چارسدہ: کھڈی سے کپڑا بنانے کی صنعت دم توڑنے لگی

چارسدہ کے علاقے سلطان آباد کی کہانی جہاں خواتین مردوں کے شانہ بشانہ کھڈی کا کپڑا تیار کرتی ہیں لیکن گزرتے وقت کے ساتھ مشینیں آنے کی بدولت اب کاریگر خواتین مردوں کی نسبت زیادہ متاثر ہیں۔

پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع چارسدہ میں علاقے سلطان آباد میں خواتین مردوں کے شانہ بشانہ ہاتھ سے کھڈی کا کپڑا تیارکر تی ہیں، لیکن اس صنعت کے بتدریج زوال کے باعث خواتین ہی سب سے زیادہ متاثر ہو رہی ہیں۔

سلطان آباد کے رہائشی فیض الرحمٰن نے انڈپینڈنٹ اردوکو بتایا کہ مہنگائی ہونے کی وجہ سے دھاگے کی قیمت آسمان سے باتیں کرنی لگی ہے، جس کے باعث کپڑے کی قیمت میں بھی اضافہ ہوتا ہے اور لوگوں کی قوت خرید کم ہوجاتی ہے، جس کا اثر اس صنعت سے وابستہ افراد پر پڑ رہا ہے۔

فیض الرحمٰن کے مطابق: ’کھڈی کا کام کم ہونے سے مرد اور خواتین دونوں متاثر ہیں۔ اگرچہ مرد کم ہیں کیونکہ وہ تو باہر دوسرے کام بھی کرسکتے ہیں لیکن خواتین کے لیے مشکلات زیادہ ہوتی ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ اگر حکومت ان کے ساتھ تعاون کرے، ان کے لیے آسانیاں پیدا کرے اور بلاسود قرضے دے تو کھڈی پھر متاثر نہیں ہوگی۔

’ایسے توکھڈی کا کام ختم ہوتا جارہا ہے۔ ابھی تو پاور لوم یعنی مشینیں لگ گئی ہیں، اس کی وجہ سے کھڈی کا کام بہت زیادہ متاثر ہوا ہے۔ پاورلوم پر کپڑا زیادہ بنتا ہے لیکن کوالٹی اس طرح نہیں ہوتی جس طرح ہاتھ سے بنے ہوئے کھڈی کے کپڑے پر ہوتا تھا۔‘

کپڑا تیار کیسے ہوتا ہے؟

فیض الرحمٰن نے بتایا کہ کپڑا تیار کرنے کے لیے دھاگہ فیصل آباد یا لاہور سے منگوایا جاتا ہے اور کھڈی پر کپڑا تیار کرنے میں زیادہ ترخواتین آگے آگے ہوتی ہیں۔ وہ گھر میں دھاگے سے گوٹیں بناتی ہیں جسے بعد میں کھڈی پر دھاگہ لگا دیا جاتا ہے۔

اس کے بعد کھڈی پر کپڑا مختلف مراحل سے گزرتا ہے، جہاں خواتین اورمرد دونوں اسے بناتے ہیں۔  گھروں میں بھی خواتین ہاتھوں سے کھڈی پر کپڑا اور شال بناتی ہیں۔

فیض الرحمٰن نے بتایا کہ اگرچہ لوگ مردانہ کپڑے بھی خریدتے ہیں لیکن چونکہ عموماً خواتین زیادہ کپڑے خریدتی ہیں تو اس لیے مانگ بھی خواتین کے کپڑے کی زیادہ ہے۔

 ’مرد تو اتنے سوٹ نہیں پہنتے، خواتین زیادہ پہنتی ہیں۔ مرد پورے سیزن میں ایک یا دو سوٹ لیتے ہیں تواسی وجہ سے مانگ خواتین سوٹ کی زیادہ ہوتی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے تو یہ کام اپنے بڑوں سے سیکھا ہے، لیکن یہاں مختلف غیرسرکاری تنظیموں نے خواتین اور مردوں کو کھڈی کا کام سکھایا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تاہم انہوں نے بتایا کہ وہ اپنی نوجوان نسل کو اس کام کی طرف آنے سے روکتے ہیں۔ بقول عبدالرحمٰن: ’نوجوان دلچسپی لیتے ہیں لیکن ہم انہیں اس طرف نہیں لے کر آرہے کیونکہ یہ کام ختم ہوتا جا رہا ہے، انہیں ہم کہتے ہیں کہ اپنی تعلیم مکمل کرو۔‘

دوسری جانب اتمانزئی سلطان آباد میں ہاتھ سے بنے کھدر کے کپڑے کا کاروبار کرنے والے رضوان اللہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ہم 50 سال سے یہاں کپڑا تیار کرتے ہیں، پہلے ہمارے بزرگ، پھر ہمارے باپ دادا کھڈی کا کام کرتے تھے، اب ہم کرتے ہیں۔ اس گاؤں میں کھڈی  کے کام سے پانچ سو افراد اور 60 خاندان وابستہ ہیں۔ ادھر ہم مردانہ اور زنانہ دونوں کے لیے کپڑا بناتے ہیں۔‘

رضوان اللہ نے مزید بتایا: ’یہاں صرف سردی والا کپڑا تیار ہوتا ہے، گرمیوں والا نہیں بنا سکتے۔ اس کا مواد بہت باریک ہوتا ہے، وہ ہمارے کام کا نہیں ہوتا اور اگر ہم بنائیں بھی تو تین دن میں ایک سوٹ بنائیں گے اور اس کے دھاگے کے لیے اتنا پیسہ بھی نہیں ہوتا۔‘

ان کا مزید کہنا تھا: ’مارچ سے ہم ہاتھوں سے کھڈی پر کپڑا تیارکرنا شروع کر دیتے ہیں اور نومبر دسمبر تک تیار کرتے ہیں۔ جنوری اور فروری میں ہم نہیں بناتے کیونکہ سردیوں میں سیزن کم ہوجاتا ہے اور چار مہینے میں کپڑا بھیجنا ہوتا ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا