نوجوانوں کی بڑی تعداد آن لائن سیکس انڈسٹری کیوں جا رہی ہے؟

تعلیم کے لیے قرضے، ملازمتیں نہ ملنا اور معمولی تنخواہ، ایسی صورتحال میں نوجوانوں کا سیکس ورکر بننا حیران کن نہیں۔

(اے ایف پی)

جیک نیومین ویب کیم ماڈل ہیں۔ ممکن ہے کچھ اسے پورن سٹار کہیں اور کچھ سیکس ورکر، لیکن جیک کے مطابق ’میں خود کو ہمیشہ کیم ماڈل کہوں گا کیونکہ یہ ایسا شخص ہے جو ویب کیمرے کے سامنے خود کو عریاں کرتا ہے اور پیسوں کے لیے وہ سب کچھ کرتا ہے جو لوگوں کا مطالبہ ہو اور یہی کچھ میں کرتا ہوں۔‘

18 سال کی عمر میں وہ ابھی تک اپنے والدین کے ساتھ برطانوی شہر ڈورسٹ میں رہتے ہیں۔ جب جیک کہتے ہیں کہ وہ اپنے کمرے میں جا رہے ہیں تو ان کے والدین نہیں جانتے کہ وہ دراصل ادائیگی کرنے والے گاہکوں کی خواہش کے مطابق اپنے آپ پر جنسی سرگرمیاں سرانجام دینے جا رہے ہیں۔

ان کے گاہکوں کی اکثریت ٹوئٹر کی مرہون منت ہے۔ جب ہم نے بات چیت کی تو جیک باقی ٹین ایجرز کی طرح مزے دار، مطمئن اور پراعتماد تھے مگر خوش فہم ہرگز نہیں۔ جب اس بات کی وضاحت درکار ہو کہ کس چیز نے انہیں آن لائن سیکس انڈسٹری کا حصہ بننے کی ترغیب دی تو وہ دوٹوک انداز میں کہتے ہیں، پیسہ۔ نہ صرف جیب خرچ بلکہ سالانہ معاوضہ بھی۔

معاوضے کے عوض تصاویر اور ویڈیوز دیکھانے والے اونلی فینز اور جسٹ فار فینز جیسے سوشل میڈیا کے پلیٹ فارمز پر ٹین ایجرز، طلبہ اور نوجوانوں کی تعداد میں پچھلے سال کافی اضافہ ہوا ہے۔ جب میں نے اونلی فینز کے مارکیٹنگ ہیڈ سٹیو پم سے پوچھا تو انہوں نے تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ ’دنیا بھر سے 450,000 سے زیادہ مواد تخلیق کرنے والے جن میں سے 33 فیصد 22 اور 25 سال کے درمیان ہے، جبکہ 29 فیصد 18 اور 21 سال کے درمیان ہیں (عمر کی لحاظ سے دو اور بھی زمرے ہیں جو نسبتاً کم ارکان پر مشتمل ہیں)۔

’ہم عمر لوگوں کے یہ گروپ نہ صرف سائٹ کو مقبول ترین بناتے ہیں بلکہ تقریباً سب سے زیادہ منافع بخش بھی ہیں۔ ہمارا مشاہدہ یہ ہے کہ مواد تخلیق کرنے والے ہر عمر کے لوگ آتے ہیں لیکن کم عمر لوگ زیادہ آسانی سے یہ راستہ اپناتے ہیں۔‘ پم مزید کہتے ہیں: ’ہم پرامید ہیں کہ کرونا وائرس کی وجہ سے معاشی مشکلات کے شکار کسی بھی شخص کو ہم کمائی کا موقع فراہم کرسکتے ہیں۔‘

ان کا کہنا ہے کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے اس کاروبار میں بہت تیزی آئی اور محض پچھلے چند مہینوں میں رکنیت حاصل کرنے والوں کی ماہانہ تعداد 15 فیصد سے بڑھ کر 75 فیصد تک جا پہنچی ہے۔ ان کے خیال میں نوجوانوں کی ایسی آن لائن کمیونٹیز میں دلچسپی کے متعلق مزید بہت کچھ کہنا باقی ہے۔

وہ کہتے ہیں: ’چونکہ کہ ہم تخلیق کاروں کو دور دراز بیٹھے کمائی کا موقع دیتے ہیں اس لیے یہ ان طالب علموں اور جوان پروفیشنلز کے لیے بہت مفید ہے جنہیں روزمرہ زندگی کے لیے کمائی کا موقع نہیں ملتا، اور اگر وہ پہلے ہی سوشل میڈیا کے مختلف ذرائع جیسے انسٹا گرام اور ٹک ٹاک پر اپنے پرستار بنا چکے ہیں تو اب ان کے پاس موقع ہے کہ اپنی فالونگ کو ذریعہ معاش بھی بنا ئیں۔‘

وہ مزید کہتے ہیں: ’کنٹنٹ کریئیٹرز کے متعلق یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ وہ چاہیں تو اپنے پرستاروں سے بہت گہرے مراسم قائم کر سکتے ہیں اور برانڈ کی توثیق، اشتہارات اور یوٹیوب کے اشتہاراتی منافع سے بچتے ہوئے زیادہ بہتر مواد فراہم کر سکتے ہیں۔‘

اس سال ایبسیٹلی فیبولس اداکارہ جینیفر سوندرز کی نٹ فلیکس پر انتہائی مقبول سیریز ’دا سٹرینجر‘ سے اس کے بڑھتے ہوئے رجحان کا اندازہ لگایا گیا تھا۔ پردے پہ سوندر کی بیٹی کمبرلی ایک آن لائن ویب سائٹ ’شوگر ڈیڈی‘ کی رکن ہے جہاں وہ بھاری رقم کے عوض جنسی مواد پوسٹ کرتی ہے۔ اس کے پاس جواز یہ ہے کہ بھاری قرض سے بچتے ہوئے وہ یونیورسٹی جا سکے گی اور ڈگری وصول کرے گی۔

لندن میں قائم کی گئی اونلی فینز کی مقبولیت اس کی واضح دلیل ہے۔ ایسیکس اینٹری پرینئر ٹمودی سٹوکی نے 2016 میں اس پلیٹ فارم کی بنیاد رکھی جس کا اصل مقصد انفلیوئنس مارکیٹنگ (اپنے اثر کی مدد سے مصنوعات کی تشہیر کرنا) کا اگلا قدم تھا جہاں مصنوعات کی تشہیر اور سوشل چینلز پہ پریمیم کنٹینٹ بنانے کے عوض لوگوں کو معاوضہ دیا جاتا ہے۔

مقدمہ واضح تھا: اگر انفلیوئنسر کے پرستار واقعی اس کے پرستار ہیں تو وہ اپنی مثالی شخصیت کا سب سے بہتر مواد دیکھنے کے لیے رکنیت کی فیس ادا کریں گے۔ بہت جلد یہ نوجوان تخلیق کاروں کے لیے توجہ کا مرکز بن گیا جہاں وہ ٹوئٹر، فیس بک یا انسٹا گرام جیسے عوامی مقامات پر شئیر نہ کر سکنے والی عریاں تصاویر کے بدلے صارفین سے بھاری معاوضہ وصول کر سکتے تھے۔

پم کہتے ہیں کہ اونلی فینز جوانوں کی تفریح اور طرز زندگی، خوبصورتی اور صحت سے متعلق مواد میں ففٹی ففٹی کے تناسب سے تقسیم ہے۔ پھر اونلی فینز آن لائن سیکس انڈسٹری کیسے بن گیا؟ ’ایک انڈسٹری جو مکمل کاروباری ہے۔ ہم نے شروع سے ہی جوانوں کی اس انڈسٹری میں لوگوں کا کافی رجحان دیکھا اس لیے جب اونلی فینز نے تخلیق کاروں کو موقع فراہم کیا تو سب سے پہلے آنے والوں میں نوجوان پیش پیش تھے۔‘

پم نے مجھے بتایا کہ ’تخلیقی مواد کی طرف نسلی امتیاز سے گریز اور ہماری ترقی پسندانہ پالیسی کی وجہ سے جوان تخلیق کار اس ماحول میں اپنائیت محسوس کرتے ہیں۔‘

ہر کوئی ایسی سائٹس استعمال نہیں کرتا۔ جیک فری لانسر ہیں اور وہ ٹوئٹر پر اپنی خدمات کی تشہیر کرتا ہے اور لوگوں سے ڈائریکٹ میسج کا مطالبہ کرتا ہے۔ رقم کی محفوظ طریقے سے منتقلی کے بعد وہ نجی طور پر سکائپ یا سنیپ چیٹ پر سیشن منعقد کرتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے کوئی تیار شدہ ریٹ لسٹ نہیں رکھی ہوئی۔ بلکہ گفتگو کے دوران لوگوں کے تاثرات اور جسمانی ردِعمل کے مطابق رقم وصول کرتے ہیں۔

جب میں نے پوچھا کہ وہ اس کام کے دوران کرتے کیا ہیں تو جواب واضح ہے کہ وہ کثیر مقدار میں مشت زنی کرتے ہیں۔ اگرچہ وہ جنس مخالف کی طرف زیادہ راغب ہیں لیکن ان کے بقول ان کے، ان سے رابطہ کرنے والے گاہکوں بڑی تعداد مردوں پر مشتمل ہے۔ وہ ’پیسوں کے لیے‘ یہ کرتے ہوئے بالکل بھی برا نہیں مناتے کیونکہ ’یہ سب آن لائن ہے۔‘

پیسوں کے لیے ہم جنس پرست سیکٹر آن لائن سیکس انڈسٹری کی کامیابی کا کلیدی حصہ ہے کیونکہ جیک کی طرح اگر آپ حقیقی زندگی میں ایسا کیے بغیر بھی کسی مرد کے تصوراتی جنسی خاکے میں رنگ بھر تے ہوئے اس کی خواہشات پوری کر سکتے ہیں تو پیسے جوڑنے کے مزید کھلے مواقع ہیں۔

چمکتی دمکتی آن لائن سیکس انڈسٹری کا حصہ بننے والے بہت سے نوجوانوں کی طرح جیک بھی کثیر مقدار اور تیز رفتاری سے حاصل ہونے والی رقم کے لالچ میں اس طرف کھنچا چلے آئے۔ ’میں نے محض یہ دیکھا کہ لوگ یوٹیوب پر باتیں کر رہے ہیں کہ انہوں نے کیسے اونلی فینز پر اکاونٹ بنائے اور وہ اب کیسے اس ذریعے سے بھاری رقم حاصل کر رہے ہیں۔‘ وہ وضاحت کرتے ہیں: ’میں کالج میں پڑھنے کے علاوہ جز وقتی طور پر کام کرتا ہوں لیکن وہ مجھے معاشی یا ذہنی آسودگی فراہم نہیں کرتا۔ جبکہ یہ میرے لیے ایک باقاعدہ آمدن کا ذریعہ ہے اور میں مستقبل کے بارے میں سوچ سکتا ہوں۔‘

 وہ اپنی ماہانہ آمدن کے اعداد و شمار شئیر کرنے پر آمادگی محسوس نہیں کرتے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس کام میں ایک سال مکمل ہونے تک انہیں 20 ہزار پاؤنڈز تک کی کمائی کی توقع ہے۔

جب ہم نے بات کی تب اس کھیل کا حصہ بنے انہیں محض تین مہینے ہوئے تھے، اسی لیے انہوں نے اب تک اپنی خدمات اونلی فینز جیسے کسی زیادہ منضبط پلیٹ فارم کے سپرد نہیں کی تھیں، البتہ ان کا ارادہ بہت جلد ایسے قدم کا ہے، بشرطیکہ ’چیزیں اسی خوش اسلوبی سے چلتی رہیں جیسی اب چل رہی ہیں۔‘ اس بات کو تناظر میں رکھیں تو گریجویٹ ڈاٹ کام کے اندازے کے مطابق 2020 میں یونیورسٹی سے فارغ ہو کر نوکری شروع کرنے والے نوجوانوں کی سالانہ اوسط آمدن 21,000 سے لے کر 25,000 تک ہو گی۔

جیک کا ارادہ یونیورسٹی جانے کا نہیں کیونکہ انہوں نے برطانیہ کے مختلف شہروں میں زیرِ تعلیم دوستوں کو بھاری قرضوں میں جکڑے دیکھا ہے۔ انہوں نے مجھے بتایا، ’میں نے دوستوں کو بوجھ تلے دبے دیکھا جو اب یونیورسٹی میں ہیں اور اپنی رہائش، کرایے اور خوراک کی ادائیگی کرتے ہوئے پرآسائش زندگی کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔ اور یہ سب یونیورسٹی چھوڑنے سے پہلے تعلیمی اخراجات کی خاطر لیے گئے قرض کی واپسی سے پہلے کی سر دردی ہے۔‘

اپنی صورت حال کا ان سے موازنہ کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’جب میں موازنہ کرتا ہوں کہ جو میں بچا رہا ہوں اور اس کے مقابلے میں جو وہ خرچ کر رہے ہیں تو میں یہ سوچے بنا رہ ہی نہیں سکتا کہ یونیورسٹی میرے لیے نہیں ہے۔ مجھے یقین ہے کہ میرے جاننے والے سبھی میری طرح پیسے کمانا چاہیں گے، نہ کہ اسے صرف روزمرہ اخراجات رہنے پر صرف کرنا۔‘

وہ غلط نہیں ہیں۔ پچھلے سال یہ خبر گردش کرتی رہی کہ جو لوگ ستمبر 2019 میں اعلیٰ تعلیم کا آغاز کریں گے وہ تاریخ کا بدترین قرض لیں گے۔ ابھی سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ طالب علموں کے قرض کی شرح سود 2024 تک  4.2 ارب پاؤنڈ سے بڑھ کر 8.6 ارب پاؤنڈ ہو جائے گی۔ لیبر پارٹی نے حکومتی اعداد و شمار کو طلبہ کے قرضہ جات میں بھاری اضافہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے یونیورسٹی جانے والے لوگوں کی تعداد میں نمایاں کمی آئے گی۔ ان میں جیک جیسے لوگ شامل ہیں۔

جز وقتی نوکری کے ساتھ ساتھ جیک ایک سالہ تعلیمی کورس بھی مکمل کر رہے ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے آن لائن منافع بخش بزنس پر ہی مکمل انحصار نہیں کر رہے۔ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ ان کا کیم ماڈلنگ کیریئر طویل مدتی نہیں ہے کیونکہ ’لوگوں کے لیے یہ کام کرنا دراصل دماغ کو بری طرح تھکا دیتا ہے۔ میرا نہیں خیال کوئی اس بارے میں سوچتا ہے۔‘ یہ کہنے کا مطلب ہرگز نہیں کہ وہ اس کے فوائد سے پوری طرح فائدہ اٹھاتے ہوئے مستقبل کے لیے کوئی بنیادی کام نہیں کر رہے۔ ’میرا خیال ہے بہت سارے لوگ جو کچھ میں کرتا ہوں اسے دیکھ کر شاید سوچیں کہ اوہ، وہ شاید بھاری رقم کمانے کی کوشش کر رہا ہے اور اسے فوراً خرچ کیے جا رہا ہے، لیکن ایسا ہرگز نہیں ہے۔‘

وہ کہتے ہیں ’یہ سب کرتے ہوئے میرا مستقبل میرے ذہن میں ہے۔ میں یہ رقم ایک گھر بنانے کے لیے محفوظ کر رہا ہوں نہ کہ باہر جا کر نشے پہ اڑانے کے لیے۔‘ وہ نشان دہی کرتے ہیں کہ ستم ظریفی دیکھیے یہی کام یونیورسٹی طلبہ کی بڑی تعداد حکومتی قرضہ جات کے ساتھ کرتی ہے۔

جنریشن Z (تقریباً 1997 سے 2012 کے درمیان پیدا ہونے والی نسل) مالی طور پر سمجھ دار سمجھی جاتی ہے۔ گذشتہ مئی میں انڈیپندنٹ کے جمع کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق یہ نسل اپنے ماں باپ کا بینک بیلنس نہ صرف بہت کم استعمال کرتی ہے بلکہ اپنے اکاؤنٹ میں ایک ہزار پاؤنڈ سے زائد رقم محفوظ رکھتی ہے۔ بلاشبہ یہ لیبل سخت محنت اور انتھک کوشش کے بغیر نہیں ملا۔ جیسا کہ جیک کہتے ہیں: اگر اپنے محفوظ مستقبل کے لیے وہ خود کام نہیں کریں گے تو اور کون کرے گا؟

اپریل میں پیش کی گئی بی بی سی کی دستاویزی فلم ’نیوڈز فار سیل‘ میں بھی ایسے ہی سوالات پوچھے گئے تھے۔ تماشائی بہت ساری ابھرتی ہوئی نوجوان لڑکیوں اور جوان عورتوں سے متعارف کروائے جاتے ہیں جو مختلف سوشل میڈیائی پلیٹ فارمز بالخصوص اونلی فینز پر عریاں جنسی مواد بیچ کر زندگی کی بنیادی ضروریات پوری کرتی ہیں۔

ایک مقام پر ہماری ملاقات شمال مغربی علاقے سے 24 سالہ بیتھ سے ہوتی ہے جو محسوس کرتی ہیں کہ کسی دکان یا ہوٹل میں کام کرنے کے علاوہ میرے جیسی نوجوان خواتین کے لیے اچھا معاوضہ دینے والی ملازمتوں کے مواقع بہت محدود ہیں۔ جب شو کے میزبان نے پوچھا کہ اس نے پہلے گلیمر کی دنیا اور پھر سیکس انڈسٹری کی طرف جانے کا فیصلہ کیوں کیا تووہ جواب دیتی ہیں، ’سوائے منشیات فروشی کے کوئی دوسری ایسی نوکری نہیں جہاں میں اس عمر میں اتنا پیسہ کما سکتی ہوں۔‘

یہ پروگرام یہ بھی تجویز کرتا ہے کہ کسی کا ذریعہ معاش اس کے سماجی اقتصادی اثر و رسوخ کا بھی مظہر ہوتا ہے۔ لورن وضاحت کرتے ہوئے بتاتی ہے کہ ابتدائی عمر سے ہی وہ گلیمر کی دنیا میں ماڈل بننا چاہتی تھی۔ جب پوچھا گیا کیا کوئی اور کام ایسا ہے جو انہوں نے کبھی کرنے کا سوچا ہو تو ان کا جواب نفی میں تھا۔ ایک طرح سے ہمیں یہ کہا جاتا ہے کہ لوگ سیکس انڈسٹری کی طرف اس لیے آتے ہیں کہ ان کے پاس اس کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس ان کے متعلق کیا خیال ہے جو شعوری طور پر اس شعبے کو کیریئر بناتے ہیں۔ اس لیے نہیں کہ انہیں اس شعبے کو مجبوراً اختیار کرنا پڑا بلکہ اس لیے کیونکہ وہ ایسا چاہتے تھے؟‎ 

جارجینا جونسن سیکس ورکر ہیں۔ وہ پورن سٹار، سٹرپر، طوائف یا بالغ کنٹنٹ کریئیٹر نہیں ہیں۔ ’نہیں میں تو سیکس ورکر ہوں اور یہی کہلانے پر خوش ہوں۔‘ وہ کہتی ہیں، ’اگرچہ میں لوگوں سے براہ راست نہیں مل رہی لیکن اب بھی آن لائن سیکس بیچ کر اپنے جسم سے رقم حاصل کر رہی ہوں۔‘

وہ جدید فیشن رسالوں کے صحفہ نمبر تین پر نظر آنے والی لڑکیوں کی طرح ہیں: بھرا بھرا جسم، گلیمرس میک اپ، چند ٹیٹو اور چھید۔ جورجینا مجھے سابق گلیمر ماڈل جیس ہیز کی یاد دلاتی ہیں جو 2015 میں شروع ہونے والی آئی ٹی وی 2 کی سیریز ’لو آئی لینڈ‘ میں جلوہ گر ہوئیں اور کامیابی نے اس کے قدم چومے۔ دونوں صاف گو اور دیانت دار ہیں اور جو کچھ کر رہی ہیں اس پر بالکل بھی شرمندہ نہیں ہیں کیونکہ وہ اس سے لطف اندوز ہوتی ہیں۔

جورجیینا کے پاس پبلک سروسز میں لیول تھری کا ڈپلوما ہے۔ دراصل ان کا ارادہ کالج کے بعد فوج میں جانا تھا۔ اپنے آن لائن کام کے ساتھ وہ ایک مقامی جم میں مستقل ملازمت بھی کرتی ہیں۔ اگرچہ کسی جاب کا اس کی آن لائن سیکس انڈسٹری سے کوئی موازنہ نہیں۔ وہ کہتی ہے کہ آن لائن اپنے جسم سے کہیں زیادہ پیسہ ملتا ہے اور زیادہ آزادی دیتا ہے۔ جیک کی طرح، جورجیینا نے بھی اونلی فینز اس لیے جوائن کیا تاکہ تیزی سے پیسہ کما سکیں۔ ’مجھے کوئی قرض ادا کرنا ہے نہ ایسا کوئی اور مسئلہ ہے لیکن پیسے کی چمک نے مجھے اپنی طرف کھینچا۔

جب میں نے آغاز کیا تو ایک روزمرہ کی جاب سے زیادہ نہیں کما رہی تھی۔ لیکن جب میں نے خود کو زیادہ پرموٹ کیا تو لوگوں کی دلچسپی بھی بڑھتی گئی۔‘ وہ کہتی ہیں کہ ان کے دوست ’بہت سمجھدار اور حوصلہ افزائی کرنے والے ہیں۔‘ ان کا خاندان بھی ایسا ہے۔ ’میں نے اکاؤنٹ کے ایک ماہ بعد اپنی ماں اور باپ کو بتایا تو انہوں نے اسے قبول کیا اور نیک تمناؤں کا اظہار کیا۔‘

21 سال کی عمر میں وہ دنیا بھر میں اونلی فینز کے ٹاپ آٹھ فیصد کمانے والوں میں شامل ہے۔ ایک سال پہلے سائٹ جوائن کرنے سے لے کر اب تک وہ کامیابی کے کئی زینے عبور کر چکی ہیں اور اب اپنے پیج کی رکنیت دینے کے لیے 11 یو ایس ڈالر فیس لیتی ہیں۔ اپنے کسی پرستار کی فرمائش پر اس کی مرضی کی ویڈیو پر فی منٹ کے حساب سے پانچ امریکی ڈالر معاوضہ لیتی ہیں۔ وہ کئی قسم کا مواد تیار کرتی ہیں۔

انہوں نے مجھے بتایا، ’میں ہر طرح کی جنسی خواہشات پوری کرتی ہوں۔ میں کھلونوں سے کھیلتی ہوں، میں گاہکوں کا مطالبہ پورا کرتی ہوں، اور بعض اوقات دوسری خاتون ورکرز کے ساتھ مل کر بھی افعال سرانجام دیے ہیں۔‘وہ کہتی ہیں کہ وہ خوش قسمت ہیں کہ ان کے پرستاروں کی اکثریت بہت مناسب قسم کے مطالبات کرتی ہے۔

’مجھے رفعِ حاجت کرتے ہوئے ویڈیو کا بھی کہا جاتا ہے لیکن میں انکار کر دیتی ہوں کیونکہ یہ کرتے ہوئے میں پرسکون محسوس نہیں کرتی۔‘ وہ کس حد تک جائیں گی؟ انہوں نے مجھے بتایا، ’دراصل میری آن لائن کوئی حد بندی نہیں۔ لیکن اس بات سے قطع نظر کہ کوئی رقم کتنی پیش کرتا ہے میں کسی سے بھی ملتے ہوئے واضح لکیر کھینچتی ہوں وگرنہ ایسا مجھے خطرے سے دوچار کر سکتا ہے۔ لیکن اگر اس کام میں کوئی ایسا کرتا ہے اس کے لیے مناسب ہے۔‘

گذشتہ چند ماہ سے دنیا بھر میں مختلف ممالک کے جبری لاک ڈاؤن سے آن لائن اور آف لائن سیکس میں ایک واضح لکیر بھی دھندلانے لگی ہے اور برطانیہ سمیت بہت سارے ملکوں میں گھر سے باہر کسی بھی دوسرے شخص سے جنسی ملاپ غیر قانونی ہو گیا ہے۔ جب سے کرونا کی عالمی وبا شروع ہوئی ہے، مختلف عمر کے روایتی سیکس ورکرز کی ایک بڑی تعداد کو اپنی خدمات آن لائن منتقل کرنا پڑیں۔ کیا عالمی وبا جورجینا کے کاروبار پر بھی اثر انداز ہوئی؟

وہ کہتی ہیں، ’ان دنوں میرے پاس زیادہ مواد تخلیق کرنے کے لیے اضافی وقت ہے جس کی وجہ سے کمائی بھی زیادہ ہو رہی ہے، جس کا مطلب ہوا ہاں وبا نے مدد کی ہے۔ لیکن دوسری طرف میرے چینل سے بہت سارے لوگ رکنیت چھوڑ کر چلے گئے کیونکہ ان کی اپنی نوکریاں کھو جانے کے بعد ان کے پاس ادا کرنے کے لیے رقم نہیں۔ میرا خیال ہے اس کا دونوں طرح سے اثر ہوا ہے۔‘

21ویں صدی کی اکثر انڈسٹریوں کی طرح سیکس کا مستقبل بھی ڈیجیٹل ہے۔ کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ کب ایسا ہو گا یا کوئی بھی حتمی طور پر نہیں بتا سکتا کہ گلی کی سیکس ورکر جیسے مختلف مراکز کبھی مکمل ختم ہوں گے۔ لیکن یہ محض حسن اتفاق نہیں کہ ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ، پرانی نسلوں سے زیادہ کمانے کی جد و جہد میں سرگرداں، ابھرتے نوجوانوں، طالب علموں اور نوجوان پروفیشنلز کو آن لائن انڈسٹری زیادہ پرکشش لگتی ہے۔ جیک کے برعکس جورجینا اپنے کام کی طویل مدت کے لیے پرامید ہے۔ وہ فخر سے کہتی ہیں، ’میں جوان ہوں اور اس جگہ مزید دینے کو بہت کچھ ہے۔‘ یقیناً کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو اس کھیل کا حصہ بنتے ہیں اور پھر کبھی نہیں چھوڑتے۔

شان پریٹ اونلی فینز کا او جی ہے۔ جو خود کو مواد کا تخلیق کار، سیکس ورکر کہے جانے پر خوش ہے یا سادہ الفاظ میں ایک شخص جو اونلی فینز پر ہے۔ جب یہ پراجیکٹ شروع ہوا تو اس وقت سے وہ اس کا حصہ ہیں اور اب اس کے ٹاپ 0.6 فیصد کمانے والوں میں شامل ہیں۔ جب لاک ڈاؤن سے پہلے ہماری بات ہوئی تو وہ کچھ لوگوں کو لے کر ایک ماہ کی چھٹیوں پر انڈونیشیا کے جزیرے بالی سے واپس برطانیہ آنے کے تیار تھے۔ ان کی سوشل میڈیا پوسٹوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ ایسا سفر تھا جس کا طالب علم اور نوجوان پروفیشنلز خواب ہی دیکھ سکتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

2017  میں ایم ٹی وی کی ریئلٹی سیریز ’ایکس آن دا بیچ‘ پر جلوہ گر ہونے والے شان اب 29 سال کے ہیں۔ وہ آن لائن سیکس انڈسٹری کی طرف نئے آنے والوں کے لیے مجسم امید ہیں: مال دار، پرتعیش زندگی جینے والے اور جن کی پیشہ ورانہ مانگ ہے۔ وہ اپنے کیریئر اور اس کے متعلقات کے بارے میں بہت عملی انسان ہیں۔

وہ کہتے ہیں، ’سوشل میڈیا مارکیٹ کی بہت ساری چیزوں کی طرح کچھ بھی ہمیشہ کے لیے نہیں رہتا۔ مارکیٹ بہت اٹی پڑی ہے۔ میرا اندازہ ہے کہ میرے پاس مزید ایک یا دو سال باقی ہیں جس کے بعد میں اپنی کمائی کہیں اور انویسٹ کروں گا۔‘ لیکن انہیں اپنی کامیابی پر بہت فخر ہے۔ ’میں جو کام کرتا ہوں اس پہ سخت محنت کرتا ہوں۔ اپنی محنت پر داد و تحسین اچھی لگتی ہے۔ میرے خاندان اور دوستوں نے میرے اقدامات کو ہمیشہ پسند کیا۔‘

سابقہ رئیلٹی سٹار نے اپنے سفر کا آغاز انسٹا گرام کے ذریعے استعمال شدہ انڈرویئرز بیچنے سے کیا جس کے بعد کچھ فالورز نے استعمال شدہ جوڑے کے بدلے 75 پاؤنڈ تک کی آفرز کے ساتھ میسجز کرنا شروع کیے۔ اب وہ فخر یہ طور پر اپنے انڈرویئر برانڈ بلنس کے مالک ہیں جسے کچھ لوگ اونلی فینز کی بہترین معاشی کامیابی کی کہانیوں میں سے ایک شمار کرتے ہیں۔

اس سے یہ اندازہ لگانا بہت آسان ہے کہ جلد متاثر ہونے والا کوئی بھی نوجوان اس طرف کیوں راغب ہوجاتا ہے۔ شان نے مجھے بتایا، ’تقریباً ہر کوئی اس انڈسٹری کی طرف آ رہا ہے کیونکہ وہ لوگ جنہوں نے پہلے کبھی مجھ پر تنقید کی تھی اب جان چکے ہیں کہ ایسی جاب کو نظر انداز کرنا بہت مشکل ہے جہاں بڑی مقدار میں پیسہ بنانا بہت آسان ہے، اور دیانت داری کا تقاضہ ہے کہ خود پیسہ بولتا ہے۔‘ جیک، جورجینا اور ان کے ساتھ کی گئی گفتگو کو مدنظر رکھتے ہوئے اس سے اتفاق نہ کرنا مشکل ہے۔

جیسے ہی کرونا وائرس کے کیسوں میں کمی ہونا شروع ہوئی ہے سکول سے فارغ التحصیل اور یونیورسٹی گریجویٹس عملی زندگی کی طرف قدم بڑھائیں گے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ بدترین معاشی صورت حال اور ملازمت کی مشکل ترین صورت حال سے وہ کیسے نمٹیں گے؟ اس کا جواب واضح نہیں۔ جو بات واضح ہے وہ یہ ہے کہ یہ پوری طرح قابل فہم ہے کہ طالب علم اور پیشہ ور نوجوان کی اکثریت آن لائن نیوڑز انڈسٹری کے کاروبار میں اپنی محنت کے بل پر سٹار بن کر ابھرے گی۔ شان صحیح کہتے ہیں، پیسہ واقعی بولتا ہے، خاص طور ان کے لیے جو بدترین معاشی صورت حال کا شکار ہیں۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نئی نسل