ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کے انچارج کی معطلی کی وجہ کیا؟

وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری کی بیٹی ایمان مزاری نے ایک ٹویٹ میں گلوکار علی ظفر اور میشا شفیع کے درمیان ہراسانی کے معاملے پر اسسٹنٹ ڈائریکٹر آصف اقبال کو ’علی ظفر کا ترجمان‘ قرار دیا تھا۔

معطل کیے گئے ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کے ایڈیشنل  ڈائریکٹر  آصف اقبال(تصویر: سوشل میڈیا)

پاکستان کی وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے)کے سائبر کرائم ونگ کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر آصف اقبال کو معطل کرکے کام سے روک دیا گیا ہے، جس پر سوشل میڈیا پر کافی بحث و مباحثہ جاری ہے۔

آصف اقبال کو آج یعنی جمعے کو ایف آئی  اے ہیڈ آفس اسلام آباد سے معطلی کے احکامات موصول ہوئے اور انہیں کام کرنے سے روک دیا گیا۔

ایف آئی اے کی جانب سے جاری کیے گئے معطلی کے نوٹس میں کہا گیا کہ اسسٹنٹ ڈائریکٹر ایف آئی اے آصف اقبال نے محکمے سے اجازت لیے بغیر ٹوئٹر پر ذاتی اکاؤنٹ بنا رکھا تھا جہاں وہ آگاہی سے متعلق پیغامات پوسٹ کرتے تھے۔

نوٹس کے مطابق: ’انہوں نے سائبر کرائم سے متعلق بغیر اجازت معلومات عام کیں جو کہ نظم وضبط کی خلاف ورزی ہے۔‘

انڈپینڈنٹ اردو نے جب اس سلسلے میں آصف اقبال سے رابطہ کیا تو انہوں نے دعویٰ کیا کہ ’انہیں عہدے سے ہٹوایا گیا ہے اور وجہ وہ نہیں جو نوٹس میں بتائی گئی ہے بلکہ ایمان مزاری کی وہ ٹویٹ ہے جو انہوں نے کچھ دن پہلے ان کے خلاف کی تھی۔‘

30 ستمبر کو وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری کی بیٹی ایمان مزاری نے ایک ٹویٹ میں گلوکار علی ظفر اور میشا شفیع کے درمیان ہراسانی کے معاملے پر ایڈیشنل ڈائریکٹر کو ’علی ظفر کا ترجمان‘ قرار دیا تھا۔

ایمان مزاری اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر حکومت اور حکومتی پالیسیوں کی ناقد کے حوالے سے مشہور ہیں اور جبری گمشدگیوں پر بھی وہ حکومت پر تنقید کرتی رہی ہیں۔ آصف اقبال کے ان دعوؤں کے حوالے سے ان سے بذریعہ فون رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی تاہم رابطہ ممکن نہ ہوسکا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

آصف اقبال نے کہا کہ ’وہ سوشل میڈیا کے ذریعے صارفین کو فراڈ، بلیک میلنگ اور سوشل میڈیا کے غلط استعمال پر سزا اور اس کا محتاط استعمال کرنے کے حوالے سے بتاتے تھے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’عوام کو سوشل میڈیا سے متعلق آگاہی ہمارا فرض تھا، یہ کیسی کارروائی ہے جو عوامی مفادات کے حق میں کام کرنے پر کی گئی ہے۔‘

واضح رہے کہ حال ہی میں گلوکار علی ظفر کی جانب سے ان کے خلاف جنسی ہراسانی کے حوالے سے مہم چلانے پر میشا شفیع کے خلاف درخواست دی گئی تھی، جس پر ایف آئی اے نے میشا شفیع، لینا غنی، حسیم الزمان، عفت عمر، حمنہ رضا، ماہم، علی گل پیر، فریحہ ایوب اور فیضان رضا کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا۔

ایف آئی آر کے متن کے مطابق ایف آئی اے نے دو سال کی تحقیقات کے بعد ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کیا اور فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی کی جانب سے تمام ملزمان کو دفاع کے تین سے زائد مواقع دیے گئے لیکن ملزمان ناکام رہے۔

علی ظفر نے اپنی درخواست میں موقف اختیار کیا تھا کہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ان پر ہراسانی کے الزمات لگائے گئے اور می ٹو مہم چلانے کے لیے بے شمار جعلی اکاؤنٹس بھی بنائے گئے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان