خواتین لکھاریوں کے لیے ’بہنوں کا ادبی لشکر‘

اردو لکھاریوں کی تنظیموں میں پشتون خواتین لکھاریوں کو مناسب نمائندگی نہ ملنے پر خویندے ادبی لخکر وجود میں آئی۔

(سکرین گریب/ انڈپینڈنٹ اردو)

صوبہ خیبرپختونخوا میں خواتین لکھاریوں کی ’خویندے ادبی لخکر‘ (بہنوں کا ادبی لشکر) نامی تنظیم خواتین شاعراؤں، ادیباؤں اور افسانہ نگاروں کے نہ صرف پروگرام منعقد کرتی ہے بلکہ کتابیں شائع کرنے کے ساتھ سہ ماہی جریدے بھی نکالتی ہے۔

خویندے ادبی لخکر کی بانی صدر کلثوم زیب نے انڈپینڈنٹ ارود کو بتایا کہ ’میں خود بھی مصنفہ ہوں اور اردو، پشتو میں شاعری بھی کرتی ہوں۔‘

کلثوم زیب کہتی ہیں کہ ’تنظیم خویندے ادبی لخکر بنانے کا بہت عرصے سے سوچ رہی تھی کیوں کہ اردو کی جو ادبی تنظیمیں تھیں وہاں پر پشتون خواتین کو زیادہ وقعت نہیں ملتی تھی اور وہ وہاں جا کر ایک غزل یا نظم پڑھتیں اور قصہ ختم ہو جاتا۔‘

ان کے مطابق: ’تو پھر ہم نے سوچا کہ کیوں نہ ایسی تنظیم بنائی جائے جو وقت کی ضرورت بھی ہو اور جہاں پشتون لکھاری مل جل کر ایک ہی جگہ، ایک ہی پلیٹ فارم پر کام کریں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’فروری 2017 کو تنظیم بنائی گئی اور اب تک کئی خواتین لکھاری اس تنظیم کی رکن ہیں اور گذشتہ پانچ سالوں میں ہم نے بہت سارے پروگرام کیے جس میں مشاعرے، تعزیتی ریفرنسز، کسی کو خراج تحسین پیش کرنے کے علاوہ خواتین اور مرد شعرا اور ادیبوں کے اعزاز میں پروگرامز شامل ہیں۔‘

پشتو زبان میں شاعری کرنے والی کلثوم زیب کہتی ہیں کہ ’مجھے تو خوشی ہے کہ میں اپنی خواتین بہنوں کے لیے کچھ کر رہی ہوں، ابھی تک چند خواتین ہیں جو پروگرام کے لیے نکلتی ہیں جبکہ بہت سی ایسی خواتین ہیں جو لکھتی ہیں لیکن گھروں میں ہی رہتی ہیں اور انہیں باہر نکلنے کی اجازت نہیں ملتی۔ ان کی کتابیں ان کے خاندان والے چھپوا دیں تو تو یہ بھی بڑا غنیمت ہے۔‘

تنظیم کی صدر کے مطابق پشتو زبان تو بہت ہی خوبصورت زبان ہے اور اس میں بہت کام کیا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’لکھنے کے حوالے سے میں نے افسانے، ناول، تحقیق اور کالم پر بھی کام کیا ہے۔ ابھی کرونا کے دنوں میں دو تحقیقی کام کیے جس میں ایک افسانے کا اردو ترجمہ اور پشتو ادب کی ستارہ سلمیٰ شاہین کے فن اور شخصیت پر ایک تحقیق  شامل ہے۔‘

تنظیم میں کل کتنی خواتین ممبرز ہیں؟

کلثوم زیب بتاتی ہیں کہ ان کی تنظیم میں 100 کے قریب ممبرز ہیں اور ان میں جو فعال کردار ادا کرتی ہیں وہ 45 ہیں۔ ’یہ 45 خواتین لکھنے کا کام بھی کر رہی ہیں اور ہمارے ساتھ پروگرامز میں بھی شرکت کرتی ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’میں اپنی پختون لکھاری بہنوں کے لیے اور بھی کچھ کرنا چاہتی ہوں، جتنا مجھ سے ہو سکتا ہے میں کروں گی۔‘

خواتین شاعروں اور ادیبوں کے ساتھ رابطہ کس طرح ہوتا ہے؟

اس بارے میں ان کا کہنا ہے کہ رابطے کے لیے واٹس ایپ کا استعمال کرتی ہیں۔ ’ہمارا ایک واٹس ایپ گروپ ہے جس میں تنقیدی نشستیں بھی ہوتی ہیں اور اس گروپ میں ان مرد حضرات جو ہمارے اساتذہ ہیں کو بھی ہم نے ساتھ رکھا ہے۔‘

’ہمارے اساتذہ مختلف چیزوں پر ہم سے بات کرتے ہیں۔ اصناف پر بات کرتے ہیں، افسانے پر بھی بات ہوتی ہے، نظم اورغزل کے حوالے سے بھی بات ہوتی ہے۔ مختصراً یہ کہ سیکھنے کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔‘

کلثوم نے بتایا کہ ’گروپ میں خواتین کو جب جب وقت ملتا ہے وہ آڈیو میسج کے ذریعے شرکت کرتی ہیں، ترنم سے غزلیں بھی پڑھتی ہیں، مشاعرے بھی ہوتے ہیں۔ اس گروپ میں صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ افغانستان سے بھی خواتین ہمارے ساتھ رابطے میں رہتی ہیں۔‘

تنظیم کے اخراجات کس طرح پورے ہوتے ہیں؟

خویندے ادبی لخکر کی صدر کلثوم زیب نے کہا کہ کتابوں کی اشاعت کے لیے آپس میں پیسے جمع کیے جاتے ہیں اور ایسا ہی مختلف پروگرامز کے انعقاد کے لیے بھی کیا جاتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین