وہ چار نسخے جن سے آسٹریلیا انڈیا کو پچھاڑ سکتا ہے

انڈیا کی ٹیم اس ورلڈ کپ میں ناقابلِ تسخیر نظر آتی ہے مگر چار ایسے طریقے ہیں جن کی مدد سے آسٹریلیا اس چڑھتے دریا پر بند باندھ سکتا ہے۔

12 اکتوبر 2023 کو لکھنؤ کے ایکانا کرکٹ سٹیڈیم میں آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ کے درمیان آئی سی سی مینز کرکٹ ورلڈ کپ 2023 کے ایک روزہ بین الاقوامی میچ کے دوران جنوبی افریقہ کے کپتان ٹیمبا باوما کو آؤٹ کرنے کے بعد آسٹریلیا کے کھلاڑی جشن منا رہے ہیں (اے ایف پی/ توصیف مصطفیٰ)

آسٹریلیا نے ایک سنسنی خیز مقابلے کے بعد جنوبی افریقہ کو شکست دے کر آئی سی سی ورلڈ کپ 2023 کے فائنل کے لیے کوالیفائی کر لیا ہے، جہاں اس کا مقابلہ انڈیا کے جگرناتھ سے ہو گا۔

سوال یہ ہے کہ کیا آسٹریلیا میں وہ صلاحیت ہے کہ وہ انڈیا کو ٹکر دے سکے؟

انڈیا نے جس طرح اس ٹورنامنٹ میں آل راؤنڈ کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے وہ دوسری ٹیموں کے دلوں میں دہشت پیدا کرنے کے لیے کافی ہے۔ بولنگ، بیٹنگ، فیلڈنگ ہو یا کپتانی اور پلاننگ، انڈیا کی ٹیم ہر لحاظ سے ناقابلِ تسخیر نظر آتی ہے۔ تو آسٹریلیا وہ کیا حکمتِ عملی اختیار کرے کہ انڈیا کی اس ورلڈ کپ میں فتوحات کے چڑھتے دریا پر بند باندھ سکے؟

سابق برطانوی کپتان مائیکل وان نے دا ٹیلی گراف میں ایک کالم میں لکھا ہے کہ اگر انڈیا صرف 70 فیصد کارکردگی دکھائے تب بھی وہ کسی بھی ٹیم کو شکست دے سکتا ہے۔

انڈیا نے اب تک اس ورلڈ کپ میں دس کے دس مقابلے نہ صرف جیتے ہیں بلکہ ہر مقابلہ بھاری مارجن سے جیتا ہے۔ اس نے ہر ٹیم کو صرف شکست ہی نہیں دی بلکہ شکستِ فاش دی ہے۔ پورے ٹورنامنٹ میں کوئی ایسا لمحہ نہیں آیا جب کو ٹیم انڈیا کو دباؤ میں لانے میں کامیاب ہوئی ہو۔ 

سیمی فائنل میں نیوزی لینڈ نے اچھا مقابلہ ضرور کیا، خاص طور پر مچل اور ولیمسن کی شراکت خاصا طول پکڑ گئی، مگر انڈیا نے 397 رنز کا جو سربفلک پہاڑ کھڑا کیا تھا، وہ ساری اننگز کے دوران ناقابلِ عبور ہی رہا اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جب بھی کوئی ایک وکٹ گرے گی، نیوزی لینڈ کی مہم جوئی لڑکھڑا جائے گی، اور میچ میں ہوبہو یہی ہوا۔

تاہم ایسا بھی نہیں کہ انڈیا کی ٹیم ناقابلِ تسخیر ہے۔ اس ٹیم میں کئی ایسی خامیاں ہیں جن سے مخالف ٹیمیں فائدہ اٹھا سکتی ہیں۔

موجودہ فارم کی بنا پر انڈیا فائنل کے لیے فیورٹ ضرور ہے، مگر آسٹریلیا کی تجربہ کار ٹیم اس قابل ہے کہ وہ انڈیا کو ٹکر دے سکے۔

اس کے لیے آسٹریلیا کو چند ایک اقدامات کرنا ہوں گے۔

1 انڈین بیٹنگ کی لمبی دم

انڈیا کی اس ٹیم کے پاس صرف پانچ سپیشلسٹ بلے باز ہیں۔ دو دھواں دھار اوپنر روہت شرما اور شبھمن گل۔ اس کے بعد وراٹ کوہلی اور چوتھے نمبر پر شریئس ایئر۔ پانچویں نمبر پر وکٹ کیپر کے ایل راہل آتے ہیں، البتہ وہ نرے وکٹ کیپر نہیں بلکہ ورلڈ کلاس بلےباز بھی ہیں۔ چھٹے نمبر پر سوریہ کمار یادو ہیں، پھر ساتویں نمبر پر آل راؤنڈ اجے جڈیجا کی باری آتی ہے، اور اس کے بعد لمبی ٹیل۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بمراہ، شامی، سراج، کلدیب یادو صرف اور صرف بولر ہیں اور ان پر بلےبازی کے لیے کسی بھی موڑ پر تکیہ نہیں کیا جا سکتا۔ اس ورلڈ کپ میں حصہ لینے والی کسی بھی ٹیم کی اتنی لمبی ٹیل نہیں ہے۔ انڈیا نے شروع کے میچوں میں محمد شامی کی جگہ آل راؤنڈ ہاردک پانڈیا کو اسی لیے شامل کیا تھا کہ اس لمبی ٹیل کی خامی کو دور کیا جا سکے۔ مگر پانڈیا کے زخمی ہونے کے بعد شامی کی شمولیت نے یہ خامی نمایاں کر دی ہے۔

آسٹریلیا کے لیے ضروری ہے کہ وہ کسی طرح سے زور لگا کر انڈیا کے پہلے پانچ بلےباز آؤٹ کر دے۔ یہ کام کہنے میں آسان ہے، کرنے میں جوئے شیر لانے کے مترادف، کیوں کہ یہ پانچوں کے پانچوں زبردست فارم میں ہیں۔

آسٹریلین کرکٹ صحافی جیرڈ کمبر نے اس بارے میں لکھا ہے کہ یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی کینسر کے مریض سے کہے کہ آپ کے مرض کا تریاق سیارہ زحل پر موجود ہے۔ موجود تو ہے لیکن وہاں تک پہنچا کیسے جائے؟

البتہ چھٹے نمبر پر آنے والے سوریہ کمار یادو (سکائی) اس زنجیر کی کمزور کڑی ہیں اور اس ورلڈ کپ کی چھ اننگز میں 88 رنز بنائے ہیں، جب کہ ان کی اوسط صرف 17 رنز فی اننگز ہے۔ ویسے بھی ان کی اصل مہارت ٹی20 میں کھل کر سامنے آتی ہے، اب تک کے ریکارڈ سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہ لمبی سانس کے بلےباز ہیں۔

اگر اوپر سے وکٹیں جلد گر جائیں تو سکائی کو دباؤ میں لایا جا سکتا ہے، جس کے بعد انڈیا کی بچی کھچی ٹیم کا ٹکنا مشکل ہو گا۔

2 صرف پانچ بولر

ورلڈ کپ میں حصہ لینے والی بقیہ ٹیموں کے برعکس انڈیا صرف پانچ بولروں سے کھیل رہا ہے، ان کے پاس چھٹے بولر کی سہولت دستیاب نہیں ہے۔

بلے بازوں کی طرح یہ پانچوں بولر بھی تباہ کن فارم میں ہیں اور ان میں سے ہر ایک تنِ تنہا کسی بھی مخالف بولنگ کے بخیے ادھیڑنے کی نہ صرف صلاحیت رکھتا ہے بلکہ انہوں نے اسی ورلڈ کپ کے دوران بارہا اس کا عملی نمونہ بھی پیش کیا ہے۔

آئی سی سی کی رینکنگ کچھ بھی کہے، مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ بمراہ کسی بھی فارمیٹ میں دنیا کے نمبر ون بولر ہیں، اور کسی بھی طرح کی وکٹ پر بلےبازوں کی زندگی مشکل بنا سکتے ہیں۔ شامی کے مہلک سپیل کئی بیٹنگ لائنز کو ریت کی دیوار کی طرح منہدم کر چکے ہیں، جب کہ محمد سراج نئی گیند کے ساتھ تیز رفتار ڈسپلن سے مخالف ٹیموں پر قہر بن ٹوٹتے ہیں۔ انڈیا کے دونوں سپنر جڈیجا اور یادو اپنی لائن اینڈ لینتھ اور ویری ایشن کے ساتھ اچھے سے اچھے بلےباز کے لیے لوہا کا چنا ثابت ہو رہے ہیں۔

لیکن فائنل کے زبردست دباؤ کے سامنے ان میں سے کوئی ایک بولر بھی پھیکا پڑ گیا یا میچ کے دوران ان فٹ ہو گیا تو انڈیا کے پاس کوئی پلان بی نہیں ہے۔

بہت سے لوگوں کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ انڈیا کا چھٹا بولر وراٹ کوہلی ہے۔ انڈیا کو بھی اس خامی کا احساس ہے اس لیے انہوں نے نیدرلینڈز کے خلاف میچ میں کوہلی سے بولنگ کروائی تھی تاکہ ان کی تھوڑی بہت مشق ہو سکے۔

آسٹریلیا کو انڈیا کے کسی ایک بولر کو خاص طور نشانہ بنا کر اسے دباؤ میں لانا ہو گا۔ یہ بولر محمد سراج ہو سکتے ہیں کہ وہ دوسروں کی نسبت ناتجربہ کار ہیں۔ نیوزی لینڈ نے سیمی فائنل میں ان پر اٹیک کیا تھا، اور ایک اوور میں 19 رنز بنا ڈالے تھے، مگر یہ منصوبہ پایۂ تکمیل تک نہ پہنچ سکا۔

3 توقعات کا دباؤ

انڈیا اپنے ملک میں کھیل رہا ہے، اور ایک ارب 40 کروڑ کے قریب دیوانگی کی حد تک پرجوش عوام ان کے پیچھے کھڑے ہیں۔ لیکن بعض اوقات یہ حمایت ناکامی کے خوف میں بھی ڈھل سکتی ہے، کہ اگر ہار گئے تو یہی مداح پھول پھینک کر جوتے اٹھا لیں گے۔

کھیل کے میدان میں دباؤ اور کچھ نہیں ہوتا بلکہ ناکامی کا خوف ہوتا ہے۔ اگر سکور نہ کر سکے تو کیا ہو گا، وکٹ نہ لے سکے، زیادہ رنز دے دیے تو لوگ کیا سلوک کریں گے۔

یہی چیز انڈیا کے خلاف بھی جا سکتی ہے۔ اگر کھلاڑیوں نے توقعات کا دباؤ زیادہ لے لیا تو ان کے اعصاب چٹخ سکتے ہیں۔ آسٹریلیا اسی نفسیاتی تناؤ کی کیفیت کو شروع ہی سے جارحانہ رویہ اختیار کر کے انڈیا کے خلاف استعمال کر سکتا ہے۔

اب تک کوئی ٹیم اس ورلڈ کپ میں انڈیا کو دباؤ میں لانے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ اگر آسٹریلیا کسی طریقے سے انڈین بولنگ یا بیٹنگ کو دباؤ میں لے آئے تو انڈیا کے لیے اسے برداشت کرنا مشکل ہو جائے گا۔

4 چوتھا گر

انڈیا کو ہرانے کا چوتھا نسخہ عظیم فاسٹ بولر وسیم اکرم نے بتایا ہے کہ اگر انڈیا کی ٹیم کی بس کے ٹائر پنکچر کر دیے جائیں اور وہ وقت پر میدان تک پہنچ نہ سکیں تو آسٹریلیا ٹائم آؤٹ کی بنیاد پر فائنل جیت سکتا ہے۔

 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کرکٹ