گائناکالوجسٹس اور تحقیقی رپورٹس کے مطابق پاکستانی خواتین میں پولی سسٹک اووری سنڈروم (پی سی او ایس) تیزی سے ایک خاموش مگر خطرناک وبا کی صورت اختیار کرتا جا رہا ہے اور ملک میں تقریباً ہر 10 میں سے ایک خاتون اس بیماری کا شکار ہے۔
پی سی او ایس ایک ہارمونل بیماری ہے جو خواتین میں بیضہ دانی (اووریز) کے کام کو متاثر کرتی ہے۔ اس بیماری میں اووریز میں چھوٹے چھوٹے سسٹس (پانی والے دانے) بن سکتے ہیں، مگر اصل مسئلہ انڈوں کی نارمل مقدار اور معیار میں خلل ہوتا ہے، جو ہارمونز کی بےترتیبی کی وجہ سے ہوتا ہے۔
اسی حوالے سے پانچ مئی 2025 کو کراچی میں منعقدہ ایک اہم سیمینار میں ملکی و بین الاقوامی ماہرینِ امراضِ نسواں نے خبردار کیا کہ پاکستان میں ہر چار میں سے ایک جوڑا بانجھ پن کا شکار ہے اور اس کی ایک بڑی وجہ یہی ہارمونل و میٹابولک بیماری ہے۔
ماہرین کے مطابق تولیدی عمر کی تقریباً 52 فیصد خواتین اس مرض کا شکار ہیں۔
یہ سیمینار ’پی سی او ایس، ایڈولیسنٹ اینڈ ری پروڈکٹیو ہیلتھ سوسائٹی‘ کی جانب سے ’ایندومیٹریوسس اینڈ ایڈینومائیوسس سوسائٹی‘ اور دوا ساز ادارے ’فارم ایوو‘ کے تعاون سے منعقد کیا گیا، جس میں مختلف ممالک کےطبی ماہرین نے شرکت کی۔
سیمینار میں شریک معروف گائناکالوجسٹ ڈاکٹر زبیدہ مسعود نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ ’پی سی او ایس خاموشی سےخواتین کی تولیدی صلاحیت کو متاثر کر رہا ہے۔ وہ خواتین جو حاملہ ہونے میں کامیاب ہو بھی جاتی ہیں، ان میں اسقاطِ حمل کا خطرہ عام خواتین کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہوتا ہے۔ اس بیماری کے پس پردہ عوامل میں قریبی رشتہ داروں سے شادیاں، جینیاتی اثرات، غیر متحرک طرزِ زندگی اور موٹاپا شامل ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’تشویش ناک بات یہ ہے کہ غیر تربیت یافتہ اور غیر رجسٹرڈ معالجین کی جانب سے دی جانے والی دوائیں بعض اوقات رحم اور بیضہ دانی کے کینسر کی بنیاد بن رہی ہیں۔‘
سیمینار میں شریک گائناکالوجسٹ ڈاکٹر شاہین ظفر کہتی ہیں کہ ’پی سی او ایس تیزی سے عام ہوتا جا رہا ہے اور خواتین کو اس کی معلومات ہی نہیں۔‘
ڈاکٹر شاہین ظفر نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا: ’ہمارے پاس روزانہ کی بنیاد پر ایسی خواتین ہسپتال میں آتی ہیں، جنہیں حمل نہ ہونے کی شکایت ہوتی ہے۔ ان میں سے بیشتر کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ اس کی اصل وجہ کیا ہے اور جب ہم تشخیص کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ پی سی او ایس کا شکار ہیں۔‘
ڈاکٹر شاہین کے مطابق: ’یہ بیماری براہِ راست بانجھ پن سے جڑی ہوتی ہے، کیونکہ اس میں بیضہ دانی میں انڈے صحیح طریقے سے نشوونما نہیں پاتے، جس سے حمل ٹھہرنے میں دشواری پیش آتی ہے۔‘
انہوں نے خبردار کیا کہ ’اگر اس مسئلے کو بروقت تشخیص اور علاج نہ کیا جائے تو یہ آگے چل کر کئی پیچیدہ بیماریوں کا سبب بن سکتا ہے، جن میں ٹائپ 2 ذیابیطس، دل کے امراض اور دیگر میٹابولک بیماریاں شامل ہیں۔‘
انہوں نے پاکستان میں پی سی او ایس کے ایک بڑے سبب کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: ’ملک میں 80 فیصد سے زائد خواتین موٹاپے کا شکار ہیں اور یہی موٹاپا انسولین مزاحمت کو جنم دیتا ہے، جو کہ پی سی او ایس کی ایک بنیادی وجہ ہے۔‘
ڈاکٹر شاہین ظفر نے زور دیا کہ ’اس بیماری کی بروقت شناخت اور انفرادی سطح پر علاج نہ صرف بانجھ پن سے بچا سکتا ہے بلکہ خواتین کی مجموعی جسمانی اور ذہنی صحت کو بہتر بنانے میں بھی مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔‘
’بیماری نہیں، سماجی بحران‘
سیمینار کی مہمانِ خصوصی اور انٹرنیشنل فیڈریشن آف گائناکالوجی اینڈ آبسٹیٹرکس (FIGO) کی صدر ڈاکٹر جین کونی نے پی سی او ایس کو ’خاموش وبا‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ مسئلہ صرف بانجھ پن تک محدود نہیں بلکہ خواتین کی ہارمونل، میٹابولک، جسمانی اور ذہنی صحت کو بھی متاثر کرتا ہے۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ پاکستان میں نوجوان غیر شادی شدہ لڑکیوں میں اس مرض کی تشخیص اکثر نہیں ہو پاتی کیونکہ تولیدی صحت پر بات کرنا اب بھی سماجی لحاظ سے ایک ممنوعہ موضوع ہے۔
برطانوی ماہرِ امراضِ نسواں ڈاکٹر ہانی ڈبلیو فوزی نے کہا کہ پی سی او ایس کے مؤثر علاج کے لیے صرف دوا کافی نہیں بلکہ ایک مکمل حکمتِ عملی درکار ہے۔ اس میں ماہر گائناکالوجسٹ، غذائی ماہر، ذہنی صحت کے ماہرین اور اینڈوکرائنولوجسٹ کو شامل کیا جانا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ طرزِ زندگی میں تبدیلی، جسمانی وزن میں کمی، ذہنی مشاورت اور انفرادی صورت حال کو مدِنظر رکھ کر علاج نہایت ضروری ہے۔
’فارم ایوو‘ کے مارکیٹنگ ڈائریکٹر محسن شیراز کا کہنا تھا کہ ادارہ پی سی او ایس سے متعلق شعور بیدار کرنے کے لیے مختلف اقدامات کر رہا ہے کیونکہ بیشتر خواتین لاعلمی اور سماجی دباؤ کی وجہ سے بر وقت علاج سے محروم رہتی ہیں۔
سیمینار کے اختتام پر ماہرین نے حکومت اور پالیسی سازوں سے اپیل کی کہ تولیدی صحت سے متعلق قومی سطح پر آگاہی مہم فوری طور پر شروع کی جائے۔ تعلیمی اداروں میں لڑکیوں کی سکریننگ، طرزِ زندگی میں بہتری اور سماجی رویوں میں تبدیلی کے ذریعے اس بیماری کے پھیلاؤ کو روکا جا سکتا ہے۔
پی سی او ایس کی وجوہات
تحقیقی رپورٹس اور گائناکالوجسٹس کی رائے کے مطابق پاکستان میں تقریباً 10 میں سے ایک خاتون اس بیماری کا شکار ہیں، یعنی ملک بھر میں لاکھوں خواتین اس کے اثرات جھیل رہی ہیں۔خاص طور پر شہری علاقوں میں۔ اس کی وجوہات کچھ یہ ہو سکتی ہیں۔
انسولین کی مزاحمت: جب جسم انسولین کا درست استعمال نہیں کر پاتا، تو یہ خون میں شوگر کی مقدار بڑھاتا ہے اور انڈوں کی نشوونما میں رکاوٹ بنتا ہے۔
جینیاتی اثرات: اگر خاندان میں کسی کو یہ مسئلہ ہو، تو اس کے ہونے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔
ہارمونل عدم توازن: خاص طور پر اینڈروجن (مردانہ ہارمون) کی زیادتی۔
ماحولیاتی عوامل اور طرزِ زندگی: غیر متوازن خوراک، کم ورزش اور ذہنی دباؤ بھی اس بیماری کو بڑھا سکتے ہیں۔
علامات
۔ حیض کا بے قاعدہ یا بند ہو جانا
۔ چہرے، سینے یا کمر پر غیر ضروری بال (ہرسوٹزم)
۔ بالوں کا جھڑنا یا گنج پن
۔ وزن میں تیزی سے اضافہ یا وزن کم نہ ہونا
۔ چہرے پر مہاسے
۔ بانجھ پن یا حمل میں مشکلات
۔ پی سی او ایس کے نقصانات
اگر بروقت علاج نہ ہو تو بانجھ پن سب سے عام اور تکلیف دہ نتیجہ ہوتا ہے۔ اس کے بعد ٹائپ 2 ذیابیطس کا خطرہ بڑھ جاتا ہے، ہائی بلڈ پریشر اور دل کی بیماریوں کا امکان، ڈپریشن اور انگزائٹی، اینڈومیٹریئل کینسر (رحم کی جھلی کا سرطان) کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔
علاج اور زندگی گزارنے کے طریقے
ماہرین کے مطابق پی سی او ایس کا کوئی مستقل علاج نہیں، مگر اس پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
1۔ خوراک میں تبدیلی: کم کاربوہائیڈریٹ اور زیادہ فائبر والی غذا
2۔ ورزش: روزانہ 30 منٹ تیز واک یا ایکسرسائز
3۔ دوائیاں: ہارمون بیلنس کرنے والی گولیاں، انسولین کنٹرول کرنے والی ادویات
4۔ وزن کم کرنا: صرف 5 سے 10 فیصد وزن کم کرنے سے علامات میں نمایاں بہتری آتی ہے۔
5۔ ماہرانہ نگرانی: گائناکالوجسٹ یا اینڈوکرائنولوجسٹ سے مستقل رابطہ رکھنا ضروری ہے۔