران کے درمیان چھٹے مذاکرات کا دور اتوار کو عمان میں شروع ہونے والا ہے۔
ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کے لیے نمائندہ خصوصی سٹیو وٹکوف مذاکرات کے چھٹے دور کا آغاز کریں گے۔