آرمی چیف کی مدت ملازمت کا بل پیش: کون کون مخالفت کر رہا ہے؟

حکومت نے اپوزیشن کی مخالفت پر بل قومی اسمبلی اور سینیٹ کی دفاعی امور پر قائمہ کمیٹیوں کو بھیج دیے، بعد ازاں کمیٹیوں کے مشترکہ اجلاس میں ترامیم منظور کر لی گئیں۔

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے جمعے کو پاکستان فوج کے سربراہ کی مدت ملازمت میں توسیع ممکن بنانے کے لیے آرمی ایکٹ میں ترمیم کا بل قومی اسمبلی میں پیش کر دیا۔

آج سپیکر اسد قیصر کی صدارت میں قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا، جس میں وفاقی وزیر دفاع پرویز خٹک نے پاکستان آرمی (ترمیمی) ایکٹ 2020 بل کی شکل میں پیش کیا۔

انہوں نے پاکستان نیوی اور پاکستان ایئر فورس سے متعلق قوانین میں بھی ترمیمی بل پیش کیے۔

ترمیمی مسودوں میں تینوں افواج (بری، بحری اور فضائیہ) کے سربراہوں اور چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف کمیٹی کی ریٹائرمنٹ کی عمریں 64 سال کرنے اور وزیر اعظم کو ان سب کی مدت ملازمت میں توسیع کا اختیار دینے کی سفارشات شامل ہیں۔

حکومت نے کوشش کی کہ تینوں بل آج ہی منظور کر لیے جائیں اور انہیں آج ہی سینیٹ کے سامنے پیش کر دیا جائے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 تاہم حزب اختلاف کی مخالفت پر مسودوں کو قومی اسمبلی اور سینیٹ کی دفاعی امور پر قائمہ کمیٹیوں کو بھیجتے ہوئے قومی اسمبلی کا اجلاس کل (ہفتے) کو صبح 11 بجے تک ملتوی کر دیا گیا۔

بعد ازاں سینیٹ اور قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹیوں کے مشترکہ اجلاس میں ترامیم منظور کر لی گئیں، لیکن مسلم لیگ ن نے کمیٹیوں سے بل کی منظوری کے طریقہ کار پر تحفظات کا اظہار کیا۔

حزب اختلاف کی تمام بڑی جماعتوں نے آرمی ایکٹ میں ترمیم کی حمایت کا اعلان کر رکھا ہے اور امید ہے کہ کل کے اجلاس میں بل بغیر کسی دشواری کے منظور کر لیا جائے گا۔

تاہم جمیعت علمائے اسلام (ف) اور پختونخوا تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) نے بل کی مخالفت کا عندیہ دیا ہے۔ اس کے علاوہ پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی اور حاصل بزنجو کی قومی اسمبلی میں چار نشستیں رکھنے والی بلوچستان نیشنل پارٹی نے بل کی مخالفت کا اعلان کیا ہے۔

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ تمام اپوزیشن جماعتیں موجودہ اسمبلی کو مسترد کرتے ہوئے نئے الیکشن کا مطالبہ کر چکی ہیں لہٰذا جے یو آئی (ف) اس بل کی بھرپور مزاحمت کرتے ہوئے ’جعلـی‘ اسمبلی کو ایسا قانون پاس کرنے کا حق نہیں دے سکتی۔

قومی اسمبلی کے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرپرسن بلاول بھٹو زرداری نے کہا چونکہ آرمی ایکٹ میں ترمیم پارلینٹ کے ذریعے کی جارہی ہے اور قائمہ کمیٹیوں میں اس پر گفتگو ہو گی، لہٰذا ان کی جماعت اس کی حمایت کرے گی۔

بلاول نے کہا ان کی جماعت کا نقطہ نظر ہے کہ ہر آئینی اور قانونی ترمیم آئین میں دیے ہوئے طریقہ کار کے مطابق ہو۔

گذشتہ روز وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کے ہنگامی اجلاس میں آرمی ایکٹ میں ترامیم کی منظوری دی گئی تھی۔

وفاقی کابینہ نے سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں آرمی ایکٹ ترمیمی بل 2020 کی منظوری دی جس میں آرمی چیف کی مدت ملازمت اور توسیع کا طریقہ کار وضع کیا گیا ہے۔

ترمیمی بل میں ہے کیا؟

آرمی ایکٹ ترمیمی بل میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا گیا ہے، جسے آرمی چیف اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کی تعیناتی کا نام دیا گیا ہے۔

بل میں آرمی چیف کی تعیناتی کی مدت تین سال مقرر کی گئی ہے جب کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت پوری ہونے پر انہیں تین سال کی توسیع دی جا سکے گی۔

ترمیمی بل کے مطابق وزیر اعظم کی ایڈوائس پر قومی مفاد اور ہنگامی صورتحال کا تعین کیا جائے گا اور آرمی چیف کی از سر نو تعیناتی یا توسیع وزیراعظم کی مشاورت پر صدر مملکت کریں گے۔

ترمیمی بل کے تحت آرمی چیف کی تعیناتی، دوبارہ تعیناتی یا توسیع عدالت میں چیلنج نہیں کی جا سکے گی اور نہ ہی ریٹائر ہونے کی عمر کا اطلاق آرمی چیف پر ہوگا۔

علاوہ ازیں ترمیمی بل کے مطابق پاک فوج، ائیر فورس یا نیوی سے تین سال کے لیے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کا تعین کیا جائے گا جن کی تعیناتی وزیراعظم کی مشاورت پر صدر کریں گے۔

ترمیمی بل کے مطابق اگر چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی پاک فوج سے ہوا تو بھی اسی قانون کا اطلاق ہو گا، ساتھ ہی چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کو بھی تین سال کی توسیع دی جاسکے گی۔

موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت 28 نومبر 2019 کو مکمل ہورہی تھی۔ اور وفاقی حکومت نے 19 اگست کو جاری نوٹیفکیشن کے ذریعے انہیں تین سال کی نئی مدت کے لیے آرمی چیف مقرر کیا تھا۔ جسے سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا گیا۔

سپریم کورٹ نے گذشتہ سال 28 نومبر کو آرمی چیف کی مدت ملازمت کیس کی سماعت کے دوران آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں 6 ماہ کی مشروط توسیع کرتے ہوئے پارلیمنٹ کو اس حوالے سے قانون سازی کرنے کا حکم دیا تھا۔

کوشش کی کہ تینوں بل آج ہی منظور کر لیے جائیں اور انہیں آج ہی سینیٹ کے سامنے پیش کر دیا جائے۔

 تاہم حذب اختلاف کی مخالفت پر مسودوں کو قومی اسمبلی کا اجلاس کل (ہفتے) کو صبح 11 بجے تک ملتوی کر دیا گیا۔

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست