سوویت ریاست کے آغاز و اختتام سے ہم کیا سبق حاصل کرسکتے ہیں؟

ایک ایسے وقت جب ہم ولادی میر پوتن کے دو دھائیوں پر محیط اقتدار کو یاد کر رہے ہیں تو مائیک اوہارے سویت یونین کے ٹوٹنے اور جن قوتوں نے کے جی بی کے اس شخص کو اقتدار تک پہنچایا اس پر نظر ڈالی ہے۔

14 جنوری، 1991: سوویت رہنما میخائل گورباچوف ماسکو میں سپریم سوویت سیشن کے دوران خطاب کر رہے ہیں۔ (تصویر: اے ایف پی)
 

لدمیلا روگاچووا نے جب حسیبہ بوولمارک سے ایک سیکنڈ تاخیر سے 1992 کے بارسلونا اولپمکس میں 1500 کی خواتین کی دوڑ کے فائنل میں مکمل کی تو وہ آخری انسان تھیں جس نے کامن ویلتھ آف انڈپینڈنٹ سٹیٹس کے لیے میڈل جیتا۔ روگاچووا نے بعد میں 1994 کی یورپین چیمپین شپ میں سونے کا تمغہ جیت کر اتھلیٹکس کی تاریخ میں جگہ بنائی لیکن آج کس کو کامن ویلتھ آف انڈپینڈنٹ سٹیٹس یاد ہے جس کی انہوں نے نمائندگی کی تھی؟

دیو ہیکل سوویت یونین کی باقیات میں سے کچھ بچ نکالنے کی یہ آخری کوشش تھی، اور یقیناً سوویت یونین میں شامل سابق ریاستوں کا سی آئی ایس ایک کمزور کنفیڈریشن کے طور پر موجود تھی۔ اس کا نظریہ و طاقت جس نے روس کے غلبے میں یو ایس ایس آر کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا تھا، 1991 کے اختتامی دنوں میں چور چور ہوگئے۔     

سوویت یونین کی باقیات میں سے شاباش حاصل کرنے والا بارسلونا تھا جس نے آخری بار سب سے اعلٰی تمغہ جیتا۔ ایک سو بارہ سی آئی ایس ایتھلیٹس نے (جسے یونیفائیڈ ٹیم کے نام سے جانا جاتا ہے) واحد گرمائی اولمپکس ہے جس میں اس نے حصہ لیا اور تمغہ حاصل کیا۔ اس لیے کھیل کی تاریخ میں اس کا خاص مقام ہے۔     

صرف 74 سال باقی رہنے کے باوجود یہ اب بھی گرمائی اولمپکس کے میڈل ٹیبل میں دوسرے نمبر پر ہے۔ لیکن یو ایس ایس آر کی اتھلیٹکس ٹیم کا اٹھنا، چھا جانا اور پھر جلد غائب ہونا اس قوم کے سیاسی نظریے اور طاقت کی عکاسی کرتا ہے۔ کسی زمانے میں ناقابل تسخیر۔۔۔۔۔ لیکن اب مقابلے کے قابل بھی نہیں۔  

اگر ہم، دس سال سے بھی پہلے، بھول چکے ہیں، جب سوویت یونین نے 1979 میں افغانستان پر چڑھائی کی تو اس وقت روئے زمین پر دو سپر پاورز تھیں: ریاست ہائے متحدہ اور یونین آف سوویت سوشلسٹ ریپبلکس۔ ورلڈ آرڈر کا ایک طریقہ کار وضع تھا، اگر چہ انتہائی قطبی تھا۔ مابعد جنگ (عظیم) یورپ کی تقسیم نے ہمیں آزاد معیشت کی مغربی جمہوریت دی اور مشرق کی اجتماعیت پر مبنی یک جماعتی کمیونسٹ ریاستیں جن کو ونسٹن چرچل کی ’آئرن کرٹن‘ تقسیم کرتی تھیں اور اس کی واضح مثال وہ دیوار تھی جو برلن کے وسط میں بنائی گئی۔

دس سال بعد یہ دیوار بھی سوویت یونین کا نقشوں سے غائب ہونے کے بعد قصہ پارینہ بن گئی۔ کس طرح ایک ناقابل تسخیر سلطنت نے اپنی بڑی فوج کے ساتھ جو یورپ اور ایشیا پر پھیلی ہوئی تھی اور اثر و رسوخ رکھتی تھی اتنی جلدی شکست کھا لی؟ کب اور کہاں اتنی بےرحم طاقت میں دراڑیں پڑنا شروع ہوئیں؟ اور اگر ہم نے ذمہ داری ڈالنی ہے، تو پھر کس پر؟     

صحیح یا غلط، زیادہ تر اعداد کا نشانہ ایک ہی شخص ہے۔ اور اس آدمی کے اردگرد واقعات تقریبا اس وقت رونما ہونے شروع ہوئے جب وہ 1985 میں سوویت یونین کمیونسٹ پارٹی کے سیکرٹری جنرل بنے۔ وہ میخائل گورباچوف تھے۔ ان کو پتہ تھا کہ سوویت یونین کی معیشت تباہ ہو رہی ہے، اور ان کو یقین تھا کہ وہ اندرونی اصلاحات لاسکتے ہیں۔ ان کی اور قومی سیاسی اداروں کی تنظیم نو اس حوالے سے اپنے پالیسی کے ذریعے کرسکتے ہیں۔

زیادہ آزاد معاشرہ --- گلاسناسٹ --- کی تجویز دی گئی جس میں جمہوریت اور میڈیا کی شمولیت بڑھی، حکومت کے کاموں کو ٹیلیویژن پر دکھایا جانے لگا اور حکومتی مخالفین کو جیلوں سے رہا کیا گیا جیسے کہ ماہر طبیعات آندری سرخاروف۔ اچانک لوگ اپنے ملک کی تاریخ اور خطرناک خفیہ ادارے کے جی بی کی کارروائیوں کے بارے میں کہانیاں پڑھنے لگے۔ اور کئی کو پہلی مرتبہ چرنوبل جیسے واقعات میں کیا ہوا اس کی حقیقت معلوم ہوئی۔  

گورباچوف ایک نئی مقننہ بھی لے آئے یعنی 'دی کانگریس آف پیپلز ڈپوٹیز'، جس کے تحت 1917 میں سوویت یونین بننے کے بعد سے یہ پہلا موقع تھا کہ محدود جمہوری نمائندگی دی گئی۔ سخاروف نے بھی ایک نشست جیت لی جیسے کہ بورس یلسن نے جن کے بارے میں کئی لوگوں نے کچھ بھی نہیں سنا تھا۔

میخائل گورباچوف اتوبر 2017 میں اپنی کتاب ’آئی ریمین این آپٹمسٹ‘ کی تقریب رونمائی کے موقع پرماسکو میں (اے ایف پی)

اسے دلیری سمجھیں یا بےوقوفی، لیکن گورباچوف کے اقدامات کے نتائج ایک طریقے سے یا دوسرے طریقے سے آنے ہی تھے۔ بہت سارے تاریخ کے اس موڑ پر مختلف آرا رکھتے ہیںَ۔ لیکن بہت کم لوگوں کے آرا اتنی واضح طور پر تقسیم ہیں، جتنی گورباچوف کے بارے میں۔ ایک عالمی دانشور یا مقدس نظریے کو تباہ کرنے والا؟   

 اگر غور کیا جائے تو ان کی مدت حکومت میں مشرقی یورپ کے کمیونسٹ اتحادی کھو دیئے گئے اور ان کی اپنی قوم منقسم ہوئی اور آپ کی رائے شاید مؤخرالذکر کی طرف جھک جائے، اور اس کے قد کاٹھ کا انحصار اس پر ہے کہ کس سے آپ رائے لے رہے ہیں۔ لیکن گورباچوف جنہوں نے سرد جنگ کو ختم کیا، کی بطور عملیت پسند شہرت مضبوط ہے۔ وہ مغرب میں مشہور ہیں۔ یقینی طور پر گورباچوف کا رجحان نہ تو اپنے یا دوسرے ملک میں کمیونزم کو تباہ کرنے کی طرف تھا اور نہ ہی انہوں نے سوویت یونین کو تقسیم کرنے کی اجازت دی۔ ان تمام کے لیے تاریخ ان کی تابناک انداز میں قدر پیمائی کرے گی۔ انہوں نے 1990 میں نوبل انعام حاصل کیا اور جن کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ انہوں نے دباؤ میں ’راست اقدام‘ اٹھایا۔ ہاں بعد میں ان کے ہاں رائے میں اختلاف پایا گیا۔

اگرچہ تقسیم تیز تھی، لیکن حقیقت میں تیاری کا طویل تھی۔ آخری ماہ و ایام کے ہولناک موڑ سے کئی کتابیں بھری ہیں۔ یہاں ہم اہم ترین کا ذکر کرتے ہیں۔

جب گورباچوف نے بریزنف ڈاکٹرین کو --- جو سوویت فوج کو اتحادی کمیونسٹ ریاستوں میں مداخلت کا اختیار دیتا ہے ختم کیا جس کا بنیادی مطلب یہ تھا کہ دوسری کمیونسٹ اقوام کو قابو میں لایا جائے تو مشرقی یورپ میں کمیونزم بظاہر مہینوں میں ختم ہوگیا۔ سوویت فوج سابق اتحادی ریاستوں سے واپس بلا لی گئیں؛ جرمنی جلد ہی یکجا ہونے پر زور دے رہا تھا اور گورباچوف کسی مضبوط کمیونسٹ بلاک کے حقیقی رہنما نہیں رہے تھے۔ درحقیقت، انہیں حیرانی نے گھیر لیا، بظاہر انہیں توقع تھی کہ ان کی اصلاحات سے کمیونزم ترقی کرے گا اور زندہ رہے گا۔ وہ غلطی پر تھے۔

اور وہ قوتیں جس کو انہوں نے آزاد کیا صرف سوویت یونین سے باہر اقوام تک محدود نہیں تھیں۔ پندرہ ریپبلکس یونین کا حصہ تھیں جن میں روس سب سے بڑا اور طاقتور تھا۔ ان میں سے تین ---- بحیرہ بالٹک پر واقع لیتھوینیا، لیٹویا اور ایسٹونیا ---- کو نازی ۔ سوویت کے درمیان مولوٹو معاہدے (1939) کے تحت سوویت یونین کےحوالے کیا گیا تھا کیونکہ جرمنی اور سوویت یونین کی کوشش تھی کہ مشرقی یورپ کا آپس میں بغیر کسی جنگ کے بٹوارہ کر دیں۔ وہ ناکام ہوئے اس کی توقع کی جا رہی تھی کیونکہ ایڈولف ہٹلر اور جوزف سٹالن کے نظریات (دانائی) کا آپس میں کوئی جوڑ نہیں تھا۔ تاہم بالٹک ریاستیں سوویت یونین کے ہاتھ میں ہی رہیں اگرچہ امریکہ نے کبھی بھی اسے ایسا تسلیم نہیں کیا --- اور اس سے بھی اہم یہ کہ --- ان ریاستوں کے لوگوں نے بھی اسے کبھی تسلیم نہیں کیا۔

ایک جانب وہ مشرقی یورپ میں ناکام ہوتے ہوئے کمیونزم کور دیکھ رہے تھے تو دوسری جانب گورباچوف کے اندرونی مسائل، جیسا کہ معاشی بدحالی کے مارے اضطرابی آبادی جو وسیع نمائندگی کا مطالبہ کر رہی تھی کو قابو میں کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے لیتھوینیا نے ڈرامائی انداز میں اپنی آزادی کا اعلان 18 مئی 1989 کو کر دیا۔ گورباچوف کو خدشہ لاحق تھا کہ ایسٹونیا اور لیٹویا بھی ایسا کریں گے خاص طور پر جب اگست میں تینوں ریاستوں سے 20 لاکھ لوگوں نے 'بالٹک چین آف فریڈم' میں ہاتھ جوڑ لیے تھے۔   

ان کا کوئی ارادہ نہیں تھا کہ اپنی قوم یا سابق اتحادیوں کو گوا دیں، لیکن ان کو یہ بھی پتہ تھا کہ فوج بھیجنے سے دنیا میں یہ تاثر جائے گا کہ تیندوے نے اپنے دھبے نہیں بدلے تھے۔ اس سے یہ مطلب لیا جاتا کہ بریزینوف ڈاکٹرین واپس آ گیا اور ماسکو اپنی حکمرانی لاگو کرنا چاہتا ہے جس طرح اس نے ہنگری میں 1956 اور چیکوسلواکیا میں 1968 میں کیا تھا۔

لیکن کہیں اور موجود دیرینہ تناؤ کو بھی گورباچوف کی توجہ مطلوب تھی۔ جنوبی ریاستوں میں بھی بغاوت اور احتجاج کا سلسلہ جاری تھا، ان میں سے کچھ شمالی اور مغربی راسخ العقیدہ یا کیتھولک عیسائیوں کی مغربی ریاست کے برعکس بڑی مسلمان آبادیوں پر مشتمل تھیں۔ اس حقیقت کے باوجود کہ سوویت یونین واضح طور پر ملحد تھا، لسانی اور مذہبی تناؤ اکثر پر تشدد جھڑپوں کی طرف چلا جاتا۔ اگرچہ اسلام پڑھانا غیرقانونی تھا، لیکن حکمران طبقے نے اس کا غلط اندازہ لگایا کہ کس حد تک غیرنسلی روسی گروہوں نے ملاپ کی مزاحمت کی۔ ملحد کمیونزم اور اسلام کبھی بھی باآسانی ساتھ رہنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ 

جنوری 1990 میں جب سوویت ریاست آذربائیجان میں فسادات پھوٹ پڑے، جب کہ عین اسی وقت ماسکو میں مظاہرین یک جماعتی نظام کا خاتمہ چاہتے تھے، تو گورباچوف نے فوج بھیجنے کے لیے دوڑ دھوپ شروع کر دی۔ اگر سینکڑوں نہیں تو دسیوں لوگ باکو کی گلیوں میں مر جائیں گے۔ مضطرب اور فکرمند گورباچوف نے یک جماعتی نظام ختم کرنے کی منظوری دے دی۔

کمیونسٹ مرکزی کمیٹی کا ملاجلا ردعمل تھا۔ کچھ نے تو ان کی حمایت کر دی لیکن سخت گیر حلقے نے ایسا نہیں کیا۔ لیکن کمیٹی سے ماورا، کمیونسٹ پارٹی میں سخت گیرحلقوں پر قابو حاصل کرنے کے لیے گورباچوف نے حال ہی میں بننے والی کانگریس آف ڈیپیٹیز کو تجویز دی کہ انہیں سوویت یونین کا صدر بنایا جائے، اور ان کی نئے عہدے کی یہ تجویز قبول کر لی گئی۔ اپنے نئے عہدے کو استعمال میں لاتے ہوئے انہوں نے کانگریس کو اکسایا کہ وہ آخرکار سوویت یونین میں یک جماعتی نظام کا خاتمہ کر دے۔

لیکن اس کا اثر محدود تھا۔ لیتھوینیا نے 11 مارچ کو مکمل آزادی کا اعلان کیا، اور اگرچہ سوویت سپاہیوں کا ویلنیس میں سرکاری عمارات پر قبضہ تھا لیکن باکو میں جو ہوا تھا وہ گورباچوف کو یاد تھا، اس لیے وہ طاقت کے استعمال میں تذبذب کا شکار تھے۔ لیکن مئی میں جب لیٹویا نے آزادی کا اعلان کیا روسی ریپبلک نے بورس یلسن کو چیئرمین منتخب کیا، کمیونسٹ پارٹی نے پہلی دفعہ آزاد انتخابات کی اجازت دی جس نے اس مرحلے میں تیزی پیدا کر دی گئی۔ یلسن پارٹی کے رکن تھے اور سوویت یونین پولٹ بیورو میں رہے تھے لیکن ان دونوں سے وہ  دست بردار ہوئے تاکہ گورباچوف کی مخالفت کی جا سکے۔

یہ دوراہا تھا۔ اگر سوویت یونین کی سب سے بڑی ریپبلک روس یلسن کی پیروی کرتی تو عین ممکن تھا کہ روس آزادی کا اعلان کر دیتا (اور یہ سوویت یونین کا حقیقت میں پاش پاش ہونا تھا) یا پھر اگر گورباچوف کی پیروی کرتا تو کچھ عرصہ بعد مزید اصلاحات آنے تھے؟ شاید فیصلہ کن مرحلہ تب آیا جب گورباچوف بادل ناخواستہ، جرمنی کو یکجا کرنے پر راضی ہوئے اور باقی ماندہ کام اسی وجہ سے ممکن ہوا۔۔۔۔ جرمنی نے نیٹو میں شمولیت اختیار کی اور سوویت افواج کو مشرقی جرمنی کی سر زمین سے ہٹانا پڑا۔

سرد جنگ موثر طور پر ختم ہوئی۔ امریکہ سیاسی و فوجی لحاظ سے اب دنیا کا واحد سپر طاقت بن گیا۔ سوویت، اس کے ریپبلکس اور لوگوں کو پیغام مل گیا۔ تب بھی گورباچوف کو یقین تھا کہ وہ دلدل سے نکلنے کے لیے راستہ درست کر سکتے ہیں۔ اکتوبر 1990 میں سپریم سوویت نے قانون بنایا اور کثیر الجماعتی ریاست تخلیق کی۔ مذہب اور میڈیا کو مزید آزادی ملی اور مارکیٹ کی بنیاد پر معاش پنپنے لگا۔ لیکن پیریسٹرائیکا سے پہلے کمیونزم جن عناصر پر مشتمل تھا وہ ختم ہونے لگے۔    

سخت گیروں اور آزادی پسندوں کے درمیان نازک راستے پر چلتے ہوئے گورباچوف نے جنوری 1991 میں لیتھوینیا اور لٹویا میں فوجی بھیجے، لیکن جب احتجاج کرنے والوں کو مارا گیا تو انہیں سپاہیوں کی سفاکی کی مذمت پر مجبور کیا گیا۔ یلسن کی حمایت میں مظاہروں میں اضافہ ہوا۔

اپریل میں جارجین ریپبلک نے آزادی کا اعلان کیا اور ہڑتال کرنے والوں، احتجاج کرنے والوں، مذہبی رہنماؤں سمیت یوکرین بھی آزادی کے لیے دباؤ بڑھا رہا تھا۔ یلسن (روسی تاریخ میں پہلے رہنما جو جمہوری طریقے سے منتخب ہوئے) نئے عہدے یعنی روسی صدر کے طور پر جون میں منتخب ہوئے اور روسی آزادی کا اعلان کیا۔

سوویت یونین کے بننے سے پہلے اور بعد میں بڑی طاقت، روس، اب معاشی طور پر دیوالیہ تھا اور لوگ تبدیلی کے خواہاں تھے۔ ملک کے اندر اور باہر فوج کی وسیع تعداد رکھنے سے روس کو کافی نقصان ہو چکا تھا اور معیاری زندگی ابتر حالت میں تھی۔

جب گورباچوف بحیرہ احمر کے قریب فوروس میں تعطیلات پر تھے تو سرکاری میڈیا نے اعلان کیا کہ وہ بیمار ہیں اور اس لیے گھر تک محدود ہیں۔ بلاشبہ یہ ایک بہانہ تھا۔ وہ نظربند تھے اور ایک سیاسی بغاوت جاری تھی۔ گورباچوف کے نائب صدر گینیڈی ینانیو، وزیر اعظم ویلنٹن پاولوف، وزیر دفاع دمتری یازوف اور کے جی بی کے سربراہ ویلادی میر کریخکووف نے حالت ایمرجنسی میں ایک جنرل کمیٹی بنائی تھی اور ایک حکم جاری کیا جس نے میڈیا اور سیاسی سرگرمیوں پر پابندی عائد کی۔

انہیں توقع تھی کہ عوام کی طرف سے حمایت حاصل کریں گے لیکن عوام اور بالخصوص شہری علاقوں کے باسیوں نے مخالفت کی۔ خوراک کی قلت تھی لیکن ہر کوئی جانتا تھا کہ پولٹ بیورو شاندار زندگی بسر کرتی ہے۔ اگرچہ انہوں نے گورباچوف کو ہٹایا تھا لیکن وہ جوں کے توں تھے۔ بےروزگاری کے ساتھ مہنگائی بھی بڑھتی جا رہی تھی --- لوگ ان سازشیوں کی حمایت نہیں کر رہے تھے جو اسی کمیونسٹ حکومت کے ہی بندے تھے جنہوں نے یہ حالت کر دی تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 اور ایک ایسی چیز جس نے سب کو حیران کیا وہ یہ تھی کہ یلسن بھی ان کے ساتھ کھڑے تھے۔ گورباچوف سے مخالفت کے باوجود انہوں نے جمہوریت کے اصولوں کو زندہ رکھا اور ٹینک پر سوار ہو کر تقریر سے کوشش کی کہ نئی جنرل کمیٹی کا دفاع کریں اور بغاوت کرنے والوں کو ملامت کریں۔ بعد میں وہ کہا کرتے تھے، ’آپ بندوق کے نوک پر تخت تو تعمیر کر لیں گے، لیکن اس پر زیادہ عرصے کے لیے بیٹھ نہیں سکیں گے۔‘ 

یہ بغاوت تین دن بعد ختم ہوئی اور حیرانی کی بات یہ تھی کہ گورباچوف ماسکو میں اپنے اہم حریفوں --- جن میں فوجی مشیر مارشل سرجی اخرومیر شامل تھے۔۔۔۔۔ جو ایک دوسرے کو مار رہے تھے کے ساتھ آئے۔ 

طاقت اب گورباچوف کے نجات دہندہ یلسن کے پاس تھی۔ اول الذکر نے جب اقرار کیا کہ کمیونزم کو لبرلائز کیا جائے گا تو پارلیمان نے ان کا مذاق اڑایا۔ اور جب یلسن نے ان کو مجبور کیا کہ وہ ٹی وی پر وہ تحریر بہ آواز بلند پڑھیں کہ گورباچوف کو اتحادیوں نے معزول کیا تھا تو ان کی جگ ہنسائی ہوئی۔  

 گورباچوف کے سوانح نگار، ویلیم تاوبمین، نے دلکش انداز میں ان کی مخالفت پر اظہارخیال کیا ہے: ’یہ شیکسپیئر کا ایک ڈراؤنا تصادم تھا۔ انہیں مختلف صلاحیتوں کے ساتھ اتحادی ہونا چاہیے تھا لیکن وہ دشمن بن گئے۔ گورباچوف نے یلسن کو اپنےلیے زہر قاتل کی طرح تخلیق کرنے میں کردار ادا کیا، اور یلسن  نے سیدھا اس کا بدلہ اتار دیا۔‘

گورباچوف نے 24 اگست کو سوویت کمیونسٹ پارٹی کے رہنما کی حیثیت سے استعفی دے دیا۔ پانچ روز بعد سپریم سوویت نے خود جماعت تحلیل کر دی۔ سوویت ریپلکس یونین سے الگ ہونا شروع ہوگئیں۔

دسمبر میں گورباچوف نے، جو ابھی تک باقی ماندہ نظام کے برائے نام صدر تھے، سابق ریپبلکس کی یونین کی تجویز پیش کی۔ آزاد ریاستوں کا دولت مشترکہ وجود میں آگیا۔ آٹھ ماہ بعد روگاچووا کو بارسلونا میں اپنا چاندی کا تمغہ جیتنا تھا۔  

25 دسمبر کو یو ایس ایس آر کا سرخ پرچم، جو ہتھوڑے اور درانتی سے سجا تھا، کریملن سے ہٹا لیا گیا۔ سوویت یونین کے آٹھویں اور آخری رہنما میخائل گورباچوف بےکار ہوگئے تھے۔

ورثا؟ اچھا یہ سارا ہمارے اردگرد ہے۔ اگرچہ کچھ ان کے جواب کو غیرمستند یا کم از کم غیرواضح خیال کرتے ہیں، چینی وزیراعظم ژو این لائی کو1972 میں یہ کہتے ہوئے رپورٹ کیا گیا ہے کہ جب ان سے انقلاب فرانس کے اثرات کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ اس کے بارے میں کچھ کہنا بہت قبل از وقت ہے۔ سوویت یونین ٹوٹنے کے صرف 30 برس بعد پھر، حتمی نتیجے کے بارے میں پیشن گوئی کرنا تقریباً ناممکن ہے۔ لیکن درمیان کے عشرے کئی اشارے دے چکے ہیں۔ 

جب سرد جنگ شروع ہوگئی تو مشرقی بلاک کے وارسا پیکٹ اتحاد کے سابق ممالک اور بالٹک ریاستوں نے دوستیاں تبدیل کر دیں اور نیٹوـــ مغربی فوجی اتحاد ـــ اور یورپی یونین میں شامل ہوگئے۔ اس سے روس میں ان خدشات میں اضافہ ہوا کہ اسے گھیرا جا رہا ہے۔ اب اس کے مغربی سرحد پر اتحادیوں کا بفرزون نہیں رہا، اور غالباً اس کے نتیجے میں ولادیمیر پوتن کے ــ جو خود سابق کے جی بی آفیسر ہیں ــ تحت نئی جارحانہ روسی قوم پرستی  سامنے آئی اور یوکرائینی کریمیا پر حملہ ہوا اور اس کا الحاق کیا گیا اور اس کا ضمنی تنازعہ پیدا ہوا۔

پوتن کو ڈر ہے کہ روس کا حلقہ اثر سکڑ رہا ہے اور وہ اس بات سے آگاہ تھے کہ یوکرائن کی سیاست نیٹو اور یورپی یونین کے قریب جا رہی ہے۔ انہوں نے جارجیا پر بھی گہری نظر رکھی ہوئی ہے جس نے نیٹو میں شامل ہونے کے اپنے ارادے کا کھل کر اظہار کیا ہے۔

کئی روسیوں کا خیال ہے کہ پوتن کا طرزعمل معقول ہے۔ ریٹائرڈ روسی ملاح آرتھر سمرنوف کا اصرار ہے کہ ’کریمیا تو ہمیشہ سے ہی روس کا تھا۔‘ حتی کہ جب یوکرین نے سوویت یونین کو چھوڑا تو روس نے پھر بھی سیواستوپل میں اپنا اڈہ قائم رکھا تھا۔ ان کا اصرار ہے کہ کیونکہ یہ انتظام خطرے میں تھا اور ’پوتن نے بس صرف اتنا کیا کہ اس چیز پر دوبارہ دعوی کر دیا جو پہلے سے ہی روس کی تھی۔‘ دفتری ملازم 31 سالہ نینا اگافونووا مزید کہتی ہیں کہ ’پوتن نے لوگوں کو روس کو دوبارہ توجہ دینے پرمجبور کر دیا ہے۔

’میری عمر اتنی نہیں ہے کہ مجھے سوویت یونین یاد ہو، لیکن میں جانتی ہوں کہ ہم میرے دادا دادی کے وقت میں ایک عظیم قوم تھے۔ میں شاید سماجی طور پر پوتن سے زیادہ آزاد خیال ہوں اور میں ہر چیز سے اتفاق نہیں کرتی۔ پوتن نے ہمیں ایک ایسی قوم بنایا ہے جو دوبارہ میں یقین رکھتی ہے، جو 1990کی دہائی کی تذلیل سے آگے دیکھ سکتی ہے۔‘

اگرچہ عام روسیوں کے لیے خارجہ پالیسی سے زیادہ ملک کے اندرونی حالات زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔ کاروباری معیشت (مارکیٹ اکانومی) کی جانب جانا کئی افراد کے لیے تباہ کن رہا۔ جبکہ کچھ افراد قومیائے گئے اثاثوں کی تیزرفتار نجکاری کی وجہ سے امیر ہوگئے اور عدم مساوات میں اضافہ ہوا۔ یہ محرومی 1930کی دہائی میں آنے والے عظیم بحران سے بدتر تھی۔ تزیانو ترزانی اپنی کتاب ’شب بخیر جناب لینن‘ میں جو انہوں نے سوویت یونین ٹوٹنے کے دوران اس کے سفر میں لکھی تھی، دوراندیشی سے حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’خلا کو کیا چیز پر کرے گی؟

پرانے خیالات کے نئے بیوپاری اب میدان میں کود کر حیران و پریشان عوام کے ذہنی الجھاو  سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔‘

یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ منصوبہ بند معیشت (حکومت کی زیرکنٹرول معیشت) کے انہدام کے باعث پیدا ہونے والے اقتصادی بحران کی وجہ سے روس میں 1998 تک تقریباً ساڑھے تین ملین اضافی اموات ہوئی ہیں۔ یہ عجب نہیں ہے کہ کئی عمررسیدہ شہری کمیونسٹ دور حکومت کی یقینی باتیں چاہتی ہیں۔ اسی سالہ ایلینا بالاکینا کہتی ہیں، ’جب تک گورباچوف نے اسے چرا نہ لیا میرے پاس روزانہ روٹی ہوتی تھی۔ میرے پاس اورن برگ میں ایک ٹیلیفون ایکسچینج میں ملازمت بھی تھی۔ ہم میں سے کسی نے بھی یہ محسوس نہیں کیا تھا کہ ایک ایسی دنیا ہوسکتی ہے جہاں آپ کے پاس روٹی یا ملازمت نہ ہو۔‘

جیسا کہ مصنف رابرٹ کیپلن لکھتے ہیں ’اقتصادی دھچکا تھراپی سے پیدا ہونے والی شدید مہنگائی نے زیادہ تر روسیوں کی زندگی بھر کی بچتیں ختم کر دیں۔‘

فیلو تاریخ دان کرسٹیا فریڈلینڈ مزید کہتی ہیں: ’روس کو دن دیہاڑے ایسے کاروباری افراد نے لوٹا جنہوں نے کوئی قوانین نہیں توڑے۔‘ غربت اب تک موجود ہے اور ناقدین پوتن کی خارجہ امور پر توجہ کو داخلی اقتصادی مسائل سے دانستہ صرف نظر سمجھتے ہیں۔

اور اس کی سرحدوں سے باہر تقریباً کوئی بھی ایک قوم یا ریاست ایسی نہیں تھی جو سوویت یونین کے خاتمے سے متاثر نہ ہوئی ہو۔ یوگوسلاویہ پرتشدد انداز میں ٹکڑے ٹکڑے ہوا جیسے کہ جنوبی یو ایس ایس آر نسلی اور مذہبی تناو کے بعد ہوا تھا، اور سوویت یونین کے متعدد سابق علاقوں میں آزادی کی تحریکیں سامنے آئیں، جیسا کہ چیچنیا اور جنوبی اوسیشئیا میں۔

کیوبا، شام اور شمالی کوریا جیسے مختلف ممالک اپنی حکومتوں کو بچانے کے لیے سوویت حمایت پر مزید انحصار نہیں کر سکتے۔ افغانستان، جس پر سرخ فوج نے اس کی کمیونسٹ حکومت کو قائم رکھنے کے لیے 10 برس تک جنگ لڑی، جس سے اس وقت سوویت معیشت شدید کمزور ہوئی، سوویت فوج کے انخلا کے بعد ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگیا اور وہاں طاقت کا خلا پیدا ہوا جس کے نتیجے میں القاعدہ سمیت جہادی تنظیمیں ابھریں۔

چین ٹوٹ جانے والی سپر پاور کے پیدا کردہ خلا کو مارکیٹ پر منحصر کمیونزم کی جانب اپنی کامیاب منتقلی کے ذریعے پورا کرنے کے لیے ابھر چکا ہے۔ اسے اب امریکہ کی زیادہ تر توجہ حاصل ہے، جیسا کہ ایک جھگڑالو صدر اپنی معیشت کو پائیدار رکھنے کے لیے تجارتی جنگیں لڑ رہے ہیں۔ 1991 میں جب گورباچوف محسوس کر رہے تھے کہ مارکیٹ اکانومی کی جانب منتقلی کا عمل ان کے عوام کے لیے دردناک ہوگا، انہوں نے امریکی صدر جارج ایچ ڈبلیو بش سے اقتصادی امداد کی درخواست کی، تو اسے مسترد کر دیا گیا۔ اگر ایسا نہ ہوا ہوتا تو امریکہ اور روس کا اتحاد ہوچکا ہوتا۔ یہ اب پہلے سے کہیں زیادہ مشکل لگ رہا ہے۔

بے شک اور بھی کئی چیزیں ہیں۔ جن میں ایک بریگزٹ ہےـــ مشرقی یورپ میں آزادی نے، جس کی وجہ سے نوجوان پورے یورپی یونین میں سفر کرسکتے ہیں، ریفرینڈم کے نتیجے میں کتنا کردار ادا کیا ہے؟ اور کیا ہمیں سیلسبری میں اعصاب شکن کیمیائی ہتھیاروں، غیرملکی اداروں پر سائبر حملوں، ہمارے فیس بک فیڈز پر جعلی خبروں، غیرملکی انتخابات میں تصادم (یا تصادم نہیں) جیسی چیزوں کا سامنا کرنا پڑتا؟ فہرست بہت زیادہ طویل ہے۔ اور اس طرح یہ سلسلہ کون کہاں جانتا ہے کب تک جاری ہے۔

یسا کہ ٹیرزینی سوال اٹھاتے ہیں کہ ’شاید بدترین چیزیں پیش آنا ابھی باقی ہے۔‘ سیاسی سائنس دان فرانسس فوکویاما کا یہ کہنا کہ سرد جنگ کا اختتام ’تاریخ کا اختتام تھا‘ اب حیرت انگیز طور پر بھولپن لگتا ہے۔

لیکن گورباچوف کا کیا، جو غیردانستہ معمار اور بےخبر قربانی کا بکرا بھی بنے۔ خاتمے کے بعد سے، رائے عامہ میں مسلسل دیکھا گیا ہے کہ روس کی نصف سے زائد آبادی کو سوویت یونین کے انہدام پر افسوس ہے۔ 2018 میں یہ شرح 66 فیصد تک بلند رہی۔ اگرچہ ان اعدادوشمار میں زیادہ تعداد ادھیڑ عمر افراد کی ہے، پھر بھی یہ اہمیت کا حامل ہے۔ بیاسی سالہ نتالیا ژرناکووا کہتی ہیں، ’کئی سالوں تک میں چاہتی تھی کہ میں اپنے آبائی قصبے میں موجود لینن کے مجسمے کو گرتے ہوئے دیکھوں۔ اب میں چاہتی ہوں کہ کاش اسے واپس لایا جائے۔‘

صاف نظر آ رہا ہے کہ سوویت یونین کی حسرت ناک یاد ماضی کا عارضہ جزوی طور پر پوتن حکومت کی کامیابی میں کارفرما ہے۔ نمایاں طور پر، پوتن نے روس میں یوم فتح ـــ 9 مئی ـــ کو بڑی حد تک طاقت کے عسکری مظاہرے میں تبدیل کر دیا ہے۔ ماضی میں، دوسری جنگ عظیم کے اختتام کے بڑے سالگروں کے علاوہ، یہ دن نسبتاً پرسکون انداز سے منایا جاتا تھا۔

کئی روسیوں کا خیال ہے کہ وہ گورباچوف کی برسوں کی ذلت کے بعد قوم کا وقار بحال کر رہے ہیں۔ ان کی ساکھ اپنے ملک میں وہ نہیں ہے جو دیگر ممالک میں ہے۔ جب وہ 1996 میں روسی صدارتی انتخابات میں حصہ لے رہے تھے تو انہوں نے بمشکل ایک فیصد ووٹ حاصل کیے تھے۔

سمرنوف کہتے ہیں، ’بے شک، مغرب انہیں ایک بڑے مدبر کی حیثیت سے دیکھتا ہے۔ انہوں نے اپنے ہی ملک کو کچلا اور مشرق میں خطرے کا خاتمہ کر دیا۔ یہ ناروے تھا جس نے انھیں نوبیل انعام دیا، نہ کہ روس، بیلاروس یا جارجیا۔ یہ جھگڑالو ہونے کی نہیں، ذاتی اور پر فخر حب الوطنی کی بات ہے۔‘

سابق ریلوے ملازم سرگئی موسکون مزید کہتے ہیں، ’مغرب اور مشرقی جرمنی میں ہجوم 'گوربی، گوربی' کے نعرے لگا رہے تھے لیکن ایسا پیچھے اپنے ملک میں نہ تھا۔‘ تو کیا گورباچوف نے وہی نظام ختم کیا جسے بچانے کی وہ کوشش کر رہے تھے؟ سابق استانی کاتیا ہرسکایا ایسا ہی سمجھتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’میں یہ کہنے کے لیے تیار ہوں کہ گورباچوف ایک کمیونسٹ تھے۔ وہ بس صرف اس میں بہت اچھے نہیں تھے۔

انہوں نے جو بھی قدم اٹھایا اس سے یہ امکان مزید بڑھ گیا کہ سوویت یونین ٹوٹ جائے گا۔ اگر آپ کبوتر کو دانا ڈالتے ہیں تو ایسا نہیں ہوتا کہ کبوتر کی طلب ختم ہو جائے گی بلکہ آپ کے پاس مزید کبوتر جمع ہو جاتے ہیں۔‘

جس پر اب بھی بحث کی جاسکتی ہے وہ یہ ہے کہ کیا کمیونزم کو ناکام ہونا ہی تھا، اور گورباچوف اسے بچانے کے لیے کچھ نہیں کر سکتے تھے۔ نیویارک یونیورسٹی میں روسی مطالعات کے پروفیسر سٹیفن کوہن کہتے ہیں، ’سوویت یونین کے خاتمے میں معاون عناصر میں سے ناگزیر کوئی بھی نہیں تھا۔‘

مارکسی ویب سائٹ Liberationschool.org مزید کہتی ہے کہ ’یو ایس ایس آر کے یادگار کارناموں مثلاً ملازمت پیشہ افراد کے پاس سیاسی طاقت، عالمگیر حفظان صحت، تعلیم اور خواتین کے مساوات کے بارے میں سننا نہایت غیرمعمولی ہے۔ سوویت یونین تاریخ کی پہلی ریاست تھی جہاں پسے ہوئے طبقے نے اقتدار حاصل کیا اور برقرار رکھا۔‘ 

یقیناً اختلافی آوازیں موجود ہیں۔ تزیانو تیرزانی لکھتے ہیں: ’کمیونزم گوند تھی جس نے ساری چیزوں کو باہم اکٹھا رکھا تھا۔۔۔ایک ایسی سرزمین پر جہاں پارٹی مزید موجود نہیں رہی تو یہ ایک نظام تھا جو گر کر ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا۔‘  تیرزانی اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنی زندگی میں کئی انقلابات دیکھے ہیں، ’جو تمام کمیونزم کے نام پر برپا ہوئے اور تمام لوگوں کے اس سخت اعتقاد کے باوجود ناکام ہوئے کہ وہ ایک روشن مستقبل کی جانب بڑھ رہے ہیں جس کی دعا اس پیغام لانے والے کے اٹھے ہوئے ہاتھوں نے مانگی ہے جو زندہ بچے ہیں یعنی لینن۔‘

یہ بات اس فرسودہ سوال کا جواب مانگتی ہے کہ لینن کے وہ سارے مجسمے کہاں گئے؟

لیکن موسکون اس سے اتفاق نہیں کرتے، جیسا کہ کئی روسی آج بھی نہیں کرتے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’کمیونزم کامیاب ہوسکتا تھا، لیکن رہنماؤں نے کمیونزم کو ناکام کر دیا۔ انہوں نے ہمیں ناکام کیا۔ نہ صرف گورباچوف نے بلکہ کئی ان رہنماؤں نے جو ان سے پہلے آئے تھے۔ سوشلزم ایک قابل قدر نظام ہے، لیکن اسے سیاست دانوں سے دیانت داری کی ضرورت ہوتی ہے نہ کہ خودغرض چوری کی۔‘

اسی کے پیٹے میں ان کے ساتھی ژرناکووا مزید کہتے ہیں، ’اگر کمیونزم ناکام بھی ہوا تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ حل سرمایہ دارانہ نظام ہے۔‘ جب کوئی اس روس کے بارے میں غور کرتا ہے جس میں اب روسی رہتے ہیں تو یہ ایک منصفانہ نکتہ ہے، اگرچہ ولادی میر پوتن کے حامی اس سے عدم اتفاق کرسکتے ہیں۔ زیادہ تر شہری اپنے موجودہ صدر کی طرح گورباچوف کے سخت ناقد ہیں۔

توبمین کہتے ہیں کہ پوتن بار بار گورباچوف پر روس کی بالادستی کا خاتمہ کرنے پر تنقید کرتے ہیں۔ وہ مزید کہتے ہیں، ’گورباچوف نے جو کچھ کیا، پوتن درحقیقت ان سب چیزوں کو واپس پلٹا رہے ہیں۔‘ بعض صنعتوں کو قومیانا، میڈیا اور انتخابات میں مداخلت، مخالفین کو تکلیف پہنچانا، دیگر ممالک کے ساتھ جوڑ توڑ کرنا۔۔۔۔ یہ سیاسی و اقتصادی نظاموں کے پرانے انداز میں تشکیل نو کی سوویت دور کی پالیسی ہوسکتی ہے۔

ویدم نکتن نے پانچ برس قبل اسی جریدے میں لکھا تھا کہ پوتن نے سوویت کا پرانا برانڈ اٹھا لیا ہے: ’انہوں نے پچھلی دہائی روس کو اپنی قیادت میں پرانے سپرپاور کا نئے جنم بنانے میں صرف کی ہے۔ پوتن نے اپنے ایجنڈے کو جائز بنانے کے لیے عوام کی سوویت علامتوں کے ساتھ جذباتی وابستگی کو استعمال کیا ہے۔‘

جبکہ کئی لوگ کہتے ہیں کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے سرد جنگ جیتی ہے، گورباچوف اب بھی اسے دنیا کی ایک ’مشترکہ فتح‘ سمجھتے ہیں۔ اور انہوں نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ اور ملک میں سخت موقف اپنانے کی بجائے پرامن اور سفارتی مواقع استعمال کر کے ایک بڑا کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے جوہری بربادی کا خطرہ ختم کرنے کے لیے معاہدے کئے۔ انہوں نے کثیرالجماعتی اقتدار متعارف کرایا، سرکاری پالیسی کے مخالفین کو رہا کیا اور مخالفین اور میڈیا کو بولنے کا موقع دیا۔

ان کی اقتصادی اصلاحات ناکام رہیں لیکن یہ کہنا برحق ہوگا کہ ہم ان کے بغیر اس مقام پر نہیں ہوتے جس پر اب ہیں۔ جیسا کہ بی بی سی کے سفارتی خبروں کے سابق ایڈیٹر آنجہانی برائن ہنراہن نے 10 برس قبل لکھا تھا: ’گورباچوف اس بنیادی اصول پر قائم رہے کہ سیاست کی بنیاد جبر پر نہیں ہونی چاہیے‘، جس نے انہیں کسی بھی پچھلے سوویت رہنما سے منفرد بنا دیا۔

یہ کہنا درست ہے کہ جب 1991 میں جوہری جنگ کے خطرے میں بڑی کمی آئی اور مطلق العنان ریاستیں ظاہراً جمہوری ریاستوں میں تبدیل ہوئیں تو سوویت یونین سے باہر کی دنیا نے خوشیاں منائیں۔ اگر یہ احساسات سوویت یونین کے اندر نہیں تھے تو پھر بھی اس نے اس کے ابتدائی اثرات کو کم نہیں کیا۔ اپنے الوداعی الفاظ میں گورباچوف نے اپنے ریکارڈ کا دفاع کیا لیکن یہ اعتراف کیا کہ: ’پرانا نظام ٹوٹ گیا جب ایک نئے نظام کا کام شروع کرنے میں ابھی وقت تھا۔‘

جیسا کہ تیرزانی لکھتے ہیں: ’یہ نظام انتہائی برا تھا لیکن وہ اصول جس پر اس کی بنیاد تھی وہ برے نہیں تھے۔ اپنی پیدائش کے وقت یہ ایک عظیم طاقت، ایک تحریک تھی۔ ’سوشلزم کا جنم خوابوں سے ہوا تھا۔ اس نے ان خوابوں کا ادراک نہیں کیا۔‘

بے شک ایک چیز بالکل واضح ہے کہ سوویت یونین اور سی آئی ایس اور روس جو اس کے بعد آیا، نے کھیل کو اپنے قومی تفاخر کو تقویت دینے کے لیے  سنجیدگی سے لیا ـــ بلاوصف ڈرگ پروگراموں کے۔ لیودملا روگاچووا نے اپنی قوم کی تاریخ کے ہنگامہ خیز دور میں تمام تینوں نظاموں کے وقت میں ملک کی نمائندگی کی۔ انہوں نے اپنے ملک کے لیے یہ خدمات بخوبی سرانجام دیں۔ کیا میخائیل گورباچوف نے بھی ایسا کیا ہے، تاریخ کو ابھی یہ فیصلہ کرنا ہے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ