یہ مائیں اتنی گناہ گار کیوں ہوتی ہیں؟

معذور افراد کے عالمی دن کے موقعے پر خصوصی تحریر

فائل فوٹو (اے ایف پی)

بڑا ہی مشکل وقت تھا۔ لوگوں کی نظروں میں تو یقینا اب تک ہے۔ ابھی کل کی تو بات ہے، جب پیاری بٹو، فاطمہ بالکل ٹھیک تھیں۔ لیکن پے درپے گردن توڑ بخار کے حملوں اور ڈاکٹر کی مہربانی سے، علاج میں تاخیر کے باعث آج تین سالہ ننھی پری صرف بستر کی ہوکر رہ گئی ہے۔

کسی ذہنی و جسمانی معذوری یا تاخیر کا شکار بچی کو سنبھالنا آسان نہیں۔ وہ مائیں اورلوگ بےحد عظیم ہیں جو کسی صلے یا ستائش کی تمنا کیے بغیر ان منفرد بچوں یا بڑوں کی پرورش نہیں بلکہ خدمت کررہے ہیں۔ ۔ لیکن مہربانی ہے ان لوگوں کی جو صوبائی وزیرپنجاب، فیاض چوہان کی طرح بیماری اور معذوری کو گناہوں کی سزا قرار دیے چلے جاتے ہیں۔ مجھ سمیت کون سی ماں ہوگی جس نے نہایت متقی، شرعی پردے کرنے والیوں تہجد میں سر ٹیکنے والیوں کے منہ سے اپنے گناہوں کی سزاؤں کی روداد نہ سنی ہوگی جو ان کے بچے کو اللہ کا عذاب قرار دینے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگادیتے ہیں۔

 پتہ نہیں کس مٹی سے بنی ہیں یہ منفرد مائیں جنہیں اپنے اوپر آئے ’عذابوں‘ کی اتنی فکر ہے کہ وہ بس ان میں ہی مگن رہتی ہیں، اپنی زندگی کے سنہرے سال ایک ایسی جدوجہد میں گزار دیتی ہیں، جس کا صلہ کم سے کم دنیا میں ملتا نظر نہیں آتا۔ حدیث مبارکہ ہے کہ اولاد مرد کے نصیب سے ہوتی ہے۔ تو معذوری یا بیماری کا یہ ’گناہ‘ عموماً صرف ماؤں کے کھاتے میں ہی کیوں ڈالا جاتا ہے۔ کوئی باپ کو یہ کیوں نہیں بتاتا کہ معذور اولاد اس کے گناہوں کی سزا بھی ہو سکتی ہے؟ یہ مائیں ہی کیوں اتنی گناہ گار ہوتی ہیں؟

کبھی سوچا ہے کہ اپنے گناہوں کی سزا کو دیکھ دیکھ کر خوش ہونے والی یہ مائیں دوسروں کی طرح اپنے ’عذابوں‘ سے جان کیوں نہیں چھڑا لیتیں؟

میری تین سالہ بیٹی اتنی ننھی سی عمر میں آٹھ سرجریز سے گزر چکی ہے۔ حال ہی میں ایک بار پھر شنٹ انفیکشن کا شکار ہوئی۔ آئی سی یو سے وینٹی لیٹر تک سفر کے بعد ڈاکٹر نے یہ مشورہ بھی دے ڈالا کہ اب آپ علاج معالجہ چھوڑیں اورمعاملہ اللہ کے سپرد کر دیں۔

میرے چہرے کے بدلتے زاویوں پر وضاحت کرتے ہوئے کہا، ’مجھے پتہ ہے آپ کی پہلی اولاد ہے۔ دیکھیں نا ابھی چھوٹی ہے کل کو بڑی ہو گی تب بھی آپ کو پیشاب پاخانہ بستر پر ہی صاف کرنا پڑے گا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

شہر کے سب سے بڑے پرائیویٹ ہسپتال کے نیورو سرجن کے منہ سے اس قسم کی باتوں کی مجھے توقع نہیں تھی۔ نہ جانے کہاں سے حوصلہ آیا اور کہا کہ ’آپ کے نزدیک یہ ایک مریضہ ہے لیکن میری پہلی ہی نہیں اکلوتی اولاد بھی ہے، میری دس اولادیں بھی ہوتیں تو میں اس کے علاج سے پیچھے نہ ہٹتی کہ زندگی اللہ نے ہی دی ہے اور اسی کے اختیار میں اس کی سانسیں روکنا بھی ہے لیکن بیماری کاعلاج نہ کراکے میں اسے قتل نہیں کر سکتی۔‘

میں اور میری بیٹی بےحد خوش قسمت ہیں کہ مجھے ماں اور بھائی بہنوں کی شکل میں ایسے تعاون کرنے والے لوگوں کا ساتھ نصیب ہے جو قدم قدم پر بیٹی کی دل جوئی اور خدمت کرکے ہمارا حوصلہ بڑھاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آپریشن کے چند روز بعد ہی فاطمہ نے دوبارہ سے زندگی کی طرف لوٹنا شروع کر دیا۔ اس کی ایک کھلکھلاہٹ کے لیے پورا گھر جوکر بننے کو تیار رہتا ہے۔ جب وہ اماں کہہ کر میرے گلے لگتی ہے تو جیسے سارے جہاں کی خوشیاں سمیٹ لاتی ہے۔

معذور افراد کے حقوق کے حوالے سے ڈاکٹر خالد جمیل اختر کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ کچھ عرصہ قبل اس موضوع پر ان سے گفتگو ہوئی تو انہوں نے کہا کہ ’ہم 30 سال سے یہ کوشش کر رہے ہیں کہ بیماریوں اور معذوریوں کے حوالے سے لوگوں کی سوچ بدلیں۔ لیکن اپنے آپ کو بہت مذہبی ظاہر کرنے والے افراد بھی اسی قسم کی سوچ رکھتے ہیں، مجھے بہت افسوس ہوتا ہے ان ماؤں پر جن کی پہلی ہی اولاد معذور ہو، کیونکہ وہ بچی جو ابھی ماں کے درجے پر فائز ہوئی ہی ہوتی ہے کہ اپنے بچے کے پیچھے ایک طرح سے رل جاتی ہے۔ ہمارے پاس جو بیمار معذور بچے علاج کی غرض سے آتے ہیں، 90 فی صد کیسوں میں صرف مائیں، یا ان کے ماموں خالہ وغیرہ ساتھ ہوتے ہیں، یا تو باپ انہیں اپنی ذمہداری ہی نہیں سمجھتے یا بہت ہوا تو پیسے دے کر سمجھتے ہیں کہ ان کا فرض پورا ہوا۔‘

میں اس معاملے میں خوش قسمت ٹھہری کہ ببول جیسے لوگوں کے درمیان خوف خدا رکھنےوالے بھائی بہنوں کا ساتھ عطا کیا جنہوں نے بچی کی بیماری اور معذوری کو بوجھ نہیں بننے دیا۔ اس کی زندگی کو زیادہ سے زیادہ آسان بنانے میں مجھ سے کہیں زیادہ میری بہنوں کا ہاتھ ہے، لیکن ہر عورت پر قسمت اتنی مہربان نہیں ہوتی۔

گذشتہ برسوں میں آئے روز ہسپتالوں کے چکر لگانے کے دوران ایسی ایسی ماؤں سے ملاقات ہوئی کہ ان کی مشکلوں کے آگے اپنی تکلیف، محسوس ہی نہیں ہوتی۔ مجھ سے بھی زیادہ اپنے بےبس بچوں کی محبت میں گرفتار مائیں مشکل وقت سے نمٹ رہی ہیں، جنہیں کوئی گھنا سایہ میسر نہیں۔ ان پر کیا گزرتی ہو گی، یہ سوچ کر ہی میں کانپ جاتی ہوں۔

 پیاری ماؤں دل تو دکھتا ہو گا۔ شکوہ بھی ہوتا ہو گا۔ اللہ سے شکایت بھی ہوتی ہو گی، لیکن تصویر کا دوسرا رخ بھی تو دیکھیں۔ یہی تو وہ لوگ ہیں جو مجھے اور آپ کو جینے کا حوصلہ دیتے ہیں۔ کانٹوں بھرے سفرمیں ببول جیسے یہ لوگ نہ ہوں تو آپ میں مشکلات سے نمٹنے کا حوصلہ کہاں سے آئے گا۔ اس لیے ان پر تو مٹی ڈالیں اور آگے بڑھیں، اور سوچیں کہ اگر ذہنی و جسمانی معذوریاں خدا کاعذاب ہیں۔ ماں باپ کے گناہوں کی سزا ہیں تو گینگ ریپ کرنےوالے، زینب کا قاتل، بچوں کے ساتھ زیادتی کرنے والے، پیسے کی ہوس میں اولاد کو بیچنے والے، جائیداد کی خاطر ماں باپ کو قتل کرنے والے، کس نیکی کا ثمر ہوتے ہیں؟

پیاری ماؤ، خدارا بیماریوں، معذوریوں کو خداکا قہر اور عذاب سمجھنا چھوڑ دو۔ منفرد بچوں کے پیارے ماں باپ، حوصلہ نہ ہارو۔ ہر طرح کی باتیں کرنے والے پہاڑ بن کر راستہ تو روکتے ہی ہیں۔ آپ کو منہ کے بل گرتا ہوا دیکھ کرخوشی سے تالیاں پیٹنا چاہتے ہیں، لیکن ڈٹ کر کھڑے رہنا ہی آپ کے بچے کی صحت اور زندگی کا ضامن ہے، لیکن ڈٹ کر کھڑا ہونا آسان نہیں۔

خصوصی بچوں کی پرورش کرتی ماؤں کی ذمہ داری ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی چلی جاتی ہے۔ ان کے شوق، خواہشیں سب کہیں دور چلے جاتے ہیں، معاشرہ تو ایک طرف رہا اپنے ہی گھر والے یہ فرض کرلیتے ہیں کہ یہ بچہ یا بڑا صرف ماں کی ذمہ داری ہے اس کو اٹھانا بٹھانا، نہلانا دھلانا، کھلانا پلانا اور پھر دوڑ دوڑ کر ہسپتالوں کے چکر لگانا، یہ سب کرنا ماؤں پر ہی فرض ہے۔ سسرال والے یا تو، توبہ توبہ کرنے میں مصروف ہوتے ہیں یا ’دنیا خوفی‘ سے بچے کی تکلیفوں پر پریشانی کا اظہارکرنے کے لیے وقف ہوتے ہیں، لیکن خصوصی بچے کی پرورش یا دیکھ بھال میں مدد کے خیال سے ہی انہیں ’پرائی ذمہ داریاں‘ اٹھانے سے خوف آنے لگتا ہے۔

اس دوڑ بھاگ میں مائیں نہ صرف وقت سے پہلے بوڑھی ہوجاتی ہیں بلکہ ڈپریشن کی مریضہ بھی بن جاتی ہیں۔

یاد رکھیے گا آپ کے اردگردکوئی مجبور، پریشان حال یا مصیبت زدہ ہے تو مت سمجھیں کہ یہ صرف اس کی آزمائش ہے بلکہ یہ آپ کی بھی آزمائش ہے۔

پیاری ماؤ، منفرد بچوں کو پالنا آپ کا وہ کارنامہ ہے جس پر نہ تو کوئی آپ کی تعریف کرے گا نہ ستائش سے نوازے گا لیکن اللہ کی عدالت میں اس کا صلہ سب سے بڑھ کر ہے، لیکن کسی طرح کوشش کر کے ہمت کرکے کچھ وقت اپنے لیے بھی نکالیے۔ کہیں ملازمت کر سکتی ہیں تو بہترین ہے۔

اگر حالات اجازت نہ دیں تو کبھی کبھی عزیزوں رشتہ داروں کے پاس ملنے ملانے جایئے۔ اپنے اور اپنے بچے کے لیے خریداری کے لیے نکلیے۔ کبھی پارک میں واک کرنے جائیں ساتھ بچے کو بھی لے جائیں۔ یا جو آپ کے شوق ہیں، میک اپ کرنا، گانا سننا، کتابیں اذکار پڑھنا، ٹی وی دیکھنا، ذمہ داریوں سے ہٹ کر کچھ وقت اپنے شوق کے لیے ضرور نکالیں۔

یہ مشکل ہے میں جانتی ہوں، بہت مشکل ہے لیکن ناممکن نہیں۔ یہ سب کچھ آپ اپنے لیے نہیں بلکہ اپنے بچے کے لیے ہی کررہی ہیں کیونکہ آپ کا خوش مطمئن اور صحت مند رہنا آپ کے پیارے بچے کے لیے سب سے ضروری ہے۔

بچے کی بیماری، معذوری اور تکالیف کا خاتمہ آپ کے اختیار میں ہے ہی نہیں۔ اب ایسی بے اختیاری پر کیا دل برا کرنا، بس یہ سوچیے کہ اس بچے کی ذہنی و جسمانی صحت کا دارومدار آپ کے اوپر ہے۔ آپ اسے ایک ایسی دیوار کے سائے میں کیوں پروان چڑھانا چاہتی ہیں جو کسی بھی وقت ڈھے سکتی ہے۔ اگر آپ ڈھے گئیں تو آپ کے پیارے کا کیا ہو گا؟

یہی وہ سوچ ہے جوآپ میں جینے کا حوصلہ اور امنگ بیدار کرسکتی ہے۔

یاد رکھیے کہ صحت مند خوبصورت بچہ ماں کا لاڈلا تو ہوتا ہی ہے، باپ کی آنکھوں کا تارا بھی ہے اور ننھیال ددھیال میں ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے لیکن کمزور بیمار معذور بچہ شاید ماں کے علاوہ کسی کا نہیں ہوتا۔

بات سچ ہے کہ فتح پر ہر ایک نازاں ہوتا ہے لیکن جو شکست پر بھی حوصلہ نہ ہارے اصل فاتح وہی تو ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ