یہ عشرہ تو صرف مصباح کا تھا

انڈپینڈنٹ اردو کی سیریز ’دہائی کے دس‘ میں آج ہم گذشتہ دہائی کے دوران پاکستان کرکٹ میں پیش آنے والے اہم واقعات کا جائزہ لے رہے ہیں۔

مصباح کی کپتانی میں ہی پاکستان ٹیسٹ کی عالمی رینکنگ میں پہلے نمبر آئی (اے ایف پی)

(انڈپینڈنٹ اردو کی خصوصی سیریز جس میں 2010 سے لے کر 2019 تک کے دس سالوں کا مختلف پہلوؤں سے جائزہ لیا جا رہا ہے۔ اس سلسلے کی مزید کڑیاں نیچے ’مزید پڑھیے‘ پر کلک کر کے ملاحظہ کی جا سکتی ہیں)


پاکستان میں سیاست اور کرکٹ ایسی چیزیں ہیں جن میں آئے روز کچھ نہ کچھ ضرور ہوتا رہتا ہے۔ کبھی کوئی کرپشن کرتے پکڑا جاتا ہے تو کبھی نو بال کرواتے۔ کسی کے پارلیمان میں آنے پر پابندی لگ جاتی ہے تو کسی کے میدان میں آنے پر۔

سیاست اور کرکٹ میں ہی تجزیہ کار بھی ہیں جو آپ کو کوئی واقعہ بھولنے نہیں دیتے، ہر نئے واقعے کے ساتھ ’بیک گراؤنڈر‘ ضرور ڈال دیتے ہیں تاکہ لوگوں کو یاد رہے۔

تو آئیے ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ گذشتہ دس سالوں کے دوران پاکستانی کرکٹ میں کیا کچھ ہوا اور پاکستان کرکٹ کو کس نے گھاؤ لگائے اور کون مسیحا بنا۔

10- ’بلا تھا پر وہ کچھ نہیں کر سکا‘

پاکستان ہمیشہ سے ہی فاسٹ بولر پیدا کرتا آیا ہے۔ وسیم اکرم، وقار یونس، خود پاکستان کے وزیراعظم عمران خان اور شعیب اختر وہ بولر ہیں جن کو کھیلنے سے پہلے بلے باز ایک بار اپنے بارے میں ضرور سوچتے تھے۔

گذشتہ دہائی میں ایسے ہی ایک فاسٹ بولر وہاب ریاض آئے جنہیں ان کے ایک سپیل کی وجہ سے شاید کبھی نہیں بھولا جا سکتا۔

انہوں نے یہ سپیل کرکٹ ورلڈ کپ 2015 کے کوارٹر فائنل میں آسٹریلیا کے شین واٹسن کے خلاف اس وقت کرایا جب وہ اپنے ہی ملک میں کھیل رہے تھے۔

وہاب ریاض نے پہلے ڈیوڈ وارنر اور پھر مائیکل کلارک کو ٹریپ کیا۔ پھر جب شین واٹسن آئے تو ان کے ذہن میں وہ جملے تھے جو واٹسن فیلڈنگ کے دوران وہاب ریاض پر کس رہے تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

150 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے وہاب نے شاٹ پچ گیند بازی شروع کی تو اس وقت واٹسن کے چہرے پر خوف صاف دکھائی دے رہا تھا۔

یہ سپیل پاکستان کے لیے مزید یادگار ہو سکتا تھا اگر راحت علی ان کی گیند پر واٹسن کا کیچ ڈراپ نہ کر دیتے۔

میچ کے بعد واٹسن کی جانب سے کسے جملوں پر وہاب نے کہا تھا کہ جب وہ بولنگ کروانے آئے تو واٹسن کے پاس بھی بلا تھا ’لیکن وہ کچھ کر نہیں پا رہے تھے۔‘

9- ایک بڑے کھلاڑی کا کیریئر ختم ہوا

دنیا بھر میں جب تحمل مزاجی اور گیند کو دیکھ کر کھیلنے والی کرکٹ ہو رہی تھی، ایسے دور میں پاکستان کا ایک ایسا کرکٹر آیا جس نے ہارڈ ہٹنگ کے صحیح معنی بتائے۔

کینیا کے خلاف 1996 میں اپنے کیریئر کا آغاز کرنے والے شاہد آفریدی کا ون ڈے کیریئر بھی اسی دہائی کے دوران 2015 میں اختتام پذیر ہوا۔

تیز ترین سنچری سے اپنا کیریئر شروع کرنے والے بوم بوم آفریدی نے کئی یادگار اننگز کھیلیں اور انہوں نے کئی ایسے میچ بھی جتوائے جو صرف وہی جتوا سکتے تھے۔

لیکن اگر صرف اسی دہائی میں ان کی کارکردگی کو دیکھا جائے تو 2014 میں بھارت کے خلاف بنگلہ دیش میں ایشیا کپ کے ایک میچ میں جو چھکا آفریدی نے ایشون کی گیند پر لگایا وہ شاید ہی کسی کو بھولا ہو۔

پاکستان کو آخری اوور میں جیت کے لیے 10 رنز درکار تھے۔ اسی اوور میں ایک وکٹ گری اور پھر جنید خان کے ایک رن نے آفریدی کو موقع دیا کہ وہ بازی پلٹ دیں اور ایشون کو لگاتار دو چھکے لگا کر انھوں نے واقعی بازی پلٹ دی۔

اس کے علاوہ پاکستان نے آفریدی کی کپتانی میں ایک طویل عرصے بعد ورلڈ کپ کے سیمی فائنل تک رسائی حاصل کی تھی، جہاں اسے بھارت کے ہاتھوں شکست ہوئی۔

اسی طرح 2011 کے ورلڈ کپ میں آفریدی سب سے زیادہ وکٹیں لینے والے بولر بھی رہے۔

8- ویسٹ انڈیز کو ویسٹ انڈیز میں شکست

ویسٹ انڈیز کی ٹیم حالیہ برسوں میں کافی اتار چڑھاؤ کا شکار ہوتی رہی لیکن اس کے باوجود وہ اپنے میدانوں پر ہمیشہ ایک مشکل ٹیم ثابت ہوئی ہے۔

2017 میں پاکستان نے ویسٹ انڈیز کی سرزمین پر مصباح الحق کی قیادت میں قدم رکھا۔ مصباح اور یونس خان اس سیریز سے قبل کہہ چکے تھے کہ وہ سیریز کے اختتام پر کرکٹ سے ریٹائر ہو جائیں گے۔

پاکستان ماضی میں کئی بار ویسٹ انڈیز کو اسی کے میدانوں پر شکست دینے کی بھرپور کوششیں کر چکا تھا، لیکن شاید یہ سہرا بھی مصباح ہی کے سر جانا تھا۔

سیریز ایک، ایک سے برابر کرنے کے بعد پاکستان نے آخری ٹیسٹ میچ میں سنسنی خیز مقابلے کے بعد ویسٹ انڈیز کو شکست دی جو پاکستان کی ویسٹ انڈیز کے خلاف ویسٹ انڈیز میں پہلی ٹیسٹ سیریز تھی جو وہ جیتا۔

اس فتح میں یاسر شاہ نے اہم کردار ادا کیا اور سیریز میں کل 25 وکٹیں حاصل کیں۔

7-جیت اور پش اپس

پاکستان کرکٹ ٹیم کے اس دہائی کے دوران بڑے کارناموں میں سے ایک انگلینڈ کے خلاف اسی کے میدانوں پر ٹیسٹ سیریز برابر کرنا بھی ہے۔

پاکستانی نے 2016 میں انگلینڈ کے خلاف لارڈز اور اوول کے ٹیسٹ میچ جیت کر سیریز دو، دو سے برابر کرتے ہوئے اس وقت ٹیم پر تنقید کرنے والوں کو لاجواب کر دیا تھا۔

سیریز کے دوران لارڈز میں کھیلے گئے ٹیسٹ میچ میں پاکستانی کھلاڑیوں نے میزبان ٹیم کو شکست دینے کے بعد میدان پر دس پش اپس لگائے جو کئی دنوں تک ٹرینڈ بنا رہا اور ساتھ میں مصباح کا سنچری سکور کرنے کے بعد سیلوٹ کرنا کون بھول سکتا ہے۔

6- مکمل صفایا

متحدہ عرب امارات کے میدان اس پوری دہائی کے آخر تک پاکستان کے لیے ہوم گراؤنڈ رہے۔ 2009 میں دہشت گردوں کے سری لنکن ٹیم پر حملے کے بعد سے پاکستان کو اپنی ہوم سیریز متحدہ عرب امارات میں ہی کھیلنا پڑی ہیں۔

مگر یہ میدان پاکستان کا مضبوط قلعہ بھی ثابت ہوئے۔ انہی میدانوں پر پاکستان نے انگلینڈ کو ٹیسٹ سیریز میں تاریخی شکست دی اور اس کے بعد آسٹریلیا کو بھی۔

ویسے تو پاکستان نے یہاں کئی سیریز جیتی ہیں لیکن انگلینڈ کے خلاف 2012 کی سیریز سپیشل تھی۔ پاکستان نے مہمان ٹیم کو اس سیریز کا ایک بھی میچ نہ جیتنے دیا۔

یہ پاکستان کا انگلینڈ کے خلاف پہلا کلین سوئپ تھا اور آخری ٹیسٹ میچ میں پاکستان 1907 کے بعد وہ پہلی ٹیم بھی بنی جس نے 100 سے کم رنز پر آؤٹ ہونے کے بعد بھی میچ میں فتح حاصل کی۔

یہی نہیں 15-2014 میں متحدہ عرب امارات میں ہی کھیلی جانے والی دو ٹیسٹ میچوں کی سیریز میں بھی پاکستان نے آسٹریلیا کو 0-2 سے شکست دے کر سیریز اپنے نام کی تھی۔

5- مصباح کا عروج

سپاٹ فکسنگ نہ صرف پاکستان بلکہ دنیائے کرکٹ کے لیے بہت بڑا واقعہ تھا۔ ایسے میں ایک کھلاڑی کو، جو مسلسل نظرانداز کیے جانے پر ریٹائرمنٹ کے بارے میں سوچ رہا تھا، اچانک نہ صرف ٹیسٹ ٹیم میں شامل کیا گیا بلکہ ٹیم کی کمان بھی سونپ دی گئی۔

وہ کھلاڑی مصباح الحق تھے جو بعد میں پاکستان کے سب سے کامیاب ٹیسٹ کپتان بنے اور بہت سے ریکارڈ اپنے نام کیے۔

مصباح کے ریکارڈز کی فہرست بہت طویل ہے۔ جب پاکستان کرکٹ زوال کی طرف جا رہی تھی اس وقت مصباح نے کچھ ایسا جادو دکھایا کہ اس گرتی ہوئی ٹیم کو اتنا قابل بنا دیا کہ وہ ایک مرتبہ پھر سے دنیائے کرکٹ پر راج کر سکے۔

ان کی کپتانی میں پاکستان نے کسی بھی دوسرے کپتان سے زیادہ میچ کھیلے اور جیتے بھی۔ وہ ٹیسٹ اور ون ڈے کرکٹ میں پاکستان کے کپتان رہے لیکن ان کی انفرادی کارکردگی بھی دیگر کھلاڑیوں کے لیے ایک مثال تھی۔

مصباح سال 2013 میں محمد حفیظ اور وراٹ کوہلی کو پیچھے چھوڑتے ہوئے ون ڈے کرکٹ میں ایک سال میں سب زیادہ رنز بنانے والے کھلاڑی بنے۔ ایک ہی سال میں سب سے زیادہ نصف سنچریوں کا ریکارڈ بنایا اور ٹیسٹ کرکٹ کی تیز ترین سنچری کا دوسرا ریکارڈ بھی بنایا۔

مصباح کی کپتانی میں پاکستان نے جنوبی افریقہ کو جنوبی افریقہ میں ون ڈے سیریز ہرائی، یہ وہ کارنامہ تھا جو اس سے پہلے کسی ایشیائی ٹیم نے حاصل نہیں کیا تھا۔ 

مصباح پاکستانی کپتانوں میں سب سے زیادہ رنز اور سنچریاں سکور کرنے والے کپتان بھی ہیں۔ ان کی کپتانی میں پاکستان 1988 کے بعد پہلی مرتبہ ٹیسٹ رینکنگ میں پہلے نمبر پر آیا۔

2015 میں محدود اوورز کی کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کے بعد مصباح کچھ عرصہ ٹیسٹ کرکٹ کھیلتے رہے لیکن 2017 میں انھوں نے آخرکار پاکستان کرکٹ کو دوبارہ سے اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے بعد ٹیسٹ کرکٹ کو بھی خیرباد کہہ دیا۔

مصباح کو آئی سی سی نے سپرٹ آف دی کرکٹ ایوارڈ کے لیے منتخب کیا۔ وہ یہ اعزاز حاصل کرنے والے پہلے پاکستانی کرکٹر ہیں۔ دہائی کے آخر میں مصباح کو وہی ذمہ داری سونپی گئی ہے جو انہیں آغاز میں دی گئی تھی۔

4- کرکٹ بھی واپس آ گئی

گیارہ سال تک بین الاقوامی کرکٹ پاکستان کے میدانوں سے دور رہنے کے بعد بالآخر مکمل طور پر پاکستان واپس آ ہی گئی۔

2009 میں دہشت گردوں کے سری لنکن ٹیم کی بس پر حملے کے بعد سے پاکستانی شائقین کرکٹ اپنے سٹارز کو ہوم گراؤنڈ پرکھیلتا دیکھنے سے محروم رہے۔

تاہم پھر آہستہ آہستہ کرکٹ واپس آنے لگی۔ اس دوران پہلے تو پاکستان میں ٹی ٹوئنٹی میچز کا انعقاد کیا گیا، بعد میں ایک روزہ میچ بھی کروائے گئے۔

لیکن اب دہائی کے آخر میں وہی سری لنکن ٹیم نے پاکستان میں ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے کے لیے حامی بھری اور ان دنوں پاکستان اور سری لنکا کے درمیان ٹیسٹ سیریز راولپنڈی اور کراچی میں کھیلی جا رہی ہے۔

3- پاکستان سپر لیگ

جب دنیا بھر میں ٹی ٹوئنٹی لیگز ہو رہی تھیں، پاکستانی کھلاڑی کوئی لیگ کھیلتے تو کسی میں انھیں شامل ہی نہ کیا جا رہا تھا۔

ایسے میں پاکستان سپر لیگ نہ صرف کھلاڑیوں بلکہ پاکستانی فینز کے لیے بھی تازہ ہوا کے جھونکے کی طرح ثابت ہوئی۔ گو اس لیگ کا آغاز متحدہ عرب امارات میں ہوا لیکن پاکستانی اسے اپنا مان کر کافی پرجوش تھے۔

فروری 2016 میں پاکستان سپر لیگ کا پہلا ایڈیشن کھیلا گیا جس میں پانچ ٹیمیں شریک تھیں ان ٹیموں میں کراچی کنگز، لاہور قلندرز، اسلام آباد یونائیٹڈ، پشاور زلمی اور کوئٹہ گلیڈی ایٹرز شامل تھیں۔

بعد میں ان پانچ ٹیموں میں ایک اور ٹیم ملتان سلطانز کا اضافہ کر دیا گیا۔

آغاز میں اس لیگ کے تمام میچ متحدہ عرب امارات میں کھیلے جاتے رہے لیکن بعد میں ایک ایک کر کے میچز کو لاہور اور کراچی لایا گیا اور اس مرتبہ کہا جا رہا ہے کہ پاکستان سپر لیگ کے تمام میچ پاکستان میں کھیلے جائیں گے۔

پاکستان سپر لیگ کا پہلا ایڈیشن اسلام آباد یونائیٹڈ نے جیتا تھا، جس کے کپتان بھی مصباح ہی تھے۔

2- سپاٹ فکسنگ

گذشتہ دہائی کے آغاز میں ہی پاکستان کو ایسا دھچکا پہنچا جس سے وہ کئی سالوں تک باہر نہ نکل سکا۔ ایک تو پاکستان میں کرکٹ بند ہو چکی تھی اوپر سے یہ واقعہ پیش آ گیا جس نے سب کو ہلا کر رکھ دیا۔ 

ہوا کچھ یوں کہ 2010 میں پاکستان کی ٹیسٹ ٹیم انگلینڈ کے دورے پر تھی جہاں لارڈز کے تاریخی میدان پر کھیلے جانے والے ٹیسٹ میچ میں محمد آصف اور محمد عامر کپتان سلمان بٹ کے ہمراہ سپاٹ فکسنگ میں ملوث پائے گئے۔

خبر کچھ یوں شائع ہوئی تھی کہ بک میکر سے وصول کی گئی رقم کے عوض ان بولرز نے نو بال کرانی تھی جس کا علم کپتان سلمان بٹ کو بھی تھا اور انہوں نے ایسا کیا بھی۔

آئی سی سی نے تینوں کھلاڑیوں کو نہ صرف معطل کر دیا بلکہ آئی سی سی کے انسدادِ بدعنوانی ٹربیونل نے فروری 2011 میں تینوں پر پانچ سالہ پابندی عائد کر دی، جن میں سلمان بٹ کے پانچ اور محمد آصف کی دو سال معطلی شامل تھی۔

لندن کی عدالت میں ان کھلاڑیوں کے خلاف مقدمہ چلایا گیا جس کے بعد سلمان کو ڈھائی سال، آصف ایک سال اور عامر کو چھ ماہ قید کی سزا سنائی گئی جبکہ اس سکینڈل میں ملوث ان کے ایجنٹ مظہر مجید کو دو سال آٹھ ماہ قید کی سزا سنائی گئی۔

1- چیمپیئن

اس دہائی کا سب سے بڑا کارنامہ جو پاکستان نے سرانجام دیا وہ آئی سی سی چیمپیئنز ٹرافی کے فائنل میں جیت تھی۔

جیت تو جیت ہی ہوتی ہے لیکن اگر فائنل میں مدمقابل بھارت جیسی ٹیم ہو تو اس جیت کے معنی بدل جاتے ہیں۔

پاکستان کے لیے یہ جیت کئی طرح سے بڑی جیت تھی۔ بھارت کو فائنل میں شکست دینا، ایک طویل عرصے کے بعد عامر کا ویسا دکھائی دینا جیسا وہ کبھی ہوا کرتے تھے اور پھر نوجوان کھلاڑیوں کا نہ صرف ذمہ داری اٹھانا بلکہ اسے عمدہ انداز میں نبھانا۔

آئی سی سی چیمپیئنز ٹرافی میں پاکستان گرتے گرتے ایسا اٹھا کہ پھر کسی سے نہ رک پایا۔ انگلینڈ، سری لنکا اور جنوبی افریقہ کو شکست دے کر فائنل میں پہنچنے والی پاکستانی ٹیم نے پھر پیچھے مڑ کر نہ دیکھا۔

جب پاکستان فخر زمان کی عمدہ سنچری کی بدولت ایک بڑا ٹوٹل سکور بورڈ پر لگا چکا تو باری تھی بولرز کی کہ وہ بھارت کی بیٹنگ لائن اپ جو کسی بھی ہدف کو حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتی تھی، کو روکیں۔

پھر ان بولرز نے بھی کیا خوب روکا۔ اس ایک فائنل میں عامرعروج پر دکھائی دیے لیکن اس کے بعد پھر صرف زوال ہی زوال۔ انہوں نے پہلے روہت شرما، پھر کوہلی اور شیکھر دھون کو پویلین کی راہ دکھائی۔ ساتھ میں نوجوان بولر شاداب خان اور حسن علی نے باقی بھارتی بیٹنگ لائن کو سنبھال لیا۔

زیادہ پڑھی جانے والی کرکٹ