بابری مسجد فیصلہ: جشن منانے، اشتعال انگیز ٹویٹس پر درجنوں گرفتار

عدالتی فیصلے کے بعد ہفتے اور اتوار کو مجموعی طور پر امن رہا، تاہم 12 مختلف واقعات میں 37 افراد کو حراست میں لیا گیا: پولیس۔

(اے ایف پی)

بھارتی سپریم کورٹ کے بابری مسجد کے تنازعے پر فیصلے کے بعد پولیس نے سوشل میڈیا پر اشتعال انگیز پوسٹس شیئر کرنے اور رام مندر کی تعمیر کے جشن میں آتش بازی کرنے والے درجنوں افراد کو گرفتار کر لیا۔

بھارتی سپریم کورٹ نے ہفتے کو شمالی ریاست اترپریش کے شہر ایودھیہ میں بابری مسجد اور رام مندر کے طویل عرصے تک چلنے والے آثارِ قدیمہ کے تنازعےکا فیصلہ سناتے ہوئے متنازع زمین مرکزی حکومت کے حوالے کرکے وہاں مندر کی تعمیر اور مسلمانوں کو ایودھیہ میں متبادل جگہ فراہم کرنے کا حکم دیا تھا۔

برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اتر پردیش پولیس کا کہنا ہے کہ 1992 کے برعکس جب ہندو انتہا پسندوں نے تاریخی بابری مسجد مسمار کر دی تھی اور جس کے بعد ملک گیر فسادات میں دو ہزار سے زیادہ افراد، جن میں زیادہ تعداد مسلمانوں کی تھی، ہلاک ہو گئے تھے، اس بار فسادات یا پرُ تشدد واقعات رونما نہیں ہوئے۔

یوپی پولیس کا کہنا ہے کہ عدالتی فیصلے کے بعد ہفتے اور اتوار کا دن مجموعی طور پرُ امن رہا، تاہم 12 مختلف واقعات میں 37 افراد کو حراست میں لیا گیا ۔

ریاستی دارالحکومت لکھنؤ میں کم از کم ایک شخص کو سوشل میڈیا پر نامناسب بیان، جس میں دھمکی آمیز زبان استعمال کی گئی تھی، کے لیے گرفتار کیا گیا ۔ 

ایس ایس پی لکھنؤ کلاندھی نیتھانی کے مطابق: ’پولیس عوام سے اپیل کر رہی ہے کہ وہ سوشل میڈیا کے غلط استعمال سے باز رہے۔‘

ریاست کے ایک اور مقام سے کم از کم سات مزید افراد کو آتش بازی اور جشن میں مٹھائی تقسیم کرنے کے دوران خلل پیدا کرنے پر گرفتار کیا گیا۔ وزارتِ داخلہ نے فوری طور پر گرفتار افراد کی شناخت ظاہر کرنے سے انکار کیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ہفتے کو سپریم کورٹ کے فیصلے سے قبل ہی ریاستی حکومت نے ایودھیہ اور دیگر حساس مقامات پر ہزاروں سکیورٹی اہلکار تعینات کر دیے تھے۔

ہندو قوم پرست گروہوں کو ہدایات دی گئی ہیں کہ وہ عدالت عظمیٰ کے فیصلے پر کھلے عام جشن منانے سے گریز کریں۔

عدالتی فیصلے سے متنازع زمین پر ہندو مندر کی تعمیر کی راہ ہموار ہوگئی۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی حکمران ہندوقوم پرست جماعت طویل عرصے سے رام مندر کی تعمیر کی حمایت کر رہی ہے۔

ہندوؤں کا خیال ہے کہ یہ جگہ ہندو دیوتا رام کے جسمانی اوتار وشنو کی جائے پیدائش ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ مسلمان مغل حکمرانوں نے 1528 میں ہندوؤں کے اس مقدس ترین مقام کو ڈھا کر اس پر بابری مسجد تعمیر کی تھی۔

بھارتی سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں 1992 میں مسجد کے انہدام کو غیر قانونی قرار دیا تھا ،تاہم مسمار مسجد کی پوری زمین (2.77 ایکڑ) ایک ہندو گروہ کے حوالے کر دی اور ایودھیہ میں پانچ ایکڑ اراضی کا ایک متبادل پلاٹ مسلم گروہ کو فراہم کرنے کا حکم دیا۔

کچھ  قانونی ماہرین اور مسلم رہنماؤں نے اس فیصلے کو غیر منصفانہ قرار دیاہے ،خاص طور پر جب عدالت نے خود مسجد کے 1992 میں ہونے والے انہدام کو غیر قانونی قرار دیا ہو۔

مسلم وومن فورم کی صدر سیدہ حمیدہ نے ہندوستان ٹائمز میں مسجد کی مسماری کا ذکر کرتے ہوئے لکھا: ’ 2.77 ایکڑ اراضی کو ان عناصر کو کیوں تحفہ میں دیا گیا ،جو اس انہدام کے حامی تھے؟‘ مسلم رہنماؤں نے ہندوؤں اور مسلمانوں کے مابین امن کی ضرورت پر زور دیا ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ کچھ لوگوں نے خود کو اس فیصلے سے لاتعلق کر لیا ہے۔ ایودھیہ میں کمیونٹی رہنما محمد اعظم قادری نے کہا: ’میں اس فیصلے سے مایوس ہوں اور اسے اللہ پر چھوڑ دیا ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا