پاکستان میں شاید اکثریت آبادی کو یہ معلوم نہیں ہو گا کہ دنیا میں موجود جن 133 کارڈینلز نے نئے پوپ لیو کا انتخاب کیا تھا ان میں سے ایک کا تعلق پاکستان سے بھی ہے۔
کارڈینل جوزف کوٹس، پہلے آرچ بشپ کراچی تھے اور انہیں 2019 میں آنجہانی پوپ فرانسس اول نے کارڈینل کے منصب پر فائز کیا تھا۔
نئے پوپ کے انتخاب کے بعد، وہ جب کراچی واپس پہنچے تو ہم نے انڈیپینڈنٹ اردو کے قارئین کے لیے ان سے ملاقات کا اہتمام کیا اور نئے پوپ کی شخصیت اور ان سے وابستہ امیدوں پر بات کی۔
کارڈینلز صرف 80 سال کی عمر تک ہی ووٹ ڈال سکتے ہیں اور اس لیے یہ کارڈینل جوزف کوٹس کا بھی پہلا اور آخری کنکلیو تھا۔
نئے پوپ کی شخصیت کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ وہ امریکی ہیں اور شکاگو میں پیدا ہوئے تھے لیکن انہوں نے زندگی کا ایک بڑا حصہ لاطینی امریکہ کے ملک پیرو میں گزارا ہے اور ان کے پاس امریکی اور پیرو کی شہریت بھی ہے۔
وہ شروع ہی سے غریبوں کے ساتھ رہے ہیں، جو عوام کے مسائل سمجھنے کے لیے ضروری ہے۔
نئے پوپ سے وابستہ توقعات کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ’کیتھولک چرچ میں بھی مختلف نظریات کے لوگ ہیں۔ کچھ چاہتے ہیں کہ جیسے سب پہلے تھا ویسے ہی ہمیشہ رہے، کوئی تبدیلی آئے ہی نہیں، جبکہ کچھ لوگ اس سب کو دقیانوسی طریقہ کہتے اسے جدید خطوط پر استوار کرنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے اس کی مثال ہم جنس پرستی سے دی کہ بہت سے لوگ اسے بالکل مسترد کرتے ہیں، کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ خدا کے قانون اور فطرت کے مکمل خلاف ہے۔
’اب نئے پوپ ان مسائل کو کیسے دیکھتے ہیں یہ ہمیں دیکھنا ہوگا، نئے پوپ میں جو خوبیاں ہیں، جیسے وہ کھلے ذہن کے ہیں، عوام سے قریب ہیں اور وہ بہت ہی ذہین ہیں۔
’وہ بہت اچھے سننے والے ہیں وہ مسائل کو سنتے ہیں اور ان کا ادراک رکھتے ہیں، اس لیے اس وقت کیتھولک چرچ بہت پُرامید ہے کہ نئے پوپ ان عالمی مسائل کا مداوا کیسے کرتے ہیں۔‘
نئے پوپ کے سامنے موجودہ چیلنجز میں انہوں نے کہا کہ تاریخ میں نئے نئے مسائل سامنے آتے ہیں جیسے مصنوعی ذہانت، اب یہ خطرناک بھی ہے۔ یہ پوپ بنیادی طور پر میتھیمیٹکس کے آدمی ہیں، تو یہ ان جدید مسائل کو سمجھتے ہیں اور وہ ہمیں اخلاقی و روحانی طور پر بھی اس ضمن میں رہنمائی فراہم کر سکتے ہیں۔
پوپ فرانسس کی پالیسیوں کو جاری رکھنے کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ یہ اس وقت کہنا مشکل ہے، لیکن یہ ضرور ہے کہ جو شخص سننے کی صلاحیت رکھتا ہے، وہ مسائل کو ادراک رکھ سکتا ہے اور انہیں حل بھی کر سکتا ہے اور یہ پوپ بات سننے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
نئے پوپ کے انتخابی عمل کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ وہاں 133 کارڈینلز موجود تھے اور تمام ایک دوسرے کو نہیں جانتے تھے، لیکن کھانے کے دوران ہم ایک دوسرے سے بات کرتے تھے۔ اس دوران باہر کی دنیا سے ہمارا کوئی رابطہ نہیں ہوتا تھا۔ موبائل فون یا کوئی دیگر آلات وہاں پر لانے کی ممانعت تھی۔
انہوں نے وضاحت کی کہ یہ عام قسم کے انتخابات کی طرح کوئی مقابلہ نہیں ہوتا، اس لیے پہلا دن ہم نے دعا میں بہت وقت گزارا، خاموشی سے خدا کے حضور پیش ہوئے اور ضمیر کا استعمال کرتے ہوئے فیصلے کیے۔
پہلے دن تین سے چار امیدوار تھے۔ تیسرے راؤنڈ میں ان کو واضع برتری مل گئی، کیونکہ پوپ کو دو تہائی اکثریت کے ساتھ منتخب ہونا ہوتا ہے اور انہیں وہ حاصل ہو گئی تھی۔
اس دوران کارڈینل جوزف کوٹس کے مطابق سیسٹین چیپل سے باہر آکر کسی سے بھی ملنے کی اجازت نہیں ہوتی، باہر کے لوگ نہیں آسکتے تھے اور نہ ہی کسی قسم کے برقی آلات استعمال کرنے کی اجازت ہوتی ہے۔
80 سال سے اوپر کے کارڈینل ووٹ نہیں ڈالتے، اس ضمن میں انہوں نے بتایا کہ کیونکہ صحت کے مسائل ہوتے ہیں، اس لیے اس عمر کی حد مقرر کردی گئی ہے۔
ایشیائی ووٹ کے بارے میں انہوں نے وضاحت کی کہ اس میں کسی بھی قسم کی انتخابی مہم نہیں ہونا چاہیے۔ البتہ کچھ میڈیا چینل مسلسل مہم چلا رہے تھے کہ ایشائی پوپ ہونا چاہیے، لیکن وہاں ایسا نہیں ہوتا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاکستانی کارڈینل ہونے کے بارے میں انہوں نے کہا کہ اس کے بہت فائدے ہیں، دنیا کو معلوم ہوتا ہے کہ اچھا پاکستان میں کارڈینل بھی ہوتے ہیں۔ کیونکہ پاکستان کے بارے میں کافی افراد غلط فہمی کا شکار ہیں کہ وہاں سب ہی دہشت گرد رہتے ہیں۔
پاکستان سے کبھی پوپ بننے کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ابھی وقت لگے گا، موجودہ پوپ ہسپانوی زبان بولتے ہیں، انہیں اطالوی بھی آتی ہے اور وہ پہلی تقریر میں ہی اطالوی زبان کا استعمال کرتے ہیں جس سے وہاں موجود افراد کو محسوس ہوا کہ یہ ہمارا پوپ ہے اور یہ ہماری زبان بولتا ہے۔ لیکن پاکستان سے پوپ ابھی وقت درکار ہے۔
پاکستانی کرسچن برادری کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ زیادہ تعداد آمدنی کے نچلے درجے کے ہیں، لیکن اہم یہ ہے کہ جب بھی جنگ چھڑی تو ہماری جوان بھی شہید ہوئے۔ ایئر فورس میں آرمی میں، اس کے علاوہ صحت اور تعلیم کے شعبے میں ہماری برادری بہت کام کررہی ہے۔ اس لیے ہمیں دوسرے یا تیسرے درجے کا شہری نہ سمجھا جائے، اعتراض یہی ہے کہ ہمیں برابر کا شہری سمجھا جائے۔
انہوں نے کہا کہ 65 کی جنگ میں ہم پر شک کیا جاتا تھا، لیکن اب خدا کا شکر ہے کہ ایسا نہیں ہے۔
آخر میں بین المذاہب ہم آہنگی کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ہم آہنگ ہونا ضروری ہے۔
انہوں نے بتایا کہ عرب امارات کی قونصل خانے نے ہمیں افطار پر بلایا تھا، اور کہا تھا کہ یہ شراکت کی بات ہے، اسی طرح بہت سے کرسچن رمضان میں افطار کا انتظام کرتے ہیں، یہ اہم ہے۔
انہوں نے کہا کہ کرسچن مشن کے جتنے تعلیمی یا صحت کے ادارے ہیں ان میں کسی بھی قسم کا امتیاز نہیں ہے، سب کو برابر دیکھا جاتا ہے۔