افغان پناہ گزینوں نے پاکستانی ثقافت پر کیا اثر ڈالا؟

40 برسوں میں لاکھوں افغان مہاجرین کی آمد سے پاکستان کے پشتون علاقوں کی تہذیب و ثقافت پر گہرے اثرات مرتب ہوئے۔

کابلی پلاؤ اب پاکستان کے ہر شہر میں کھانے کو مل جاتاہے۔ (انڈپینڈنٹ اردو)

(سوویت یونین کی فوجوں نے 27 دسمبر 1979 کو افغانستان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا۔ انڈپینڈنٹ اردو نے اس موقعے پر ایک خصوصی سیریز کا آغاز کیا ہے، جس میں آپ اس تاریخ ساز واقعے کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں تحریریں اور تجزیے پڑھیں گے)


یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ روسی حملے کے نتیجے میں پاکستان ہجرت کرنے والے لاکھوں افغان پناہ گزینوں کی آمد سے پاکستانی علاقوں میں رہنے والے پشتونوں نے ایک دوسرے کی تہذیب و ثقافت پر بہت اثرات مرتب کیے ہیں۔

زیرِ نظر تحریر میں ہم صرف خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے پشتونوں کا ذکر کریں گے کہ ان کے کلچر پر افغانستان کی ثقافت کے کیا اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ اس سلسلے میں مندرجہ ذیل عنوانات کو خاص اہمیت حاصل ہے۔

موسیقی

افغان پناہ گزینوں کی آمد سے پہلے اس پار کے پشتونوں کی موسیقی کا رنگ ڈھنگ کچھ اور طرح کا تھا جس میں اب کافی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔

 پشاور کے نوجوان گلوکار اور پشتو موسیقی میں پی ایچ ڈی سکالر راشد احمد خان خود افغانستان کے استاد شاہ ولی اور استاد سر آہنگ کے مکتب کے شاگرد ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کے دوران بتایا کہ ماضی میں موسیقی کے لیے دہلی اور لاہور زیادہ مشہور تھے، لہٰذا خیبر پختونخوا سے گلوکار اور موسیقار انہی شہروں کا رخ کیا کرتے تھے۔ نتیجتاً یہاں کی لوک موسیقی میں بھی جدت آگئی۔

انہوں نے بتایا: ’جب افغان پناہ گزین پاکستان ہجرت کر کے آئے تو وہ اپنے ساتھ خالص لوک موسیقی لے کر آئے۔ لہٰذا خیبر پختونخوا اور بلوچستان کی پشتو موسیقی میں خراسانی، لوگری، ننگرہاری، پکتیا اور پکتیکا کا ثقافتی رنگ بھر گیا۔ اس کے علاوہ افغان پناہ گزینوں نے یہاں اتنڑ موسیقی کو بھی جنم دیا۔ دوسری جانب فارسی بولنے والے فنکاروں نے قطغنی ساز متعارف کرایا۔ گو کہ ابتدا میں اس کو اتنی پذیرائی حاصل نہیں تھی۔ ‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

راشد خان کا مزید کہنا تھا کہ ’جب پناہ گزین رباب نواز پشاور آئے تو انہوں نے استاد محمد عمر کے رباب بجانے کا انداز یہاں متعارف کروایا۔ اس زمانے میں خیبر پختونخوا میں صوابی کے بٹاکڑہ گاؤں کے مشہور و معروف رباب نواز استاد محمد ضمیر مرزا کے رباب بجانے کا سٹائل عروج پر تھا۔‘

وہ کہتے ہیں: ’افغانوں کی آمد پر وہ انداز دب کر رہ گیا، لہٰذا اب جس طرز کا رباب خیبر پختونخوا میں بجایا جاتا ہے وہ افغانی طرز کا ہے۔‘

راشد خان کے مطابق: ’اگرچہ افغان پناہ گزین اپنے ساتھ متذکرہ ساز اور کچھ آلات موسیقی جیسے کہ زیر بغلی اور دنبورہ وغیرہ لے کر آئے لیکن ساتھ ہی خیبر پختونخوا کے کچھ نادر ساز ہمیشہ کے لیے کھو گئے۔ ان میں ساخنی، سسی اور انگریزوں کا متعارف کردہ ساز ٹویسٹ شامل تھا۔ یہاں یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ کوئٹہ میں جب تک افغان مہاجرین نہیں آئے تھے تو وہ صرف اپنی کلچرل موسیقی جیسے کہ کاکڑی میوزک وغیرہ بجایا کرتے تھے۔ موسیقی میں وہ زیادہ تر پشاور کی پیروی کرتے تھے، لیکن افغانیوں کے آنے کے بعد ان کی موسیقی کی شکل ہی بدل گئی اور اب وہ زیادہ تر لوگر کے انداز کو اپنائے ہوئے نظر آتے ہیں۔‘

رقص

افغان پناہ گزینوں کی آمد پر اتنڑ رقص کو اس پار کے پشتونوں میں فروغ ملا اور اتنڑ کی مختلف اقسام سامنے آ گئیں، جن میں کوچے، زدرن، زازے، مِلی، امئی، وردگ، بڑیچ اور کاکڑے اتنڑ شامل ہیں۔ ان قبیلوں کی مزید کئی کئی شاخیں ہیں اور شاخ کا اتنڑ ایک جداگانہ حیثیت رکھتا ہے۔

جیسے کہ کوچی قبیلے میں نو شاخیں ہیں۔ جن میں توخے، خروٹے، سلیمان خیل، اکاخیل، ہوتک، اندنڑ، ناصر، تنڑے اور ترکے شامل ہے۔ ان سب کا اتنڑ ایک دوسرے سے مختلف ہے۔

دہائیوں تک ایک ساتھ رہنے کے بعد بالآخر خیبر پختونخوا کے ان علاقوں میں بھی اتنڑ کو پذیرائی حاصل ہو گئی ہے جہاں روایتی طور پر رقص کو قبولیت حاصل نہیں تھی اور اب چاہے شادی بیاہ کا موقع ہو، تعلیمی درس گاہوں کی تقریبات ہوں یا دوسرے خوشی کے مواقع ہوں، نوجوان لڑکے لڑکیاں اتنڑ کے خصوصی ساز کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر رقص کرتے ہیں۔

تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ سب لوگ اس رقص کے ماہر ہو گئے ہیں۔ سلیمان خیل قبیلے میں گل کچ کے رہائشی آدم خان کا کہنا ہے کہ ’اتنڑ کا جو معیار اور مہارت قبائلی لباس میں دیکھنے کو ملتا تھا، وہ اب نہیں رہا۔ خیبر پختونخوا کے بیشتر نوجوان جو اتنڑ رقص کرتے ہیں وہ سب سے کمزور اور غیر معیاری قسم ہے، کیونکہ نہ تو ان نوجوانوں کو اتنڑ کی تھاپ کا علم ہوتا ہے اور نہ ہی وہ نفاست کے ساتھ قدم سے قدم ملاتے ہیں۔‘

زیورات

 افغان جیولری اور کوچی لباس آج کل پاکستانی خواتین خاص طور پر پشتون خواتین میں کافی پسند کیا جا رہا ہے، جس کو خریدنے کے لیے وہ افغانی دکانوں کا رخ کر رہی ہیں۔ پشاور کا اندرون شہر بھی اس حوالے سے کافی مشہور ہے، جہاں پر قدیم اور جدید افغان جیولری کا کاروبار کرنے والے ایک مہاجر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انہیں پشاور میں یہ کاروبار کرتے ہوئے 40 سال کا عرصہ ہو گیا ہے، لیکن پچھلی ایک دہائی سے اس کی مانگ میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ خیبر پختونخوا کے علاوہ بیرون ملک جیسے یورپ، کینیڈا اور امریکہ میں بھی پشاور سے یہ جیولری برآمد کی جاتی ہے۔

انہوں نے مزید بتایا: ’40 سال پہلے اندرون شہر میں زیادہ دکانیں نہیں تھیں۔ یہاں پر رونق افغان مہاجرین نے ہی لگائی۔ ہم نے یہاں پر افغان جیولری میں ماتھا پٹی، جھومر، باہو، بازو بند، چوکر اور کٹ مالہ متعارف کروایا، جن کے ڈیزائنوں کی مقامی سناروں نے سونے میں بھی نقل کی۔ ‘

افغانستان چونکہ متنوع ثقافتوں کا مرکز رہا ہے لہٰذا ان کی جیولری میں مختلف ادوار، حکمرانوں اور ثقافتوں کا رنگ شامل ہے۔ اس خطے سے متعلق لکھی گئی کتابوں میں انڈو بیکٹرین اور گریکو بیکٹرین جیولری کا ذکر ہوا ہے، جس سے افغانستان کی جیولری کے بارے میں مفصل بیان اور معلومات ملتی ہیں۔ افغانستان کے میوزیم میں قدیم جیولری اب بھی محفوظ ہے۔

پشتون خراسان اور موجودہ افغانستان سے جہاں جہاں گئے، اپنی جیولری اور فن بھی ساتھ لے گئے۔ یہ لوگ زیورات میں قیمتی پتھروں کا استعمال بھی کرتے تھے کیونکہ یاقوت، مرجان اور فیروزہ افغانستان سے ہی درآمد ہوتا تھا جب کہ ہیرے ہندوستانی ریاست گولکنڈہ سے درآمد ہوتے تھے۔

اس کے علاوہ حکمران وقت کے سکوں کے ہار، کنگن وغیرہ کا استعمال بھی پشتون کاریگروں نے کیا جو آج بھی اسی قدر مقبول ہے جتنا کہ ماضی میں۔

لباس

افغان پناہ گزینوں کی آمد سے ان کی روایتی لباس کو بھی شہرت ملی۔ اگرچہ ابتدا میں اس لباس کو صرف افغانوں یا کوچیوں کا لباس کہہ کر نظر انداز کر دیا جاتا تھا لیکن جب افغانی پوشاک کو بین الاقوامی سطح پر افغان طالب علموں نے بڑے فخر اور اعتماد کے ساتھ تقریبات میں پیش کیا۔ اس کے بعد سے نہ صرف پاکستانی نوجوان نسل میں اس حوالے سے پسندیدگی بڑھتی گئی بلکہ غیر ملکیوں نے بھی اس میں دلچسپی لینی شروع کی۔ بلکہ اب تو خیبر پختونخوا کے دیہاتی علاقوں میں بھی شادی بیاہ کے موقعوں پر اکثر خواتین افغان ملبوسات اور جیولری پہننے میں فخر محسوس کرتی ہیں۔

پشتونوں کی گوٹے دار واسکٹ اور مردانہ قمیصوں پر کشیدہ کاری بھی افغانوں نے متعارف کی۔ پاکستانی پشتونوں میں مردانہ لباس پھیکے رنگ کے اور سادہ ہوتے تھے، لیکن اب یہاں بھی اکثر نوجوان شوخ رنگ کے کپڑے، کشیدہ کاری اور بڑی بڑی شلواریں پہننا پسند کرتے ہیں۔

خواتین کی فراکوں میں سب سے زیادہ رنگ دار فراکیں کوچی قبیلے کی ہوتی ہیں۔ پرانے زمانے میں افغانستان کے دیہاتی اور کانٹے دار علاقوں کی خواتین شلوار کے پائنچے نہایت تنگ رکھتی تھیں۔ جب کہ شہروں کے فیشن ایبل طبقے کی خواتین کھلے پائنچے بناتی تھیں۔ یہی فیشن دیگر تمام پشتونوں میں آج بھی عام ہے۔

افغانی کھانے

افغان پناہ گزینوں کی آمد کے بعد خصوصی طور پر پشاور کے کھانوں میں نیا اضافہ دیکھنے کو ملا۔ دیکھتے ہی دیکھتے چھوٹے بڑے ریستوران کھل گئے جن میں کابلی پلاؤ کے نام سے چاول کی ڈش پیش کی جانے لگی۔ چاول کی یہ ڈش اس قدر لذیذ تھی کہ پاکستان کے ہر کونے میں اس کا چرچا ہونے لگا۔

اگرچہ افغانستان میں پلاؤ کی مزید کئی قسمیں ہیں جیسے کہ یخنی پلاؤ، زمرد پلاؤ، بوجان رُومی پلاؤ (یاد رہے کہ افغانی ٹماٹر کو رومی بولتے ہیں)، سیرخ پلاؤ، شربت پلاؤ، نارنجی پلاؤ اور ماش پلاؤ۔ تاہم ان سب میں کابلی پلاؤ کو ہر جگہ زیادہ پذیرائی ملی۔ گو کہ کئی پاکستانیوں نے اس کو بنانے کی کوشش کی لیکن عام طور پر یہی کہا جاتا تھا کہ کابلی پلاؤ کے ماہر صرف افغانی ہیں۔ انہی میں سے ایک کارخانو مارکیٹ میں بابا ولی ریسٹورنٹ بھی کافی مشہور تھا۔

اس پلاؤ میں کشمش اور گاجر کے علاوہ ایک مخصوص طریقے سے نرم کیا گیا گوشت ڈالا جاتا تھا، جس سے اس پلاؤ کا ذائقہ دوبالا ہو جاتا تھا۔ افغانستان میں چونکہ زمین پر توشک اور تکیہ لگا کر بیٹھنے کا رواج زیادہ ہے، لہٰذا ان کے تمام تر ریستورانوں میں زمین پر دریاں بچھا کر کھانے پیش کیے جاتے ہیں۔

کھانے سے پہلے قہوہ پینا بھی افغانیوں نے عام کیا۔ یہ لوگ زیادہ تر تلخ قہوہ کے ساتھ ڈرائی فروٹ وغیرہ کھانے کے عادی ہیں۔ افغان مہاجرین نے پاکستان میں پنیر کی ایک نئی قسم ’کُرت‘ کو بھی عام کیا، جس کی اب پشاور کی خشک میوہ جات کی دکانوں میں اچھی خاصی مانگ ہے۔ کرت کو ایک خاص طریقہ کار سے گزار کر سخت کیا جاتا ہے، اس لیے جب اس کو کھانوں میں استعمال کرنے کا وقت آتا ہے تو اس کو پانی میں رکھ کر آگ پر نرم کیا جاتا ہے۔

افغان کرت کو چاول سے لے کر ساگ تک مختلف کھانوں میں ڈال کر کھاتے ہیں۔ اکثر لوگ اس کو نرم کرکے دیسی گھی اور تندوری روٹی کے ساتھ بھی کھاتے ہیں۔

لمبی اور گول بڑی بڑی روٹیوں کو بھی افغان مہاجرین نے پشاور میں عام کیا۔ اگرچہ بڑی بڑی تندوری روٹیاں پکانا قبائلیوں میں بھی عام تھا لیکن پشاور میں بطور خاص لمبے بیضوی نان، کلچوں اور روغنی نان کو مہاجروں نے روشناس کروایا۔

اس کے علاوہ افغانستان کی ایک نہایت لذیذ ڈش ’منتُو‘ اور اس کی دیگر اقسام جیسے اشک وغیرہ بھی افغانوں نے پاکستان میں متعارف کروائی۔ افغان پناہ گزینوں بولانی یعنی آلو کے پراٹھے بناتے ہیں۔ یہ پراٹھے نہایت باریک اور لذیذ ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے زعفران کا زردہ، شیر یخ، آلو بالو اور مربہ جات کا استعمال بھی پشاور اور دیگر اضلاع میں بڑھا دیا۔

نمکین روسٹ، لیمب کباب، لاندے (سوکھا ہوا گوشت) اور تکے بنانے کے فن کو بھی افغان پناہ گزینوں نے صوبہ خیبر پختونخوا اور پاکستان کے دیگر صوبوں میں عام کیا، تاہم افغانی کھانے بنانے کا جو فن ان افغانیوں کو حاصل ہے وہ کہیں اور نہیں ملتا۔ یہی وجہ ہے کہ افغان پناہ گزینوں کے مزدور طبقے کی اکثریت کی اپنے وطن واپسی کے بعد پاکستان کے لوگ ان کی کمی محسوس کرتے ہیں اور اکثر کھانوں کے حوالے سے بحث مباحثوں میں اس کا ذکر کرتے رہتے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ