پاکستانی شاعرہ سیمیں درانی کی موت تاحال ایک معمہ

ایس ایچ او صدیق ڈھوڈی کے مطابق پوسٹ مارٹم کے بعد سیمیں کی میت ان کے بھائی وقار، چچا زاد جہانزیب اور ان کے شوہر محمد علی بھٹو کے حوالے کی گئی۔

پاکستانی شاعرہ سیمیں درانی چھ جولائی کی شب اپنے گھر میں مردہ حالت میں پائی گئی تھیں (تصویر: سیمیں درانی فیس بک پیج) 

پاکستانی شاعرہ سیمیں مرجان درانی چھ جولائی 2022 کی شب اپنے گھر میں مردہ حالت میں پائی گئی تھیں لیکن پولیس عیدالاضحی کی آمد کی وجہ سے تاحال نہ تو پوسٹ مارٹم رپورٹ تیار سکی ہے اور نہ ہی فرانزک رپورٹ کے لیے حاصل کیے گئے نمونے پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی لیب کو لاہور بھجوا سکی ہے۔

سیمیں درانی کے انتقال کی اطلاع تھانہ کینٹ بہاول پور پولیس کو 15 کے ذریعے تقریبا رات 10 بجے کے قریب ملی سٹیشن ہاوس آفیسر (ایس ایچ او) تھانہ کینٹ صدیق ڈھوڈی کے مطابق ’15 پر اطلاع ، سیمیں مرجان کے چچا زاد کرنل ریٹارئرڈ جہانزیب نے کی اور انہوں نے ہی پولیس سے سیمیں کا پوسٹ مارٹم کروانے کی درخواست جمع کروائی جس پر ان کی میت کو بہاول پور وکٹوریہ ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔‘

ایس ایچ او صدیق ڈھوڈی کے مطابق پوسٹ مارٹم کے بعد سیمیں کی میت ان کے بھائی وقار، چچا زاد جہانزیب اور ان کے شوہر محمد علی بھٹو کے حوالے کی گئی۔

سیمیں کی تدفین جولائی 2022 کو بہاول پور کے ماڈل ٹاون قبرستان میں کر دی گئی ہے۔

ایس ایچ جو کا کہنا ہے کہ ’عیدالاضحیٰ کی آمد کے پیش نظر اب تک بہاول پور وکٹوریہ اسپتال کی فرانزک ٹیم نے پوسٹ مارٹم رپورٹ تیار نہیں کی اور نہ ہی پولیس مرحومہ کی فرانزک رپورٹ کے لیے حاصل کیے گئے نمونے پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی لیب کو لاہور بھجوا سکی ہے، یہ تمام ضروری کارروائی عید کی چھٹیاں ختم ہونے کے بعد شروع کی جائیں گی جس کے بعد سیمیں کی موت کی وجوہات کے نتیجے پر پنہچنے کے لیے تقریبا 10 روز سے زیادہ کا وقت ہو گا۔‘

پولیس کے مطابق سیمیں کی میت کے قریب سے ڈائری، ذیابطیس کی دوائیں اور تین موبائل فونز ملے ہیں۔

پولیس کا کہنا ہے کہ سیمیں کے حلقے میں لوگ ان کے صرف دو موبائل نمبرز کا علم رکھتے ہیں اب تیسرا فون سیٹ ان کا اپنا تھا یا کسی اور کا اور ذیابطیس کی دوائیں وہ خود استعمال کرتی تھیں یہ کوئی نہیں جانتا اور ڈائری میں کیا درج ہے اس متلعق کوئی تفصیلات نہیں دی گئی۔

تاہم انہیں کچھ عرصہ سے کمر درد کی شکایت تھی اور وہ کچھ ماہ قبل کچن میں کام کے دوران پاوں پھلسنے سے پاوں کی ہڈی ٹوٹنے سے زخمی ہوئی تھیں۔

پولیس نے سیمیں کے قریب سے ملنے والے تمام موبائل سیٹ قبضے میں لے لیے ہیں لیکن موبائل لاک ہونے کے باعث اب تک موبائل فرانزک نہیں ہو سکا اور نہ ہی کسی سکیورٹی ایجنسی سے سیمیں کے موبائل کالز اور مسیجز کا ڈیٹا وصول کرنے کی درخواست دی گئی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سیمیں کی موت کی اب تک ایف آئی آر درج کروانے کی کوئی درخواست پولیس کو موصول نہیں ہوئی اور صرف دفعہ 174 کے تحت پولیس نے خودکشی کی کارروائی کی ہے۔

سیمیں مرجان درانی کا حلقہ احباب اسلام آباد اور راولپنڈی کی صحافی برادری اور ادبی حلقہ تھا جو ان کو اس نام سے جانتا تھا، دراصل ان کا اصلی نام نسیم ثروت تھا اور ان کے نادرا ریکارڈ کے مطابق ان کے شناختی کارڈ پر موجودہ پتہ محلہ گلستان جوہر، بلاک 15، کراچی شرقی جبکہ مستقل پتہ رتو ڈیرو لاڑکانہ کا ہے۔

ان کا شناختی کارڈ 27 اپریل کو اپنی مدت پوری کر چکا ہے جس کے بعد شناختی کارڈ دوبارہ بنانے کی درخواست جمع نہیں ہوئی۔ سیمیں کے والین کا تعلق راولپنڈی سے تھا۔

سیمیں کے سوشل میڈیا اکاونٹس کو سرچنگ کے دوران محسوس ہوا کہ وہ اپنے والدین اور بہنوں سے محبت کرتی تھیں۔ سیمیں کی والدہ اور والد کا انتقال ہو چکا ہے، دونوں بہنیں شادی شدہ ہیں جن میں ایک کراچی اور دوسری دبئی میں مقیم ہیں۔

دو بھائی ہیں لیکن سیمیں کی میت کو کراچی، لاڑکانہ یا راولپنڈی تدفین کرنے کی بجائے صرف چند افراد کی موجودگی میں بہاول پور میں دفنایا گیا جس میں بیٹے اور بہنیں بھی شریک نہیں ہوئیں۔

سیمیں کے اہل خانہ ان کی بہن، بھائیوں نے اس واقعے پر انڈپینڈنٹ اردو کو کسی قسم کا ردعمل دینے سے انکار کر دیا۔

نامہ نگار نے سیمیں کے شوہر محمد علی بھٹو سے ٹیلی فون کال پر رابطہ کیا تو انہوں نے فون سنا۔ بطور صحافی ان کو تعارف کروایا گیا ان کی اہلیہ کی تعزیت کی گئی جس کو انہوں نے قبول کیا اور پھر ان سے اس واقعے کے حوالے سے جاننے کی کوشش کی جس پر انہوں نے مزید بات سے انکار کر دیا۔
سیمیں کے دوستوں کے مطابق وہ اپنے سوشل میڈیا اکاونٹس موبائل فونز پر ہی استعمال کرتی تھیں۔ چند روز قبل انہوں نے اپنی فیس بک پروفائل ڈی ایکٹی ویٹ کر دی لیکن سات جولائی کی رات ان کی جانب سے دوستوں کے لیے بنایا گیا فیس بک پیج ایکٹیو تھا جس پر وہ آن لائن شو ہو رہی تھیں۔

سیمیں درانی اسلام آباد کے ادبی حلقوں کی جانی مانی شخصیت تھیں اور وہ مختلف محافل میں بھرپور شرکت کیا کرتی تھیں جہاں اپنے بولڈ انداز کی وجہ سے شہرت رکھتی تھیں۔

ان کی موت کی خبر ادبی حلقوں میں میں بڑے رنج و غم سے سنی گئی۔ سوشل میڈیا پر ابھی تک ان کے بارے میں قیاس آرائیوں اور پوسٹس کا سلسلہ جاری ہے جہاں مختلف شاعر اور ادیب ان کے بارے میں اظہار افسوس کر رہے ہیں، اور ان کی اچانک موت کے بارے میں قیاس آرائیوں کا سلسلہ جاری ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان