انڈیا کا مسلم اکثریتی شہر جہاں ہر گھر میں ساڑھیاں بنی جاتی ہیں

ایک ایسا انڈین شہر جہاں ساڑھیاں بننے کی صنعت مغلیہ سلطنت سے بھی قدیم ہے، لیکن اب یہ ہنر مٹتا جا رہا ہے۔

1630 کی ایک پینٹنگ جس میں عورتوں کو ساڑھی پہنے دکھایا گیا ہے (پبلک ڈومین)

’مئو‘ انڈیا کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش کے جنوب مشرق میں واقع ایک مسلم اکثریتی شہر ہے۔ یہاں سے بعض مشہور شہر جیسے اعظم گڑھ اور غازی پور محض 40 سے 44 کلو میٹر دور ہیں جبکہ بنارس (وارانسی) اور گورکھپور تقریباً ایک سو کلو میٹر کی مسافت پر واقع ہیں۔ 

جو چیز اس شہر کو منفرد اور خاص بناتی ہے وہ اس کی مسلم اکثریتی شناخت نہیں بلکہ آبادی کی اکثریت کی ساڑھیاں بننے کے پیشے سے وابستگی ہے۔

بعید از امکان ہے کہ کوئی غیر مقامی شخص مئو میں کسی کے ہاں رکیں اور انہیں ساڑھی بننے والی کھڈی (لوم) کی آواز سنائی نہ دے۔ لگ بھگ ہر گھر میں لوم لگا ہے جن کو یہاں کے مرد اور عورتیں دونوں چلاتے ہیں۔

ایک اندازے کے مطابق شہر میں تقریباً ہر تین میں سے دو لوگ ساڑھیوں کی بنائی یا اس سے متعلق کسی نہ کسی کام سے وابستہ ہیں۔ جبکہ مقامی واقف کاروں کا کہنا ہے کہ یہ پیشہ یہاں کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ جب 1957 میں انڈیا کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو مئو آئے تو انہوں نے یہاں کے لوگوں کی بڑی تعداد کو ساڑھیوں کی بنائی یا پارچہ بافی سے جڑا دیکھ کر برجستہ کہا تھا کہ ’یہ تو انڈیا کا مانچسٹر ہے۔‘

آنجہانی نہرو نے مئو کو انگلستان کے شہر مانچسٹر سے اس وجہ سے تشبیہ دی تھی کیوں کہ مانچسٹر ایک لمبے عرصے تک پارچہ بافی کی صنعت کے لیے پوری دنیا میں مشہور تھا۔ 

دلچسپ بات یہ ہے کہ مئو میں ساڑھی یا کپڑا سازی کی صنعت کو فروغ دینے میں جن لوگوں نے اپنا اہم کردار ادا کیا ہے ان میں مغل شہنشاہ شاہجہاں کی دختر شہزادی جہاں آرا بیگم بھی شامل ہیں۔

ایک ہزار سال پرانی صنعت 

مقامی مورخ اور مصنف ڈاکٹر شکیل احمد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ مئو میں پارچہ بافی یا کپڑا سازی کی صنعت ایک ہزار سال سے بھی زیادہ پرانی ہے۔ 

وہ کہتے ہیں: ’سنہ 1028 میں (سلطان محمود غزنوی کے بھانجے) سید سالار مسعود غازی کے دو شاگرد ملک محمد قاسم اور ملک محمد طاہر اپنے رفقا کے ہمراہ یہاں وارد ہوئے جن کی ایک سرکش نٹ سے محاذ آرائی بھی ہوئی جس نے تمسا ندی (ٹونس ندی) کے کنارے دریا کے راستے سفر کرنے والوں کو پریشان کر رکھا تھا۔ 

’جب سالار غازی کے دو شاگردوں اور ان کے رفقا نے یہیں بس جانے کا ارادہ کیا تو انہیں ذریعۂ معاش کی فکر ہوئی۔ وہ لوگ کاشت کار تو تھے نہیں کہ کھیتی باڑی کرتے۔ ان لوگوں کو لگا کہ یہاں کپڑا سازی ایک اچھا پیشہ ہے اور حلال بھی ہے تو انہوں نے بھی اسی پیشے کو اختیار کر لیا۔‘

ڈاکٹر شکیل احمد کے مطابق مئو میں کپڑا سازی کا پیشہ صدی ہا صدی تک حسبِ معمول جاری رہا اور 1629 میں جب مغل شہنشاہ شاہجہاں نے شہزادی جہاں آرا کو مئو کا خطہ دیا تو وہ اپنے ساتھ اچھے کاریگروں کو بھی لے آئیں تاکہ یہاں کپڑا سازی کا کام شاہی معیار کے مطابق ہو۔ 

’یہ چیز بالکل سمجھ میں آ رہی ہے کہ اگر شہزادی کو یہ خیال ہوا کہ یہاں شاہی معیار کے مطابق کپڑے تیار ہوں تو اس کا مطلب ہے کہ پہلے سے ہی کپڑے بنے جاتے تھے اور انہوں نے پہلے سے موجود پارچہ بافی کو مزید ترقی دی۔‘ 

اس صنعت نے کئی اتار چڑھاؤ دیکھے

ڈاکٹر شکیل احمد کہتے ہیں کہ اس وقت مئو دیسی ساخت پاور لوم ’جکاٹ لوم‘ (جسے مقامی لوگوں نے جگاڑ لوم کا نام دیا ہے) پر ساڑھیوں کی بنائی کے لیے مشہور ہے۔ 

’مئو میں کپڑا سازی کی صنعت نے کئی اتار چڑھاؤ دیکھے۔ ایک زمانہ وہ تھا جب یہاں ’کرگے‘ (کرگہ مقامی زبان میں ہینڈ لوم کو کہا جاتا ہے) بالکل سادے کپڑے بنے جاتے تھے۔ ایسی دھوتیاں بنی جاتی تھیں جن پر کسی قسم کی کوئی ڈیزائننگ ہوتی تھی نہ ہی کوئی نقش و نگار۔ 

’پھر کرگہ کی جگہ کپڑوں یا ساڑھیوں پر ڈیزائن بنانے کی مشین جکاٹ نے لی۔ یہ ایک تو بجلی پر چلنے اور دوسرا ساڑھیوں پر رنگ برنگے بارڈر اور پھول پتیوں کی نقش و نگاری کی وجہ سے بہت مقبول ہوا۔‘

ڈاکٹر شکیل احمد کے مطابق اس صنعت کو دہائیوں قبل گھروں سے نکال کر بڑے بڑے کارخانوں میں منتقل کرنے کی کوششیں کی گئیں جو بارآور ثابت نہ ہو سکیں۔ 

’آج سے 60 یا 70 سال پہلے بڑے بڑے کمروں میں دس سے بیس پاور لوموں کو نصب کرنے کا سلسلہ شروع ہوا جہاں مزدور ان کو چلاتے تھے۔ ایک ہال میں اگر بیس لوم ہوتے تھے تو دس لوگ انہیں بہ آسانی چلا لیتے تھے۔ یعنی ایک کاریگر دو دو لوم ایک ساتھ چلاتا تھا۔ 

’لیکن جو مئو کا کرگہ چلانے کا پرانا نظام تھا وہ گھروں میں ایک یا دو کرگہ چلانے کا تھا۔ جب آج سے 40 سال پہلے بڑے کمروں میں پاور لوم چلانے کا منصوبہ زوال پذیر ہوا تو وقت کی ضرورت کے مطابق موجودہ جکاٹ لوم متعارف ہوا۔ 

’جکاٹ ایک چھوٹا سا پاور لوم ہے جسے مقامی کاریگروں نے اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہوئے دیسی شکل و صورت میں متعارف کیا۔ اس کے متعارف ہونے کے بعد کرگہ پر تیار ہونے والی ساڑھیاں اسی دیسی ساخت پاور لوم پر بننے لگیں۔‘

مئو سے تعلق رکھنے والے صحافی ممتاز احمد کہتے ہیں کہ ساڑھی بننا یہاں کے لوگوں کے روزگار کا سب سے بڑا ذریعہ ہے بلکہ یوں کہا جائے کہ یہاں کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے تو بے جا نہ ہو گا۔ مسلمانوں کے علاوہ اس پیشے سے بڑی تعداد میں ہندو بھی وابستہ ہیں۔

سات پشتوں سے ہمارے خاندان کا پیشہ 

محمد رضوان اور ان کی اہلیہ گذشتہ کئی دہائیوں سے اپنے گھر میں ساڑھیاں بننے کا کام کر رہے ہیں جبکہ ان کا بڑا بیٹا محمد سمعان ساڑھیوں کی پیکنگ کے سامان کی دکان چلا رہے ہیں۔ 

وہ کہتے ہیں: ’ہمارا خاندان اس پیشے سے سات پشتوں سے جڑا ہوا ہے۔ ہمارے آبا و اجداد نے اس کام کو کافی دل لگی کے ساتھ کرتے ہوئے اپنے بچوں کی پرورش کی ہے۔

’میرا کنبہ آج بھی دن رات لوم پر بنائی کا کام کرتا ہے۔ جو ساڑھیاں تیار ہو جاتی ہیں انہیں ان کے مالکان آگے بیوپاریوں کو فروخت کرتے ہیں۔‘

محمد رضوان کے بقول مئو کی ساڑھیوں میں تانا نامی ایک خاص قسم کا دھاگہ استعمال ہوتا ہے جسے مقامی لوگ ڈَل کہتے ہیں۔ 

’یہ دھاگہ سورت اور بنارس کی ساڑھیوں میں استعمال نہیں ہوتا ہے۔ اس وجہ سے مئو کی ساڑھیاں بناوٹ اور خوبصورتی کے اعتبار سے ایک الگ مقام رکھتی ہیں۔‘

شاہد جمال انصاری ساڑھیوں کے پیشے سے وابستہ ایک تاجر ہیں۔ وہ گذشتہ 33 سال سے بنکروں سے ساڑھیاں بنوانے کے بعد ان کی تھوک کے حساب سے فروخت کا کام کر رہے ہیں۔ 

وہ مئو کی ساڑھیوں کی خاصیت کے بارے میں کہتے ہیں: ’مئو کی ساڑھیاں بنتی تو دیسی ساخت پاور لوم پر ہیں لیکن ان کی بناوٹ بالکل ہینڈ لوم پر بنی ساڑھیوں کی طرح ہوتی ہے۔ 

’دوسری جگہ کی ساڑھیوں کے مقابلے میں یہاں کی ساڑھیاں دیکھنے میں خوبصورت ہوتی ہیں اور ان کا دام بھی مناسب ہوتا ہے۔‘

ممتاز احمد بتاتے ہیں کہ یہاں کی بنی ہوئی ساڑھیاں ملک و بیرون ملک میں پسندیدگی کی نظر سے دیکھی جاتی ہیں۔

’بنارسی ساڑھیوں کے بعد یہ خواتین کی پہلی پسند ہے کیوں کہ یہ بہت زیادہ کفایتی اور پرکشش ہوتی ہیں۔ مقبولیت کا عالم یہ ہے کہ آج انڈین خواتین شادی بیاہ کی تقریبات یا دیگر محفلوں میں انہیں زیب تن کرنا بہت پسند کرتی ہیں۔‘

انصاری کے مطابق ایک بنکر صرف ساڑھی کی بنائی کا کام کرتا ہے اور اس میں لگنے والا سارا سامان اسے ہم تاجر لوگ ہی فراہم کرتے ہیں۔

’جب ساڑھی ہمارے پاس آتی ہے تو اس کے بعد اس کی کٹائی ہوتی ہے، فینیشنگ ہونے کے بعد اس کی فولڈنگ اور پیکنگ ہوتی ہے۔‘

بنکروں کی اجرت بہت کم

انصاری اعتراف کرتے ہیں کہ شہر میں بنکروں کو ملنے والی اجرت بہت کم ہے جس کی وجہ ان کے مطابق ساڑھیوں کے بازار میں پچھلے پانچ چھ سال سے چھائی مندی ہے۔ 

’مئو میں بنکر لوگ تو گھاٹے میں ساڑھیوں کی بنائی کر رہے ہیں۔ ان کو بہت کم منافع مل رہا ہے۔ ایک ساڑھی، جو کہ ڈیزائن میں ہلکی ہوتی ہے، کی بنائی کی اجرت محض 150 روپے ہے۔ 24 گھنٹے میں اگر بجلی پورے وقت مل گئی تو ایک لوم پر زیادہ سے زیادہ تین ساڑھیوں کی بنائی ہو جاتی ہے۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’یعنی اگر بنکر کنبہ دن رات کام کرتا ہے تو وہ محض 450 روپے کما لے گا جس میں اسے ایک دن کی بجلی کا خرچ اور روزمرہ کی ضروریات کو بھی پوری کرنا ہوتا ہے۔

’پہلے بنکروں کے لیے ایک خاص قسم کا پاس بک بنتا تھا جو اب حکومت کالعدم کرنے جا رہی ہے جس کی وجہ سے ان کی پریشانیاں مزید بڑھیں گی۔ اس پاس بک کے ہونے سے پاور لوم پر جو بجلی خرچ ہوتی تھی اس کا بل بنکروں کو نہیں دینا پڑتا تھا۔‘

انصاری کے مطابق ساڑھیوں کی فروخت میں آنے والی کمی سے نہ صرف بنکر بلکہ ان کی فروخت سے جڑے تاجر بھی پریشان ہیں۔ 

’اس وقت تو مئو کی ساڑھیوں کی مانگ بہت کم ہے۔ لیکن ستمبر کے بعد درگا پوجا اور دیوالی کے تہواروں سے قبل ان کی فروخت میں تیزی آ جاتی ہے۔

’مئو میں سب سے کم دام کی ساڑھی 250 کی مل جاتی ہے۔ کرونا لاک ڈاؤن کے بعد سے ساڑھیوں کی مارکیٹ بہت خراب چل رہی ہے۔ اس لیے یہاں کی نوجوان نسل بڑی تعداد میں باہری ملکوں میں جا کر کام کرنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔‘

نئی نسل کو دلچسپی نہیں

محمد رضوان کہتے ہیں کہ نئی نسل اس پیشے سے دوری اختیار کر رہی ہے جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ساڑھیوں کی بنائی سے گھر کے اخراجات پورے کرنا بہت مشکل ہو رہا ہے۔ 

شاہد جمال انصاری کے مطابق وہ بنکر جن کے پاس ایک دو لوم کے علاوہ ذریعۂ معاش کا کوئی اور بندوبست نہیں ہے ان میں سے اکثر کے بچے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے سے محروم ہیں۔ 

’ان کے بچے بڑے ہونے کے بعد ساڑھیوں کی بنائی سے ہی متعلق کوئی کام کرتے ہیں مثلاً زری مشین چلانا، ایمبروئڈری مشین پر کام کرنا یا پھر گھر رہ کر ہی لوم چلاتے ہیں۔ اگر کوئی تھوڑا بہت پڑھ لکھ بھی لیتا ہے تو ساڑھیوں سے ہی متعلق منشی کا کام کرنا شروع کرتا ہے۔

’جن کی آمدنی اچھی ہے یا تاجروں کے بچے ہیں وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے پر توجہ دیتے ہیں۔ ان کی لوم میں دلچسپی نہیں ہے۔‘

تاہم ممتاز احمد کہتے ہیں کہ مئو کے لوگوں نے بڑے عہدے حاصل کرنے یا دیگر شعبوں میں بلندیوں پر پہنچنے کے بعد بھی اس فن سے منہ نہیں موڑا ہے۔ 

’میرے سمیت کئی خاندان ایسے ہیں جن میں ڈاکٹر اور انجینیئر بنے ہیں لیکن پھر بھی لوم گھر سے ہٹا نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم اپنے پشتینی پیشے کو چھوڑنا نہیں چاہتے ہیں۔‘

خواتین کا روزگار

ڈاکٹر شکیل احمد کے مطابق مئو میں ساڑھیاں بننے کا پیشہ ہزاروں خواتین کا ذریعہ معاش ہے اور لوم چلانے کے معاملے میں مرد اور عورتیں دونوں برابر ہیں۔ 

’عورتیں اور بچیاں لوم کی تمام بنیادی چیزوں اور باریکیوں سے واقف ہیں اور مشین میں چھوٹی موٹی خرابیوں کو خود ہی ٹھیک کرتی ہیں۔ 

اس پیشے سے متعلق ایک اور اچھی بات یہ بھی ہے کہ گھروں میں جو چھوٹے چھوٹے کام ہیں جیسے ساڑھی کاٹنا، دھاگے کو بھرنا جسے نَری بھرنا کہتے ہیں، ساڑھی کی تہہ لگانا، ساڑھی کو پیک کرنے کے لیے ڈبے بنانا، وغیرہ یہ ایسی خواتین کرتی ہیں جو بیوہ ہیں یا ایسے لوگ جن کے یہاں جگاڑ لوم لگانے کے لیے پیسہ یا جگہ نہیں ہے۔ 

’لہٰذا اس شہر کے اندر رہنے والی بیواؤں، غریبوں اور یہاں تک کہ کافی پسماندہ لوگوں کو اس پیشے کی وجہ سے کوئی نہ کوئی کام مل ہی جاتا ہے۔ ایک طبقہ وہ بھی ہے جس کے پاس نہ کوئی کھیتی باڑی کے لیے زمینیں ہیں اور نہ رہنے کے لیے کوئی اچھا ٹھکانہ۔ وہ بھی ٹرالی یا سامان ڈھلائی کے ذریعے اتنی کمائی کر ہی لیتا ہے کہ اپنے لیے چھت اور بچوں کی تعلیم و گزر بسر کا انتظام کر ہی لیتا ہے۔‘

صحافی ممتاز احمد کا ماننا ہے کہ ساڑھیاں بننے کے کام میں خواتین کا کردار اس لحاظ سے بہت نمایاں ہے کہ وہ گھر کے دوسرے کام کرنے کے علاوہ بھی اس کام کو انجام دیتی ہیں۔ 

جب لوگوں نے کپڑا سازی کا پیشہ اپنایا

ڈاکٹر شکیل احمد کہتے ہیں کہ چوں کہ بنارس مئو سے محض کم و بیش ایک سو کلو میٹر کی دوری پر واقع ہے اس لیے جو پیشہ وہاں کے لوگوں نے اختیار کیا تھا وہی مئو کے لوگوں نے بھی اپنایا۔ 

’سب کے پاس کھیتی کرنے کے لیے زمینیں تھیں نہ لوگوں کو اس کا زیادہ شوق تھا۔ تو وہ لوگ جو ہنرمند تھے کپڑا سازی کی صنعت کے رموز سے واقف تھے ان لوگوں نے اسے اپنا مستقل پیشہ بنایا اور آہستہ آہستہ یہ اس علاقے کے بیشتر لوگوں کا ذریعہ معاش بن گیا۔ 

’ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ مئو کے ارد گرد بہت سارے خطے جیسے اکبر پور، فیض آباد، گورکھپور، بارہ بنکی، پرتاپ گڑھ، الہٰ آباد (موجودہ نام پریاگ راج)، بنارس وغیرہ کپڑے کی صنعت اور بنائی کے لیے مشہور ہیں۔‘

ممتاز احمد کے مطابق ایک روایت یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ مغل شہنشاہ جلال الدین محمد اکبر جب آلہ آباد جارہے تھے تو وہ مئو سے ہو کر گزرے اوران کی فوج میں افغانی، ایرانی اور ترک شامل تھے۔

’اکبر کے بہت سے فوجی مئو میں ہی رک گئے اور مستقل سکونت اختیار کرلی۔ چوں کہ وہ زبردست فنکار تھے اوران کا بنیادی کام دست کاری تھا۔ اسی وقت سے یہ فن یہاں فروغ پاتا رہا اورآج بلندیوں پر ہے۔‘

تاہم ڈاکٹر شکیل احمد کے مطابق مئو میں کپڑا سازی کی صنعت شہنشاہ اکبر سے بھی کئی صدی پرانی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی میگزین