گذشتہ 24 گھنٹے کے دوران ایران اور امریکہ کے بیانات اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ دنیا کے پہلے سے ہی خطرناک ترین علاقوں میں سے ایک میں کشیدگی عروج پر پہنچ چکی ہے۔
تہران سے ایران کے رہنما آیت اللہ علی خامنہ ای کی ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والی تقریر میں انہوں نے پہلی بار کھلے عام متنبہ کیا کہ ایران گذشتہ ہفتے دمشق میں قونصل خانے کی عمارت پر حملے کی سزا اسرائیل کو دے گا۔
حملے میں ایران کے پاسداران انقلاب کے سینیئر افسروں سمیت 13 افراد کی جان گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’بری حکومت کو سزا ملنی چاہیے اور اسے سزا دی جائے گی۔‘
اس کے بعد واشنگٹن کی جانب سے صدر بائیڈن کا عوامی سطح پر بیان سامنے آیا جو ہو سکتا ہے کہ آیت اللہ کے جواب میں ہو یا نہ ہو، انہوں نے عزم ظاہر کیا کہ ایران کے حملے کی صورت میں اسرائیل کو امریکہ کی ’آہنی‘ حمایت حاصل ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ ’میں پھر کہوں گا ’آہنی۔‘
اگرچہ دونوں بیانات سیدھے سادے نظر آتے ہیں، لیکن دونوں کے معاملے میں صورت حال اس سے کہیں زیادہ سنگین تھی جو دکھائی دی۔
پہلے بیان کو اس بات کی نشاندہی کے طور پر پیش کیا گیا کہ ایران کی انتقامی کارروائی متوقع ہے، لیکن یہ ایرانی رہنما کی پاسداران انقلاب سمیت عوامی غصے کو کم کرنے اور کمزوری یا کوئی فیصلہ نہ کر سکنے کے تاثر کو رد کرنے کی کوشش بھی ہو سکتی ہے۔
بائیڈن کا بیان بھی نہ صرف اسرائیل کی حمایت کا وعدہ تھا بلکہ یقینی طور پر ایران کے لیے ایک انتباہ تھا کہ حملے کی صورت میں اسے نہ صرف اسرائیل بلکہ امریکہ سے بھی مقابلہ کرنا پڑے گا۔
ان کے جاندار الفاظ کا مقصد غزہ میں اسرائیلی کارروائیوں پر ان کی سابقہ تنقید اور فائر بندی کے مطالبے کا حساب برابر کرنا بھی ہو سکتا ہے کیوں کہ ایسا نہ ہو کہ ایران یا اس کے آلہ کار اس نتیجے پر پہنچیں کہ اسرائیل کی سلامتی کے لیے اس امریکی حمایت میں کمی آئی جو ہمیشہ رہی ہے۔
تاہم، اگر کسی کو اس بارے میں الجھن کا سامنا ہے کہ آگے کیا کرنا ہے، تو وہ ایران ہے۔
سات اکتوبر کو اسرائیلیوں پر حماس کے حملوں کے فوری بعد، ایران نے واضح طور پر کہا، جو کوئی بھی ملک کہہ سکتا ہے کہ اس کا صورت حال سے فائدہ اٹھانے یا اس میں مداخلت کرنے کا کوئی ارادہ نہیں۔
یہ اعلان انہی آیت اللہ نے کیا جن کا اب اصرار ہے کہ دمشق میں حملے کی سزا دی جانی چاہیے۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر ایران جواب نہیں دیتا تو ایک جانب اس کی قیادت کی ساکھ متاثر ہو گی تو دوسری طرف اسرائیل کو اس طرح کے مزید حملوں کے لیے کھلی چھوٹ مل جائے گی۔
سات اکتوبر اور یکم اپریل کو شام میں ایرانی قونصل خانے پر حملے کے درمیان، ایران کو اپنے الفاظ کی طرح اچھا دکھائی دینا تھا۔ جنوبی لبنان سے اسرائیل پر حزب اللہ کے حملوں میں کوئی نمایاں اضافہ نہیں ہوا۔
حماس کو اسرائیل کے خلاف غزہ کا دفاع کرنے یا یمن کے حوثیوں کے بحیرہ احمر میں مغربی اور اسرائیلی اتحادی بحری جہازوں پر حملے کرنے میں ایران کی مدد کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔
اسرائیل نے دمشق میں ایران کے قونصل خانے پر حملہ کیا، حالاں کہ اسے سات اکتوبر کے بعد سے اپنی سرحدوں سے باہر اٹھائے گئے دیگر اقدامات کے مقابلے میں ایک اہم کارروائی کے طور پر دیکھا جانا تھا۔
اگرچہ اسرائیل اور ایران دونوں بہت زیادہ خطرے والی کوششوں میں مصروف ہوسکتے ہیں۔ تاہم ، اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان کے پاس وجوہات نہیں۔
ایران مظاہروں کی وجہ سے کمزور ہوا ہے۔ خاص طور پر خواتین کی طرف سے، جو زیادہ حقوق کا مطالبہ کر رہی ہیں۔
قانون ساز اسمبلی کے حالیہ انتخابات جو اب بھی عدم استحکام کا سبب بن سکتے ہیں چاہے حکومت کتنی ہی غیر جمہوری کیوں نہ ہو۔ ان انتخابات سے ایرانی رہنماؤں کے عدم تحفظ کے احساس میں اضافہ ہی ہو گا۔
اگرچہ ووٹروں نے صورت حال کے جوں کا توں رہنے کی حمایت کی لیکن ٹرن آؤٹ 41 فیصد رہا جو 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد سب سے کم ہے۔
ووٹروں نے حکومت پر زیادہ اعتماد کا اظہار نہیں کیا۔ تہران کے لیے جنگ میں الجھنے کا یہ کوئی مناسب وقت نہیں، لیکن وہ کمزوری دکھانے کا متحمل بھی نہیں ہو سکتا۔
جہاں تک اسرائیل کا تعلق ہے تو اس تاثر سے بچنا مشکل ہے کہ اس نے غزہ اور اس کے اردگرد کے علاقوں کے حالات، خواہ اس نے یہ حالات پیدا نہ بھی کیے ہوں لیکن انہیں مزید خراب ضرور کیا، کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس طاقت پر حملہ کیا جسے وہ اپنے لیے سب سے بڑا خطرہ سمجھتا ہے۔ یہ طاقت ایران ہے۔
گذشتہ دو دہائیوں کے دوران اسرائیل کے اپنے دوروں کے دوران میں نے دیکھا کہ ایران، اسرائیل میں تقریباً ہر سطح پر بڑی تشویش ہے، خاص طور پر اعلیٰ ترین عہدے داروں کے لیے۔
حماس ایک خاص طرح کا خطرہ ہے۔ ایک غیر متوقع، اکثر غیر منظم، غیر متوازن خطرہ۔ لیکن یہ ایک ایسی تنظیم ہے جس کے خلاف اسرائیل اپنا دفاع کر سکتا تھا اور ہونا چاہیے تھا۔
اکتوبر کی اس رات کو ایسا نہیں ہوا یا نہیں ہو سکا، یہ خفیہ اداروں اور پھر فوجی تیاری کی بہت بڑی ناکامی تھی۔
لیکن حماس اسرائیل کی بقا کے لیے حقیقی خطرہ بن سکتی تھی اگر مقبوضہ مغربی کنارے میں عام فلسطینی بغاوت شروع ہو جاتی، جسے شاید فلسطینی اتھارٹی کی مدد اور پشت پناہی حاصل ہوتی۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔
ایران ایک اور قسم کا خطرہ ہے۔ ایک ایسا خطرہ جس کے خلاف اسرائیل اب اور بھی زیادہ پرعزم ہے کہ وہ اپنا تحفظ کرے۔
میں نے گذشتہ 20 سال میں اسرائیل کے دوروں میں دیکھا کہ وہاں کے لوگ واقعی ایران پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں۔
یہاں تک کہ اعلیٰ رہنما بھی اس کے بارے میں واقعی فکر مند نظر آتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ کوئی اور علاقائی طاقت ایران کے قریب اس خطرے کے حوالے سے نہیں آ سکتی جو اس سے اسرائیل کو لاحق ہے۔
یہ اس بات پر منحصر ہے کہ آپ کس سے بات کرتے ہیں، ایرانی خطرے کا فکری پہلو، فوجی پہلو یا ایک جغرافیائی سیاسی پہلو ہوسکتا ہے، یا ان سب کو ایک جگہ رکھا جا سکتا ہے۔
لیکن مجھے اکثر ایسا لگتا ہے، شاید یہ غلط ہو، کہ ایرانی صلاحیت یا ایران اپنے مفادات کا کس طرح خیال رکھ سکتا ہے، اس کے بارے میں عقلی جائزے سے آگے بڑھ جایا جائے۔
کچھ طریقوں سے یہ چین کے خطرے سے مماثلت رکھتا ہے جیسا کہ امریکہ میں بہت سے لوگ سمجھتے ہیں۔ خاص طور پر کانگریس کے ارکان۔یا روس کے خطرے سے مماثلت رکھتا ہے جیسا کہ برطانوی اسٹیبلشمنٹ میں بہت سے لوگ سمجھتے ہیں ہیں۔
ان شبہات کی جڑیں بداعتمادی کی تاریخ میں لیکن وہ حقیقت میں دوسرے پہلو کو سمجھنے کی کوشش نہ کرنے اور صرف اس بات سے خوف زدہ ہونے سے بدتر ہو جاتے ہیں کہ کیا ہو سکتا ہے۔
جہاں تک اس بات کی ابتدا کا تعلق ہے تو ایران کے انقلاب کے فوری بعد یا ایران کے اس وقت کے صدر محمود احمدی نژاد کے 2005 کے بدنام زمانہ اس بیان کے تناظر میں اسرائیل کو عسکریت پسند اسلام سے خطرہ ہو سکتا ہے جس میں اسرائیل کو نقشے سے مٹانے کی بات کی گئی۔
اس بیان پر سوالات اٹھائے گئے اور اس کی تردید بھی کی گئی۔ ایران کے بعد میں آنے والے کے رہنما اپنی ریاست کو خلل ڈالنے والی کم اور نام نہاد سٹیٹس کو کی طاقت کے طور پر زیادہ سمجھتے ہیں۔
لیکن دونوں طرف سے مفاہمت جیسی کسی بھی چیز پر کوئی کوشش نہیں کی گئی، معمول کے حالات تو دور کی بات ہے۔
1979-81 کے یرغمالیوں کے بحران کے 40 سال بعد امریکہ، اسرائیل کے سب سے بڑے حامی، اور ایران کے درمیان سفارتی تعلقات کا مسلسل فقدان اس صورت حال میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔
ایران کے جوہری عزائم ایک اور عنصر ہو سکتے ہیں۔ کارروائی اور ردعمل کے معاملے میں دونوں طرف الجھن بھی ہو سکتی ہے۔
اسرائیل جوہری صلاحیت کا مالک ہونے کے حوالے سے جانا جاتا ہے جس کا جواز دشمن ہمسایہ ممالک کی طرف اس کے سلامتی کو لاحق خدشات ہیں لیکن اس نے سرکاری سطح پر اس موضوع پر ابہام برقرار رکھا ہوا ہے اور جوہری عدم پھیلاؤ کے کسی بھی بین الاقوامی نظام سے دور رہتا ہے۔
دوسری جانب ہو سکتا ہے کہ ایران جوہری ہتھیار حاصل کرنے کو اپنے بنیادی مقصد کے طور پر نہ دیکھتا ہو لیکن وہ ممکنہ طور پر ایٹمی پروگرام کو اسرائیل کی جوہری صلاحیتوں کا مقابلہ کرنے کے ایک طریقے کے طور پر دیکھتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تاہم، ایران کی جوہری صلاحیتوں کو فروغ دینے کی کوششوں کو امریکہ اور یورپی یونین نے روک دیا ہے۔
ابتدائی طور پر انہوں نے بین الاقوامی سطح پر ایران کی جوہری سرگرمیوں پر نظر رکھنے کی کوشش کی۔ جب ایران نے مبینہ طور پر شرائط کی خلاف ورزی کی تو امریکہ اور یورپی یونین نے ایران کے جوہری پروگرام کو مکمل طور پر ختم کرنے کی کوشش کی۔
انہوں نے اس مقصد کے لیے میزائل حملوں، تخریب کاری یا ایرانی جوہری سائنس دانوں کو مارنے پر غور کیا۔
ایران کے جوہری پروگرام کے درست یا غلط ہونے اور اس کا اصل مقصد بنیادی طور پر سویلین تھا یا فوجی، اب اس حقیقت کا پردہ فاش کرنا مشکل ہے۔
لیکن اس معاملے میں ایران کی جانب ناانصافی کو اتنا ہی زیادہ محسوس کیا گیا جتنا اسرائیل نے ایران سے خوف محسوس کیا۔
یہ دلیل بھی دی جا سکتی ہے کہ دیرینہ دشمنوں میں سے ہر ایک کے پاس جوہری صلاحیت موجود ہونے کی صورت میں ہو سکتا ہے کہ وہ جنگ کے بارے میں زیادہ محتاط رہیں۔ مثال کے طور پر سرد جنگ کے زمانے میں امریکہ، روس، انڈیا اور پاکستان نے احتیاط سے کام لیا۔
تاہم ہو سکتا ہے کہ اس تحمل کا مظاہرہ اسرائیل اور ایران کے معاملے میں نہ ہو۔ ان کی دشمنی اور شکوک و شبہات بہت گہرے ہوسکتے ہیں۔
ان تمام باتوں نے ایران کی مشکل کو مزید گھمبیر بنا دیا ہے، جب وہ اس بات پر غور کرتا ہے کہ دمشق میں اپنے جرنیلوں پر اسرائیل کے حملے کا جواب کیسے دیا جائے؟
یہ کہنا کہ اس کے راستے محدود ہیں، صورت حال کی اہمیت کم کرنے مترادف ہے۔
بلا شبہ اس کی سیاسی اور عسکری کمزوری زیادہ خطرناک آپریشن کے خلاف دلیل ہے لیکن اسی کمزوری کے باعث اس کے پاس جواب دینے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا۔
دریں اثنا، جیسا کہ صدر بائیڈن کے انتباہ سے ظاہر ہوتا ہے امریکہ کے پاس بھی دیکھنے اور انتظار کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔
© The Independent