ڈراما نویسی کی دنیا پر راج کرنے والے امجد اسلام امجد چل بسے

وہ جمعے ہی کی شام کو لاہور میں ہونے والی ایک ادبی تقریب میں مدعو تھے لیکن اچانک دل کے دورے سے جانبر نہ ہو سکے۔

امجد اسلام امجد متعدد شعری مجموعوں کے خالق تھے اور انہیں پرائیڈ آف پرفارمنس اور ستارۂ امتیاز سے نوازا جا چکا ہے (امجد اسلام امجد فیس بک پیج)

معروف شاعر، ادیب، ڈراما نگار اور کالم نگار امجد اسلام لاہور میں دل کا دورہ پڑنے سے بروز جمعہ انتقال کر گئے۔ ان کے بیٹے علی ذیشان کے مطابق وہ بالکل ٹھیک تھے کہ اچانک دل کا دورہ پڑا اور وہ جاں بر نہ ہو سکے۔

وہ جمعے ہی کی شام کو لاہور میں ہونے والی ایک ادبی تقریب میں مدعو تھے اور اس سلسلے میں پوسٹر بھی چھپ چکے تھے۔

وزیراعظم محمد شہباز شریف نے امجد اسلام امجد کے انتقال پر گہرے افسوس اور رنج کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ ادب کے لیے ان کی خدمات کو  مدتوں یاد رکھا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ’ان کی وفات سے پاکستانی ادب ایک عظیم مصنف اور شاعر سے محروم ہو گیا ہے۔‘

امجد اسلام امجد کے ساتھی شاعر اور ڈراما نویس اصغر ندیم سید کے بقول ’امجد اسلام امجد کی اردو ادب کے لیے خدمات اتنی ہیں کہ بیان کرنے کے لیے الفاظ ختم ہو جاتے ہیں۔ وہ اپنی مثال آپ تھے اور علم و ادب کی دنیا میں ہمیشہ منفرد پہچان رکھتے تھے۔ ان کی وفات سے پیدا ہونے والا خلا شاید کبھی پُر نہ ہو سکے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’امجد صاحب ایسی شخصیت تھے کہ انہوں نے شاعری بھی باکمال کی، ڈراما نویسی میں بھی عروج حاصل کیا ان کی تحریریں اردو ادب کا لازمی حصہ بن گئیں۔‘

معروف ادیب مستنصر حسین تارڑ نے کہا کہ ’آج جمعے کو لاہور میں شروع ہونے والے پاکستان لٹریچر فیسٹیول میں انہوں نے میرے ساتھ شرکت کرنی تھی لیکن اچانک وفات سے بہت دکھ ہوا۔ اس بارے میں کچھ بولنے کی بھی ہمت نہیں، رات تک تو بالکل ٹھیک تھے۔‘

اہل خانہ کے مطابق ان کی نماز جنازہ لاہور میں ادا کی جائے گی اور یہیں تدفین ہو گی۔

ایگزیکٹو ڈائریکٹر ’الحمرا‘ذوالفقار علی زلفی نے امجد اسلام امجد کے انتقال پر گہرے رنج اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ الحمرا کی گورننگ باڈی کے کئی بار رکن رہے۔ امجد اسلام امجد اپنے فن میں یکتا تھے، ان کی مثال ملنا مشکل ہے۔ الحمرا امجد اسلام امجد کے فن کو آگے بڑھاتا رہے گا۔

امجد اسلام کا پہلا شعری مجموعہ ’برزخ‘ 1974 میں چھپا تھا، تاہم انہیں ملک گیر شہرت اس وقت ملی جب 1979 میں پاکستان ٹیلی ویژن پر ان کا لکھا ہوا ڈراما ’وارث‘ نشر ہوا۔ اس ڈرامے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جس شام یہ ٹی وی پر لگتا تھا، لوگ اپنے سارے کام کاج چھوڑ کر ٹی وی سکرین کے سامنے بیٹھ جایا کرتے تھے۔  

یہ ڈراما اس قدر مقبول ہوا کہ نہ صرف انڈیا بلکہ چین میں بھی لوگوں نے شوق سے دیکھا اور اسے چینی زبان میں ڈب کیا گیا۔

’وارث‘ کے بعد بھی انہوں نے پاکستان ٹیلی ویژن کے لیے کئی ڈرامے لکھے جن میں ’دہلیز،‘ ’فشار‘ اور ’دن‘ وغیرہ شامل ہیں، مگر ان میں سے کوئی بھی ’وارث‘ کی بلندیوں کو نہیں چھو سکا۔

2000 کے بعد پاکستان میں پرائیویٹ چینلوں کا دور دورہ ہوا تو امجد صاحب نے ایسے کئی چینلوں کے لیے بھی ڈرامے لکھے۔

برزخ کے علاوہ امجد صاحب کے دوسرے شعری مجموعوں میں ’ساتواں در،‘ ’ذرا پھر سے کہنا،‘ آنکھوں میں تیرے سپنے،‘ ’اس پار،‘ ’اتنے خواب کہاں رکھوں گا،‘ ’سپنے بات نہیں کرتے،‘ سحر آثار،‘ ’ساحلوں کی ہوا،‘ ’پھر یوں ہوا،‘ ’نزدیک،‘ ’شام سرائے،‘ وغیرہ شامل ہیں۔ ان کی شاعری کے جرمن اور ترکی زبانوں میں ترجمے ہو چکے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

امجد اسلام امجد کے لکھے ہوئے کئی گیت مشہور گلوکاروں نے گائے اور عوام کے لبوں تک بھی پہنچے۔ ان میں’میں ترے سنگ کیسے چلوں سجنا‘ (میڈم نور جہاں)، ’محبت خواب کی صورت‘ (سادھنا سرگم) ’محبت کا سلسلہ کچھ اور‘ (امجد پرویز) وغیرہ شامل ہیں۔

امجد اسلام امجد چار اگست 1944 کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے 1967 میں جامعہ پنجاب سے فرسٹ ڈویژن میں ایم اے اردو کیا۔ 1968 سے 1975 تک وہ ایم اے او کالج لاہور کے شعبہ اردو کے پروفیسر رہے۔

اگست 1975 میں پنجاب آرٹ کونسل کے ڈپٹی ڈائریکٹر مقرر ہو گئے۔ 90 کی دہائی میں دوبارہ ان کی خدمات محکمہ تعلیم کے سپرد کر دی گئیں اور دوبارہ ایم اے او کالج میں ہی شعبہ تدریس سے منسلک ہو گئے۔ یہاں سے ان کی تعیناتی بطور ڈائریکٹر چلڈرن کمپلکس ہوئی اور وہیں سے انہوں نے ریٹائرمنٹ لی۔

1975 میں ٹی وی ڈراما ’خواب جاگتے ہیں‘ پر گریجویٹ ایوارڈ ملا۔

امجد اسلام امجد کو 1987 میں تمغۂ حسن کارکردگی سے نوازا گیا تھا، جب کہ 1998 میں انہیں ستارۂ امتیاز دیا گیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ادب