ایک ہزارہ خاندان کا کابل سے پاکستان آنے کا سفر

40 سال پہلے افغانستان میں اپنا گھر اور کاروبار چھوڑ کر پاکستان منتقل ہونے والا خاندان آج واپس نہیں جانا چاہتا۔

(سوویت یونین کی فوجوں نے 27 دسمبر 1979 کو افغانستان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا۔ انڈپینڈنٹ اردو نے اس موقعے پر ایک خصوصی سیریز کا آغاز کیا ہے، جس میں آپ اس تاریخ ساز واقعے کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں تحریریں اور تجزیے پڑھ رہے ہیں۔)


محمد ناصر حسین اور ان کا خاندان آج سے کوئی 40 سال پہلے افغانستان میں اپنا گھر اور کاروبار چھوڑ کر ضرورت کا چند سامان لے کر پاکستان روانہ ہوا۔

ناصر نے اپنی یاداشت تازہ کرتے ہوئے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ گو ان کے ماں باپ افسردہ نظر آرہے تھے لیکن وہ بحیثیت ایک چھوٹے بچے کے خوش تھے کہ وہ گاڑی میں بیٹھ کر پاکستان جا رہے ہیں۔

’مجھے یاد ہے کہ کس طرح آسمان پر جب ہیلی کاپٹر نظر آتا تھا تو سب سہم جاتے تھے۔ پاکستان میں ہمارے چچا کا گھر تھا۔ ہم کچھ عرصہ ان کے ساتھ رہے لیکن جلد ہی ہمیں اپنے لیے گھر ڈھونڈنا پڑا۔ ‘

ناصر کا تعلق ہزارہ قوم سے ہے۔ انہوں نے پشاور میں اپنی برادری کے لیے ایک سکول کھولا ہوا ہے، جس میں اس وقت تقریباً دو سو کے قریب طلبہ زیر تعلیم ہیں۔

ناصر کا کہنا ہے کہ انہوں نے یہ سکول اپنی مدد آپ کے تحت کھول رکھا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے بتایا: ’چونکہ ہماری زبان فارسی ہے لہذا پاکستانی سکولوں میں ہمارے لیے ایسا کوئی الگ سے نظام موجود نہیں۔ میں خود اس سکول کا پرنسپل ہوں۔ میں اور میرے بہن بھائی مل کر یہاں مفت پڑھا رہے ہیں۔ ہم طلبہ سے ماہانہ ڈیڑھ سو روپے لیتے ہیں۔‘

ناصر اور ان کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ہزارہ برادری کے ساتھ پیش آنے والے واقعات کے سبب وہ ہر وقت خوف میں رہتے ہیں کہ کہیں کوئی ان کو نقصان نہ پہنچائے۔

تاہم اس کے باوجود ان کا اور اہل خانہ کا کہنا ہے کہ پاکستان انہیں جان سے پیارا ہے اور وہ اس کو کسی حال میں چھوڑ کر جانا نہیں چاہتے۔

’ہم افغانستان کیوں جائیں؟ وہاں تو ہزارہ لوگوں کے ساتھ بدترین سلوک کیا جاتا ہے۔ نہ وہاں پر امن ہے اور نہ وہاں کی حکومت ہزارہ لوگوں کی بہتری کا سوچ رہی ہے۔‘

ناصر کے والد نے 40 سال پہلے افغانستان کے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ کیسے انہیں کابل میں اپنا کاروبار چھوڑ کر پاکستان جانا پڑا، حالانکہ افغان فوجی انہیں پاکستان جانے سے روک رہے تھے اور ہجرت کرنے والوں کے راستے میں رکاوٹیں ڈال رہے تھے۔

ناصر کی والدہ کا کہنا ہے کہ جب وہ کابل چھوڑ کر پاکستان آ رہی تھیں تو کافی افسردہ تھیں۔

والدہ کے مطابق ان کے پاس دو آپشنز تھے یا تو وہ ایران چلے جائیں یا پاکستان۔ انہوں نے بتایا: ’میرے بچے پاکستان آنا چاہتے تھے۔ جب ہم پاکستان آئے تو شروع شروع میں میرے شوہر کے پاس کوئی روزگار نہیں تھا۔ ہم سب یہاں کی زبان سے نابلد تھے۔ وہ بہت مشکل اور تنگ دستی کا دور تھا۔ گھر کا روزگار چلانے کے لیے میں نے کھلونے بنا کر بیچنا شروع کیے، جو 20،20 روپے میں بکتے تھے۔‘

ناصر کی والدہ نے کہا کہ پاکستان کے لوگوں نے ہمیشہ ان کے ساتھ بہت اچھا رویہ رکھا اور انہیں اپنے ہمسایوں یا دیگر لوگوں سے کبھی شکایت کا موقع نہیں ملا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ یہی وجہ ہے کہ آج بھی جب ہزارہ خاندانوں کو باہر ممالک سے دعوت دی جاتی ہے یا کسی دوسری جگہ پناہ لینے کا مشورہ دیا جاتا ہے تو وہ افسردہ ہو جاتی ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا