کراچی چڑیا گھر کی دلچسپ تاریخ، جو مٹنے کو ہے

پاکستان کے دوسرے قدیم ترین چڑیا گھر کی دلچسپ تاریخ جس میں کئی برادریوں اور طبقوں نے مل کر حصہ ڈالا۔

کراچی چڑیا گھر میں سینکڑوں اقسام کے جانور موجود ہیں (Ambi92 کری ایٹو کامنز)

کراچی زولوجیکل گارڈن، جسے بچے چڑیا گھر اور بڑے گاندھی گارڈن کے نام سے یاد کرتے ہیں، اپنے اندر کئی گمشدہ تاریخی حوالے رکھتاہے، جس کے کچھ نشانات آج بھی شہر کراچی کو جانوروں اور درختوں سے محبت کرنے والا شہر بناتے ہیں۔

 کراچی چڑیا گھر کی تاریخ بھی شہر کراچی سے جڑی ہوئی ہے۔ شہر کراچی کا نام، 17ویں اور 18ویں صدی میں تاریخ کے صفحوں پر نظر آتا ہے۔ اس سے پہلے تالپوروں، کلہوڑوں اور میروں کی توجہ حیدراباد، سکھر، میرپور خاص اور خیرپور تک محدود رہی۔ تاریخ بتاتی ہے کہ یہ ساحلی پٹی1795 تک خان آف قلات کی ملکیت تھی۔ تالپوروں نےاسے اپنی حدود میں شامل تو کر لیا لیکن اس کی اہمیت نہیں سمجھی کیوں کہ ان حکمرانوں کے پاس ٹھٹھہ اور بدین کی بندرگاہیں موجود تھیں۔

شاید اسی لیے تالپوروں کے زیر حکومت کراچی کی تعمیر کی کوئی خاص نشانیاں نہیں ملتیں، سوائے چند دروازوں کے، جو آج تک شہر کی پہچان ہیں، جیسے میٹھا در اور کھارا در۔ یہ دروازے کبھی شہر کی حدود کا تعین کرتے تھے۔ کراچی کو صحیح معنوں میں انگریزوں نے اپنی جیو سٹریٹیجک پالیسی کے تناظر میں سنوارا۔ انہیں اپنی حکومت کو برقرار رکھنے کے لیے نئے ساحل اور بندگاہ کی ضرورت تھی۔ یہی وجہ ہے کہ کراچی کی ابتدائی تعمیر و ترقی میں مقامی آبادیوں سے زیادہ صاحب اقتدار شخصیتوں کے نام آتے ہیں، جنہوں نے اس مچھروں کی بستی کو ایک بڑے شہر میں بدلنےکا بیڑا اٹھایا، یعنی انگریز اور پھر پارسی کمیونٹی۔

 انگریزوں سے پہلے کراچی شہر منوڑا، کیماڑی، لیاری اور ملیر کے کچھ گوٹھوں پرمشتمل تھا۔ یہ ایک چھوٹی ساحلی بستی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اسے البرٹ ولیم ہیوز نے  1874چھپنے والے سندھ کے گزٹیئر میں کراچی کو شہر نہیں بلکہ ’تعلقہ‘ لکھا ہے۔

کراچی کے تاریخ داں سہراب کڑک کے خیال میں انگریزوں کی جانب سے کراچی کو اس علاقے کی مرکزی شہر منتخب کرنے کی اہم وجوہات میں اس کی آب و ہوا اور محل وقوع بھی رہا ہو گا۔ سہراب نےاپنے مضمون ’برطانوی سندھ کا صدر مقام‘ میں ریچڈ برٹن کی چارلس جیم نیپیر کو بھیجی گئی رپورٹ حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ’کراچی کا موسم حیدرآباد کی نسبت زیادہ متعدل ہے، پھر یہاں سمندر کے راستے خلیج فارس کے ساتھ تجارت کا بھی امکان ہے۔‘ 

لہٰذا انگریزو ں نے کراچی کی تعمیر و ترقی میں خاصی دلچسپی دکھائی اور دیکھتے ہی دیکھتے اسے پورے خطے کا تجارتی مرکز بنا ڈالا۔  

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کراچی چڑیا گھر کی پہلی اینٹ کب اور کہاں لگی؟

 یہ چڑیا گھر کے قیام سے کم و پیش پون صدی پہلے کا قصہ ہے۔ 1799 میں تالپوروں نے موجودہ چڑیا گھر کی زمین ایسٹ انڈیا کمپنی کو تجارتی کوٹھی بنانے کے لیے دی۔ اسی دوران تجارتی کوٹھی کے احاطے میں ایک باغ یا کھیت کی بھی بنیاد ڈالی گئی۔ اگلے ہی سال یعنی 1800 میں یہ تجارتی کوٹھی غیرقانونی کاموں کی وجہ سے بند کر دی گئی اور اس کے احاطے میں قائم باغ کو حکومت کے تحت دے دیا گیا۔

1833 میں چارلس نیپیئر (جن کے نام پر کراچی میں نیپیئر روڈ ہے) نے کراچی کا نقشہ تیار کیا، جس میں اس احاطے کو ’سرکاری باغ‘ کے نام سے دیکھا جا سکتا ہے۔ آپ کو پڑھ کر حیرت ہو گی کہ اس زمانے میں اس باغ کو ’دریائے لیاری‘ سے سیراب کیا جاتا تھا۔ آج کراچی والے دریائے لیاری کو ایک بدبودار، کالے، میلے برساتی نالے کے طور پر جانتے ہیں جہاں مون سون میں روانی اور کبھی کبھی طغیانی بھی آجاتی ہے اور یہ بپھر کر آس پاس کے کچے پکے مکان ڈھا دیتا ہے۔

1843 تک پورا سندھ تالپوروں سے نکل کر تاج برطانیہ میں شامل ہو چکا تھا اورکراچی چھاؤنی میں موجود انگریز فوجیوں کے لیے تازہ پھل اور سبزیاں اسی باغ سے پہنچائی جاتی تھیں۔ اس کے سات برس کے اندر اندر انگریزوں نے کراچی کو میونسپلٹی بنا دیا۔ شہر میں ہندوستان کے دوسرے علاقوں سے لوگ آ کر بسنے لگے، عمارتیں بننے لگیں، اور اسی دوران ایسٹ انڈیا کمپنی کے باغ کو بھی سجایا گیا۔

رانی باغ، آج بھی سرسبز

33 ایکڑ پر پھیلے باغ کا دفتری نام تو ’کوین وکٹوریہ پارک‘ تھا مگر یہ ’رانی باغ‘ کے نام سے عوام کی زبان پر چڑھ گیا۔ پہلے پہل یہ صرف انگریز خاندانوں کی تفریح کے لیے مخصوص تھا۔ انھوں نے یہاں مختلف پھل دار اور آرائشی درخت لگائے۔ ساتھ ہی یہاں جانور بھی لا کر چھوڑنا شروع کر دیے۔ 1878 میں اس باغ کو چڑیا گھر میں تبدیل کرنے کا سوچا گیا اور یوں سابق تجارتی کوٹھی کے باغ کو چڑیا گھر بنا دیا گیا، جو لاہور کے بعد پاکستان کا دوسرا قدیم ترین چڑیا گھر ہے۔ اس مقصد کے لیے باقاعدہ ایک ٹرسٹ تشکیل دیا گیا، جس نے اس کی تزین اور آرائش کی اور شجرکاری کی ذمہ داری اٹھائی۔

یہ باغ ڈیڑھ سو سال سے زیادہ عرصے کے بعد بھی سرسبز و شاداب ہے اور یہاں آج بھی سو ڈیرھ سے سال پرانے درخت ہیں۔ چڑیا گھر کے ہارٹی کلچرلسٹ ضامن عباس کا کہنا ہے کہ یہاں تقریباً سو ڈیرھ سو سال پرانے املی، بڑ اور دیگر اقسام کے درخت موجود ہیں اورسب سے قدیم، گھنا اور سایہ دار درخت برگد کا ہے جس کی عمر تقریباً دو سو سال ہے۔

قیام پاکستان سے قبل تک یہ گاندھی گارڈن کہلاتا رہا کیونکہ 1934 میں یہاں گاندھی نے ایک بڑے عوامی اجتماع سے خطاب کیا تھا۔ سرکاری دستاویزات کے مطابق 1954 میں اسے کراچی زولوجیکل گارڈن کا نام دے دیا گیا، لیکن کئی دہائیاں گزرجانے کے باوجود آج بھی بہت سے لوگ اسے گاندھی گارڈن کے نام سے یاد کرتے ہیں۔

لاک ڈاون کے دوران ایک رپورٹ کےسلسلے میں ہمارا وہاں جانا ہوا۔ اسی دوران ہماری نظر کچھ پنجروں پر پڑی جن کی دیوار پر ان مخیر اور جانور دوست حضرات کے نام کی تختیاں نصب تھیں، جہنوں نے ان پنجروں کی تعمیر کے لیے سریہ مہیا کیا تھا۔ ہماری ان تختیوں میں دلچسپی دیکھ کر کراچی چڑیا گھر کی زولوجسٹ عابدہ رئیس اور ویٹرینن ڈاکٹر عامر اسمٰعیل نے چڑیا گھر میں موجود کئی اور تاریخی حوالوں سے آگاہی فراہم کی۔

انہوں نے بتایا کہ کہ ڈیڑھ سو سال قبل جب وکٹوریہ گارڈن کو چڑِیا گھر میں تبدیل کیا گیا تو بہت سی مقامی کمیونٹیوں کے سماجی اور مخیر حضرات نے اس کی تزین و آرائش میں حصہ لیا۔

مقامی مخیر حضرات کی جانوروں کے لیے پنجروں کے تحفے

1900 کے آغاز میں کراچی چڑیا گھر کی انتظامیہ میں انگریزوں کےساتھ مقامی لوگوں کو شامل کیا گیا۔ یہی وہ زمانہ تھا جس میں مقامی آبادی نے جانوروں کے پنجروں کی تعمیر میں بڑھ چڑھ کا حصہ لیا۔ مقامی صحافی غفور کھتری کے مطابق چڑیا گھر کے ابتدائی تمام پنجرے مخیر حضرات کی مالی مدد سے بنائے گئے۔

کچھ تختیاں شاید وقت کے ہاتھوں ضائع ہو چکی ہیں کیوں کہ ہمیں کراچی چڑیا گھر میں صرف تین پنجرے ملے جن پر ایک ایک تختی لگی ہوئی تھی۔ اس تختی پر سنہ تعمیراور عطیہ کرنے والے مخیر حضرات کے نام درج ہیں۔

مثال کے طور پر بنگال ٹائیگر ’ریچل‘ کے پنجرے کے ساتھ لکھا ہوا ہے کہ ’اس پنجرے کے لیے دیا گیا لوہا سیٹھ ننھے مل بنارسی داس‘ نے عطیہ کیا۔‘ ساتھ میں سنہ تعمیر 1903 درج ہے۔ ننھے مل بنارسی داس کے بارے میں تفصیلات معلوم کرنے کی کوشش کی گئیں لیکن کوئی خاطر خواہ تفصیل معلوم نہیں ہو سکیں کہ یہ کون تھے اور کس پس منظر کے حامل شخصیت تھے۔ کم از کم چڑیا گھر کے پاس یا پھر بلدیہ عظمیٰ کراچی کے پاس ننھے مل کے بارے میں تفصیلات ہونا چاہییں تھیں۔

والیان خیرپور ریاست کی بھی جانوروں سے دلچسپی اور محبت کا اظہار ہمیں کراچی چڑیا گھر میں ملتا ہے۔ والی ریاست خیر پور سر فیض محمد خان تالپور نے 1905 میں لومڑی کے پنجرے کی تعمیر کرائی۔ سنہ 1934 میں دوسرے والی ریاست خیر پور اور سر فیض محمد خان کے پوتے علی نواز خان نے گیڈر کے پنجرے کی تعمیر کی۔ قیام پاکستان سے قبل خیرپور ریاست کے آخری شہرزادے میر علی مراد خان ثانی نے بھی اسے آگے بڑھایا۔ یہ بھی اپنے بزروگوں کے طرح جانوروں سے محبت رکھتے تھے اور ان کی افزائش نسل میں خصوصی دلچسپی لیتے تھے۔ اس کا ثبوت یہ بھی ہے کہ تقسیم کے وقت برصغیر کی سب سے بڑی چرہ گاہ بھی ان کی ملکیت میں تھی۔

1882 میں اسماعیلی کمیونٹی کا چڑیا گھر کو داخلی دروازے کا تحفہ

اسماعیلی کیمونٹی کے سربراہ امام آغا علی شاہ )آغا خان اول( نے گارڈن کے علاقے میں ’پیر جی وادی‘ کی تعمیر کی  جو آج بھی چڑیا گھر کے دروازہ نمبر 4 کے بالکل سامنے واقع ہے۔ جہاں پیر جی وادی میں گھروں کی تعمیر ہو رہی تھی وہیں 1882 میں آغا خان نے چارلیس نیپیئر کی منظوری سے چڑیا گھر کے صدر دروازے کی تعمیر کی۔

کئی اخباری حوالوں کے مطابق چڑیا گھر کے داخلی دروازہ نمبر 4 کے ساتھ جناب آغا علی شاہ کا نصب کردہ سنگ بنیاد چند سال پہلے تک موجود تھا لیکن جب ہم اسے کھوجنے پہنچے تو یہ کہیں نظر نہ آیا۔ جب اس بارے میں، کراچی چڑیا گھر کے، ویٹرن ڈاکٹر عمران اسماعیل سے پوچھا گیا توان کا کہنا تھا کہ یہ سنگ بنیاد ان کی نظر سے نہیں گزرا، البتہ سینیئر مقامی صحافی غفور کھتری نے بتایا کہ انھوں نے یہ سنگ بنیاد دیکھا تھا اور اپنی تحریر میں اس کے بارے میں لکھا بھی تھا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ شاید حالیہ ترقیاتی کاموں میں اسے ہٹادیا گیا ہے۔

1883 میں پارسی کمیونٹی کی طرف سے وکٹوریہ فوارہ کا تحفہ

ان پنجروں کے بعد ہمیں چڑیا گھر کے بیچوں بیچ ایک فوارہ کی طرف لے جایا گیا۔ 1883 میں تعمیر کردہ یہ فوارہ پارسی کمیونٹی کی طرف سے چڑیا گھر کو تحفے میں دیا گیا۔ اس کے سنگ بنیاد پر درج ہے کہ اسے بلدیہ عظمیٰ کراچی اور این این پوجا جی نے ممبئی کے سماجی رہنما کاؤس جی جہانگیر ریڈی منی کی یاد میں تعمیر کیا تھا۔  

کاؤس جی جہانگیر ممبئی کے ایک مخیر پارسی تاجر تھے۔ 15 سال کی عمر میں کلرک کی حیثیت سے پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز کرنے والے کاؤس جی جہانگیر نے اتنی ترقی کہ 1846 میں اپنی کمپنی شروع کی اور انہیں تاج برطانیہ کی طرف سے Knight Bachelor کا خطاب بھی دیا گیا۔ انھوں نے ممبئی کے کئی تعلیمی اداروں کی تعمیر بھی کی۔

 18 فٹ اونچا یہ فوارہ پارسی طرز تعمیر کے عین مطابق ہے، جیسے اکثر پارسی کمیونٹی کی عمارتوں اور گھروں میں داخلی دروازے کے ساتھ ہوتے ہیں۔ چارطرف شیر کے منہ اور پھولوں کے ڈیزائن سے مزین یہ فوارہ چڑیا گھر میں موجود پانی کے کنووں سے منسلک کیا گیا تھا۔

چڑیا گھر کے عملے نے بتایا کہ کہ کنویں موجود ہیں لیکن اب قابل استعمال نہیں اور فوارے کے شیروں کے منہ پانی سے خالی ہیں۔ بظاہر یہ فوارہ بھی کراچی کے دوسرے علاقوں کی طرح پانی کی کمیابی کا شکار ہو گیا ہے۔ اس کے اردگرد جھاڑ جھنکار اگا ہوا ہے۔ حکام کو توجہ دینی چاہیے۔

کراچی چڑیا گھر کراچی کی پہچان ہے اور اہل کراچی کے لیے ایک اچھی اور سستی تفریح ہے۔ اگر اس میں موجود تاریخی حوالوں کو بہتر اور نمایاں کر لیا جائے تو چڑیا گھر اور محکمہ کا نام مزید روشن ہو گا کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ تاریخ اور سماجی کام ہمشہ زندہ رہتے ہیں۔

اگر حکام توجہ کریں اور ان تاریخی آثار کو مٹنے سے بچا لیں تو کراچی کی تاریخ آنے والے برسوں میں بھی زندہ رہے گی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ