نیرو نے روم کو آگ کیوں لگائی تھی؟ نئے انکشافات

حال ہی میں سامنے آنے والی ایک نئی تحقیق بے رحم مگر عوام میں مقبول رومی بادشاہ نیرو کے متعلق اصل حقائق سے پردہ اٹھاتی ہے۔

مشہورہے کہ جب روم میں آگ لگی تو نیرو بانسری بجا رہا تھا (پبلک ڈومین)

آج سے کم و بیش دو ہزار سال قبل عہد قدیم کے مشہور ترین بادشاہ نیرو کے روم کی عظیم آتش زدگی اسرار کے پردوں تلے دبی ہوئی ہے۔ اب نئی تحقیق نئے حقائق کی روشنی میں دیکھ رہی ہے کہ اصل ہوا کیا اور اس کے نتیجے میں کس قسم کی سیاسی ہلچل پیدا ہوئی تھی۔

 مزید برآں نیرو کے عہد کے بارے میں نئے شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ 21ویں صدی کی سیاست کا ایک اہم جزو ’پاپولزم‘ قدیم سیاسی زندگی میں کیسے مسائل کا شکار تھی۔

نئی تحقیق اس معروف خیال کو من گھڑت کہانی ثابت کرتی ہے کہ کہ روم کے جلتے وقت بادشاہ نیرو اپنی شاہی بالکونی میں ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھا رہا۔

دنیا بھر میں اس عہد کے متعلق مستند ترین ماہرین میں سے ایک کی نئی تحقیق پہلی بار یہ اہم ترین انکشاف کرتی ہے کہ روم کی عظیم آتش زدگی کو خوب نمک مرچ لگا کر پیش کرنا بھی نیرو کے مخالفین کی کارستانی تھی۔  

نیرو کے سیاسی مخالف جانشینوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے  رومن مورخین نے دعویٰ کیا کہ دو تہائی روم آتش زدگی سے مکمل تباہ یا بری طرح متاثر ہوا اور بعد میں آنے والے مورخین آنکھیں بند کیے ایک ہزار سال تک یہی بات دہراتے رہے۔

لیکن برطانوی ماہر آثار قدیمہ اور مورخ پروفیسر انتھونی بیرٹ کی نئی تحقیق پہلی بار یہ حقائق سامنے لائی ہے کہ دراصل شہر کا محض 15 سے 20 فیصد حصہ تباہ ہوا تھا۔ ان کی اہم ترین معلومات کا زیادہ حصہ آگ سے متاثرہ قدیم مواد ہے جو  اٹلی اور فرانس کے ماہر آثار قدیمہ کی طرف سے گذشتہ سالوں میں زمینی کھدائی کے دوران ہاتھ لگا۔

اس مہینے کے آخر تک کتابی شکل میں متوقع پروفیسر بریٹ کی تحقیق نے پہلی بار اس غیر معمولی سیاسی کہانی کو نئے اندازہ میں دیکھا کہ روم کی 64 عیسوی میں عظیم آتش زدگی کو کیسے اور کیوں بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا اور پھر کیسے اسے سیاسی تبدیلی کے مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عوامی جمہوریت کی جگہ شاہی آمریت کے پنجے جمانے اور رومی اشرافیہ کی سیاسی طاقت کے بڑی حد تک خاتمے کے محض 90 سال بعد آتش زدگی کا واقعہ پیش آیا۔ اس لیے ابھی تک شاہی عملے میں کچھ ایسے لوگ باقی تھے جو درپردہ اشرافیہ کے حامی تھے (اور کچھ باقی ماندہ جذبات عوامی نظام کی واپسی کے لیے کے لیے کوشاں تھے)۔

لیکن نئی تحقیق ظاہر کرتی ہے کہ آتش زدگی کے واقعے نے اشرافیہ کی جانب سے شہنشاہیت دشمنی کے عام پوشیدہ جذبات کو ہوا دے کر نیرو کے خلاف تحریک کی شکل دے کر انقلاب برپا کر ڈالا جس کے نتیجے میں بالآخر انہیں  تخت سے ہاتھ دھونا پڑے۔

آثار قدیمہ اور تاریخی شواہد کی بنیاد پر نئی تحقیق بتاتی ہے کہ بڑی تعداد میں تنگ و تاریک مکانات کے علاوہ چوٹی کے اشرافیائی خاندانوں کے پرتعیش بنگلے (اندازے کے مطابق 50 اور 70 کے درمیان) بھی آگ کی زد میں آئے۔

مزید برآں آتش زدگی کے خلاف بادشاہ کے عملی اقدامات کی زد سیدھی اشرافیہ کی تجوریوں پر پڑی۔ روم کے جلے ہوئے حصوں کی دوبارہ تعمیر کے لیے نیرو نے صوبوں پر مزید ٹیکس بڑھانے کا فیصلہ کیا جس سے اشرافیہ کے زیر ملکیت صوبائی ریاستیں براہ راست متاثر ہوئیں۔

اس کے بعد نیرو نے روم کی تاریخ میں پہلی بار سکے کی قیمت کم کرتے ہوئے محض 80 فیصد چاندی پر مشتمل سکے (جن کا باقی وزن تانبے سے پورا کیا گیا) جاری کر کے معاملات مزید تباہی کی طرف دھکیل دیے۔

برطانیہ کی وارک یونیورسٹی کے سائنس دانوں نے مائیکرو ڈرل کے ذریعے آتش زدگی کے بعد چاندی کے کم قیمت سکے جاری کرنے کی پالیسی کے نہایت اہم ثبوت نیرو کے عہد کے چاندی سکے دریافت کیے ہیں۔

آتش زدگی کے بعد نیرو کے تعمیری منصوبے اتنے وسیع اور مہنگے تھے کہ انہیں رقم مہیا کرنے کے لیے وہ شاہی خزانے میں جس قدر ممکن تھا خالص چاندی رکھنا چاہتے تھے۔ نئی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ نئے سکوں سے چاندی کاٹنے کے فیصلے نے ان کی یہ ضرورت پوری کی لیکن اس کے باوجود انہیں نے کم قیمت نئے سکوں کے بجائے ٹیکس (اشرافیہ پر ٹیکس سمیت) خالص چاندی میں ادا کرنے پر اصرار جاری رکھا۔

آتش زدگی کے بعد نئی قوانین کے مطابق عام لوگوں نے اشرافیہ کو ٹیکس رائج کم قیمت سکوں کی شکل میں دینا تھا لیکن اشرافیہ نے شاہی ٹیکس خالص چاندی میں ادا کرنا تھا۔ یہ مالیات کا معاملہ تھا جسے روم کی عظیم آتش زدگی نے سیاسی عمل بنا دیا۔

تقریباً دو ہزار سال کی خاموشی کے بعد پروفیسر بیرٹ پہلے شخص ہیں جنہوں نے آتش زدگی کے بعد معاشی صورت حال کا نئے سرے سے جائزہ لیا جس نے روم کے ناپائیدار سیاسی نظام ہلا کر رکھ دیا تھا (انقلاب کی کوشش، تین سال بعد فوجی بغاوت، خانہ جنگی، قتل عام، غدر اور وحشیانہ شورشیں)۔ 

سیاسی، نفسیاتی اور سماجی لحاظ سے نیرو زمانہ قدیم کے دلچسپ ترین حکمرانوں میں سے ایک تھے۔ وہ غیر روایتی، مقبول اور نہایت بے رحم سیاست دان تھے جنہوں نے پورے روم بالخصوص اس کی سیاسی تقسیم کو مزید گہرا کیا۔

 ان کا عوام سے تعلق مکمل طور پر معاشرتی درجہ بندی کے حساب سے تھا۔ غریب، کم پڑھے لکھے طبقے انہیں پسند کرتے۔

 دوسری طرف سماجی اور معاشی اشرافیہ (لبرل دانشوروں اور دوسروں سمیت) انہیں ناپسند کرتی تھی۔ 21ویں صدی کے بہت سے عوامی سیاسی رہنماؤں کی طرح انہیں بھی لوگ شدید پسند کرنے والے یا شدید نفرت سے دیکھنے والے تھے۔ روایت سے باغیانہ رویے کے باوجود ان کے حامی ان کے خوفناک کاموں کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ ان کے بے رحم ترین اقدامات میں اپنی ماں، 14 سالہ سوتیلے بھائی، سابقہ اہلیہ، کزن اور مبینہ طور پر اپنی خالہ کا قتل شامل ہے۔

 لیکن ان کے عظیم تعمیراتی منصوبوں اور بڑے پیمانے پر عوامی ملازمت میں بھرتیوں کی سکیموں (جس کا موازنہ بعض اوقات فرینکلن ڈی روزولٹ کی نئی ڈیل سے کیا جاتا ہے) نے انہیں روم کے متوسط طبقے کا پسندیدہ شخص بنا دیا۔

بلاشبہ آگ سے متاثرہ دولت مند شخصیات (اشرافیہ کے طبقے میں جن لوگوں کے محل نما گھر راکھ ہو گئے ان سمیت) کی مدد سے انکار نے بھی معاشرے کے پسے ہوئے طبقات کو ان کا دیوانہ بنا دیا۔

اعلیٰ طبقوں سے ان کے برے  سلوک نے انہیں ان طبقات میں متنازع ضرور بنایا لیکن غریب لوگوں میں ذرہ برابر ایسے جذبات پیدا نہ ہوئے۔

 تین عورتوں کے ساتھ شادی (اور ان میں سے ایک یا ممکنہ طور پر دو کا قتل) کے علاوہ انہوں نے دو مردوں (شاید تین) سے بھی بیاہ رچایا۔ ہم جنسوں کے ساتھ ایک شادی میں وہ بطور دولہا جبکہ دوسری میں بطور دلہن شریک تھے۔

 روم میں ہم جنس پرستوں کے باہمی تعلقات بڑی حد تک قابل قبول تھے (کم عمری اور غیر اعلانیہ تعلقات سمیت) لیکن صرف اسی صورت میں جب وہ روم کے معاشرتی اصولوں اور صنفی طاقت کے رائج پیمانے پر پورے اترتے ہوں۔ آزاد پیدا ہونے والے مردوں (اعلیٰ مرتبے والوں سمیت) سے توقع کی جاتی تھی کہ وہ کسی بھی جنسی تعلق میں فاعل ہوں گے لیکن (ہم جنسی پرستی کی کم سے کم ایک شادی میں دلہن بن کر)  نیرو نے جان بوجھ کر سرعام اس روایت کی دھجیاں اڑا دیں۔ 

ہم جنسی کے تعلقات میں سماجی روایات کا تقاضا تھا کہ مفعول غلام ہو یا سابقہ غلام لیکن یہاں بھی نیرو نے سابقہ غلام کی (خاوند بننے کے بجائے) دلہن بن کر روایت سے انحراف کیا۔ بادشاہ نے اور بھی مختلف طریقوں سے معاشرتی روایات کو توڑا۔ اگرچہ انہوں نے اپنے خاندان کو مٹا دیا لیکن عام شہریوں میں مقبولیت کی شدید خواہش تھی۔ رومی اشرافیہ کی بنائی معاشرتی روایت کے برخلاف وہ اتھلیٹکس، تھیئٹریکل اور میوزیکل پرفارمنسوں کو عوام کے سامنے پسند کرتے تھے۔

 معاشرے کے کچھ طبقے ان سے ایسی عقیدت رکھتے کہ ان کی خودکشی یا کسی دوسرے کی مدد سے موت کے بعد ان کے حامیوں کا عقیدہ تھا کہ وہ موت سے بچ کر نکل گئے ہیں اور دوبارہ روم پر حکومت کرنے کسی دن لوٹ آئیں گے۔ اس حوالے سے وہ اساطیری شخصیت کنگ آرتھر سے ملتے ہیں جو ’ایک بار تھے اور اب مستقبل میں بادشاہ‘ ہوں گے (برطانیہ کو جب ان کی شدید ضرورت ہوئی تب ان کی آمد یقینی ہے)۔ 

عجیب بات یہ ہے کہ نیرو کی موت کے بعد اگلے 20 سال میں باغیوں کی طرف سے اس دعوے کے ساتھ کہ بادشاہ ابھی تک زندہ ہے روم میں حکومت خلاف تین ناکام بغاوتیں برپا ہوئیں۔ 

مزید برآں ان کے کچھ دشمن بھی نیرو کے حامیوں کی موت سے بھاگ نکلنے کی بات پر مختلف انداز میں یقین رکھتے ہیں جیسے کچھ عیسائی کہتے ہیں کہ وہ بطور دجال روم میں واپس آئیں گے۔ دراصل بائبل کی الہامی کتاب میں خونخوار شخص (666) کا اشارہ تقریباً نیرو کی طرف ہی تھا جسے شیطان یا دجال کہا گیا (یہ نیرو کی موت کے 30 سال بعد لکھی گئی)۔

ایسا لگتا ہے روم کی چھوٹی سی عیسائی برادری کو آتش زدگی کے معاملے میں نیرو نے قربانی کا بکرا بنانے کی کوشش کی اور قدیم ذرائع کے مطابق انہوں نے پھانسیوں کا سلسلہ شروع کر دیا۔  سینٹ پیٹر اور سینٹ پال کو بھی نیرو کے عہد میں پھانسی دی گئی۔

 روم کے دو اور بادشاہوں کی طرح بدقسمتی سے نیرو کے ہاتھ بہت جلد طاقت سے آشنا ہو گئے جب اب تک وہ ٹین ایجر تھا (دراصل 15 سال سے بھی کم عمر)۔ شاید اندھا دھند قتل عام (اسی طرح دوسرے دو ٹین ایجر بادشاہوں کامیڈس اور الیگبلس کی طرح) کے پیچھے کم عمری میں ایسی لامحدود طاقت کے نفسیاتی عوامل تھے۔ 

اگرچہ عظیم آتش زدگی کو بروئے کار لاتے ہوئے نیرو نے روم کو دوبارہ بنانا شروع کیا لیکن آگ لگانے کا الزام ان پر بالکل بے بنیاد ہے۔  برطانوی کولمبیا یونیورسٹی کے پروفیسر ایمطرس ڈاکٹر بیرٹ کہتے ہیں، ’روایتی نظریات کہ نیرو نے خود یا عیسائیوں نے (عیسیٰ کی دوسری بار جلد آمد کے لیے) یہ آگ لگائی دونوں بلکل غلط ہیں۔ اس کے برعکس آتش زدگی شہر کے نصف جنوبی حصے کی کسی ورک شاپ یا سٹور روم سے شروع ہوئی۔‘

دلچسپ بات یہ ہے کہ وسط یا آخر جولائی کے جن دنوں میں آگ لگی وہ سال بھر میں روم کے خشک ترین دن ہوتے ہیں جب آگ نہایت تیزی سے پھیل سکتی ہے۔

تاریخی شواہد بتاتے ہیں کہ آگ کے پھیلاؤ میں تیز ہوا کا عمل دخل تھا۔ دراصل افریقی صحرا صحارا سے اٹھنے والی شمال مغربی تیز ہوائیں (سروکو کے نام سے معروف) بعض اوقات گرمیوں میں روم سے ٹکراتی ہیں۔ مزید برآں آثار قدیمہ اور تاریخی شواہد بتاتے ہیں کہ آگ دراصل ابتدائی طور پر جنوبی سمت سے پھیلی۔ 

عظیم آتش زدگی کے متعلق تمام نئے شواہد پروفیسر بیرٹ کی نئی کتاب روم جل رہا ہے: نیرو اور آگ جس نے ایک شاہی گھرانہ گل کر دیا میں بہت جلد چھپ کر منظر عام پر آ جائیں گے۔ اس مہینے کے آخر میں پریسٹن یونیورسٹی اسے امریکہ جبکہ اگلے مہینے میں برطانیہ سے چھاپے گی۔    

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ