کرم میں آپریشن کا مقصد شرپسندوں کا قلع قمع: انتظامیہ

کمشنر کوہاٹ ، ڈی آئی جی کوہاٹ ریجن اور ڈی سی ہنگو نے مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا کہ کرم میں آپریشن جاری ہے اور اس کا ہدف صرف زر پسند عناصر ہیں۔

کمشنر کوہاٹ معتصم باللہ شاہ نے اتوار کو میڈیا کو بتایا کہ خیبر پختوبنخوا کے ضلع کرم میں جاری آپریشن کا مقصد عوام کی تکالیف میں اضافہ کرنا نہیں بلکہ اس کا ہدف صرف شرپسند عناصر ہوں گے۔

ہنگو میں ذرائع ابلاغ کے نئماندوں سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ شر پسند عناصر عوام میں گھس بیٹھے ہیں اور عام لوگوں کا روپ دھار کر حالات کو خران کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

معتصم باللہ شاہ نے مزید کہا کہ علاقے کے بزرگوں نے طویل مذاکرات کے بعد ایک معاہدہ کیا، جس میں عام شہریوں، علاقے اور دونوں فریقین کی بھلائی ہے، لیکن اب شر پسند عناصر اس معاہدے کو خراب کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔

اس موقع پر موجود ڈپٹی انسپکٹر جنرل آف پولیس کوہاٹ ریجن عباس مجید مروت نے کہا کہ علاقے میں سکیورٹی فورسز کی کاروائیاں جاری ہیں، جن کا واحد مقصد شر پشند عناصر کا قلع قمع کرنا ہے۔

ڈپٹی کمشنر ہنگو گوہر زمان وزیر نے بتایا کہ خراب حالات کے باعث گھر بار چھوڑنے والے خاندانوں کے لیے امدادی سامان پیر کی صبح تک ان کے پاس پہنچ جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ ان آئی ڈی پیز کو تمام سہولتیں اور ضروریات زندگی پہنچائی جائیں گی اور اس سلسلے میں حکومت نے پورے وسائل استعمال کرنے کا تہیا کیا ہوا ہے۔

صوبہ خیبر پختونخوا میں سرکاری حکام نے بتایا ہے کہ ضلع کرم کی تحصیل لوئر کرم میں سکیورٹی فورسز کے آپریشن کی خبروں میں صداقت تو ہے لیکن یہ مخصوص اہداف پر کارروائیوں پر مشتمل ہو گا۔  

صوبے کے ایک اعلیٰ عہدے دار نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں لوئر کرم کے چار علاقوں بگن، اوچت، مندوری اور چھپری میں آپریشن کے حوالے سے سوشل اور مقامی میڈیا پر چلنے والے نوٹیفیکیشن کی تصدیق کرتے ہوئے وضاحت کی کہ یہ کارروائیاں سرچ اینڈ ٹارگٹڈ آپریشن ہیں، جن میں گذشتہ دنوں خوراک کی گاڑیوں کے قافلوں پر حملے کے ملزمان کو تلاش کرنا ہے۔

دوسری طرف صوبائی حکومت کے ترجمان بیرسٹر محمد علی سیف نے بتایا کہ ضلعے کی صورت حال پر اعلیٰ سطح اجلاس میں شر پسندوں کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ 

انہوں نے ایک بیان میں بتایا کہ ریاست پر امن عناصر کے ساتھ کھڑی ہے اور ظالم عناصر کو کیفرکردار تک پہنچایا جائے گا۔ 

بیرسٹر سیف کے مطابق متاثرہ علاقوں میں موجود چند شرپسندوں کے خلاف کارروائی ناگزیر ہو چکی ہیں اور امن معاہدے پر قانون اور پشتون روایات کے مطابق عملدرآمد کروایا جائے گا۔ 

انہوں نے مزید کہا کہ ’شرپسندوں کے خلاف کاروائی میں پولیس اور سول انتظامیہ کی مدد کے لیے سکیورٹی فورسز سپورٹ میں موجود ہوں گی۔’

بیان کے مطابق حکومت کو خدشہ ہے کہ امن پسند لوگوں کے درمیان کچھ شرپسند گھس گئے ہیں اور عام لوگوں کو نقصان سے بچانے کے لیے انہیں شرپسندوں سے الگ کرکے کارروائی کی جائے گی۔

بیرسٹر سیف نے کہا کہ ’متاثرہ علاقوں کے عوام کے لیے رہائش کے بہترین متبادل انتظامات کیے گئے ہیں اور حکومت دونوں فریقین سے درخواست کرتی ہے کہ اپنے درمیان موجود شرپسندوں کی نشاندہی میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مدد کریں۔‘

بگن میں  سرکاری حکام کے مطابق سامان سے بھرے ٹرکوں پر حملے کے نتیجے میں کم از کم چھ افراد جان سے گئے تھے۔ تاہم حملے کے حوالے سے تین دن گزرنے کے باوجود ابھی تک سرکاری طور پر کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا۔

ضلع کرم سے نقل مکانی کرنے والے گھرانے قریبی ضلع ہنگو کے علاقے ٹل آتے ہیں اور ہنگو انتظامیہ کے مطابق تقریباً دو مہینے قبل بگن میں کشیدہ حالات اور گھروں کے نقصانات کے بعد 15 ہزار افراد ٹل میں قائم کیمپس پہنچے ہیں۔ تاہم اس وقت کیمپوں میں چھ سے سات سو لوگو موجود ہیں۔

ہنگو کے ڈپٹی کمشنر گوہر زمان وزیر نے بتایا کہ ابتدا میں آنے والے لوگوں میں سے اکثر کو اب ان کے رشتہ داروں یا ہنگو کی عوام نے اپنے گھروں میں جگہ دے دی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہنگو میں قائم کیمپ ضلعی انتظامیہ کی مدد سے چلائے جا رہے ہیں۔ ’پروونشل ڈیزاسٹر مینیجمنٹ کو ہم نے کچھ کیمپ تجویز کیے تاکہ ان کو باقاعدہ کیمپ ڈیکلیئر کر کے وہاں تمام تر سہولیات فراہم کریں۔‘

کرم میں آپریشن یا آج مزید گھرانوں کے نقل مکانی کے حوالے سے گوہر نے بتایا کہ ’ہمیں تو کرم انتظامیہ نے آپریشن کے بارے میں کچھ نہیں بتایا اور نہ آج مزید گھرانے ٹل آئے ہیں۔‘

ان کے مطابق: ’ہم سے موجود وسائل کے اندر جتنا ہو سکتا ہے وہ کر رہے ہیں اور نقال مکانی کرنے والوں کو ہر ممکن سہولیات فراہم کر رہے ہیں۔‘

لوئر کرم کی صورت حال 

لوئر کرم میں آپریشن کے حوالے سے بگن کے ایک رہائشی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ نوٹیفیکیشن میں چار علاقوں کا ذکر ہے، تاہم بگن میں سکیورٹی فورسز کے دستے تعینات ہیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ بگن بازار سمیت مقامی سطح پر بنے بنکرز میں بھی سکیورٹی فورسز کے دستے تعینات کیے گئے ہیں۔

کرم کے ایک رہائشی نے بتایا کہ سرکاری حکام نے ہفتے کو بگن کے مشران سے ملاقات کر کے علاقے کو تین دن کے لیے خالی کرنے کا بتایا تھا۔

نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر انہوں نے کہا کہ ’مشران نے علاقہ خالی کرنے سے انکار کر دیا۔‘

رہائشی کا کہنا تھا کہ 22 نومبر کو بگن بازار میں دکانوں اور گھروں کو جلانے کے واقعات کے بعد بہت سارے گھرانے پہلے ہی یہاں سے محفوظ مقامات کی جانب منتقل ہو چکے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے بتایا کہ ’ابھی بگن میں مکمل کرفیو جیسا سماں ہے اور وہاں کوئی جا سکتا ہے نہ باہر آ سکتا ہے، جب کہ صرف بگن میں سکیورٹی فورسز کی موجودگی ہے۔‘

تاہم ان کے مطابق ابھی تک آپریشن جیسے آثار تو نہیں اور صرف سکیورٹی فورسز کے اہلکار نظر آ رہے ہیں، جب کہ مندوری کے علاقے میں بگن کے متاثرین کا دھرنا جاری ہے۔

علاقے سے نقل مکانی کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے اور آج صبح سے کچھ گھرانے ان علاقوں سے نکل چکے ہیں لیکن اب بھی ایک بڑی آبادی موجود ہے۔

ضلع ہنگو کے علاقے ٹل میں تقریباً دو مہینوں سے متاثرین کے کیمپ قائم ہیں، جہاں وہ متاثرین قیام پذیر ہے جن کے گھر 22 نومبر کو جلائے گئے تھے۔

آپریشن کی دھمکی 

چار جنوری کو بگن میں اس وقت ڈپٹی کمشنر جاوید اللہ محسود پر حملے کے بعد کوہاٹ میں خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ، آئی جی اور چیف سیکریٹری سمیت دیگر اعلیٰ عہدے داران اجلاس میں شریک ہوئے۔

اس حوالے سے خیبر پختونخوا حکومت نے ایک بیان میں کہا کہ ملاقات میں فیصلہ کیا گیا کہ ’اگر چار جنوری کے واقعے میں ملوث افراد کو حکومت کے حوالے نہ کیا گیا تو وقوعہ کے مقام پر سخت کارروائی کی جائے گی۔‘

خیبر پختونخوا حکومت کے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ امن معاہدے پر دستخط کرنے والوں کو ڈپٹی کمشنر پر حملے کے ملزمان کو حوالے کرنے کا بتا دیا ہے اور عدم تعاون پر علاقے میں کلیئرنس آپریشن بھی کیا جا سکتا ہے۔

ڈپٹی کمشنر پر حملے کا مقدمہ بھی درج کیا گیا تھا جس میں ملزمان نامزد کیے گئے لیکن ابھی تک ملزمان کی گرفتاری یا اس مقدمے کے حوالے سے پیش رفت کی تفصیلات جاری نہیں کی گئیں۔  

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان